پاکستان میں لائبریری تحریک کی داغ بیل ڈالنے والوں میں
ایک نام ابن حسن قیصر کا بھی ہے جو خاموشی کے ساتھ اس وقت کے لائبریرینز کے
شانہ بہ شانہ لائبریری تحریک کی جدوجہد میں سر گرم عمل نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ
پاکستان میں لائبریری تحریک کی تاریخ ابن حسن قیصر کے ذکر کے بغیر نا مکمل
ہوگی۔قیصر صاحب کا تعلق فوج سے رہا ہے چناچہ ان میں ایک خاص قسم کانظم و
ضبط اور کام کرنے کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے۔آپ نے کبھی اپنی ذات کو نمایاں
کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ مقصد کو فوقیت دی اور لائبریری تحریک میں
اپنے آپ کو ایک ادنیٰ کارکن تصور کرتے ہوئے جدوجہد میں شریک رہے۔بعض اہم
کام آپ نے سر انجام دیے لیکن اپنی ذات کو اس سے دور رکھا نتیجے کے طور پر
ان سے بعض لوگوں نے فائدہ حاصل کیا اور خوب نام کمایا اور مشہور ہوئے مگر
قیصر صاحب نے پھر بھی اپنے مشن کو جاری رکھا اور
لائبریری تحریک کوپروان چڑھانے میں مصروف رہے بلاشبہ قیصر صاحب لائبریری
تحریک کے خاموش
مجاہد ہیں۔
لائبریری تحریک اور ابن حسن قیصر
لاہور جو کتب خانوں کا شہر اور لا ئبریری تحریک کامرکز تھا قیام پا کستان
کے وقت رونماہو نے والے واقعات کے باعث اس کی تمام تر لا ئبریری سر گرمیاں
ماند پڑ چکی تھیں۔ کتب خانوں میں کام کر نے والے عملے کی اکثر یت ہندوؤں کی
تھی ان کے ہندوستان چلے جا نے کی وجہ سے کتب خانے بند ہو گئے۔ ۱۹۱۵ء میں
قائم ہو نے والا’ لا ئبریری اسکول‘ بند ہو گیا، لا ئبریری پروفیشن کا تر
جمان رسالہ ’ماڈرن لا ئبریرین‘ کی اشاعت بند ہو گئی ۔ ایسی صورت حال میں
کتب خانو ں کا قیام اور لا ئبریری تحریک کو بالکل ہی ابتداء سے شروع کر نے
کی ضرورت تھی۔ یہ دورمصا ئب و مشکلات اور جدوجہد کا دور تھا۔ لا ئبریرین شپ
سے تعلق رکھنے والی محترم شخصیات اوروہ لوگ جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان
ہجرت کی تھی سب ہی نے ان مشکل حالات میں لا ئبریرین شپ کے فروغ اور ترقی کے
لیے خلوص دل کے ساتھ دن رات محنت کر کے نہ صرف لا ئبریری تحریک کی بنیاد
رکھی بلکہ اسے پروان چڑھانے کی مسلسل ا نفرادی اور اجتماعی جدوجہد کر تے
رہے ان احبا ب نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج پاکستان لا ئبریرین شپ تر قی
کے اعتبار سے دوسرے شعبوں سے کسی بھی طرح کم نہیں ۔ان قابل تعریف شخصیات
میں خان بہادر اسد اﷲ خان، محمد شفیع، نور محمد خان،خواجہ نور الہٰی، فضل
الہٰی، عبدالسبحان خان، عبدالصبوح قاسمی، عبدالرحیم، ڈاکٹر محمد علی قا ضی،
الطاف شوکت، فرحت اﷲ بیگ، جمیل نقوی، الحاج محمد زبیر، سید ولایت حسین شاہ،
حبیب الدین احمد، ڈاکٹر عبدالمعید اور ابن حسن قیصر شامل ہیں۔لائبریری
تحریک کو منظم کرنے اور فروغ دینے میں یہ احباب انفردی اور اجتماعی کوششیں
کرتے رہے، ان میں ڈاکٹر عبدالمعید اگلی صف میں نظر آتے ہیں اور دیگر احباب
ان کے شانہ بہ شانہ تھے، قیصر صاحب اس دور کے ایک سر گرم کارکن کی حیثیت سے
ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
لا ہور ہی میں بر طانوی ہندوستان میں قائم ہو نے والی پنجاب لا ئبریری ایسو
سی ایشن قیام پا کستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں مغربی پاکستان لا ئبریری ایسو سی
ایشن کے نا م سے قائم ہو ئی لیکن صوبوں کے ادغام کے بعد اسے دوبارہ پنجاب
لا ئبریری ایسو سی ایشن کا نام دے دیا گیا۔ اس ایسو سی ایشن نے دسمبر۱۹۴۹ء
میں ’’ ماڈرن لا ئبریرین‘‘ ( نیو سیریز) شائع کیالیکن یہ جولائی ۱۹۵۰ء میں
بند ہو گیا۔ ۱۹۴۸ء میں پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن نے لائبریری سائنس میں
سر ٹیفکیٹ کورس شروع کیا لیکن یہ ا یک سال میں بند ہو گیا۔ اِسی دوران
ڈاکٹر عبدالمعید سندھ یونیورسٹی کے لا ئبریرین مقرر ہو ئے اور لاہور سے
کراچی منتقل ہو گئے۔ اب کر اچی میں لا ئبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ کراچی
لا ئبریری ایسو سی ایشن ۱۹۴۹ء میں قائم ہو ئی ۔ اس ایسو سی ایشن نے
لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کور س بھی شروع کیا جو کراچی میں اپنی نوعیت
کا اولین کورس تھااس کورس نے لا ئبریرین شپ کوبنیادفراہم کر نے میں بہت مدد
دی۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء اور پا کستان لا ئبریری ایسو سی
ایشن کی بنیاد کراچی میں مارچ ۱۹۵۷ء میں رکھی گئی۔ قیصر صاحب ان اداروں کے
قیام اور سر گرمیوں میں دیگر احباب کے ہمراہ خاموشی سے جدوجہد کرتے دکھا ئی
دیتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان لا ئبریرین شپ میں ایک ایسی انجمن معرض وجود
میں آئی کے جس نے مختصر وقت میں کتب خانو ں اور لا ئبریری تحریک کے فروغ
میں نمایاں کارکر دگی کا مظاہرہ کر دکھایا۔ یہ انجمن شہید حکیم محمد سعید
کی سر پرستی میں’انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، اسپل (SPIL)کے نا م سے
قائم ہو ئی۔ ایسو سی ایشن نے ملک کے مختلف شہروں میں لا ئبریرین شپ کے
مختلف موضوعات پریکے بعد دیگرے قومی نوعیت کے سیمینار ، ورکشاپس اور کا
نفرنسیں منعقد کیں، کتب خانو ں کے فروغ و رترقی کے منصوبے اور تجاویز حکو
مت کو پیش کیں۔ شہید حکیم محمد سعید نے نہ صرف اسپل (SPIL) کے پر چم تلے
کتب خانوں کی ترقی کے لیے جدوجہد کی بلکہ دیگر لا ئبریری انجمنوں کی بھی سر
پرستی کی اور ان کے تحت ہو نے والے کتب خانوں کی ترقی کے پروگراموں کے
ذریعہ حکومت کو ملک میں کتب خانوں کے قیام اور ترقی کا احساس دلاتے ر ہے۔
قیام پاکستان کا ابتدائی دور مسائل اور مشکلات کا دورتھا۔حکومت بعض اہم اور
قومی نوعیت کے امور کی انجام دہی میں مصروف رہی جس کے نتیجہ میں تعلیم
بشمول کتب خانوں کی جا نب فوری توجہ نہ ہو سکی۔ ملک میں کتب خانو ں کے قیام
اور لا ئبریری تحریک کے سلسلے میں حکو مت پا کستان کی جانب سے جو اولین
اقدام سامنے آیا وہ امپیریل لا ئبریری کلکتہ کے سابق لا ئبریرین ‘ انڈین لا
ئبریری ایسو سی ایشن کے با نی سیکریٹری ، لا ئبریری ایسو سی ایشن لندن کے
فیلو اور اسا ڈان ڈکنسن کے شاگرد خان بہادر خلیفہ محمداسد اﷲ خان کا تقرر
وزارت تعلیم حکو مت پاکستان میں بطور ’’آفیسر بکار خاص‘‘ (Officer on
Special Duty)تھاجنہوں نے ہندوستان کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان ہجرت کی ۔
خان بہادر صاحب کوہندوستان لا ئبریرین شپ میں بہت ہی بلند مقام حا صل تھا۔
۱۹۳۵ ء میں برطانوی حکو مت نے انہیں اُن کی اعلیٰ لا ئبریری خدما ت کے
اعتراف میں ’’ خان بہادر ‘‘ کے خطاب سے نوازا ۔ قدرت نے خان بہادر صاحب کو
پا کستان میں بہت کم مہلت دی وہ ۲۳ نومبر ۱۹۴۸ء کو رحلت کر گئے۔ مختصر عرصہ
میں بھی انہوں نے پا کستان میں لا ئبریری تحریک اورملک کی قو می لا ئبریری
کی بنیاد رکھی۔بقول ڈاکٹر ممتازانور ’ اسداﷲ نے ا فسر بکار خاص کی حیثیت سے
کراچی میں مختصر عرصہ خدمات انجام دیں جہاں انہو ں نے بنیادی نوعیت کے کام
کیے۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لا ئبریریز اور نیشنل لا
ئبریری۱۹۴۹ء میں اسد اﷲکے کا م کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئے‘۔ ڈاکٹر
حیدر کا کہنا ہے کہ ’’ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو ایک بات مسلمہ ہے وہ یہ کہ
۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لا ئبریریز کا قیام بہادر صاحب کی
کوششوں کا مرہون منت ہے ‘‘ ۔
اس طرح پاکستان مین لائبریری تحریک کا آغاز کراچی سے اور لاہور سے بیک وقت
شروع ہوا۔ گویالاہور سے انجمن سازی کا آغاز ہو ا اور کراچی سے کتب خانوں کے
قیام اور فروغ کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ بعد ازاں انجمن سازی کی سرگرمیاں
کراچی سے پورے آب و تا ب سے شروع ہوگئیں۔
لائبریرین شپ میں شمولیت
ابن حسن قیصر نے ۱۹۳۶ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے اردو میں ایم اے
کیااور ۱۹۵۱ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے لائبریری سائنس میں ست ٹیفیکیٹ
کورس حاصل کیا۔۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اس وقت آپ آرمی میں تھے۔ فوری طور
پر کوئٹہ پوسٹنگ ہوئی لیکن جلد ہی ریٹائرمنٹ لے لی اور لاہور منتقل
ہوگئے۔فروری ۱۹۴۹ء میں پنجاب لائبریری سے وابستہ ہوئے یہ لائبریرین شپ میں
شمولیت کا آغاز تھا۔ابتداء میں جونیٔر اسسٹنٹ پھر اسسٹنٹ کیٹلاگر کی حیثیت
سے خدمات سر انجام دیں ، اکتوبر ۱۹۵۱ء تک آپ اس ادارے سے منسلک رہے ۔ گویا
پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں آپ نے ۲ سال ۸ ماہ خدمات انجام دیں اس کے بعد
آپ کراچی منتقل ہوگئے۔لیاقت میموریل لائبریری سے اپنی وابستگی کے بارے میں
قیصر صاحب نے ااپنے ایک مضمون میں لکھا ’’میں ۱۹۵۲ء میں پنجاب یونیورسٹی کی
ملازمت ترک کرکے نیشنل لائبریری سے وابستہ ہوگیا جہاں پیشہ ورانہ عملے میں
سب سے پہلا تقرر مبلغ دو سو روپے ماہوار پر میرا عمل میں آیا ، میرے آنے کے
چھ ماہ بعد سید ولایت حسین مرحوم بحیثیت لائبریرین تشریف لائے جنہو ں نے جی
جان سے ایسا کام کیا کہ نہ دن دیکھا نہ رات‘‘۔ لیاقت میموریل لائبریری اس
وقت نیشنل لائبریری تھی۔ قیصر صاحب کا تقرر سینئر ٹیکنیشن کی حیثیت سے ہوا
پھر آپ اسسٹنٹ لائبریرین ہوئے ، قائم مقام لائبریرین کے فرائض انجام دئے
اور آخر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ۲۰ نومبر ۱۹۶۹ء
میں اس کتب خانے سے سبکدوش ہوگئے۔
قیصر صاحب کے ایک ہمعصر فرحت ﷲ بیگ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’جب میں سینٹرل
