ایک بارپھرتمام دینی جماعتیں تحفظِ ناموس رسالت کے لیے
متحد ہوچکی ہیں۔ ناموس رسالت اس وقت اہل اسلام کے لیے سب سے اہم ایشوہے ۔قانون
توہین رسالت میں ترمیم کرنے کے لیے بعض ناعاقبت اندیش حکمران چند ٹکوں کے
عوض اپنے ایمان کودائو پر لگارہے ہیں اور شیریں رحمن صا حبہ، گورنرپنجاب
سلمان تاثیر اوردیگر ان کے ہم نوا یہ چاہتے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون
میں ترمیم کر لی جائے۔ گورنر پنجاب نے یہاں تک اپنے خُبثِ باطن کا اظہار
کیا ہے کہ’’ یہ کالاقانون ہے ۔‘‘ العیاذ باللہ ۔
کوئی روشن خیال اس جرم توہین رسالت کے مرتکب پرنافذ کردہ سزاکے بارے میں
کہتاہے کہ ’’یہ ظلم ہے ، اسلام محبت اورروا داری کاسبق دیتاہے اورکوئی یوں
ہذیان بکتابکتا منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے کہتا ہے ’’یہ دقیانوسیت ہے ،اسلام
میں امن وآشتی اورباہمی الفت کادرس پنہاں ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ
اسلام رواداری اورمحبت کاعلمبردارہے۔ امن وآشتی اور باہمی الفت اس کی
بنیادی تعلیمات میں شامل ہیں ۔ لیکن قرآن کریم کی ترتیب کے مطابق رحماء
بینھم بعدمیں ہے۔ اشداء علی الکفارپہلے ہے۔جب ظلم بڑھ رہاہو، شرک والحاد کے
بھوت منہ کھولے کھڑے ہوں، جب ڈکیتی، قتل و غارت،لوٹ کھسوٹ،دنگا فساد ، رشوت
ستانی ، سود خوری ،دین اسلام کامذاق، صحابہ کرام، اہل بیت و ازواج نبی ،
قرآن کریم، اسلام کی مقتدر شخصیات پر تبرابازی اورپیغمبر خدا کی گستاخی اور
توہین اورمعاشرتی اوراخلاقی جرائم عام ہونا شروع ہوجائیں تواسلام کے حدود و
قصاص کے قوانین کو عمل میں لانا بہت ضروری ہوجاتا ہے جب اعداء اسلام ؛دینِ
اسلام کو مٹانے کے لیے کمربستہ ہو جائیں اور اسلام کے شعائر کامذاق اڑانا
شروع کردیں ۔تو اسی امن و آشتی کے علمبرداراسلام کا حکم ہے فاضربوافوق
الاعناق ان کی گردنوں پرمارو۔ نہیں بلکہ واضربوامنھم کل بنان ان کے جوڑ جوڑ
پر مارو۔ جب قتل و غارت گری شروع ہوتوولکم فی القصاص حیوۃ کا زریں اصول بھی
اسلام ہی کاہے۔ جب شراب خوری معاشرے میں جنم پانے لگے توحد شرب خمر کا حکم
بھی اسلام دیتاہے۔ جب چوری جیسی لعنت پھیلنے لگے توہاتھ کاٹنے کاحکم بھی
یہی اسلام دیتا ہے ۔ الغرض ہر جرم کے مطابق سزا کا قانون خود خالق لم یزل
نے مرتب کردیاہے۔پوری دنیامیں کوئی ملک ایسانہیں جہاں جرائم کے سدباب کے
لیے قوانین موجودنہ ہوںہر قوم میں اپنے مقتدرشخصیات کی عزت وعظمت اوراحترام
کے قوانین موجودہیں اور جو کوئی بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتاہے تو اسے
سزا کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے ۔
اسلام بھی ایک سچااور کھرادین ہے احترام آدمیت کاجتنا اسلام محافظ ہے
اتناکوئی اور مذہب نہیں ہے اسلام ایک عام انسان کی بھی عزت وحرمت کانگہبان
ہے اورمعاملہ جب پیغمبر خداe کاآجائے۔ تو پھراسلام حکم دیتاہے کہ گستاخ
اوران کے بارے میں یاوہ گوئیاں کرنے والا کعبۃ اللہ کے غلاف میں چھپا
ہواملے تو بھی اسے قتل کر ڈالو ۔قانون توہین رسالت تمام قوانین میں سب سے
زیادہ چمکتا دمکتاقانون ہے،والی دو جہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت
اورناموس کامسئلہ توتمام مسائل میں سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ اس پر
کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کرسکتا، مسلمان بے عمل ہوسکتاہے اوربد عمل بھی
ہوسکتاہے لیکن عشق رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہر گز نہیں
ہوسکتابلکہ میرا عقیدہ ہے کہ جوشخص محبت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
خالی ہے وہ مسلمان کہلانے کامستحق نہیں۔قانون توہین رسالت میں ترمیم کابل
اسمبلی میں پیش ہوچکاہے انگریز کے حاشیہ بردار حکمران تمام اہل اسلام کے
جذبات ایمانی سے کھیل کراس میں تبدیلی لاناچاہتے ہیں اور میرا قلم بھی اس
کیفیت کولکھنے میں ہمت ہارجاتاہے کہ کیسے!!! آخر کیسے!!! یہ لوگ دشمن رسول
کوخوش کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوناراض کرنے
