مولا تو جانتا ہے میں کون ہوں تیرے دائرہ
اختیار سے باہر تو کچھ بھی نہیں، مولا تو جانتا ہے کہ میں اپنے لئے نہیں
مانگتا، میری بچی کی شادی ہے مولا، اسکے ہاتھ پیلے کردوں، اپنی زندگی میں
اسے اپنے گھر سے رخصت کر دوں یہ کوئی غلط سوچ تو نہیں ہے تو نے ہی تو مجھے
اس کا کفیل بنایا ہے تو آج کر مجھے اس قابل کہ میں اسکی کفالت کر سکوں، عزت
سے آبرو سے اسے رخصت کر سکوں۔ وہ یہ دعا کتنے دنوں سے مانگ رہا تھا، مگر
گھر میں وہی سفید پوشی تھی، وہی حسرت زدہ فضا، وہی دم توڑتی ہوئی امیدیں،
وہ ایک پرائمری سکول کا ماسٹر تھا، انتہائی ایماندار، اور دین پر کار بند،
اس نے حرام کے ڈر سے کبھی ٹیوشن بھی نہیں پڑھائی تھی اور اسکے پڑھائے ہوئے
آج بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے اور لاکھوں کما رہے تھے اور اسے اس بات کی
بڑی خوشی تھی کہ اس نے کیسے کیسے ہونہار طالب علم ملک و قوم کے لئے تیار
کئے ہیں۔ اس نے کبھی قرض بھی نہیں مانگا تھا مگر آج مجبور ہو کر وہ اس مشن
پر نکل رہا تھا، وہ باری باری اپنے پڑھائے ہوئے امیر زادوں کے در پر دستک
دے رہا تھا جب پہلے در سے اسے مایوسی ہوئی تو اس کا ماتھا شرم کے پسینے سے
شرابور تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر اپنے
خالی دامن کی طرف اور آگے بڑھ گیا، اس کا ہر طالب علم اس کی تعریف کر رہا
تھا آؤ بھگت اور خاطر تواضع بھی خوب تھی مگر پانچ لاکھ قرض دینے کو کوئی
تیار نہ تھا، ظہر اس نے راستے میں ایک مسجد میں پڑھی اور پھر وہی دعا مسجد
کے باہر بڑی بڑی گاڑیاں بھی کھڑی تھیں اور نمازی ان میں بیٹھ کر واپس جارہے
تھے مگر اس کا پرسان حال کوئی نہیں تھا اس نے دل میں سوچا وہ کون لوگ تھے
جو بھوکے کے گھر میں کندھوں پر آٹا اٹھا کر چھوڑ آتے تھے آج اس شہر میں
اسکے پڑھائے ہوئے بھی اسکے کام نہیں آ رہے۔ در در کی خاک چھانتے ہوئے اسے
شام ہوگئی اور عشاء اس نے محلے کی مسجد میں پڑھی۔
آج اسکی بیٹی کی شادی میں دو ہفتے باقی تھے اس نے کچھ تیاری تو کی تھی مگر
ابھی بہت کچھ باقی تھا اور جیب خالی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ
کیا کیا جائے اس نے قرآن کھولا اور عشاء کے بعد پڑھنا شروع کر دیا آنسو تھے
کہ قرآن کے صفحوں پر گر رہے تھے، وہ اللہ جو رحمان ہے اور رحیم ہے وہ اللہ
جو مشکل کشا ہے اور حاجت روا ہے وہ اللہ جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے
مردہ کو پیداکرتا ہے وہ اللہ جو دینے پر آئے تو کوئی روک نہیں سکتا وہ اللہ
جو سب کا بھرم رکھتا ہے وہ اللہ جو محمد جن پر ہزاروں سلام ہو کا رب ہے وہ
اللہ جو ظاہر سے بھی دیتا ہے اور غائب سے بھی۔ رات کے تین بجے پڑھتے پڑھتے
اس آنکھ لگ گئی اور حضور کے دربار میں لے گئی کالی کملی والے نے کہا
عبداللہ بس اتنی بات ہے تیرے آنسو جو قران پر گرے ہیں انہوں نے تیری بخشش
کروا دی عبداللہ تیرا رب تجھ پر راضی ہوا اور اس نے دنیا تیرے لئے مسخر کر
دی۔ ماسڑ عبداللہ درود پڑھتا ہوا اٹھا فجر ہو چکی تھی اس نے فجر پڑھنے کے
بعد سجدہ شکر ادا کیا عجیب دن تھا وہ عجیب لوگ تھے جو اس کے دروازے پر آئے
وہ رو رہے تھے ہمیں معاف کر دو ہم سے غلطی ہو گئی اس کی میز پر پانچ خالی
چیک پڑے تھے رقم عبداللہ نے بھرنی تھی اور آفرین ہے اس ماسڑ عبداللہ پر کہ
اس نے پانچ لاکھ سے زیادہ کی رقم نہ بھری۔
زمانہ ہم کو وفاؤں کی بھیک کیا دے گا
ہم اس کے بندے ہیں اس سے ہی کام رکھتے ہیں
بتا گئے وہ چٹائی پہ بیٹھ کر ہم کو
چٹائی والے فرشتے غلام رکھتے ہیں |