فساد معاشرہ کے 13اسباب

پہلا سبب ؛اپنی غلطی:
ہم مردوں نے یہ نفسیا ت بنالی ہے کہ ہم جو کچھ کریں ہماری بیوی، بہن اور بیٹی کو صاف رہنا چاہیے ورنہ خلاف ورزی پر اسے سخت سزا دیں گے، مگر مرد یہ نہیں سوچتاکہ جس طرح یہ حرکت اس کے لیے بُری ہے بالکل اسی طرح میرے لیے بھی بری، حرام اور ناجائز ہے ۔اس لیے کہ سورۃ نور میں خود اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ:
’’ گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے اور صاف مرد صاف عورتوں کے لیے اور صاف عورتیں صاف مردوں کے لیے ہیں۔ ‘‘اور اس شخصیت کا ارشاد ہے جس سے زیادہ کوئی سچا نہیں کہعفوا تعف نسائکم تم خود صاف رہو تو تمہاری عورتیں بھی صاف رہیں گی اگر تم غلط ہو تو اپنی عورتوں کے بارے میں یہ روش کیسی ؟حقیقت یہ ہے کہ مرد کو چھوڑ کر صرف عورت ذات کے ساتھ ہمارا یہ رویہ نہایت ہی ظالمانہ اور بے جادلیرانہ ہے۔

دوسرا سبب؛ نگرانی میں سستی:
شریعت میں سختی نہیں عام لوگ بھی یہی کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں لیکن کیا شریعت میں پابندی بھی نہیں؟پردے کی تاکید نہیں؟ غلط بات سے منع رہنے اور رکنے کی پابندیاں نہیں؟ بلکہ بچوں اور بیویوں کو مارنے تک کا تذکرہ شریعت میں موجود نہیں؟یہ پولیس، فوج، کرفیو، انتظامی ادارے اور مربی کی ڈانٹ ڈپٹ کیاسختیاں ہیں؟یا فائدہ بخش اصول؟ شریعت میں سختی نہیں لیکن صحیح پابندی ہے؛ بہن ،بیٹی اور بیوی جس طرح کے بھی کپڑے پہن لیں باریک ہوں یا چست نیم عریاں ہوں یاساڑھی، یہ بھائی، باپ اور بیٹا دیکھتا رہے گا اور کوئی نصیحت نہیں کرے گا(پابندی اور سختی میں فرق یہ ہے کہ ایک میں فائدہ اور دوسرے میں نقصان ہے جس طرح چوراہے میں لال بتی کا جلنا پابندی اور فائدہ بخش ہے لیکن بے جا کسی کو روکنا اور آگے(باوجود راستے کے صاف ہونے کے )جانے نہ دیناسختی ہے۔

تیسرا سبب ؛دینی مجالس سے دوری:
دنوں پر دن گزر جاتے ہیں لیکن ہمارے گھروں میں تقویٰ، للہیت ،فکرِ آخرت، موت کی یاد،اعمال کا شوق اور قبر میں جانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی، دن رات گپ شب، ڈرامے فلم ٹی وی، اور کاروباری باتیں کرتے ہیں، کم از کم چوبیس گھنٹے میں ایک آدھا گھنٹہ دینی تعلیم و تعلم کے لیے مقرر کرنا چاہیے جس میں گھر کے افراد آپس میں علم وعمل اور دینی باتوں کا تذکرہ کریں۔

چوتھا سبب؛ آلات نشریات کا غلط استعمال:
ڈش، کیبل، ٹی وی، وی سی آروغیرہ۔اگر یہ آلات آپ از خود گھر لاچکے ہیں تو یہ توقع نہ نہ رکھیں کہ گھر والوں کے لیے شہوات نہ ابھریں؟ ان کے دلوں میں گندے خیالات نہ ابھریں ؟ جب یہ چیزیں دلوں میں پناہ گزیں ہوجائیں تو اولاد سے خیر کی توقع، چھوٹے بڑے کی تمیز کا مطالبہ اور شرم وحیا کے وجود کاسوال ایسا ہے جیسا کہ نڑکے پودے کو گنے کی مشین میں ڈال کر جوس کا مطالبہ، از خود سامان تعیش مہیا کرکے آگ لگاتے ہیں اور شعلوں سے منع بھی کرتے ہیں۔
ہم خدا خواہی وہم دنیا دوں
ایں خیال است ومحال است وجنوں

