نوید!تم کہاں ہو؟

نویدکاتعلق نوشہروفیروزکے ایک خوش حال میمن گھرانے سے تھا۔وہ لیاقت میڈیکل کالج (LMC)جامشورومیں ملازم تھا۔اس کی عمریہی کوئی پچیس برس ہوگی۔اس کے دوستوں میں اس کے اسٹیٹس کے ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں سے زیادہ تعدادان نوجوانوں کی تھی،جونسبتاًغریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔وہ ان کے کام آتاتھا،ان کی مالی مددکرتاتھااوتصدقات وخیرات کے علاوہ اگرکسی کوبڑی رقم کی ضرورت ہوتی تھی تووہ بھی بطورقرض حسن دے دیاکرتاتھا۔وہ جب بھی ویک اینڈپرگھرآتاتواس کی زبان پراکثر اپنے انھی ضرورت منددوستوں کاتذکرہ رہتاتھا،نویداپنے والداوربھائیوں سے ان کے لیے رقم بھی لیتارہتاتھا،یوں اس کے گھروالے بھی انھیں جاننے لگ گئے تھے۔

وہ ستمبر2013کے اواخرکی بات ہوگی کہ نویدویک اینڈپرگھرنہیں آیا،اس کے گھروالوں نے ایک دن انتظارکے بعداس سے راابطہ کرنے کی کوشش کی تواس کے نمبربھی بندجارہے تھے،انھوں نے اس کے دوستوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تووہ بھی کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ان کی تشویش لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی۔نویدکاکوئی اتاپتانہیں تھا،سووہ ایل ایم سی آئے،انتظامیہ سے ملے،نویدکے روم میٹ ساتھیوں سے معلوم کیا،اس کے دوستوں سے پتاکرنے کی کوشش کی ،مگرسب بے سود۔نویدکہاں گیا؟آخراس سجیلے نوجوان کو،جواپنوں پرایوں سب کی آنکھ کاتاراتھا،زمین کھاگئی یاآسمان نگل گیا؟ان کومختلف وسوسے گھیرنے لگے،بالآخرانھوں نے تھانے میں نویدکی گم شدگی کی ایف آردرج کرائی اورواپس آگئے،اس کے علاوہ وہ کربھی کیاسکتے تھے۔وردوظائف،نوافل ودعاؤں ،صدقات وخیرات اورشب وروزکی تگ ودوکاسلسلہ جاری تھاکہ چنددن بعدپولیس نے ان سے رابطہ کیاکہ ایل ایم سی کے باہرایک لاش ملی ہے ،آکردیکھ لیں ،کہیں وہ نویدکی نہ ہو۔یہ وہاں گئے،انھوں نے لاش کودیکھا،لاش بری طرح مسخ تھی،انھوں نے اسے پہچاننے کی بساط بھرکوشش کی ،مگرانھیں اس لاش میں اپنے پیارے کی خوش بوتک محسوس نہ ہوئی۔بھلاباپ اوربھائی اپنے پیارے کو،جسے پالاپوسا،جوان کیا،نہ پہچانیں گے،سوانھوں نے کہاکہ یہ نویدکی لاش نہیں ،چنانچہ پولیس نے وہ لاش لاواث قراردے کرایک رفاہی ادارے کے سپردکردی جنھوں نے اس کی تجہیزوتکفین کردی۔وہ بے نیل ومرام واپس لوٹ آئے۔ابھی چندہی دن گزرے تھے کہ پولیس کی پھرکال آگئی۔یہ امیدوبیم کی کیفیات لے کرحاضرہوئے توان کی ملاقات نویدکے انھی دوستوں سے ہوئی ،جن کے غم میں وہ گھلتارہتاتھا۔وہ لاک اپ میں تھے اوراقرارواعتراف کررہے تھے کہ نویدکوہم نے ہی قتل کیاہے اوریہ کہ اس روزایل ایم سی کے باہرسے ملنے والی لاش اسی کی تھی۔اف اللہ!نویدکے والداوربھائی پرتوگویاآسمان ٹوٹ پڑاتھا۔ہم دردی وغم خواری کایہ صلہ۔غریب پروری کایہ بدلہ۔

غم زدہ باپ کے منہ سے صرف اتناہی نکل سکا:آخرتم نے میرے بیٹے کوکیوں قتل کیا،اس نے تمھارا کیا بگاڑاتھا؟

ہم نے اس سے بھاری قرض لے رکھاتھا،جسے ہم ادانہیں کرسکتے تھے،اس لیے ہم نے اسے قتل کردیا۔نویدکے دوست،جواب قاتل کے روپ میں نویدکے ورثاکے سامنے تھے،انھوں نے بڑی بے پرواہی سے یہ عذرگناہ پیش کیاتھا،جس میں حقیقت سے زیادہ بناوٹ جھلکتی تھی۔پولیس کااصرارتھا،صاحب !یہی قاتل ہیں آپ کے بیٹے کے،ہم نے کمال ذمہ داری ودیانت داری کاثبوت دے کرانھیں دھرلیاہے۔پولیس کوجھٹلاناان کے لیے بھی ممکن نہ تھاکہ قاتل خوداعتراف قتل کررہے تھے۔مبینہ قاتل اب بھی پابندسلاسل ہیں اورنویدکے اہل خانہ ہرروزجیتے اورہرروزمرتے ہیں۔انھیں اس بات کاافسوس کسی کل چین لینے نہیں دے رہاکہ کاش!ہم لاش وصول کرلیتے اوراسے اپنے ہاتھوں سے کفنادفنادیتے توکچھ توصبرآجاتا،مگران کااب بھی یہ کہناہے اس لاش میں نویدکی کوئی بات نہیں تھی۔انھیں اس بات کابھی قلق ہے کہ آخران کے جگرگوشے کوہم دردی وغم خواری اورغریب پروری کی اتنی بھیانک سزاکیوں ملی اوروہ بھی ان کے ہاتھوں ،جن کی ضروریات کووہ اولین حیثیت دیتاتھا۔

قارئین محترم١گزشتہ دنوں نوشہروفیروزکے سفرکے دوران یہ دل دوزداستان میرے سامنے آئی۔نویدکی والدہ انتقال کرچکی ہیں ۔نویدجیسے تعلیم یافتہ ،باصلاحیت وخوب رواورسب سے بڑھ کرانسانی ہم دردی سے سرشارنوجوان کے غم میں اس کے والد،بھائیوں اوربہنوں کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے۔ان کادل کسی طرح یہ ماننے کوتیارنہیں کہ ان کانویداب اس دنیامیں نہیں رہا،اب وہ اس کی صورت نہیں دیکھ سکیں گے۔انھوں نے مختلف وردووظائف بھی کیے ہیں اوران سب کی روشنی میں ان کااس بات پریقین آئے روزکامل ہوتاجارہاہے کہ نویدزندہ ہے۔مگروہ کہاں ہے؟اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی،وہ کسی جماعت سے بھی وابستہ نہیں تھا،وہ اپنے کام سے کام رکھنے والاایک پابندصوم وصلوةنوجوان تھا۔اسے بھلاکوئی کیوں قتل کرے گا۔وہ اس کے قتل کی صورت میں بھی یہ بات ماننے کے لیے تیارنہیں کہ اسے اس کے دوستوں نے قتل کیاہے۔اسے وہ پولیس کی روایتی مستعدی سے تعبیرکرتے ہیں اورپاکستانی پولیس کی ایسی مستعدی ویسے بھی شہرہ آفاق ہے۔انھیں مجرم کاپتاجرم سے پہلے پہ چل جاتاہے،مگروہ ہمیشہ صف بچ نکلتاہے ،کیوں کہ اس کے ساتھ معاملات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں،حصہ داری کے بعدایسی بے ادبی کیسے کی جاسکتی ہے،سوقرعہ فال کسی بھی قسمت کے مارے کے نام نکل آتاہے اوروہ نہ صرف دھرلیاجاتاہے ،بلکہ اس سے اعتراف جرم بھی کرالیاجاتاہے۔لطیفہ مشہورہے ،آپ نے بھی سناہوگاکہ ایس ایچ اوصاحب دفترمیں بیٹھے توکلائی سے گھڑی غائب تھی،انھوں نے فوری طورپرسپاہیوں کوگھڑی اورمجرم کی تلاش کاحکم دے دیا،پولیس کی دوڑیں لگ گئیںکہ آخرکوباس کاحکم اوراپنی نوکری کامسئلہ تھا۔کافی دیربعدباس کے سیل پربیگم صاحبہ کی کال آئی،وہ کہہ رہی تھیں:سرتاج!آج آپ جلدی میں اپنی گھڑی ڈریسنگ روم میں بھول کرچلے گئے۔صاحب نے آرڈرجاری کیا،گھڑی کاسراغ لگ چکاہے،لہٰذاتلاش کاسلسلہ موقوف کردیاجائے۔آگے سے فرماں برداربرق رفتارماتحتوں کاجواب تھا:صاحب!ہم نے درجن بھرآدمی پکڑے ہیں اوران میں سے ہرایک یہ اقرارکررہاہے کہ صاحب کی گھڑی میں نے چرائی ہے اوران سے مسروقہ گھڑی بھی برآمدکرلی گئی ہے۔کہیں ایساتونہیں کہ کسی بااثرقاتل پرپردہ ڈالنے کے لیے نویدکے دوستوں کوقاتل بنادیاگیاہو۔

آمدم برسرمطلب،اگرنویدکے گھروالوں کوپولیس سے کوئی توقع نہیں ہے توکوئی حیرت کی بات بھی نہیں۔ان کی جس فریادکوآپ تک پہنچاناہے ،وہ یہ کہ ان کی ان کے لاڈلے کے بارے میں وظائف ،عملیات یاکسی اورذریعے سے راہ نمائی کی جائے،تاکہ انھیں کوئی کوئی یقینی بات معلوم ہو، اگروہ اس دنیامیں نہیں رہاتوانہیں صبرآجائے،اوراگروہ بقیدحیات ہے تووہ اس کی تلاش کے حوالے سے مزیدکوشش کریں۔اس سلسلے میں اہل دل قارئین کسی قسم کی مددکرسکیں توو ہ مجھ سے اس نمبرپررابطہ کرسکتے ہیں:03082987234

مولانامحمدجہان یعقوب
ریسرچ اسکالر،بنوریہ ریسرچ اکیڈمی،جامعہ بنوریہ عالمیہ
انچارج ادارتی صفحہ،ہفت روزہ اخبارالمدارس ،کراچی

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 280305 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More