ساری دنیا ایندھن کے لیے ہائیڈروکاربن یعنی کوئلے، تیل
اور گیس کی بہت عادی ہو چکی ہے، اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ہائیڈروکاربن
سے اچھا ایندھن کوئی ہو نہیں سکتا۔ ہائیڈرو کاربنز کم قیمت ہوتے ہیں، ان کے
بے شمار ذخیرے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں زمین سے نکالنا آسان ہے۔
اسی لیے دنیا بھر میں جاری صنعتی ترقی کے لیے ہر ملک ہائیڈروکاربن ہی
استعمال کر رہا ہے۔
لیکن ہائیڈروکاربن کے نقصانات تباہ کن ہیں کیونکہ گذشتہ برسوں میں عالمی
حدت میں ہونے والے تیز اضافے کا سبب ہائیڈروکاربن سے خارج ہونے والی زیریلی
گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی ہے۔
|
|
جوں جوں تیل، گیس اور کوئلے کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے، ہر حکومت نے
کوششیش تیز کر دی ہیں کہ ان کا ملک نہ صرف جلد سے جلد اپنی توانائی پیدا
کرنا شروع کر دے بلکہ وہ توانائی کے میدان میں کسی کا محتاج نہ رہے اور
’توانائی میں آزاد‘ ہو جائے۔
لگتا ہے کہ کچھ حکومتوں نے توانائی کے مسئلے کا ایک حل دریافت کر لیا ہے۔
ان کی نظر بڑے بڑے سمندروں کی گہری تہہ میں پوشیدہ پرمافراسٹ یا برفیلی
چٹانوں پر لگی ہوئی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ نیا ایندھن بھی اصل میں
ہائیڈروکاربن کی ہی ایک قسم ہے۔ تاہم یہ ایندھن ان ہائیڈروکاربنز سے بالکل
مخلتف ہے جنہیں ہم جانتے ہیں۔
بڑے ذخائر
میتھین ہائیڈریٹ کو ’آگ بھری برف‘ یا فایئر آئیس بھی کہا جاتا ہے۔ میتھین
ہائیڈریٹ دراصل سمندر کی تہہ میں برف کے ٹکڑوں یا کرسٹلز کی شکل میں پائی
جاتی ہے جن کے اندر میتھین گیس (قدرتی گیس) پو شیدہ ہوتی ہے۔
سمندر میں یہ برفیلی چٹانیں دراصل کم درجہ حرارت اور شدید دباؤ کے امتزاج
سے بنتی ہیں اور یہ چٹانیں زیادہ تر ان مقامات پر پائی جاتی ہیں جہاں
براعظم ختم ہو رہا ہوتا اور جہاں ساحل سمندر سے تھوڑے سے فاصلے پر سمندر یک
دم بہت گہرا ہو جاتا ہے۔
اندازے کے مطابق میتھین کے ایسے مرکبات کے ذخائر بے پناہ ہیں۔ برٹش
جیولوجیکل سروے سے منسلک کرس روچیل کہتے ہیں کہ ’اندازوں سے معلوم ہوا ہے
کہ زمین پر موجود میتھین ہائیڈریٹ کے اندر کاربن کی تقریباً اتنی ہی مقدار
موجود ہے جتنی گیس، تیل یا کوئلے کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں میتھین ہائیڈریٹ میں پوشیدہ توانائی کی مقدار تیل، گیس اور
کوئلے کی مشترکہ توانائی سے زیادہ ہے۔ اس میتھین کو برفیلی چٹانوں سے
نکالنے کا طریقہ بھی آسان ہے۔ ان چٹانوں پر موجود دباؤ کو کم کرنے یا درجہ
حرارت کو بڑھانے سے یہ چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں اور ان سے پانی اور میتھین خارج
ہو جاتی ہے، بہت سی میتھین۔
اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک مربع میٹر کے کمپاؤنڈ سے
160 مربع میٹر گیس نکلتی ہے۔
چونکہ سمندر میں میتھین کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں اور اس کو برفیلی
چٹانوں سے خارج کرنا بھی آسان ہے، اسی لیے میتھین کی شکل میں پائی جانے
والی اس ممکنہ توانائی کے بارے میں کئی ممالک خاصے پرجوش ہیں۔
|
|
تکنیکی مسائل
یہ سب باتیں درست ہیں ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میتھین کے ان ذخیروں میں چھپی
توانائی کو نکالا کیسے جائے۔
سمندر کی اتنی گہری تہہ تک پہنچنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے
اتنے کم درجہ حرارت اور اتنے زیادہ دباؤ کے نیچے انسان چٹانوں کو توڑ کر
میتھین نکالے کیسے۔ اور ان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے اگر آپ سمندر کی تہہ میں
توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو اس سے یہ تہہ تلپٹ ہو سکتی ہے اور سمندر کے اندر
چٹانوں کے گرنے سے لینڈ سلائیڈنگ کا شدید خطرہ ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بڑا ممکنہ خطرہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ چٹانوں سے
خارج ہونے والی میتھین فضا میں جا سکتی ہے۔ اگرچہ کسی چھوٹی سی جگہ پر آپ
میتھین کو بحفاظت نکال سکتے ہیں لیکن اس بات کو یقینی بنانا مشکل ہے کہ آپ
اس مخصوص مقام کے ارد گرد کی چٹانوں سے نکلنی والی میتھین کو بھی قابو میں
رکھ سکیں۔
اور فضا میں آزادانہ خارج ہو جانے والی میتھین عالمی حدت پرگہرے اثرات مرتب
کر سکتی ہے۔ حالیہ اندازوں کے مطابق میتھین گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کے
مقابلے میں تیس گنا زیادہ مضر ہو سکتی ہے۔
یہی وہ تکنیکی مسائل ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک دنیا میں کسی جگہ بھی میتھین
ہائیڈریٹ کو تجارتی بنیادوں پر بھی نہیں نکالا جا رہا۔ تاہم کئی ایک ممالک
ایسے ہیں جو میتھین نکالنے کے مرحلے کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ،
کینیڈا اور جاپان نا صرف اس سلسلے میں کئی تجربات کر چکے ہیں بلکہ میتھین
ہائیڈریٹ پر تحقیق پر بھی لاکھوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔اسی طرح جنوبی کوریا،
بھارت اور چین بھی اپنے اپنے میتھین کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کا سوچ رہے
ہیں۔
عالمی حدت قابو سے باہر
بین الاقوامی ادارہ برائے توانائی (آئی ای اے) سے منسلک لاسزلو ورًو کا
کہنا ہے کہ ’جاپان کے لیے میتھین کے ذخیروں کو استعمال کرنا دیگر ممالک کے
مقابلے میں قدرے آسان ہوگا۔‘ تاہم باقی ممالک کے لیے یہ شاید اتنا ضروری
نہیں ہو کہ وہ میتھین سے توانائی حاصل کرنا شروع کر دیں۔ امریکہ تو شیل
توانائی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کینیڈا کے پاس بھی زمینی چٹانوں کی
شکل میں شیل توانائی موجود ہے، روس کے پاس بے شمار گیس ہے۔
چونکہ چین اور بھارت کی توانائی کی ضروریات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا
ہے اس لیے ان دو ممالک کی کہانی ذرا مختلف ہے۔
جلد یا بدیر، کئی ممالک برفیلی چٹانوں سے توانائی حاصل کرنا شروع کر دیں گے،
تاہم ماحول پر اس کے اثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں کیونکہ تیل، گیس اور کوئلے
کی نسبت اس سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور خود میتھین کے فضا
میں شامل ہو جانے سے زمین کے ارد گرد فضا کا درجہ حرارت اور آلودگی کئی گنا
زیادہ تیزی سے بڑھنا شروع ہو جائے گی۔
مسٹر ورًو کہتے ہیں کہ ’ اگر آپ بہت محدود پیمانے پر بھی میھتین نکالتے ہیں
تو اس سے جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہو گی اس کے سامنے تیل، گیس اور
کوئلے کے جلنے سے خارج ہونے والی تمام کاربن ڈائی آکسائیڈ ایک مذاق ہی لگے
گی۔‘ |