پانچواں سبب؛ صحیح شرعی پردے کا فقدان:
آج کل جورواجی پردہ ہے اس سے تو پردہ نہ کرنا اچھا ہے ، صرف سکارف پہن کر پورے بدن تنگ کپڑوں میں نظر آتاہے، یا ایسی گرے کلر یا کالی مخصوص قسم کی چادریں پہن لیتی ہیں جو بدن سے چپک جاتی ہیں اور بدن کے سارے اعضاء الگ الگ نظر آتے ہیں۔ پردہ کا مقصد یہی ہے کہ مردوں کی نظر کی حفاظت ہوجائے اور عورت کاحسن چھپ جائے جس پردے میں یہ صفت نہ ہووہ پردہ نہیں بلکہ بے پردگی ہے۔ صحابیات اس طرح پردہ کرتیں کہ چمک دمک کے بغیر گھٹنوں سے نیچے تک موٹی چادریں پہن لیتی اور صرف ایک آنکھ کھول کر دیوار سے لگ لگ کر شرم و حیا کے ساتھ چلتیں۔پردہ میں یہ بھی شامل ہے کہ عورت 78کیلومیٹر پیدل سفر کے تناسب سے دور جائے تو محرم مرد ساتھ ہو۔ اکیلی نہ جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دوسروں سے زیادہ اپنوں سے پردہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہم ان سے پردہ نہیں کرتے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ دیور سے اس طرح بھاگو جس طرح موت سے بھاگتے ہو صرف دیور نہیں بلکہ ہر عورت کے لیے اپنے اور خاوند کے ماموں زاد، خالہ زاد، چچازاد جس کو ہم ’’بھائی‘‘ کہتے ہیں سے پردہ ہے۔

چھٹا سبب ؛روک ٹوک کی کمی:
کسی بھی وقت اگر لڑکی کہے کہ میں آج فلاں سہیلی کے گھر رات گزاروں گی میں بازار جا رہی ہو یاموں، چچا اور خالہ کے گھر رات گزاروں گی تواس پرکوئی پابندی نہیں ،کسی وقت سیر کے لیے نکل سکتی ہے کسی بھی وقت شاپنگ کرسکتی ہے میرے خیال کے مطابق یہی سبب ایسا خطرناک ہے جس کاکوئی انداز ہ نہیں، جس سے رونما ہونے والی مفاسد کے درجنوں واقعات میرے ذہن میں گردش کررہے ہیں، جس کا ذکر نہ کرنا بہترہے۔

ساتواں سبب؛ معاشرے کا تشتت:
چونکہ عورت اپنے دائرہ کار میں نگرانی ہی کے ذریعے رہتی ہے اور اگر شومیٔ اعمال سے گھر کا نگران ہی نہ ہوتوعورت کو کھلی چھٹی مل جاتی ہے جو جی میں آیا کرگزرتی ہے، یہاں پرمحلہ علاقہ ، بستی اور قریبی رشتہ داروں کا باہمی جوڑ، اصلاحی کمیٹی اور جرگہ سسٹم کام آتا ہے ہر جگہ پر اس طرح کی ایک کمیٹی ہونی چاہیے جو بزرگوں پر مشتمل ہو اور وہ عوام الناس کے مسائل کا تصفیہ کریں اگر کوئی بے بس ہو تو اس کی مدد کرے اور اگر کوئی مرد یا عورت غلط راستے پر جا رہی ہو تو اس کو نرمی کے بعد قوت سے روکیں اور اگر منع نہ ہوتوعلاقے والے ان سے سوشل بائیکاٹ کرلیں۔

