ڈاکٹر راشد سندھو سیدھی بات
گوجرانوالہ یوں تو پہلوانوں کا شہر ہونے کے ناطے پوری دنیا میں جانا پہچانا
جاتا ہے تاریخی حوالے سے بھی اس شہر کی پہچان پہلوانوں کی سر زمین کی حثیت
سے مانی گئی ۔تاریخ نے یہ ثابت کو کیا کہ یہ زندہ دلوں کا شہر ہے مگر اس کو
ہمیشہ سے ایک ہی طرز کے بیورو کریٹ ملے جنھوں نے اپنے رکھ رکھاؤ کو رکھنے
میں کوئی کسر نہ چھوڑی یوں وقت نے گوجرانوالہ کی زرخیز مٹی کو بس شوق
پہلوانی کی نظر اور ماردھاڑ تک ہی محدود کر دیا لیکن علم وفن کی اس مٹی کے
اندر جو لاوا مدتوں سے پروان چڑھ رہا تھا اور شہر میں چھپے ہوئے شوقین جو
ادب سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں ان کے لیے شہر میں چھپے ہوئے فن و ادب کے
دلدادہ لوگوں کے لیے گوجرانوالہ آرٹس کونسل نے مشاعرے کا اہتمام کیا بڑے
عرصے بعد ادب سے لگاؤ رکھنے والے لوگوں کے لیے اس کا بڑا اہتمام کیا گیا
مشاعرہ میں بڑے بڑے شاعر تشریف لائے طنزومزاع کی شاعری کرنے والے بے تاج
بادشاہ انور مسعودبنیان(پاندے تے پندی نہیں۔لاندے تے لیندی نہیں)اپنی جوانی
سے لے کر 70سال کی دہائی تک آتے آتے جن کی پہچان اس جیسے کئی شعر بنے لوگوں
کو محضوض کیا اور ہر ہر شعر پر داد وصول کی امجد اسلام امجد ،جو موجودہ دور
کے جوانوں سے لے کر اپنی عمر کے ہر شخص کے پسندیدہ اور شاعری کے افق پر
چمکتے ستارے کی طرح آج بھی اپنے ہرہر شعر پر داد وصول کرتے رہے۔
خالد مسعود جو اپنی طنزومزاح کی شاعری سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں ۔قارئین
اور حاضرین کو اپنے سحر میں سموئے رکھا۔ اس کے علاوہ عباس تابش جنھوں نے
اپنے ایک شعر سے لوگوں کو اپنی شاعری سننے پر مجبور کیاتو آج تک لوگ ان کے
سحر سے نہ نکل سکے۔ڈاکٹر صغری صدف جن کی باتوں ،شاعری،کو جس نے بھی سناان
کے سحر میں ایسا کھویا کہ پھر نہ نکل سکا ڈاکٹر صغری صدف ایک سحر کن شخصیت
ہیں جن کو کوئی ایک بار ملا تو پھر بار بار ملنے کو دل کیاان کی خوبصورت
باتیں اور ان کو بھلا نہ پایا۔ ان کی شخصیت ان کے سحر میں کھونے کے لیے
کافی ہے رخشدہ نوید ،لالہ رخ بخاری ،محمد اقبال نجمی اورگوجرانوالہ شہر کے
عظیم شاعر اور بے شمار شاگردوں کے استاد اپنی شاعری اور اخلاق سے ہر دل
عزیز شاعر جان کشمیری نے لوگوں کو محضوض کیے رکھا اور ہرہر فقرے پر داددینے
پر مجبور کیااس مشاعرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ہال کھچا کھچ بھرا
ہوا اور سننے والے نوجوان طالبعلم تھے جنھوں نے یہ ثابت کیا کہ گوجرانوالہ
شہر پہلوانوں کا نہیں بلکہ یہ ادب سے ذوق رکھنے والواں کا شہر بھی ہے ہال
میں بیٹھے ہوئے لوگوں اور گوجرانوالہ شہریوں نے عرصہ بعد اس محفل مشاعرہ کا
جس طرح خیر مقدم کیا اس سے منتظمین کا بھی حوصلہ بڑھاآرٹس کونسل کے اس قدم
کو لو گوں کا سراہنا اور شعراء کا منتظمین کے انتظام کو سراہنا آئندہ کے
لیے شہر میں مشاعروں کے اس ذوق کو تقویت دینے کے لیے اور آئندہ بھی اس جیسے
مشاعر ہ کے انقعاد کے لیے حوصلہ افزاء بات کی طرف اشارہ کرتی ہے اس سارے
مشاعرے کی رونق اور داد وصول کرنے والے کمشنر شمائل احمد خواجہ جنھوں نے
جشن بہاراں جو آج تک ہلہ گلہ ،میوزیکل پروگرام ،کتوں ،مرغوں کی لڑائی اور
گھوڑوں کی ریس تک محدود ہوتا تھا شہر میں پہلی دفعہ اپنی شخصیت کے سحر میں
گم کر دینے والے ،ہر محفل کی رونق درددل اپنے کام میں مہارت شہر کے مسائل
کو ذاتی دلچسپی لے کر کرنے والے شمائل احمد خواجہ نے اپنی ادبی شخصیت کا
پہلو جس طرع سامنے لائے لوگ ان کے گرویدہ تو تھے ہی مگر اس پہلو کو جس طرح
اجاگر کیا ہے کوئی شک نہیں کہ جو شہر کبھی پہلوانی سے مشہور تھا اس کو ایک
نئی پہچان دینے والے شمائل احمد خواجہ کمشنر گوجرانوالہ لوگوں کے دلوں میں
ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔کمشنر گوجرانوالہ کی شخصیت ایک ایسی مسحور کن ہے کہ جو
بھی ان سے ملتا ہے ان کے سحر میں کھو جاتا ہے یہ ان کی شخصیت ہی نہیں ان کا
کردار بھی ایسا ہے خدا کرے میری اس زرخیز زمین جو علم و فن اور ادب کا شوق
رکھنے والے کمشنر گوجرانوالہ اس زرخیز زمین کی زرخیزی کو قائم و دائم رکھنے
کے لیے کو شاں رہے گے کمشنر گوجرانوالہ جو کہ پوری ڈویثرن کا مالک ہوتا ہے
۔اور بیورو کریسی جو رکھ رکھاؤ ایک کمشنر میں ہونا چاہیے اسکو پس پشت ڈال
کر ایک ہر دل عزیز شخصیت ہیں- |