سیکریٹریٹ اور نیشنل لائبریری آف پاکستان سے منسلک ہوا تو یہاں ہم دونوں کو
ایک بار پھر دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کام کرنے کا موقع ملا۔ سینٹرل سیکریٹریٹ
لائبریری یا عارضی نیشنل لائبریری (جو عام طور پر اس وقت کہلاتی تھی) کراچی
میں لائبریری سرگرمیوں کا مرکز بن گئی جہاں پر حسب ذیل سینئر لائبریرینز نے
باہم مل کر لائبریری پروموشن کے لیے کام کیا ۔ ان سینئر لائبریرینز میں فضل
الہٰی مرحوم، الحاج محمد شفیع، نور محمد خان، سید ولایت حسین شاہ، ڈاکٹر
عبدالمعید، ابن حسن قیصر اور فرحت اﷲ بیگ شامل تھے، اس مختصر سے پانچ
سالوں( ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء )میں ہم نے باہم مل کر کھلے دل سے کام کیا اور حسب
ذیل اداروں کی بنیاد رکھی، ڈاکٹر عبدالمعید کا کردار زیادہ نمایاں تھا۔ ان
اداروں میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن،
اسکول آف لائبریرین شپ اور پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ شامل تھے‘‘۔
پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ میں ان اداروں نے کلیدی کردار ادا کیا
۔ قیصر صاحب کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ان اداروں کے بانی رکن رہے۔پاکستان
لائبریری ایسو سی ایشن جس کا قیام ۱۹۵۷ء میں عمل میں آیا ، ڈاکٹر عبدالمعید
اس کے بانی سیکریٹری اور قیصر صاحب اس کی منتظمہ کے رکن تھے۔قیصر صاحب پی
ایل اے کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے ۔ ایسو سی ایشن کی پہلی
کانفرنس کی صدارت اس وقت کے صدر مملکت میجر جنرل اسکندر مرزا نے کی تھی جو
ایسو سی ایشن کی تاریخ کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ قیصر صاحب نے اسکندر مرزا کی
صدارت کا ذکر اپنے ایک مضمون میں اس طرح کیا ’’ میں ابتداء ہی سے لائبریری
ایسوسی ایشن کا ممبر تھا پہلے سال ڈاکٹر عبدالمعید اس کے سیکریٹر ی تھے۔ جب
طے پایا کہ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کا اجلاس کراچی میں کیاجائے تو
ہم لوگوں نے اس وقت بڑی ردوقدح کے بعد طے کیا کہ وزیر تعلیم پاکستان سے
صدارت کی درخواست کی جائے چنانچہ ایک وفد وزیر تعلیم کی خدمات میں حاضر
ہواس سے رسائی نہ ہوئی تو ایک وفد جوائنٹ سیکریٹری کے پاس بھیج دیا گیا
انہوں نے فرمایا کہ’’ پاکستان میں تعلیم کا تناسب ہی اس قدر امید افزا کہاں
ہے کہ ہمیں کتب خانوں کی ضرورت ہو۔ ایسے ملک میں جہاں کی اکثریت نہ پڑھ
سکتی ہو کتب خانے عیاشی نہیں تو اور کیا ہیں‘‘۔ اس تلخ جواب پر غور کرتے
ہوئے مجھے آج بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ ایک پڑھا لکھا آدمی جو وزارت تعلیم
کا حاکم ہونے کے باوجود کتب خانوں کی اہمیت اور وقعت سے اس قدر بے بہرہ بھی
ہوسکتا ہے۔یہ وفد وہاں سے ناکام و نا مراد لوٹا۔ اس واقعہ سے ہمارا پست ہمت
ہو جانا ایک فطری عمل تھا۔ اس نا امیدی میں ڈاکٹر محمود حسین نے ہماری ہمت
بندھائی اور فرمایا مجھے سوچنے کا موقع دو میں کوئی اور صورت نکالتا
ہوں۔ہمیں اس وقت خیال یہ تھا کہ شاید ڈاکٹر صاحب نواب صاحب خیر پور یا
