جب میں میٹرک میں تھا تو میں نے انگلش کے
سبجیکٹ میں ٹیچر کے لکھائے گئے ایک مضمون
"My Best Friend" کو رٹا لگایا، اس رٹے میں معلوم نہیں ہماری یاداشت کا
کمال تھا یا ماسٹر صاحب کے ڈنڈے کا، میں ساری زندگی اس مضمون کو اپنے ذہن
سے محو نہ کرسکا۔ بچپن کے سُنے اس گانے کی طرح “ہم بھول گئے ہر بات مگر
تیرا پیار نہیں بُھولے“اس کی وجہ شائد یہ بھی رہی ہو کہ جن خوبیوں کا ذکر
ہمارے ماسٹر صاحب نے اس مضمون میں کیا تھا ایسی خوبیوں والا شخص ہمیں زندگی
بھر نہ مل سکا، ان خوبیوں کی تلاش میں جب میں نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر
اپنے آپ پر نظر دوڑائی تو بے اختیار میری ہنسی نکل گئی۔ پھر غصہ بھی بہت
آیا کہ میں کون ہوتا ہوں اپنے آپ پر ہنسنے والا، یہ کام تو دوسروں کا ہے۔
سچ تو یہ ہے، میں جس شخص کو بھی “My best Friend “سمجھ کر قریب ہوا، وہ “My
best enemy “ ثابت ہوا۔
اس مضمون میں ٹیچر نے بیسٹ فرینڈ کے بارے میں لکھوایا تھا کہ “He offers
his prayers regularly“جبکہ ہم جمعہ بھی اس وقت پڑھتے تھے جب وہ امتحانات
کے دنوں میں پیپرز کے دوران آ جاتا تھا۔ آگے ٹیچر نے لکھوایا تھا “He gets
up early in the morning“جبکہ ہم ساری رات چیٹنگ کرنے کے بعد “He sleeps
early in the morning“ پر عمل کرنے والوں میں سے تھے اور چیٹنگ کی دنیا میں
ہمارا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ایک لڑکی سے تین مہینے رات دن چیٹنگ
کرنے کے بعد ایک دن انکشاف ہوا کہ وہ لڑکی نہیں لڑکا ہے۔ ان رت جگوں کا
حساب کس سے مانگیں۔ ویسے تو رت جگے کا ٹنے میں ایک پرندہ بھی مشہور ہے جس
کو اہل مغرب“فلاسفر“ جبکہ اہل ِ مشرق “خاندانِِ ِ احمقاں“ سے گردانتے ہیں
اس سلسلے میں میں اہل ِ مغرب کی رائے کو زیادہ معتبر مانتا ہوں اور اس بارے
میں پہلی دلیل یہ دیتا ہوں کہ اہل ِ مغرب کی تمام تر ترقی “ اُلو“ کے رت
جگوں اور گہری سوچ بچار کا نتیجہ ہے۔ دوسری دلیل یہ کہ میرے جیسا سیلف میڈ
جینئس بھی اس عادت کا شکار ہے۔ سیلف میڈ اس لیے کہ ابھی تک ہم نے خود ہی
اپنے جینئس ہونے کا انکشاف کیا ہے اور دوسروں نے ذاتی حسد کی وجہ سے ہمیں
جینئس تسلیم کرنے سے گُریز کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس دنیا میں کسی کی ترقی سے
جلنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور ہندو لوگ تو مرنے کے بعد بھی جلانے سے
باز نہیں آتے۔ ویسے تو رت جگے کاٹنے میں “خاندان ِ عاشقاں “بھی بہت بدنام
ہے، لیکن عشق نامی بیماری کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا ویسے بھی
بقول شاعر یہ وہ آگ ہے جو لگائے نہ لگےاور اگر لگ جائے تو بُجھائے نہ بُجھے
اور کُھجائے نہ کُھجے۔ یعنی یہ عشق بھی پیٹھ پر لگنے والی خارش کی طرح ہے،
جہاں بندے کا اپنا ہاتھ نہیں پہنچتا اور کسی اور کے ہاتھ کا وہاں پہنچنا وہ
پسند نہیں کرتا۔ عشق میں جو کُچھ کرنا ہے خود ہی کرنا ہے، مطلب یہ کہ کُچھ
نہیں کرنا ہے۔
آگے ٹیچر نے لکھا تھا “He always speaks truth“ اس زمانے میں یہ کام کوئی
گوُنگا ہی بہتر کرسکتا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھ میں اور ٹیچر کے لکھوائے
گئے میرے بیسٹ فرینڈ میں تمام باتیں ایک دوسرے کی ضد تھیں بلکہ ہمارے
درمیان کچھ باتیں مشترک بھی تھیں۔ مثال کے طور پر ٹیچر نے لکھوایا تھا،
"He is very good in studies and absolutely tops in the class"، خیر کلاس
میں ٹاپ تو میں بھی کرتا تھا، لیکن چونکہ ہم دونوں ایک ہی کلاس میں تھے اور
ایک وقت میں ایک کلاس میں ایک ہی سٹوڈنٹ ٹاپ کر سکتا ہے، اس لیے ہمارے ٹاپ
کرنے کے لیے خاص طور پر گنجائش پیدا کی جاتی ۔ وہ کلاس میں اوپر سے ٹاپ
کرتا تھا اور ہمیں نیچے سے ٹاپ کرایا جاتا۔ کلاس میں بیٹھنے کے معاملے میں
بھی اس پوزیشن کا خیال رکھا جاتا، ہمارا بیسٹ فرینڈ بلیک بورڈ والی سمت میں
سب سے آگے بیٹھتا اور ہمیں باہر نکلنے والے دروازے کی سمت میں سب سے آگے
بٹھایا جاتا۔ دل لگی میں ہمیں بیک بینچر“back bencher“ بھی کہا جاتا تھا۔
اکثر ٹیچر کلاس میں ہمارے بیسٹ فرینڈ سے سوال پُوچھ کر اسکی لیاقت کا
امتحان لیتے رہتے تھے کہ آیا اس کی لیاقت اسی درجہ کی ہے یا اس میں کوئی
کمی واقع تو نہیں ہوگئی۔ چونکہ میری لیاقت مسلمہ تھی اس لیے ٹیچر مجھ سے
سوال پوچھ کر شرمندہ ہونا نہیں چاہتے تھے۔ اسلئے اکثر مجھ سے سوال کرنے سے
گُریز کرتے۔
اردو اور انگلش کے حروف تہجی میں بھی بیسٹ فرینڈ اور میری پسند یکساں تھی۔
بقول ٹیچر بیسٹ فرینڈ کو“ک“ اور “c“ سے شروع ہونے والی جگہ یعنی “کلاس
روم“پسند تھی اور اکثر وہیں پایا جاتا تھا اور مجھے بھی ک اور “c“ والی
جگہیں پسند تھیں اور میں بھی سارا دن وہیں گُزارتا تھا ،جیسے“ کینٹین“۔
اس کے علاوہ ٹیچر نے لکھوایا تھا۔
“all teachers of the school likes him very much “
ٹیچر پسند تو خیر مجھے بھی سارے ہی کرتے تھے سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کے۔ اور
اگر مجھ سے باری باری ٹیچرز کے نام لے کر پوچھا جائے گا تو میں ہر ٹیچر کے
نام پر یہی کہونگا کہ صرف اس ٹیچر کے علاوہ سارے ٹیچر مجھے پسند کرتے ہیں۔
بیسٹ فرینڈ کے بارے میں ٹیچر نے مزید یہ لکھوایا کہ“ He is good in all
subjects“ ویسے میری تعریف کرنے میں بھی ٹیچرز نے کبھی کنجوسی سے کام نہیں
لیا اور اکثر میری تعریف کرتے ہوئے کہا کرتے"He is good for nothing" اس
فقرے کا میرے جیسے ایک قابل دوست نے اس طرح ترجمہ کیا کہ“ کوئی چیز ایسی
نہیں ہے جس میں میں اچھا نہ ہوں“۔
الغرض اگر سچ پوچھا جائے تو ایسی خوبیوں والا شخص میرے بیسٹ فرینڈز میں اس
لیے شامل تھا کہ اسے ٹیچر نے ایسا لکھوایا تھا ورنہ ہمارے حلقہ دوستاں میں
ایسے پڑھاکوُ اور خشک بندے کی کوئی گنجائش نہ تھی اور ایسی خوبیاں ایسے
لوگوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج تک بیسٹ فرینڈ نہیں مل
سکا۔ |