نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "تم میں سے جب کسی
کا انتقال ہوجائے تو اسے اس کی خوبیوں کے ساتھ یاد کرو"دنیا میں کوئی بھی
معصوم عن الخطا نہیں بڑے سے بڑے متقی پرہیزگارلوگوں کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ
لغزشیں وابستہ ہوتی ہیں اور اسی طرح بڑے سے بڑے گناہگار اور نافرمان لوگوں
کے دامن میں کچھ نہ کچھ نیکیاں ہوتی ہیں ،آج کے دور میں جو لوگ کبائر سے
اجتناب کرتے ہوں رزق حلال کی دوڑدھوپ میں مصروف ہوں حقوق العباد میں اپنے
معاملات صاف رکھتے ہوں دوسروں کے دکھ درد میں کام آتے ہوں تو اگر ان کے
اعمال میں کچھ گناہ ہوں گے توامید ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کے گناہوں کو
معاف کر کے انھیں جنت الفردوس میں داخل کر دیں گے ۔جب میں نے اخبار میں
جسارت کے سابق سٹی ایڈیٹر جناب فیض الرحمن صاحب کے انتقال کی خبر پڑھا تو
اچانک دل دھک سے ہو کر رہ گیا کہ کتنا ؑعرصہ ہوگیا کہ فیض صاحب سے ملاقات
نہیں ہوئی میری آخری ملاقات کئی سال پہلے ناظم آباد میں ضلع وسطی کے دفتر
والی گلی کے کارنر پر ہوئی تھی وہ اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ ملے وہ
تکبیر کے دفتر سے آرہے تھے ،میں ضلع کے دفتر جا رہا تھا اب سوچتا ہوں وہ
بھی کیا زمانہ تھا جب فیض صاحب سے ہماری روز ملاقات ہوتی تھی ۔مئی 1970میں
جسارت کا اجراء ہوا تھا آج اس کی عمر 44ہورہی ہے اس مدت کو ہم جسارت کے کئی
ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں اس کا پہلا دور 1970سے 1977تک یعنی بھٹو دور
حکومت کا جسارت اس کا دوسرا دور اس کے بعد شروع ہوتا ہے جو جنوری1984تک کا
ہے کہ اس مرحلہ پر صلاح الدین صاحب جسارت سے علحد ہ ہو جاتے ہیں تیسرا دور
1990تک کا ہے جب جسارت کو بند کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو ارکان جماعت اور
کارکنان جسارت آڑے آجاتے ہیں انتظامیہ اس فیصلے کو بدلنے پر مجبور ہو جاتی
ہے جسارت کے 74ریگولر کارکنان میں سے 62کارکنان جسارت کوزندہ رکھنے کے لیے
رضاکارانہ طور پر مستغفی ہو جاتے ہیں ۔جسارت کے ادوار کی کہانی تو بڑی طویل
ہے ہم چونکہ فیض صاحب کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اس لیے یہ تذکرہ بھی
ضروری ہے کہ یہ بتایا جائے کے جسارت کا ماحول اس کی کیفیات اور کارکنان کے
آپس کے تعلقات ہر دور میں مختلف رہے ہیں ۔ہم نے جسارت میں اس کے دوسرے دور
سے وابستگی اختیار کی تھی جب کہ فیض صاحب جسارت کے دور اول کے کارکن تھے
،اور جسارت کا دور اول سب سے زیادہ خوبصورت ،یاد گار،کارکنان جسارت کی
ایثار و قربانیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس کے مزے اور خوشبو کو آج بھی اس
دور کے لوگ اپنی حسین یادوں میں بسائے ہوئے ہیں ،گو کہ اگر دیکھا جائے تو
اس دور کے تمام اہم افراد میری یادداشت کے مطابق سوائے متین الرحمن مرتضیٰ
اور فیاض صاحبان کے اس دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں کل میرے پاس کشش
صدیقی مرحوم کے صاحبزادے واصف کا برقی پیغام آیا جس میں فیض صاحب کی رحلت
کی خبر دی گئی تھی جسارت کے پہلے دور کے جو نمایاں نام ہیں اس میں صلاح
الدین صاحب ،کشش صدیقی صاحب ، متین صاحب ،احمد سعید قریشی صاحب ،فیض الرحمن
صاحب ،فیاض صاحب ،ذاکر صاحب،حکیم اقبال حسین صاحب ،۔۔۔ملک صاحب جو سرکولیشن