آٹھواں سبب؛ غلط اعتماد:
شریعت میں اعتماد ایک اہم اصل ہے اور یہ کہ کسی پر شک نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ نگرانی اور پابندی چھوڑ دیں، ہر شخص کو دفاتر ہسپتال ، مخلوط تعلیم اور عوامی تعلیم سے منسلک مستورات کی حالت زار کاعلم ہے کہ وہ کسی موڑ سے گزر رہی ہیں اور کیا کچھ ہو رہا ہے ؟ لیکن ہر ایک کی نفسیات یہ بنی ہوئی ہے کہ میری بہن، بیوی اور بیٹی ٹھیک ہے باقی غلط ہوں گے، جو کچھ ہو رہاہے ہمارے ساتھ نہیں ہو رہا اس کو اس وقت پتا چلتاہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے-

نواں سبب؛ مخلوط معاشرہ:
مسلمانوں کی عزت ،عظمت اور عصمت کو مخلوط سوسائٹی نے جتنا نقصان پہنچایا، اندازے سے باہر ہے۔عورت میں جہاں اللہ کریم نے صبر، عفت ،شرم وحیا، نرم دلی، قوت برداشت ،غم خواری اور ایثار کا جذبہ رکھا وہاں اگر یہ نفس اور شیطان کے کہنے کے مطابق چلے تو قرآن اس کے بارے میں فرماتاہے:’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ۔‘‘عورتو !تمہارا مکر نہایت ہی بڑاہے شیطان کے مکر کو بڑا نہیں کہا ہے لیکن عورت کے فریب کو بڑا کہاہے اللہ نہ کرے اگر عورت بے دین ہو جائے تو یہ اپنی بے دینی کی بناء پر ایسا انداز اختیار کرلیتی ہے کہ خاوند، بھائی اور باپ کو متاثر کر لیتی ہے اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے آنسو بہانا اس کے لیے دو منٹ کاکام ہے نا محرم مرد ڈرائیوروں کے ساتھ اپنی جوان بچیوں کو بٹھا دیتے ہیں لیکن انجام کانہیں سوچتے ہیں۔

چشم دیدہ واقعات ہیں کئی مرتبہ وہی ڈرائیور سکول کالج چھوڑنے کے بجائے کسی تفریح گاہ ہوٹل اور محفوظ مقام پر پہنچا دیتے ہیں اسی طرح Co.Educationکالج یونیورسٹیوں میں بچیوں کو بھیجنا اخلاق کے لیے کینسر اور عزت وناموس کے لیے کسی لاعلاج مرض سے کم نہیں ۔اب تو چوری چھپکے کی بات ختم ہوگئی کلاس روموں میں کالج یونیورسٹیوں کے سامنے پارکوں میں اور تفریح گاہوں میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کی آپس میں بات چیت مذاق بلکہ ہاتھ کا مذاق کسی سے چھپی ڈھکی بات نہیں ہے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میری بچی اور بچہ پاک صاف ہے لیکن یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ؟ اور الحمد للہ اگر آپ کی بچی پاک بھی ہے تو کیسے اس ماحول سے بچ سکتی ہے ؟ لہٰذا قرآن پر عمل کی اشد ضرورت ہے۔

دسواں سبب ؛ہماری انتظامیہ:
جب چوکیدار چور، محافظ ڈاکو، ڈاکٹر بیمار اور ہدایت دینے والے گمراہ بن جائیں تو نظم ونسق کی بحالی کہاں ممکن ہے؟ ہر گلی اور مصروف شارع پر پولیس کے جوان موجود ہوتے ہیں، اگر یہ اصلاح لانا چاہیںتو کیا اصلاح نہیں ہوسکتی اس کے لیے بھی پولیس مختلف بہانے بناتے ہیں، اجی بڑے بیمار ہیں گزارہ مشکل ہے جب فلاں غلط تو ہم بھی غلط اگر صحیح کام چلانا چاہیں تو چین سے بیٹھنے نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ اگرچہ اصل بات یہ ہے کہ کل اللہ کے دربار میں ان بہانوں میں سے کوئی بہانہ چل جائیگا؟ہرگز نہیں۔