بہاولپور سے رجوع کریں گے لیکن ایک ہفتہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ ڈاکٹر
صاحب نے بتا یا کہ اس وقت کے صدر پاکستان جناب اسکنددر مرزا نے صدارت کرنے
کا وعدہ کر لیا ہے۔ چنانچہ یہ اجلاس اسکندر مرزا ہی کی صدارت میں وائی ایم
سی اے ہال کر اچی میں ہوا‘‘۔
پی ایل اے کے علاوہ پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ جس کا قیام ۱۹۵۰ء میں
عمل میں آیا۔ گروپ کی پہلی مجلس منتظمہ میں ڈاکٹڑ عبد المعید نائب صدر اور
قیصر صاحب اس کے بانی خازن تھے۔ اسی طرح ۱۹۵۹ء میں گروپ کے زیر اہتمام
اسکول آف لائبریرین شپ قائم ہوا تھا تو کورس کے نگرانِ اعلیٰ فضل الہٰی تھے
جب کہ اساتذہ میں دیگر کے علاوہ ابن حسن قیصر بھی تھے۔ قیصر صاحب جامعہ
ملیہ میں منعقد ہونے والے لائبریری سائنس کے سر ٹیفیکیٹ کورس میں بھی ایک
استاد کی حیثیت سے پڑھایا۔ لیاقت میموریل لائبریری سے ریٹائر ہوجانے کے بعد
قیصر صاحب دسمبر ۱۹۶۹ء میں علامہ اقبال کالج کی لائبریری سے منسلک ہوگئے
اور لائبریری کی تنظیم و ترتیب کے فنی کام خوش اسلوبی سے انجام دیے ۔آپ
ستمبر ۱۹۷۲ء تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔
اردو اشاریہ سازی اور ابن حسن قیصر
اشاریہ سازی ایک اہم فن ہے جس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔کتاب کا
اشاریہ کتاب کی اہمیت کا باعث ہوتا ہے، رسائل و جرائد کے اشاریے ،رسائل و
جرائد اور اخبارات میں شامل مضامین کے اشاریے مصنفین اور محققین کی ان کے
مطلوبہ مواد تک رسائی میں معاون ہوتے ہیں۔ پاکستان مین اردو رسائل کی
اشاریہ سازی میں ابن حسن قیصر کی خدمات قابل قدر ہیں ۔ آپ نے اس اہم اور
فنی کام کو عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔’’افادات نیاز‘‘ کے عنوان سے
علامہ نیاز فتح پوری پر اشاریہ مرتب کیا۔ یہ اشاریہ ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ یہ
موضوعی اشاریہ علامہ نیاز فتح پوری پر مضامین، نظم و نثر شائع شدہ ۱۹۳۹ء تہ
۱۹۶۲ء یعنی ۲۳ سالوں کا احاطہ کرتا ہے۔ قیصر صاحب کا مرتب کردہ دوسرا
اشاریہ بابائے اردو مولوی عبد الحق پر ’’اشاریہ عبد الحق‘‘ کے عنوان سے
۱۹۶۲ء میں مرتب کیا، یہ اشاریہ عبد الحق کی تحریروں اور انپر جو کچھ تحریر
کیا گیا ان تمام تخلیقات کا احاطہ کرتا ہے۔’’غالب نما‘‘ کے عنوان سے قیصر
صاحب نے ایک اور اہم اشاریہ مرتب کیا یہ ۱۹۶۹ء ادارہ یاد گا ر غالب نے شائع
کیا۔ یہ توضیحی اشاریہ ہے یعنی تخلیقات پر مختصر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔غالب
پر کتب و مضامین جو اردو زبان کے رسائل و جرائد میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۹ء کے
درمیان شائع ہوئے یہ اشاریہ ان تخلیقات کا احاطہ کرتا ہے۔ان کے علاوہ آپ نے
بے شمار کتب کے اشاریے بھی مرتب کیے ان میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب
’’تاریخ ادب اردو‘‘ کا اشاریہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔
وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف
(مطبوعہ ’’پاکستان لائبریری بلیٹن‘‘ ، ۲۴( ۴)دسمبر ۱۹۹۳ء،۱۸۔۲۶)
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ ۲۰۰۹ء میں شامل) |