جس طرح انسان کو اپنی زندگی کے
مختلف ادوار میں مختلف عمومی اور متعدی امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔با لکل اسی
طرح اقوام اور ریاستیں بھی قانون فطرت کی خلا ف ورزیوں کے باعث مختلف نوعیت
کے عام اور متعدی امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔
مسلمانان بر صغیر کی طویل عرصے تک سخت جدوجہد اوربڑے پیمانے پر جانی ومالی
قربانیوں کے نتیجے میں 1947میں مملکت پاکستان کے وجود میں آنے کے بعداسے
ابتداء ہی سے کافی نا مساعد حالات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے
پہلا صدمہ تواسے وجود میں آنے کے محض ایک برس بعد ہی سایہ عاطفت سے محروم
ہونا پڑا۔پھر اس کی نگہداشت کی ذمہ داری اس کے قریبی عزیزوں نے اپنے ذمہ لے
لی ۔تب سے اب تک مختلف حوادث ومصائب سے نبر آزما رہنے کے بعداب مملکت
خداداد پاکستان اپنے عمرکے 67ویں برس میں داخل ہوچکی ہے۔اپنے لاکھوں مربعہ
کلومیٹر پر محیط رقبہ ،پانچ بڑے دریاؤں،طویل ہموارسر سبز میدانوں،سر بفلک
پہاڑوں اور دل فریب وادیوں سمیت تمام زرعی،معدنی اور صنعتی دولت سے مالا
مال ہونے کے باوجودمحض نا اہل حکمرانوں(مسیحاؤں) کی غلط حکمت عملیوں،آمروں
کے جبر و استبداد،سیاست دانوں کی خود غرضانہ فطرت اور ریاست کے بنیادی
ستونوں کی باہمی چپقلش اور حدود سے تجاوز کے منفی رحجان نے گزرتے وقت کے
ساتھ اس عظیم ریاست کے جسد کو متعدد سنگین امراض میں مبتلا کر کے رکھ دیا
ہے۔
ایک طویل عرصے جسد پاکستان مختلف دیرینہ اور جان لیوا امراض جن میں بڑھتی
آبادی( فربہی)گرانی(کمزور قوت خرید)بے روزگاری(بے کاری )جہالت(نا خواندگی )
عدم مساوات( نا انصافی )جنگیں(لڑائی جھگڑے )انتہا پسندی( بلندفشار خون )عدم
تحفظ(پژمردگی)نقل مکانی و ہجرت( عدم استحکام )عدم سرمایہ کاری( مالی طور پر
کمزور )عالم گیریت( اقوام عالم کے ہم پلہ نہ ہونے کی سکت ) اور بد
انتظامی(بد ہضمی) میں مبتلاچلا آرہا ہے۔
جس طرح نومولود بچوں کو پیدائش کے بعد مختلف متعدی امراض سے محفوظ رکھنے کے
لئے مدافعتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔اسی طرح مہذب دنیا میں کسی ریاست کے وجود
میں آنے کے بعدنظام مملکت کو چلانے، اس کی بقاء وسلامتی اور متوقعہ بحرانوں
کا مقابلہ کر نے کے لئے آئین و قانون سازی کی تشکیل ایک لازمی عمل ہے۔
لیکن اس مملکت خدادادکی بد قسمتی کہ اسے وجود میں آنے کے بعد بنیادی متعدی
امراض سے بچاؤ کے ٹیکے میسر نہ آسکے،یعنی اس کے قائدین اسے بروقت ایک متفقہ
آئین،عدل،مساوات،بنیادی انسانی حقوق ،استحکام کی فراہمی اور نفاذ قانون میں
مکمل ناکام رہے ۔جس کے باعث ابتداء ہی سے اس مملکت کے وجود کو ہر آنے والے
نئے موسم(سیاسی بحرانوں) میں خرابی صحت کے زبردست خطرات لاحق رہے۔ اتائی
مسیحاؤں ،عدم تشخیص ،بر وقت علاج ومعالجہ کی سہولیات میسر نہ آنے کے باعث
گزرتے وقت کے ساتھ مملکت کے جسد کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کے باعث موسم
کی ذرا سی تبدیلی اس پر حملہ آور ہوکر اسے بد ترین طریقے سے نڈھال کر ڈالتی
رہی۔سیاسی قائدین(مسیحاؤں) کی عدم بصیرت ، لاپرواہی، سنگین غفلت ، باہمی
چپقلش،سازشوں اور نا اہلیوں کے باعث اسے ماضی میں متعدد مرتبہ آمریت جیسی
موذی بیماری (نمونیہ)کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ طویل دور آمریت کے دوران اسے
متعدد با ر اپنے جسد کے مختلف حصوں کی جراحی کے عمل سے بھی گزرنا پڑا۔جس کے
زخم ایک طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود اآج تک مندمل نہیں ہوسکے ۔جراحی کے
دوران با ربارکی نشتر زنی نے مملکت پاک کے اعضائے رئیسہ کو بھی خاصا نقصان
پہنچایا۔
کمزورمدافعتی نظام اور حساس طبیعت کے باعث متعدد جان لیواا مراض نے مدتوں
اس مملکت کو اپنے ظالم پنجوں میں جکڑے رکھااوران موذی امراض سے نجات حاصل
کرنے کے لئے مملکت کو با رہا طویل اور صبر آزما علاج و معالجہ کی اذیت ناک
آز مائشوں سے گزرنا پڑا،جس کے نتیجے میں اگرچہ مملکت ان جان لیوا ا مراض سے