گیارھواں سبب ؛غربت:
عوت کے گندگی میں جانے کے متعلق بطور خاص یہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ غربت کی بنا پر موجود کئی عورتیں گندگی کی طرف جانے پر مجبور ہیں اگرچہ اصل بات وہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد :
’’وَلَا عَالَ مَنْ اِقْتَصَدَ۔‘
(وہ کبھی فقیر نہیں ہوگا جو خرچہ میں میانہ روی سے چلے) پر عمل نہ کرنے اور تقویٰ کے فقدان نے اس چیز کو جنم دیا ہے۔ اس لیے کہ دو ہزار کا ملازم اپنے گھر کا خرچہ چلا سکتاہے اور فعل قبیح کا ارتکاب کرنے والی ایک دن میں ہزاروں کما کر گزارہ نہیں کرسکتی، شریعت نے خرچے کا بوجھ والد بھائی اور شوہر کی موجودگی میں خاوند پر ڈال رکھا ہے اگر یہ نہ ہو یا گزارہ مشکل ہو تو عورت پردے میں رہ کر ذکر کردہ شرائط کو مدنظر رکھ کر ملازمت کر سکتی ہے ۔تو گندگی کے ذریعے کمائی کی کیا ضرورت؟ اللہ کا ڈر آخرت کی فکر موت کی یاد اور قبر کے لیے تیاری کا غم ختم ہوگیا اللہ کریم کا ارشاد ہے :’’اے مسلمانو! زنا کے قریب مت جائو یہ گندہ اور برا راستہ ہے ۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب دیکھا کہ جو عورتیں زنا کرتی ہیں ان کے لیے جہنم میں آگ کا ایک تندورتیار کیاگیاہے جس کا منڈیر تنگ اور نچلا حصہ وسیع ہے اس میں ان عورتوں کو ننگا جلایا جائے گا اور آگ کی شدت کی وجہ سے زانی عورتیں اوپر کے حصے تک آئیں گی ۔
(بخاری شریف )

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سات آدمی قیامت کے ہولنا ک اور گرم دن میں عرش کے سائے کے نیچے ہوں گے جن پر کوئی غم نہیں ہوگا ایک وہ شخص جس کو زنا کا موقعہ مل جائے اور وہ یہ کہہ کر چھوڑ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
(بخاری ومسلم)

ناجائز باتوں کے لیے ہم مختلف حیلے بہانے بناتے ہیں ایسا بہانہ بنائو جو کل اللہ کے دربارمیں چل سکے۔

بارھواں سبب؛شادی میں تاخیر اور گرانی جہیز کی لعنت:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ پاک پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزوں میں تاخیر مت کرو ؛نماز جنازہ اور بالغ بچی کے نکاح میں جس کے لیے برابر کا جوڑمل جائے بلوغ کے بعد بچوں سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں والدین اس میں برابر کے شریک ہوتے ہیں قیامت میں ان کو سزا ملے گی آج کل جتنی پریشانیاں ہمارے اوپر سوار ہیں یہ ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں ۔

تیرھواں سبب؛ حدود وقصاص کا عد م نفاذ:
اگر قرآن کے ارشاد کے مطابق ایک ڈاکو کو قتل کی سزا میں چوراہے پر قصا صاً لٹکا دیا جائے ایک چور کا ہاتھ دنیا کے سامنے کاٹ دیا جائے ایک شادی شدہ زانی کو بڑے چوراہے پر رجم کیا جائے یا شرابی کو کوڑے لگادئیے جائیں تو کیا کوئی قاتل ، زانی ، شرابی اور چور،رہے گا؟ اللہ تعالیٰ ہم کو گھر کی صحیح نگرانی ، اپنے عمل کی اصلاح اور معاشرے کو صحیح رخ پر ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین ثم آمین

Ahmad Hameed
About the Author: Ahmad Hameed Read More Articles by Ahmad Hameed : 19 Articles with 17636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.