بھارت کا نام سنیں تو سب سے پہلا خیال تاج محل کا آتا ہے
اس کے مینار محراب اور ونیلا یعنی مخروطی گنبد اپنے دیکھنے والے کو سحر
انگیز کردیتے ہیں۔ ایک ایسا جادو بھرا منظر کہ سیاح دنیا ہی بھول جائیں۔ یہ
عجوبہ اپنی بناوٹ میں کہیں بھی جھوٹ بولتا نظر نہیں آتا۔ اس کے چاروں طرف
عشق رقصاںہے اور شاہ جہاں کی پر سرور روح لوگوں کے تاثرات دیکھ کر چار سو
سال قبل تعمیر ہونے والے اس شاہکار پر فخر محسوس کر رہی ہے۔ یونیسکو نے تاج
محل کو دنیا کا سب سے امیر ورثہ قراردیا ہے۔ اور نوبل آف انڈیا نے تو اسے
’’وقت کے گال پر لڑھکتا آنسو ‘‘ قرار دیا ہے۔ آج بھی تاج محل میں ایک
شاندار مسجد ہے جس میں لوگ جمعہ کی نماز ادا کرنے دوردراز سے آتے ہیں اور
یہاں تک پہنچنے کیلئے دریائے جمنا میں خصوصی کشتیاں بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ یہاں ہم چند حقائق پر بات کرتے ہیں
جو محبت کی اس نشانی یعنی تاج محل سے منسوب ہیں۔ یہ حقائق دنیا میگزین نے
اپنی ایک رپورٹ میں شائع کیے-
|
مندر ہے کہ مقبرہ
پروفیسر بلراج مدھوک، اوک اور کے نریندر جیسے خود ساختہ مورخ دنیا کی اس بے
مثال عمارت کو شاہ جہاں اور ممتاز محل کی لافانی محبت کی نشانی نہیں سمجھتے
بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عمارت راجپوت راجہ پرماردیو کا محل یا شیومندر
تھا جس پر مغل شہنشاہ نے قبضہ کر کے اپنی ملکہ کے مقبرہ میں تبدیل کردیا۔
حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے نفیس سنگ مرمر سے
تعمیر یہ روضہ اپنی محبت کی نشانی کے طور پر پانچویں مغل حکمراں شاہ جہاں
نے تعمیر کرایا تھا، فارسی زبان میں ایسی تاریخوں کی کمی نہیں جس میں اس
عمارت کی تفصیلی کیفیات اور بنانے والوں کے نام تک درج ہیں ۔ اس ضمن میں
عدالت نے اس استدال کو مسترد کر دیا۔ ان کے علاوہ کسی اور کی یہ جرأت نہ
ہوسکی کہ وہ تاج محل کوعشق و محبت پریوں جنوں کی کہانی قرار دے۔ وہ کہتے
ہیں کہ یہ کوئی سو پچاس سال کی کہانی نہیں، یہاں ہندوؤں کا مندر ہوتا تھا
لیکن مغل دور میں کچھ مسلمان حکمرانوں نے اپنے عزیزوں کو یہاں دفنایا تھا
اس لئے وہ دعویدار ہوگئے۔ ہمایوں اکبر اور صفدر جنگ کو بھی ایسی ہی عمارتوں
میں دفن کیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ شیوا کا مندر تھا تو
اس کے دعویٰ میں اربوں ہندوؤں میں سے صرف چند لوگ ہی یہ آواز کیوں بلند کر
رہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے ان کی وجہ صرف سستی شہرت کا حصول ہو؟ کیا وہ ایسا کر
کے آنے والی نسلوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟ |
|
مردانہ برتری کی جھلک
شاہ جہان کی موت کے بعد انہیں تاج محل میں ممتاز محل کے مقبرے میں ہی
دفنایا گیا۔ یہ مقبرہ شاہ جہان کی محبت کی نشانی تھا جس کے پرشکوہ مینار
آج بھی اس محبت کی یاد دلاتے ہیں۔ جو صدیاں پہلے برصغیر کی راجدھانی میں
پنپی تھی۔ یہ کہانی رومیو جیولیٹ کی کہانی سے مختلف نہ تھی لیکن محبت کی اس
داستان میں یہ نکتہ واضح طور پر سامنے آیا کہ یہاں بھی مردانہ برتری واضح
ہے۔ اس محل کو جیومیٹری کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تعمیر کروایا تھا لیکن
محل میں واقع مقبروں کے مینار کا سائز مختلف ہے۔ شاہ جہان کے مقبرے کے
مینار ممتاز محل کے مقبرے سے زیادہ بلند ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا مردانہ برتری
کو واضح کرنے کیلئے کیا گیا ہو۔
|
|
ستونوں کے راز
تاج محل کے چار مینار ہیں چاروں کے چاروں محل کی بنیاد سے اٹھائے گئے ہیں
اور ایسا زلزلے کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کیلئے کیا گیا۔ اگر کبھی ایسا ہو
بھی جائے تو صرف مینار ہی گرے گا اور باقی عمارت محفوظ رہے گی۔ یہ بات راز
کی ہے کہ سیاح ہر طرف سے چاروں میناروں کو ایک ہی زاویے سے دیکھ سکتے ہیں
اس وقت کے ماہر تعمیرات نے اس کی تعمیر میں فیثاغورث کا فارمولا اپنایا اور
توازن کے تمام ریاضیاتی فارمولوں سے استفادہ کیا۔
|
|
فرضی کہانیاں
تاج محل کے ساتھ بھی بہت سی فرضی کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال
ہے کہ شاہ جہاں دریائے جمنا پر ایک سیاہ تاج محل بھی بنوانا چاہتے تھے۔ شاہ
جہان نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے ماہرین تعمیرات سے کیا ہے کہ تاج محل
کے مقابلے میں اس طرز کا سیاہ تاج محل بھی بنایا جائے لیکن یہ بیل منڈھے نہ
چڑھ سکی اور اورنگزیب عالمگیر نے اس منصوبے کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنے
باپ کو قید کر کے ہندوستانی عوام کے پیسے کو مزاروں مقبروں پر خرچ کرنے سے
بچایا۔ آج بھی دریائے جمنا کے کنارے اس کالے محل کے نشان دیکھے جا سکتے
ہیں۔ ایک اور کہانی بھی ہمیشہ گردش میں رہی کہ شاہ جہاں نے ان تمام معماروں
کے ہاتھ قلم کروا دیئے جنہوں نے یہ شاہکار بنایا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی
جاتی رہی ہے کہ اس شاہکار کی نقل نہ کی جا سکے۔
|
|
محل کے بدلتے رنگ
ماہرین کے مطابق تاج محل کو عجوبہ بنانے کی ایک دلیل یہ ہے کہ سارا دن اس
کے رنگ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رنگوں کو یہ خاصیت خواتین کے موڈ کی عکاسی
کرتی ہے خاص طورپر ملکہ ممتاز محل کے مزاج کی۔ صبح کے وقت اس محل کو گلابی
شیڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ شام کو دودھیا سفید اور چاندنی رات کو سنہری
دکھائی دیتا ہے۔
|
|
کتنا سرمایہ خرچ ہوا
اس شاہکار کی تعمیر پر 320 ملین بھارتی روپے خرچ ہوئے تھے۔ استاد احمد
لاہور کی سربراہی میں 22ہزار مزدوروں نے دن رات اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔
اس تعمیر کا سارا کریڈٹ استاد احمد لاہوری کو جاتا ہے۔ ان مزدوروں میں ہر
طرح کے کاریگر بھی شامل تھے۔ ایک ہزار سے زائد ہاتھیوں نے بلڈنگ مٹیریل کو
لانے لے جانے کا فریضہ سرانجام دیا۔
|
|
سنگ مر مر اور مقبرہ
تاج محل میں خالصتاً سفید پتھر یعنی سنگ مر مر استعمال ہوا ہے اس ضمن میں
چین، عرب، افغانستان اور سری لنکا سے مختلف رنگوں کے قیمتی پتھر منگوائے
گئے جن میں سے تقریباً 30 طرح کے پتھروں کو استعمال میں لایا گیا۔ ان
پتھروں کی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انگریز راج میں برصغیر
سے بیش قیمت پتھروں کو اکھاڑ کر برطانیہ لے جایا گیا۔ تاج محل کی خوبصورتی
کا منبع اس کا مقبرہ ہے۔ جسے پیاز کی شکل کا بنایا گیا۔ خوبصورت خطاطی میں
اللہ پاک کے 99 ناموں کو بھی کندہ کروایا گیا ہے۔ تاج محل کی مجموعی بلندی
171 میٹر ہے۔
|
|
بائیس سال میں مکمل ہوا
تاج محل جسے محلوں کا تاج کہا جاتا ہے اس کی تعمیر میں 22 برس لگے یہ 1631ء
میں شروع کیا گیا اور 1654ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ یہ شاندار عجوبہ
اسلامی، ایرانی اور ہندوستانی فن تعمیر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
|
|
محبت کا خلاصہ
ارجمند بانو بیگم بہت حسین و جمیل خاتون تھیں۔ شاہ جہاں ان کی محبت میں
گرفتار ہوئے اور پھر شادی کرلی۔ وہ شاہ جہاں کی تیسری بیوی تھیں انہیں
ممتاز محل کا خطاب دیا گیا جو کہ ہندی زبان سے لیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ’’
محلوں کا جادو ‘‘ ۔ ممتاز محل اپنے 14 ویں بچے کو جنم دیتے ہوئے جان سے
ہاتھ دھو بیٹھیں۔ یہ سانحہ شاہ جہاں کیلئے اس قدر شدید تھا کہ چند ہی
مہینوں میں ان کے بال اور داڑھی سفید ہوگئی۔
|
|
سیاحت
دنیا کے سات عجائب میں سے ایک عجوبہ تاج محل ہے یہاں ایک ملین سے زائد سیاح
یہاں کی سیر کو آتے ہیں ۔ 2001ء میں دو ملین سے زائد لوگوں نے یہاں کا رخ
کیا تھا۔اسے آگرے کا برج بھی کہا جاتا ہے۔ تاج محل میں داخلے کی ٹکٹ کی
شرح مقامی لوگوں کیلئے سستی ہے جبکہ غیر ملکیوں کو یہ سہولت نہیں ہے۔ اس سے
کروڑوں کا زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ ان تمام گاڑیوں پر یہاں پابندی عائد ہے
جو آوارگی کا باعث ہوں۔ |
|