چند ماہ پہلے میں جب پاکستان گیا تو وہاں میں یونہی اپنے
کمرے میں بیٹھا انٹرنیٹ استعمال کر رہا تھا کہ اچانک مجھے بھوک محسوس ہوئی
اور میرا کچھ کھانے کو مَن چاہا ۔ دوپہر کے 4بج رہے تھے اور گھر میں بھی
کچھ کھانے کے لیے موجود نہیں تھا۔ میں نے کھانے کے لیے بازار سے کچھ
منگوانے کے لیے اپنے بھانجے کو آواز دی اور ساتھ ہی اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا
تو میری جیب سے چند سکے نکلے ۔ جس میں ایک ایک درہم کے پانچ سکے تھے یعنی
کل پانچ درہم اور ایک پانچ روپے کا سکہ تھا ۔ اب مجھے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی
تھی کہ میں ان پانچ روپے کی کھانے کے لیے بازار سے ایسی کیا چیز منگواؤں جس
سے میری بھوک بھی پوری ہو جائے اور وہ چیز بآسانی بازار سے برآمد بھی ہو
جائے۔ پاکستان میں مہنگائی اتنی زیادہ تھی کہ ان پانچ روپوں سے کوئی ایسی
چیز نہیں مل سکتی تھی جس سے میری بھوک پوری ہو جاتی ۔
اور پھر میری نظر ان پانچ درہم پر پڑی جو کہ ابھی بھی میرے ہاتھ میں موجود
تھے ۔اس وقت میں سوچنے لگا کہ اگر ابھی میں دبئی میں ہوتا اور وہاں پر میرے
پاس اس وقت کچھ کھانے کے لیے موجود نہ ہوتا تو میں ہوٹل یا دکان سے اُن
پانچ درہم کی کوئی بھی ایسی چیزبآسانی منگوا کر کھا لیتا جس سے میرا پیٹ
بھر جاتا اور میری بھوک بھی مٹ جاتی ۔
اس وقت مجھے اپنے ملک کے پانچ روپوں کی حیثیت اُن پانچ درہم کے سامنے صرف
کیڑے مکوڑوں سی لگی جو کہ زمین پر رینگنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ مجھے
اپنے ملک کی اتنی زیادہ گری ہوئی کرنسی پر بہت دکھ ہوا اور اُس عظیم الشان
پاک سر زمین کے غریب عوام پر بہت ترس آیا ۔ میں اُن کے بارے میں سوچنے لگا
کہ وہ لوگ کیسے اپنا خون پسینا ایک کر کے کتنی مشقتوں کے بعد پانچ روپے
کماتے ہیں اور پھر بھی ان کی قدر نہیں کی جاتی ۔بلکہ ہمارے حکمران اِس عظیم
الشان پاک سرزمین کے غریب عوام کے خون پسینہ کی کمائی پر عیش کرتے نظر آتے
ہیں ۔ مہنگائی کو کم کرنے کی بجائے اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ ان کے لیے وہ
پانچ روپے کمانے بہت مشکل ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو
جاتا ہے ۔
آج جب ڈالر کی ساکھ گرتی ہوئی نظر آ رہی ہے ، ڈالر دن بہ دن کمزور ہوتا جا
رہا ہے لیکن پھر بھی مہنگائی کو رَتی بھر فرق نہیں پڑ رہا۔ |