بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ہر مسلمان بالغ مرد وعورت پر روزانہ پانچ اوقات کی
نمازیں فرض فرمائی ہیں،جیسا کہ قرآن کریم میں بے شمار جگہوں پر اﷲ جل شانہ
نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیاہے مثلاً:
اِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَوْقُوْتاً
(سورہ النساء ۱۰۳) یقینا نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں میں فرض ہے.
اَقِمِ الصَّلاۃَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ اِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ
الْفَجْرِ، اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْداً (سورہ بنی اسرائیل
۷۸) نماز کو قائم کرو آفتاب کے ڈھلنے سے لیکر رات کی تاریکی تک اور فجر کا
قرآن پڑھنا بھی۔ یقینا فجر کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیاہے ، یعنی اس وقت
فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔۔۔۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں دلوک الشمس سے
ظہر اور عصر کی نمازیں ، غسق اللیل سے مغرب اور عشاء کی نمازیں اور قرآن
الفجر سے فجر کی نماز مراد ہے۔
وَاَقِمِ الصَّلاۃَ طَرَفَیِ النَّہَار وَزُلَفاً مِّنَ اللَّیْلِ، اِنَّ
الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السّیِئَآتِ (سورہ ہود ۱۱۴)
دن کے دونوں سروں میں نماز قائم رکھ اور رات کے کچھ حصہ میں بھی۔ یقینا
نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔
نماز کے اوقات، رکعات اور طریقہ نماز کا تفصیلی ذکر قرآن کریم میں بیان
نہیں کیا گیاہے بلکہ قرآن کریم کے مفسر اول رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے اپنے اقوال وافعال سے مکمل وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نبی اکرم ا
کا قول وعمل بھی اﷲ تعالیٰ کی وحی ہی ہوتا ہے ، جیساکہ قرآن میں ہے : وَمَا
یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰ (سورہ النجم
۳۔۴)۔ آپ ا تو وحی کے بغیر لب کشائی ہی نہیں کرتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو دو دن نماز پڑھائی، پہلے دن
تمام نمازیں اول وقت میں اور دوسرے دن تقریباًآخری وقت میں ادا فرمائیں اور
ارشاد فرمایا کہ تمہاری پانچوں نمازوں کے وقت انہی اوقات کے درمیان میں ہے،
جن کو تم نے دیکھا (مسلم ۔ کتاب المساجد)۔
پانچوں نمازوں کے اوقات کیا ہیں؟
نمازِ فجر: صبح صادق سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک۔
(زمان ومکان کے اختلاف کے ساتھ عموماً ایک گھنٹہ ۲۰ منٹ سے لیکر ایک گھنٹہ
۳۰ منٹ تک نمازِ فجر کا وقت رہتا ہے)
نمازِ ظہر: زوالِ آفتاب (سورج کے ڈھلنے) سے نمازِ عصر کا وقت شروع ہونے تک۔
نمازِ عصر: جب ہر چیز کا سایہ ‘ اصلی سایہ کے علاوہ دو مثل ہوجائے تو ظہر
کا وقت ختم ہوکر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور غروب ِآفتاب تک رہتا ہے۔۔۔۔
احادیث کی روشنی میں ظہر کا وقت ختم ہونے اور عصر کا وقت شروع ہونے میں
اختلاف ہے، موجودہ رائے امام ابوحنیفہ ؒ کی ہے۔ دیگر علماء کی رائے یہ ہے
کہ جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ ایک مثل ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم
ہوکر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ البتہ تمام لماء اس بات پر متفق ہیں کہ
نماز ِعصر کی اتنی تاخیر سے ادائیگی کرنا کہ سورج زرد ہوجائے ،مکروہ ہے۔
نمازِ مغرب: غروبِ آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک۔ البتہ احادیث میں
مذکورہے کہ نمازِ مغرب میں زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
نمازِ عشاء: سورج چھپنے کے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سے صبح صادق تک۔ البتہ
آدھی رات کے بعد عشاء کی نماز کے لئے مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔ نماز وتر
کا وقت بھی صبح صادق تک ہے ، البتہ وتر‘ نماز ِ عشاء کی ادائیگی کے بعد ہی
پڑھ سکتے ہیں۔
اوقاتِ مکروھہ:
نماز کے مکروہ اوقات پانچ ہیں: ان میں سے تین ایسے ہیں جن میں فرض اور نفل
دونوں نمازیں مکروہ تحریمی ہیں۔ وہ تین اوقات یہ ہیں:
۱) سورج کے طلوع ہونے کے وقت۔
۲) زوالِ آفتاب کے وقت۔
۳) سورج کے غروب ہونے کے وقت۔
﴿وضاحت﴾ اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج کے غروب ہونے کا وقت
قریب آگیا تو کراہت کے ساتھ اس دن کی عصر کی نماز سورج کے ڈوبنے کے وقت بھی
ادا کی جاسکتی ہے۔
ان اوقات کے علاوہ دو اوقات ایسے ہیں کہ جن میں صرف نفل نماز پڑھنا مکروہ
ہے،البتہ فوت شدہ فرض نماز کی قضا کی جاسکتی ہے۔
۴) نمازِ فجر کے بعدسے طلوع آفتاب تک ۔
۵) عصر کی نماز کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک ۔
٭ حضرت عمروسلمی ثفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
عرض کیا: اے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مجھے ایسی چیز بتلائیے جو اﷲ
تعالیٰ نے آپ کو بتائی ہو اور مجھے معلوم نہ ہو، خاص طور پر نماز کے متعلق
بتلائیے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صبح کی نماز پڑھ کر
کوئی اور نماز پڑھنے سے رُکے رہو تاآنکہ آفتاب طلوع ہوکر بلند ہوجائے،
کیونکہ آفتاب شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت سورج
پرست کفار اسے سجدہ کرتے ہیں۔ جب سورج کچھ بلند ہوجائے تو پھر نماز
پڑھوکیونکہ ہر نماز بارگاہِ الہی میں پیش کی جاتی ہے، البتہ جب نیزہ بے
سایہ ہوجائے (زوال کے وقت) تو نماز نہ پڑھو، کیونکہ یہ جہنم کو دہکانے کا
وقت ہے اور جب سایہ بڑھنا شروع ہوجائے تو پھر نماز پڑھو، کیونکہ نماز اﷲ کے
حضور پیش کی جاتی ہے۔ جب عصر کی نماز پڑھ چکو تو پھر دوسری نماز سے رک جاؤ
تا آنکہ سورج غروب ہوجائے، کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب
ہوتا ہے اور اس وقت سورج پرست کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔ (مسلم، الاوقات
التی نہی عن الصلاۃ فیھا)
٭ حضرت ابو سعید خدری ث کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کو یہ فرماتے ہوئے سنا: صبح کی نماز کے بعد آفتاب کے بلند ہونے تک اور کوئی
نماز نہیں ہے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک اور کوئی نماز پڑھنا
صحیح نہیں ہے۔ (بخاری ، لایتحری الصلاۃ قبل الغروب)۔
مسئلہ: اگر فرض نماز‘ اس کے وقت مقرر پر ادا نہ کی گئی تو وقت نکل جانے کے
بعد بھی پڑھنی ہوگی، البتہ یہ ادا نہیں بلکہ قضا ہوگی۔ یاد رکھیں کہ نماز
کو شرعی عذر کے بغیر وقت پر ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے اگرچہ بعد میں قضا
کرلی جائے، لیکن قضا بھی نہ کرنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے، قرآن وحدیث میں
سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں نمازوں کو وقت پر ادا کرنے والا
بنائے، آمین۔ محمد نجیب قاسمی، ریاض |