کایاراکرلیتے ہیں۔ کیاضمیرمردہ ہوچکے ہیں کیا اقتدار اور دولت کا نشہ اس
قدر مست کیے ہوئے ہے کہ ایمان بھی یادنہیں۔
اللہ جزائے خیردے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین واراکین کوجنہوںنے بر
وقت معاملہ کی حساسیت کوبھانپتے ہوئے آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس
انعقادعمل میں لایا کانفرنس میں راقم کوبھی مدعوکیاگیاتھا میں یہ بات کہنے
میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ منتظمین نے ہر حوالے سے اس کوکامیاب بنانے
میں جواپنی خدمات سرانجام دی ہیں وہ یقینا لائق تحسین بھی ہیں اور قابل
تقلید بھی ۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مولانا عبدالمجیددامت
برکاتہم نے اپناترجمان مولانا فضل الرحمن کی منتخب فرمایااوریقیناوہی اس کے
اہل تھے۔ مولاناکی بصیرت افروز ،نپی تلی اور جامع مانع گفتگونے کانفرنس میں
پھر سے حوصلوں کوجوان کردیا۔ محترم قاری محمد حنیف نے اپنے نقابت کے فرائض
بڑے ہی متانت سے سر انجام دیے۔ کانفرنس میں شریک تمام مکتبہ فکر کے قائدین
نے ناموس رسالت کے لیے اتحاد کا اعلامیہ دیا ۔ دینی، مذہبی، اسلامی، مسلکی
اورسیاسی جماعتوں کایوں آپس میں کسی مسئلہ پرمتحدہوناہی اس مسئلہ کی اہمیت
بتلانے کے لیے کافی ہے۔ میںان تمام علمائے کرام کاجنہوںنے بڑی سنجیدگی سے
اس معاملہ پر پالسیاں وضع کیں اور ایک لائحہ عمل طے کیا، دل سے شکرگزارہوں
کیونکہ ہماراماٹویہ ہے کہ اسلام ہر چیز پر مقدم ہے عقائد و نظریات کے سامنے
سیاست کوایک بار نہیں لاکھ بارقربان کیاجاسکتاہے ۔
یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ بعض عیسائیت زدہ دماغ عام طورپرسوچتے ہیں
کہ یہ دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث ہیں ۔ یہ آپس میں ہی لڑیں گے اورہماری
جان چھوٹی رہے گی۔
خبردار! اگر کسی نے یہ مفروضہ گھڑکراپنے ذہن پرسوارکررکھاہے تووہ اپنی اس
غلط فہمی کو دور کرلے۔عیسائیت کے مقابلے میں ہم ایک گھر میں بیٹھے ہوئے
افراد ہیں۔ ہم تم سے لڑیں گے پھر گھر بیٹھ کرآپس میں دلائل کے ساتھ تصفیہ
کرلیں گے۔ اوراللہ اللہ خیرسلا۔ہم ناموس رسالت کے لیے ایک ہوچکے ہیں۔ ہم
ختم نبوت کے لیے بھی ایک ہوچکے ہیں، بلکہ میری اس بات سے اہل انصاف اتفاق
کریں گے کہ دیگر اجماعی مسائل وعقائد میں ہمیں ایک ہونا چاہیے
حالات یہ کہتے ہیں عجب وقت پڑا ہے ……ہر شخص خدا ہے
اس شہر خرابات کے احکام نئے ہیں……پیغام نئے ہیں
صیاد پرانے مگر دام نئے ہیں………الزام نئے ہیں
بے حال کیا معرکہ روح و بدن نے……احوال چمن نے
چرکے بھی لگائے ہیں عزیزانِ وطن نے…یارانِ کہن نے
اے اہل قلم ! میں تو قلم توڑ رہا ہوں ……سر پھوڑ رہا ہوں
رہوار خطابت کی عناں چھوڑ رہا ہوں……رخ موڑ رہا ہوں
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
۱۸دسمبر۲۰۱۰ء کوجمعیت علماء اسلام(س) گروپ کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس کا
لاہور میں انعقادکیاگیا۔ کانفرنس میں علمائ، عمادین علاقہ اورسیاسی طبقہ کی
کثیرتعداد نے شرکت کی۔
اتحاد اہل السنۃو الجماعۃ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے
مولاناعبدالشکورحقانی نے محفل کو زینت بخشی۔ ان کے ہمراہ مولانارضوان عزیز
بھی تھے، مولاناعبدالرئوف فاروقی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے مولانا
عبدالشکور حقانی دامت برکاتہم نے اپنی تجاویز یہ پیش کیں کہ:
۱: ایساقانون بنایاجائے کہ جس میں مقتدرشخصیات کی توہین کرنے والے
کوقرارواقعی سزا دی جائے۔
۲: سلمان تاثیرنے عدالت کے فیصلے کے بارے میں کہاکہ’’ یہ صحیح نہیں‘‘ جہاں
اس نے توہین رسالت کے مرتکب خاتون کی حوصلہ افزائی کی ہے وہاں اس نے توہین
عدالت بھی کی ہے کیونکہ اس کے بعد قانونی طورپرمعاملہ کوہائی کورٹ اوربعد
میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجاسکتاہے لیکن گورنرنے صاف کہاکہ یہ فیصلہ غلط
ہے یہ توہین عدالت بھی ہے لہذا اسے بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکیاجائے
تاکہ پتہ چل سکے کہ ہمارے ملک میں عدلیہ آزاد ہے۔ |