منیجر ہوتے تھے پورا نام یاد نہیں ،سے سارے لوگ کم وبیش جسارت کے دوسرے دور
میں ہمارے ساتھ بھی رہے اور جب یہ حضرات اس دور کا ذکر کرتے تھے جب جسارت
آئے دن بند ہوتا تھا صلاح الدین صاحب ،ذاکر صاحب اور پرنٹر قاسم نورانی تو
گرفتار ہو جاتے تھے جب کہ جسارت کے دیگر کارکنان بے روزگار ہو جاتے تھے
لیکن یہ لوگ بلکہ فیض صاحب بھی اس کا ذکر کرتے تھے کہ اس بے روزگاری میں ہم
سب روز جسارت ایک دوسرے سے ملنے کے لیے آتے تھے اور اس بیروزگاری اور فاقہ
کشی میں جو مزہ تھا اس کا ہم تصور نہیں کر سکتے ۔فیض صاحب سے میری پہلی
ملاقات جسارت میں آنے سے پہلے اس طرح ہوئی کہ ایک کام سے میں لیاقت آباد
ڈاکخانے جناب شمیم صاحب کے پا س ان کی دکان نورسی پبلیکیشنز گیا وہ کام فیض
صاحب تک پہنچنا تھا وہاں پر جناب کشش صاحب بیٹھے ہوئے تھے ،میں نے شمیم
صاحب سے کہا کہ مجھے ایک کام سے جناب فیض صاحب سے ملنا ہے انھوں نے کشش
صاحب کی طرف ان کا تعار ف کراتے ہوئے اشارہ کیا کہ یہ آپ کو فیض صاحب سے
ملا سکتے ہیں ،یہ میری کشش صاحب سے بھی پہلی ملاقات تھی دوسرے دن ہم کشش
صاحب کے ساتھ فردوس کالونی جناب فیض صاحب کے گھر پر تھے ،جسارت کی بندش کو
کافی دن ہو چکے تھے اور اب اس کے دوبارہ اجراء کے امکانات بہت کم تھے اس
لیے صلاح الدین صاحب نے فیض صاحب کو ایک کمپنی مائیکا س ایسوسی ایٹ میں
رکھوادیا تھا میں بھی اس ادارے میں ملازمت کے حصول کے سلسلے میں فیض صاحب
کے پاس گیا تھا ،دراصل یہ پکی پکائی روٹی والا ادارہ تھا ،بھٹو کے بارے میں
عوام میں یہ شکوک و شبہات پرورش پارہے تھے کہ اس نے سوشلزم کا نعرہ لگا کر
کامیابی حاصل کی ہے اس لیے روس کی طرز پر ایسا نظام تشکیل دیا جارہا ہے کہ
سب لوگ فیکٹریوں میں کام کریں گے اور انھیں سرکار کی طرف سے ہوٹلوں میں
لائن لگا کر اپنے لیے کھانا حاصل کرنا ہوگا ،اور یہ پکی پکائی روٹی کے سسٹم
کا تعارف اس کی طرف پہلا قدم ہے ،اس خوف کی وجہ سے بھی اور پھرکچھ بھٹو
مخالف سیاسی کارکنان کی طرف سے یہ خاموش مہم بھی چلائی گئی کہ اس پکی پکائی
روٹی میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے ادویات کو شامل کیا گیا ہے کہ اس
کے ذریعے سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا مقصود ہے ،اس طرح بھٹو صاحب
کی پکی پکائی روٹی کا پلان ناکامی کا شکار ہوگیا فیض صاحب سے اس پہلی
ملاقات کے بعد دوسری ملاقات جسارت میں ہوئی جب میں نے جسارت جوائن کیا ،اس
کے بعد سے تو پھر تقریباَ روز ہی وہ جب دو بجے کے بعد دفتر آتے تو سٹی
کاکام شروع ہونے میں کچھ دیر ہوتی وہ پھر شعبہ حسابات میں فخر فاروقی صاحب
جو اکاؤنٹس منیجر تھے کے پاس آکر بیٹھ جاتے تھے ہنسی مذاق بات چیت کے علاوہ
وہ چائے پیتے اور کبھی کبھی فرمایش کرتے کہ جاوید سگریٹ منگاؤ ہم کہتے فیض
صاحب آپ کو دل کا مرض ہے سگریٹ نہ پیا کریں ،فیض صاحب کو میرے خیال میں
1980میں دفتر جسارت ہی میں دل کا دورہ پڑا تھا ایڈمنسٹریشن کے ساتھی جناب
افضل صاحب اور دیگر شعبہ ادارت کے ساتھی انھیں کارڈیو لیکر گئے تھے جہاں وہ
کئی دن تک داخل رہے پھر ان کا مسلسل علاج چلتا رہا فیض صاحب سوشل روابط
رکھنے والے مرنجا مرنج شخصیت کے مالک تھے کسی ادارے میں کسی ساتھی کا کوئی
کام نہ ہو پا رہا ہو وہ اپنے اثر و رسوخ استعمال کرکے اس کا کام کرا دیتے
تھے۔میں اس زمانے میں بلدیہ کا کونسلر تھا چھوٹے بھائی کے لیے والدہ کہتی
رہتی تھیں کہ تم دنیا بھر کے لوگوں کو بلدیہ میں رکھا رہے ہو مگر اپنے
چھوٹے بھائی کو نہیں رکھا سکتے میں ان سے کہتا کہ میں اس کو پی آئی اے یا
کے ای ایس سی میں رکھوانا چاہتا ہوں یہ اچھے ادارے ہیں بہر حال میں نے فیض
صاحب سے بات کی انھوں نے اس وقت کے چیرمین پرویز بٹ سے ملاقات کرکے بھائی
کو کے ای ایس سی میں ملازمت دلادی ،فیض صاحب کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا
وہ بڑی اسٹائلش گفتگو کرتے تھے جس طرح سونے کے زیور میں اصل سونے کے ساتھ
کچھ کھوٹ ملی ہوتی ہے جو بالکل اصل کی طرح ہی لگتی ہے بلکہ کہا یہ جاتا ہے
کہ اگر سونے میں کھوٹ نہ ہو تو اس کی بنائی میں مضبوطی اور خوبصورتی نہیں
آسکتی بالکل اسی طرح فیض صاحب کے جملوں کی ادائیگی میں بعض کھوٹے اور غیر
معیاری الفاظ اس طرح جڑے ہوئے ہوتے کہ وہ سننے والوں کے کانوں کو بھاری
محسوس نہ ہوتے بلکہ وہ اس سے لطف اندوز ہوتے ۔ایک دفعہ صلاح الدین صاحب کے
گھر پر جسارت کے ایڈیٹوریل کے ذمہ داران اور منیجرز حضرات کی ایک لنچ میٹنگ
تھی جس میں محمود اعظم فاروقی صاحب بھی شریک تھے اس محفل میں فیض صاحب کے
طرز گفتگو پر بات چل نکلی کسی نے کہا کہ اب اس طرح کی بات چیت فیض صاحب کی
عادت کا ایک حصہ بن چکی ہے وہ اس سے جان چھڑانا بھی چاہیں تو چھڑا نہیں
سکتے ،اس پر محفل میں شریک اطہر ہاشمی(ایڈیٹر جسارت)نے کہا کہ اسی وجہ سے
تو فیض صاحب تلاوت قرآن پاک نہیں کر پاتے ۔ ان کے اس جملے نے پوری محفل کو
کشت زعفران بنا دیا ۔فیض صاحب جب اپنی سیٹ پر کام کرنے بیٹھتے تو سرجھکائے
کام میں منہمک رہتے سامنے سے کون آیا کون گزر گیا اس کا احساس اس وقت ہوتا
جب کوئی خود انھیں متوجہ کرتا میز پر ان کی چائے رکھی رہتی جو ایک گھنٹے
میں ختم ہوتی کم دودھ کی کڑک چائے کینٹین والے سرفراز ان کے لیے خصوصی طور
سے بناتے تھے فیض صاحب کے کپ میں کبھی چائے ختم نہیں ہوتی تھی اس لیے کہ
چائے والا خود ہی نئی چائے کا کپ رکھ کر خالی پیالی اٹھا لیتا تھا ۔فیض
صاحب یونین پالیٹکس میں بھی متحرک رہے ہماری ان کے ساتھ اس حوالے ایک اچھی
ایسوسی ایشن تھی ہم لوگ باہمی مشورے سے اپنے پینل کا اعلان کرتے تھے ہمارے
مخالف گروپ میں ظہور احمد نیازی اور ادریس بختیار ہوتے تھے فیض صاحب والا
گروپ انتظامیہ کا گروپ کہلاتا تھا شروع شروع میں تو کامیابی کم ہی ملتی
لیکن جب اعجاز ہاشمی فوٹو گرافر ہمارے ساتھ ہوئے ان کی ہر دلعزیزی کی وجہ
سے اگلے سالوں میں ہمارے پینل یعنی فیض صاحب کے لوگ کامیاب ہونے لگے اعجاز
ہاشمی کی فیض صاحب سے بڑی اچھی دوستی تھی وہ ان کا خاص خیال بھی رکھتے تھے
احمد سعید قریشی کا جھکاؤ بھی عموماَفیض صاحب کی طرف رہتا 1990کے بحران کے
بعد اس طرح کی سرگرمیاں ختم ہو گئیں کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ چلے گئے فیض
صاحب نے بھی ہفت روزہ تکبیر جوائن کرلیا ،دوستوں کی وہ محفلیں ،یونین
سرگرمیاں ،ہوٹلوں اور پریس کلب کی بیٹھکیں،وہ اب ہم سب کی یادوں کا ایک
سرمایہ ہیں فیض صاحب جسارت کے تین ادوار تک یعنی 1970سے 1990تک کے ساتھی
رہے فیض صاحب کی وفات سے جسارت کے دور اول بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا
ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فیض صاحب کے حسنات کو قبول فرمائے ان کی لغزشوں
در گزر فرمائے ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین |