بر کۃ السلف حجۃ الخلف شیخ الحدیث حضرت مو لانا محمد زکریاکا ندھلوی رحمہ
اللہ فضائل اعمال میں تحریر فرما تے ہیں:’’ حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ حافظ
حدیث ہیں اس قدر کثرت سے اللہ کے سا منے روتے تھے کہ حد نہیں کسی نے عرض
کیا کہ آنکھیں جا تی رہیں گی ‘ فرمایا کہ اگر ان آنکھوں سے روئیں نہیں تو
فا ئدہ ہی ہو جا ئے‘ ابو سنا ن رحمہ اللہ کہتے ہیں خدا کی قسم میں ان لوگوں
میں تھا جنہوں نے ثابت کو دفن کیا دفن کرتے ہوئے لحد کی ایک اینٹ گر گئی تو
میں نے دیکھا وہ کھڑے نما ز پڑھ رہے ہیں میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ
دیکھوکیا ہو رہا ہے اس نے کہا چپ ہو جائو! جب دفن کر چکے ان کی بیٹی سے
دریا فت کیا کہ ثابت رحمہ اللہ کا کیا عمل کیا تھا؟ اس نے کہا کیو ں پوچھتے
ہو ؟ ہم نے قصہ بیان کیااس نے کہا پچاس برس شب بیداری کی اور صبح کو ہمیشہ
یہ دعا کر تے تھے کہ یا اللہ اگر کسی کو یہ دولت عطا کر ئے کہ وہ قبر میں
نماز پڑھے تو مجھے بھی عطا فرما ۔
قا رئین کرام!حضرت ثابت رحمہ اللہ جلیل القدر محدث اور مشہور تا بعی ہیں
صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں محد ثین نے ان کو ثقۃ ثبت بلکہ اثبت کہا ہے مذ
کورہ با لا واقعہ میں ان کے عقیدہ حیا ت قبر کا بیان ہے کہ قبر میں ہر مردہ
کو درجہ بدرجہ ایک خاص قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے جس کی حقیقت صرف اللہ
تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور اس حیات قبر کی وجہ سے مردہ انسان قبر کی جزا و
سزا اور عذاب وراحت کو محسوس کرتا ہے چونکہ قبرکی کارروائی غیب کی چیز ہے
جس پربغیردیکھے ایمان لاناضروری ہے اس لیے عموماً جزا وسزا لوگوں کی نظروں
سے مستور رہتی ہے البتہ اللہ جل شانہ بطور خرق عادت کے بعض بندوں کو یہ چیز
دکھا بھی دیتے ہیں حیات قبر کا سب سے اعلیٰ اور اونچا درجہ حضرت انبیائے
کرام الصلوۃ والسلام کوحاصل ہو تاہے جسکی وجہ سے ان کی وراثت ما لی تقسیم
نہیں ہوتی اوران کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے کسی کو نکاح کرنے کا
حاصل نہیں ہوتا ہے اور اسی قوی تر حیات کی وجہ سے ان کے اجسام مطہرہ اپنی
اپنی قبورمیں محفوظ اور ترو تازہ رہتے ہیں اور وہ حضرات اپنی قبور میں نماز
وغیرہ میں مشغول و مصروف رہتے ہیں جب کو ئی امتی ان پر سلام عرض کر تا ہے
وہ سنتے ہیں اور جو اب دیتے ہیں چونکہ حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ کو نما ز
والے عمل سے بے حدمحبت تھی اور وہ اس کو کسی صورت بھی تر ک کرنا گوارا نہ
کر تے تھے اسی لئے اللہ تعالی سے دعا ما نگتے تھے کہ اے اللہ مجھے قبر میں
نما ز پڑھنے والی سعادت نصیب فرما اور یہ شوق دعا ان میں اس لیے پید ا ہو ا
کہ ان کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث پہنچی ہو ئی تھی۔
’’الانبیا ء احیاء فی قبورہم یصلون اس حدیث کے پہلے راوی حضرت انس صحابی
ہیں دوسرے راوی حضرت ثابت رحمہ اللہ ہیں چونکہ اس حدیث کی رو حضرات انبیائے
کرام علیہم الصلوۃ السلام کا اپنی قبورمیں نماز پڑھنا ان کے نزدیک حتمی اور
یقینی تھا البتہ غیر انبیائے کرام کے لیے اس سعادت کا حصول یقینی نہیں تھا
تو حضرت بنا نی رحمہ اللہ کی دعا کا خلاصہ گو یا یہ کہ اللہ انبیائے کرام
کاقبر میں نماز پڑھناتو لاشک اورلاریب ہے اگر غیر انبیاء کیلیے بھی یہ
سعادت ہے تو مجھے ضرور عطا فرمانا۔
حیات الانبیاء علیہم السلام اور محدثین کرام رحمہم اللہ :
پوری امت محمد یہ علی صا حبھا الصلوٰۃوالسلام بالخصوص محدثین کرام کا عقیدہ
حیات الانبیاء علیہم السلام اور ان کی صلوۃ فی القبر پر متفق ہے کیونکہ ان
حضرات کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ تواتر کے ساتھ
پہنچی ہیں جن سے حیا ت قبر و صلوٰۃ فی القبر اور سماع عندالقبربڑی وضاحت کے
ساتھ ثابت ہے حتی کہ انہوں نے اس عقیدہ پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں مثلاً
جزء حیات الانبیاء للامام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ وغیرھم اسی طرح
محدثین کرام کا باب عذاب قبر قائم کرنا بھی درحقیقت حیات قبر کو ثابت کرنے
کے لیے ہے کیونکہ عذابِ قبر کو حیات قبر لازم ہے اور عذاب کا لفظ بھی
تغلیباً استعمال ہوتا ہے ورنہ عذاب قبر میں عذاب اور راحت قبر دونوں شامل
ہیں میرے ناقص مطالعہ کے مطابق آج تک کوئی محدث ایسا نہیں گزرا جس نے عذاب
قبر کے عنوان سے حیات قبر کو ثابت نہ کیا ہو بعض محدثین نے باب حیات
الانبیاء بھی قائم کئے ہیں اور جمہور محدثین کرام نے خاص کر عقیدہ حیات
الانبیاء علیہم السلام کو بھی اپنی کتابوں میں بڑی بسط و تفصیل سے بیان
فرمایا ہے ۔ الغرض!حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد سے لے کر
تادم تحریر روئے زمین پر کوئی ایک محدث ایسا نہیں گزرا جس نے حیاتِ قبر
،سماع قبر اور حیات الانبیاء علیہم السلام کو کسی نہ کسی رنگ میں ثابت نہ
کیا ۔
ایک مغالطہ کا جواب:
عصر ہذا کے معتزلہ جو حیات قبر کا انکار کرتے ہیں اوردھوکہ دینے کے لیے
پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ محدثین کرام نے باب وفات صلی اللہ علیہ وسلم تو قائم
کیا ہے لیکن باب حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی محدث نے قائم نہیں
کیا ان کج فہموں کو معلوم ہو نا چاہیے کہ صرف باب نہیں بلکہ کتاب موجود ہے
کتاب نہیں بلکہ کتابیں موجود ہیں جو صرف اور صرف اس موضوع پر لکھی جا چکی
ہیں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں کتابیں ضبط تحریر میں آچکی ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا عقیدہ :
حضرت شیخ الحدیث نے سید ثابت بنانی رحمہ اللہ کا نماز قبر والا واقعہ نقل
فرما کر اپنے عقیدے کو واضح کیا وہ بھی حیات قبر،صلوۃ قبر،حیات الانبیاء
اور اسما عہم عندالقبور الشریفہ پر ایمان ویقین رکھتے ہیں۔
حضرت شیخ رحمہ اللہ کی فضائل درودشریف:
محترم قارئین ! حضرت شیخ الحدیث نے اپنا یہ عقیدہ صرف فضائل نماز میںیہ
واقعہ نقل کرتے بیان نہیں کیا بلکہ ان کی اس عقیدہ پر ایک مستقل تصنیف ہے
جس کا نام ’’فضائل درود‘‘ہے یہ بہت بڑی بابرکت کتاب ہے اس کتاب میں حضرت
شیخ رحمہ اللہ نے عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ کے مطابق مطابق کتاب و سنت کے
روشن دلائل کے ذریعہ حیات الانبیاء ، تعلق بالجسد العنصری ، انبیاء کرام کا
اپنی قبور میں نماز یں وغیرہ ادا کرنا ، قریب سے صلوۃ و سلام کا سننا ، دور
سے ِپہنچایا جانا اور استفشاع عندالقبر الشریف وغیرہ مسائل و عقائد کو بیان
کیا ہے یہ کتاب قابل دیداور لائق مطالعہ ہے اور بندہ عاجز کے نزدیک اہل
السنۃ والجماعۃ دیوبند سے وابستہ تمام علماء طلبہ اور عام و خاص کے لئے اس
کا مطالعہ ازحد ضروری ومفید ہے ۔
جماعت تبلیغی کے ارباب حل و عقد سے مؤد بانہ گزارش:
بندہ عاجز نے اپنی اس جماعت کے علمائ،بزرگان اور اکابر کی خدمت میں
بطورمشورہ کے یہ درخواست پیش کرتا ہے کہ جس طرح آپ حضرات دیگر فضائل اعمال
کی طرح فضائل درود شریف کی اشاعت فرما کر ثواب دارین حاصل کررہے ہیں اسی
طرح فضائل درود کی تعلیم بھی اپنے مجمعوں میں عام کریں جس طرح تعلیمی حلقوں
میں دوسرے فضائل سے ایک ایک دو دو حدیثیں پڑھی جاتی ہیں اسی طرح حسب معمول
فضائل درود شریف میں سے بھی کچھ پڑھ کر عوام و خواص کو سنایا جائے ان شاء
اللہ اس کا بہت بڑا فائدہ ہوگا ، ثواب کے علاوہ ساتھیوں کے عقائد درست ہوں
گے اپنوں اور غیروں کی غلط فہمیاں دور ہوں گی مزید حضرت شیخ الحدیث کی روح
پر فتوح کو اس کا ثواب مزید پہنچے گا بلکہ اکابر جماعت اس بات کی اطلاع پا
کر بے حد خوش اور مسرور ہوںگے۔
اختلاف نہیں،اتفاق ہے :
بعض میرے سادہ لوح بھائی فرمایا کرتے ہیں کہ میاں ! یہ اختلافی مسئلہ ہے اس
سے اختلاف ہوتا ہے لہٰذا اس کو نہ چھیڑنا چاہیے تو یہ ان حضرات کی خوش فہمی
ہے حقیقت یہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی حیات بعد الوفات اور
ان کے سماع عند القبور میں کسی کو اختلاف نہیں ہے چودہ سو سال سے یہ مسئلہ
اتفاقی چلا آ رہا ہے حتیٰ کہ سعود ی عرب کے بہت بڑے عالم اور ان کے امام
محمد بن عبد الوہاب نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے (۱)اور اگرکو ئی شخص چودہ سو
سال کے بعداس اجماع کو توڑتا ہے تو اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ۔
معذرت:
بندہ عاجز جماعت تبلیغ کو اولیاء دیوبند کی جماعت سمجھتا ہے اور اس کا
پرانا خادم ہے لہٰذا میرے اس مشورہ سے کسی صاحب کو کسی قسم کی غلط فہمی
لاحق نہیں ہونی چاہیے صرف’’ الدین النصیحۃ ‘‘کے تحت یہ خیر خواہانہ مشورہ
عرض خدمت کردیا ہے بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ’’ خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ
بھی سن لے‘‘ شاید میرا مشورہ پسند آجائے اور عمل میں آ جائے۔ ؎گر قبول افتد
زہے |