سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے سیارہ زحل کے چھلّے یا
رنگ کے کنارے ایک ایسی چیز دریافت کی ہے جسے ایک نئے چاند کی پیدائش کہا جا
سکتا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق غیر رسمی طور پر ابھی اس کا نام ’پیگی‘ رکھا
گيا ہے اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ زحل کے مدار کا 63 واں چاند ہوگا۔
|
|
اس کے شواہد کسینی طیارے سے لی جانے والی بلیک اینڈ وائٹ تصویر سے حاصل
ہوئے ہیں۔ یہ زحل کے سب سے باہری دائرے یا چھلے پر نظر آيا ہے۔
ناسا کی تجربہ گاہ جے پی ایل کی لنڈا سپلکر نے کہا: ’ایک ننھے چاند کی
پیدائش کا مشاہدہ سنسنی خیز اور غیر متوقع ہے۔
سائنسدانوں نے زحل کے چھلّے کے کنارے پر ایک ابھار دیکھا جس سے انھوں نے یہ
نتیجہ اخذ کیا کہ وہاں کچھ ہے۔
اندازے کے مطابق پيگی کی لمبائی چوڑائی آدھے میل پر محیط ہے اور یہ تقریبا
یقینی طور پر مکمل برف سے بنا ہوگا۔
لندن کی کوئن میری یونیورسٹی کے سائنسداں پروفیسر کارل مرے کا کہنا تھا کہ
’یہ پہلا موقع ہے جب اس قسم کا مشاہدہ ہوا ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’ابھی ہمیں صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ وہاں کچھ ہے۔ ہم بس اس
بات پر نظر رکھ سکتے ہیں کہ کہیں وہ چیز چھلے کے گرد کی چیزوں میں خلل تو
پیدا نہیں کر رہی ہے۔‘
|
|
زحل کے چھلے کے کنارے کا حصہ اس چیز کی وجہ سے اپنے اطراف کے حصوں سے 20 فی
صد زیادہ چمک دار ہے۔ اس چمکدار حصے کی لمبائی 1207 کلو میٹر ہے جبکہ اس کی
چوڑائی 7۔9 کلو میٹر ہے۔
اس بابت تفصیل ائکارس نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
اس دریافت کی اہمیت یہ ہے کہ اس تصویر میں زحل کے گرد بادلوں کا جو چھلّہ
بنا ہوا ہے اس کے درمیان ایک چاند کی پیدائش کو قید کیا گیا ہے۔
پروفیسر مرے کے مطابق: ’یہ چھلّے برفانی ہیں جس میں نوے فی صد خالص برفانی
پانی ہے جو کہ عناصر کے ٹکرانے کی صورت میں کسی چیز کے وجود میں آنے کا
موزوں ترین ماحول ہے اور تصویر میں اس کا مظاہرہ ہوتا ہے۔‘
اس کا واضح اصول یہ ہے چھلّے پر بہت زیادہ برف ہے اور زحل کے زیادہ تر چاند
بنیادی طور پر برف کے ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ چھلّے زحل کے چاند
کی نرسریاں ہیں پھر وہاں سے چاند مدار میں ان سے دور چلے جاتے ہیں۔
پیگی کے ساتھ کیا ہوگا ابھی یہ واضح نہیں ہے۔ اگر یہ زحل کے چھلّوں کے مدار
میں ہی رہتا ہے تو اس کا برف کے کسی دوسرے ابھار یا ڈھیر سے ٹکرانے کا بہت
خطرہ ہے جس سے اس ننھے چاند کے ٹوٹ جانے کا بہت امکان ہے۔
بہر حال اگر پیگی زحل کے چھلّوں کے مدار سے باہر نکل جاتا ہے تو یہ بڑے
چاند کے تھپیڑوں میں آ جائے گا۔ بہر حال کسی بھی صورت میں اپنے چھوٹے سائز
کی وجہ سے سائنسدانوں کے لیے اس پر متواتر نظر رکھنا ناممکن ہے۔ |