اسلامی تہذیب سے ہی دنیا کی دیگر
اقوام کی تہذیبوں کے چشمے پھوٹے ہیں
مشرقی و مغربی یورپی ممالک اس حقیقت سے کیوں انکاری ہیں.....؟؟
اسلامی تہذیب اور خود فریبی میں مبتلا مغرب ......
آج مسلمانان عالم کو کسی بھی احساس محرومی میں مبتلا ہوئے بغیر اس سچائی و
دیانت پر ڈٹ جانا چاہئے کہ درحقیقت اسلامی تہذیب اور قرآن و سنت کے اصولوں
سے ہی دنیا کی دیگر اقوام کی تہذیبوں کے چشمے پھوٹے ہیں جبکہ مغربی و مشرقی
یورپی ممالک اس حقیقت اور سچائی کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور الٹا وہ اس
حقیقت سے کیوں منہ چراتے ہیں ۔۔۔؟؟؟اس کا بھی انہیں کھل کر ادراک کرنا
چاہئے۔
تہذیب جسے انگریزی میں کلچر بھی کہتے ہیں اس کے اردو لغت میں معنی کچھ اس
طرح سے ہیں کہ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے جو اسم بھی ہے تو مؤنث بھی اور جو
شائستگی اور خوش اخلاقی جیسے انتہائی خوبصورت لفظوں کے مکمل معنوں کے علاوہ
بھی کسی درخت یا پودے کو کاٹنا چھاٹنا تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں
اور نئی کونپلیں پھوٹیں جیسے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے اور اسی طرح
انگریزی زبان میں تہذیب کے لئے لفظ ”کلچر“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
یہاں ہمارے قارئین کے ذہنوں میں یہ بھی رہے کہ کلچر حقیقتاً انگریزی زبان
لفظ بھی نہیں ہے بلکہ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے اس کے لغوی معنی ہیں
”زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپوں اور بیکٹریا کی پرورش یا
افزائش کرنا، جسمانی یا ذہنی اصلاح و ترقی ، کھیتی باڑی کرنا“ کے ہیں۔
اور یوں مؤرخوں کے نزدیک دنیا میں پانچ بڑی بڑی تہذیبیں ہیں جن کا سکہ ابھی
تک چل رہا ہے ان میں سے سب سے اول اور اونچے درجے پر اسلامی تہذیب ہے جس نے
انتہائی مثبت اور تعمیری انداز سے دوسری تہذیبوں جن میں مشرقی یورپ، مغربی
یورپ، چینیوں اور ہندوؤں کی تہذیبیں شامل ہیں ان تہذیبوں کو متاثر کیا ہے
اور یوں اس کے ساتھ ہی میرے خیال سے آج دنیا کو اس سے بھی انکار نہیں کرنا
چاہے کہ ”بیشک اسلامی تہذیب و تمدن سے ہی دنیا کی تہذیبوں کے چشمے پھوٹے
ہیں جس نے دنیا کو ترقی و خوشحالی اور معیشت اور سیاست کے ان راستوں پر
گامزن کیا ہے کہ جس پر قائم رہ کر انسانی فلاح کے تمام دروازے کھلتے چلے
جاتے ہیں۔
اور نہ صرف یہ بلکہ مؤرخوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اکثر قدیم علوم و فن
بھی مسلمانوں اور اسلامی تہذیب سے ہی یورپ کے لوگوں تک پہنچے ہیں کیوں کہ
مشرقی یورپ و مغربی یورپ کی تہذیبوں سمیت چینیوں اور ہندوؤں کی تہذیبیں بھی
ایک دوسرے کی تہذیبوں کو اتنا متاثر نہیں کر پائیں کہ جتنا اسلامی تہذیب نے
ان سب کو متاثر کیا ہے کیوں کہ اسلامی تہذیب نے ایک ایسے عالمگیر ضابطہ
حیات قرآن کریم فرقان حمید کی روشی میں شکیل پائی ہے جو رہتی دنیا تک بنی
انسان کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے۔
اگرچہ دوسری طرف مؤرخوں نے یہ بھی رقم کیا ہے کہ اسلامی تہذیب سیاسی اقتدار
کے لحاظ سے دو مرتبہ عروج کمال حاصل کیا ہے کہ جب آٹھویں صدی میں اسلامی
سلطنت وسط ایشیا سے بحراوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھی ایشیائے کوچک کا پیشتر
حصہ سارا شمالی افریقہ اور ہسپانیہ اور بحیرہ روم کے اکثر جزیرے اس سلطنت
میں شامل تھے سولھویں اور سترہویں صدی میں پھر اسے بڑا عروج نصیب ہوا اس
زمانے میں ترکانِ عثمانی نے بڑی سلطنت قائم کرلی تھی یورپ میں ہنگری،
یونان، جزیرہ نمئے بلقان اور بحیرہ اسود کے شمالی ساحل کاعلاقہ ان کے قبضے
میں تھا شمالی افریقہ کے ممالک میں سے صرف مراکش ان کے دائرہ اقتدار سے
باہر تھا لیکن یہاں بھی مسلمانوں کی حکومت قائم تھی اس کے علاوہ ان زمانے
میں مسلمانوں نے ہندوستان کے بیشتر حصے پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا ایران
اور وسط ایشیا کے مختلف حصوں میں بھی مسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں۔
آج اس سے تو خود بھارت (ہندوستان) بھی انکار نہیں کرسکتا کہ گیارھویں صدی
میں ہندو تہذیب کا اثر ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا تک محدود رہا ہے جبکہ
چینی تہذیب نے چین کی سرحد کے ایشیائی خانہ بدوش قبائل کو متاثر کیا اور
یوں چینی تہذیب کے دائرہ میں خاص چین کے علاوہ، منچوریا، منگولیا، تبت،
کوریا، جاپان اور ہند چینی بھی شامل ہیں جبکہ اس ہی صدی میں اسلامی تہذیب
سے سارے ایشیا کے علاوہ افریقہ کا بہت بڑا حصہ اور یورپ کے بعض علاقے اثر
پزیر ہوئے ہیں۔
ایمرسن کا ایک بہت مشہور قول ہے کہ ”کسی بھی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ
تو مردم شماری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود، نہ غلے کی اِفراط
اور نہ دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک اور قوم کس
قسم کے انسان پیدا کرتی ہے “ یوں اس سے یہ مان لیا جائے کہ دنیا کی تہذیب
کا پیمانہ کسی ملک اور قوم پر مشتمل افراد( انسانوں) سے ہی کیا جاتا ہے تو
ساتھ ہی یہ بھی مان لینا چاہئے کہ ہر قوم کی اپنی ایک تہذیبی شخصیت بھی
ہوتی ہے اگرچہ اس شخصیت کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے بھی ملتے جلتے ضرور
ہیں لیکن بعض انفرادی خصوصیتیں ایسی بھی تو ہوتی ہیں کہ جو ایک قوم کی
تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں ہر قومی تہذیب اپنی اِن
ہی انفرادی خصوصیتوں سے پہچانی جاتی ہے اور اس نکتہ نگاہ سے تو دنیا پر یہ
بات بھی اچھی طرح سے عیاں ہوچکی ہے کہ ظہور اسلام کے بعد جو ملک اور قوم
اپنے تہذیب و تمدن کے لحاظ سے سب سے زیادہ تہذیب یافتہ مانی جاتی ہے وہ
مسلمان قوم اور ملک سعودی عرب (سرزمین عرب) ہے جس کی تہذیب و تمدن کے آگے
دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک اور اقوام کل کی حیثیت بھی کچھ نہیں ہے اور
ایک یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک اور اقوام جن کی اپنی تاریخی اور
تہذیبی حیثیت بھی کچھ نہیں ہے اور اپنی اس ہی احساس محرومی کی وجہ سے انہوں
نے ایک سازش کے تحت مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ طور پر باہم متحد و منظم ہوکر
اپنی ایک بھرپور پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے جن کا اصل مقصد اپنی تہذیب
و تمدن کو دنیا بھر میں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور اسے انسانی فطرت(جنسی
کشش) جیسی کمزوریوں کے ساتھ کچھ اس طرح دنیا بھر میں پیش کرنا ہے کہ ان کی
تہذیب وتمدن کو دنیا بھر میں بسنے والے انسان پسند کریں تو اس کے برعکس
دنیا کے دیگر اقوام کے لوگ دین اسلام کی صاف ستھری اور ایک مکمل ضابطہ حیات
کے ساتھ اس کے سنہرے اصولوں پر مشتمل مسلم ممالک کی اپنی اپنی تہذیبوں کو
اپنانے اور ان کی تعریف سے بھی انکاری ہوں۔
میں یہ فخریہ کہہ سکتا ہوں کہ انیسویں صدی میں مشرقی و مغربی یورپی قوموں
نے جو تہذیب اپنائی ہے کہ اس میں پوراعمل دخل اسلامی تہذیب کا ہے تاہم وہ
اس حقیقت کو ماننے سے قطعاً انکاری ہیں جبکہ یورپی تہذیب اسلامی تہذیب کی
ہی عطا کردہ ہے اس سے زیادہ یورپی ممالک کی اور کیا بداخلاقی ہوگی ۔۔۔؟؟ کہ
وہ اس حقیقت کو آج تک تسلیم نہیں کرتے کہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب
مسلمانوں کا ہی عطا کردہ ہے آخروہ اس سے کیوں انکاری ہیں۔۔۔۔؟؟ |