چھٹکارا پانے میں تو کامیاب ہوگئی البتہ طویل عرصے تک ان دیرینہ امراض میں
مبتلا رہنے کے باعث اس کی رگ رگ میں آمریت کے جراثیم سرایت کرجانے کے باعث
اس کے پورے جسد کو ناکارہ اور کمزوربنا کر رکھ دیا۔ اسی طرح ایک طویل عرصے
تک جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی نے بھی اس کے جسد کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچایا۔
اگر چہ اب ایک بار پھر اس کی مسیحائی کی ذمہ داری سیاست دانوں نے اپنے سر
لے لی ہے اور وہ اس کی صحت کی برقرار ی اور بقاء و سلامتی کے متعلق بلند
بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے، لیکن درحقیقت انہوں نے بھی اپنی مفاد پرستانہ
حکمت عملی،خود غرضی اور بھرپور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مملکت خداد ادکو
اقوام عالم میں ایک کمزور، مقروض، ناخواندہ،بے ہنر،نا قابل اعتماد،پہچان
عطا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی اپنی معرکتہ الآرا مسدس حالی (مدوجزر اسلام) میں
قوموں کے امراض ،علاج و معالجہ اوران کے عروج و زوال کی کیفیت بیان کرتے
ہوئے رقمطراز ہیں۔
کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سمجھائیں تو تشخیض میں سو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارا ہے دور اور طوفان بپاہے گمان ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی پڑتے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی
بغور جائزہ لیا جائے توآج مملکت خداداد پاکستان بعینہ اسی بحرانی کیفیت میں
مبتلا نظر آتی ہے۔جس کے باعث پورا ملک سخت اضطرابی اور ہیجانی کیفیت کا
نظارہ پیش کرہا ہے۔ ایک جانب بیرونی اور اندرونی دشمن اس کی نظریاتی اور
جغرافیائی سرحدوں کو نیست و نابودکرنے کے در پے ہیں تو دوسری جانب پوری قوم
اپنے مشترکہ دشمن کے نا پاک عزائم سے نمٹنے کے بجائے صوبائیت،فرقہ
واریت،لسانیت،آزاد خیالی،قدامت پسندی،ترقی پسندی،رجعت پسندی کے نام پر باہم
دست و گریبان نظر آتی ہے۔
مملکت کے طول و عرض میں سخت انتشار،ہرقسم کے جرائم کی بہتات،بد امنی اور
دہشت گردی کی وباء پھیلی ہوئی ہے ،جس کا نشانہ ناصرف معصوم نونہال ،خواتین
،بزرگ بلکہ بڑی تعداد میں سرکاری اور عسکری اہل کاربھی بن رہے ہیں۔ لیکن
قوم کے نام نہاد مسیحا ؤں کونہ تو اس عظیم مملکت کو درپیش ان سنگین امراض
کا ادراک ہے اور نہ ہی وہ اس کی تشخیص اور ضروری علاج و معالجہ پر دسترس
رکھتے ہیں۔اس نازک صورت حال کے باعث آج ایک بار پھر مملکت پاک کی صحت اور
بقاء و سلامتی کو زبردست خطرات لا حق ہیں۔
مولانا حالی اپنی دور رس بصیرت سے کام لیتے ہوئے مملکت پاکستان کو درپیش
موجودہ مخدوش ترین صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
جہاز ایک گرداب میں پھنس رہاہے پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا ،بڑاہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ دست خواب گراں ہیں
جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں
کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو کس امید پرتم کھڑے ہنس رہے ہو
برا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے
اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے
لہذا مولانا الطاف حسین حالی کی یہ بصیرت افروز تنبیہ مملکت خداداد پاکستان
کے مسیحاؤں سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ جسد پاکستان کو درپیش تمام سنگین امراض
کی درست تشخیص کر نے کے لئے مملکت کے عوام الناس کو ان کے بنیادی حقوق یعنی
سماجی انصاف،مساوات ، روزگار،خوراک ،رہائش،تعلیم ،صحت،کی فراہمی کو یقینی
بنائیں۔امید واثق ہے کہ اس عمل سے نہ صرف مملکت کو درپیش تمام دیرینہ امراض
کا شافی علاج ممکن ہوسکے گا بلکہ جسد پاکستان صحت کی دولت سے مالا مال ہوکر
اقوام عالم میں اپنا جائز اور باعزت مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ |