سونے کا نوالہ کھانے والے

کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے، یا منہ میں سونے کا چمچہ لے پیدا ہوا ہے، اردو کے محاورے ہیں۔ لیکن حقیقت میں سونا کھانا اور اسے پیٹ میں رکھنا ایک حیرت انگیز کام ہے، پرانے حکیموں کے بارے میں یہ سنا گیا تھا کہ وہ بادشاہوں کے لئے جو کشتے بنا تے تھے، اس میں سونے کی آمیزیش بھی کرتے تھے، لیکن اب تو یہ حیرت انگیز قصہ ہے کہ ایک تاجر نے اپنے پیٹ میں سونے کی بارہ اینٹیں جمع کرلی تھی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 63 سالہ بھارتی تاجر کو قے اور پاخانے میں تکلیف کی شکایت کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ تاجر نے ڈاکٹر کو بتایا کہ انھوں نے بیوی سے لڑائی کے بعد غصے میں آ کر بوتل کا ڈھکن نگل لیا تھا لیکن جب ڈاکٹروں نے ان کا آپریشن کیا تو انھیں ان کے معدے سے بوتل کی ڈھکن کے بجائے تقربیاً چار سو گرام کا سونا ملا۔ آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایا کہ پولیس اور کسٹم حکام نے تاجر سے پوچھ گچھ کی ہے اور سونے کو اپنے قبضے میں لیا ہے۔ دنیا میں بھارت سب سے زیادہ سونا استعمال کرنے والا ملک ہے جہاں دھات کی درآمد پر ٹیکس میں اضافہ کی وجہ سے اس کی اسمگلنگ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ سر گنگا رام ہسپتال میں سینیئر سرجن ڈاکٹر سی ایس رام چندراں نے کہا یہ پہلی دفعہ ہے کہ میں نے کسی مریض کے پیٹ سے سونا نکالا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک مریض سے ایک کلو وزنی مثانے کا پتھر نکلا تھا لیکن ایک مریض کے پیٹ میں سونا ایک ناقابلِ یقین بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تھکا دینے والا تین گھنٹے کا آپریش تھا۔ وہ ایک بزرگ مریض تھا اور ہمیں احتیاط سے کام لینا تھا۔ ہمیں ان کی پیٹ سے سونے کی 12 اینٹوں کا ڈھیر ملا۔انسانی جسم اﷲ کی عجیب و غریب نعمت ہے، اس کے کمالات انسانی زندگی میں جا بجا نظر آتے ہیں، پاکستان میں ایک ڈرامہ ایک انڈونیشی خاتون نے رچایا تھا، بہت زمانے کی بات ہے، خاتون کے پیٹ سے آوازیں آتی تھیں ، لوگ اسے معجزہ سمجھتے تھے، اس زمانے میں میڈیا اس قدر ترقی یافتہ نہ تھا، اخبارات میں اس قصے کی بڑی بڑی خبریں لگتی رہیں، پھر اچانک انکشاف ہوا کہ اس نے پیٹ پر ٹیپ ریکارڈ باندھا ہوا تھا، سادہ لوگ تھے، اس قصے سے بہت دن تک لوگ لطف اٹھاتے رہے، اب جد ید دور میں اسمگلنگ کے لئے انسانی جسم کو استعمال کیا جاتا ہے، جسم کے حصوں میں ہیروین، اور دیگر منشیات کی تھیلیاں اور کیپسول چھپائے جاتے ہیں ، کچھ پکڑے جاتے ہیں، کچھ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ کے جسم میں یہ کیپسول یا تھیلیاں پھٹ جاتی ہیں، اور وہ موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب ایسے آلات ، درون بین، نگرانی کرنے والے کیمرے، ایکس رے کی مشین الٹر ساونڈ جیسی چیزوں سے جسم کے اندر چھپی ہوئی اشیاء کا سراغ لگایا جاتا ہے۔ یہ سامان نگرانی کی چوکیوں پر انسانی جسم میں موجود منشیات کے اجزا کی نشان دہی کے لیے استعمال ہوتاہے۔ اس سامان سے تلاشی کا عمل کافی زیادہ تیز ہوگیا ہے۔ اور منشیات کی ساخت کا زیادہ درست طور پر تجزیہ ہو جاتا ہے۔ منشیات سمگل کرنے کی کوششوں میں زیادہ ر افراد غیر ملکی ہوتے ہیں، جن میں عورتیں اور مرد شامل ہوتے ہیں۔ منشیات سمگل کرنے والوں میں یورپین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے باشندے زیادہ شامل ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ برطانوی، افغانی اور نائیجرین شہری پکڑے جاتے ہیں، یہ افراد ہیروئن کیپسول میں بھر کر پیٹ اور جسم کے مختلف حصوں کے اندر چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن کا کھوج جدید آلات سے اور الٹرا ساونڈ سے کیا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں اﷲ وسایو ایک ایسا زندہ کردار ہے ، جو شیشہ، اینٹیں، پتھر، لوہا، کیل، لکڑی، اورگھاس سب کچھ کھا جاتا تھا۔ لکڑ ہضم اور پتھر ہضم کا محاورہ تو ہر ایک نے سنا ہے اور شاید کچھ لوگوں نے مشاہدہ بھی کیا ہو لیکن ایسا کم ہی لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ کوئی انسان شیشہ، اینٹیں، پتھر، لوہا، کیل، لکڑی، گھاس اور نیز ہر چیز کھالے اور اسے کچھ بھی نہ ہو۔اﷲ وسایو شیدی عجیب و غریب کمالات دکھا تا تھا۔ وہ کہتا’سائیں یہ تو کچھ بھی نہیں، مجھے حکومت سے اجازت لے کر دیں تو چھ ماہ کے اندر دس ڈبوں والی حال ہی میں شروع کردہ تھر ایکسپریس کھا جاؤں گا،۔ اکیاون سالہ اﷲ وسایو شیدی نے حیدرآباد سندھ کے ریلوے سٹیشن کے سامنے باچا خان چوک پر جمع ہونے والے ایک مجمعے کے سامنے یہ دعویٰ کیا۔ بی بی سی کے نمائندے نے اس بارے میں لکھا کہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین میں میں ہر کوئی اﷲ وسایو شیدی کے قصے بیان کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی کہتا ہے اﷲ وسایو پچاس آدمیوں کا کھانہ اکیلے کھا جاتا ہے اور کسی کا کہنا کہ وہ ایک من گھاس کھالیتا ہے لیکن کوئی حرام چیز نہیں کھاتا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔میری ملاقات اﷲ وسایو سے حیدرآباد کے ریلوے سٹیشن کے پاس باچا خان چوک کے سامنے ایک تنگ اور گندی گلی میں واقع ایک مسافر خانے میں ہوئی۔ وہ اس مسافر خانے میں کئی ماہ سے مقیم ہیں اور صبح ہوتے ہی مختلف علاقوں میں اپنا کرتب دکھانے نکل جاتے ہیں اور شام گئے واپس پہنچتے ہیں۔ہلکے ہرے رنگ کے میلے کپڑے اور پھٹی ہوئی چپل پہنے ہوئے اﷲ وسایو شیدی کے ہمراہ جب چوک پر آئے تو انہوں نے مٹی کے پکے ہوئے برتنوں کے ایک ریڑھے سے ایک پیالہ اٹھایا۔اﷲ وسایو نے پیالہ توڑ کرجب ٹکڑے کھانے شروع کیے تو وہاں بیسیوں افراد کا مجمع لگ گیا اور میرے سمیت ہر شخص انہیں حیرت سے دیکھنے لگا۔

اﷲ وسایو کو جاننے والے نے ایک شخص نے آواز لگائی کہ اس شخص نے دو روز قبل ایک خالی بوتل توڑ کر کھاگیا۔جب وہاں سے تھوڑا آگے ایک لوہے کی دوکان پر آئے اور نٹ بولٹ اور کیل خریدے۔لوگ اس کے بارے میں بہت سی باتیں کرتے، لیکن وہ کہتا

’میں ان پڑھ آدمی ہوں میرے پاس جن ہوتے یا کالا علم تو کیا در در کے دھکے کھاتا۔ اﷲ وسایو نے جب چھ عدد بولٹ نگل لیے۔ تو مجمع اتنا بڑھ گیا کہ ٹریفک بلاک ہوگئی اور ایک سپاہی پہنچ گیا اور کہا کہ مہربانی کرکے یہ بند کریں سڑک بند ہوگئی ہے۔اتنی دیر میں انہوں نے ایک درجن کے قریب پونے انچ والے کیل کھالیے۔جس پر مجمعے سے لوگوں نے مختلف باتیں کرنا شروع کردیں۔ ایک نے کہا کہ یہ نظر بندی کر رہا ہے۔ دوسرے نے کہا اس کے پاس جن ہیں جو ان کے منہ سے چیزیں نکال لیتے ہیں اور ان کے پیٹ میں چیزیں نہیں جاتیں۔کسی نے کہا کہ اس کے پاس کالا جادو ہے۔ایک مولوی صاحب نے کہا کہ ان سے پہلے بسم اﷲ یا کلمہ پڑھوائیں پھر یہ نہیں کھا سکے گا۔ ایک نوجوان نے کہا کہ انہیں پیر فقیر کی دعا ہے بس اﷲ والا آدمی ہے۔خیر اﷲ وسایو سب کی باتیں سنتے رہے اور کہا کہ میں مسلمان ہوں کلمہ پڑھ کر کھانے کو تیار ہوں اور الٹرا ساؤنڈ کرانے کے لیے بھی تیار ہوں تاکہ لوگ دیکھیں کہ ساری چیزیں پیٹ میں ہیں یا نہیں۔ لیکن اس کے لیے انہوں نے ایک شرط رکھی کہ جو بھی چیلنج کرے گا اسے ہارنے پر ایک ہزار روپے جرمانہ دینا ہوگا۔میں نے سب سے پہلے مولوی صاحب کی طرف مائیک کیا تو وہ مسکراتے ہوئے چل دیے اور پورے مجمع میں سے کسی ایک شخص نے بھی اﷲ وسایو کو چیلینج قبول نہیں کیا۔اﷲ وسایو نے بتایا کہ انہیں ایک جاننے والا شخص کراچی کے اس ہوٹل میں لے گیا جہاں چار سو روپے کے عوض پیٹ بھر کر کھانے کا اختیار تھا۔اﷲ وسایو نے بتایا کہ جب انہوں نے پچاس آدمیوں کا کھانا کھالیا تو ہوٹل مالک نے ہاتھ جوڑے اور چار سو روپے پلے سے دیے اور کہا کہ بوفے آپ کے لیے نہیں ہے۔میں نے اکیلے میں جب اﷲ وسایو سے پوچھا کہ آپ کے پاس جن ہیں، کالا علم ہے آخر قصہ کیا ہے تو اﷲ وسایو کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے ’ صاحب آپ بھی۔۔۔!’میں ان پڑھ آدمی ہوں میرے پاس جن ہوتے یا کالا علم تو کیا در در کے دھکے کھاتا۔ بس خدا نے انسان کے روپ میں کیا بنا دیا ہے۔ انگریز کے ملک میں پیدا ہوتا تو وہ تحقیق کرتے کہ قدرت کی کیا کرشمہ سازی ہے۔اﷲ وسایو کا قصہ کئی سال پرانا ہے، نہ اب کہاں ہوگا، شائد مر کھپ گیا ہو، لیکن امریکی سائنس دانوں نے انسانی جسم میں حل ہوجانے کی صلاحیت رکھنے والے انتہائی باریک برقی آلات ایجاد کر لیے ہیں۔ان دنوں مغربی ذرائع ابلاغ عامہ نے ایسی اطلاعات دی ہیں۔ جن میں انٹیلی جینس کے حوالے سے نئے خوفناک منصوبے تیار کیئے جا رہے ہیں ۔ جس میں انسانی جسم میں آلات اور بم بھی رکھے ۔ان دنوں مغربی ذرائع ابلاغ عامہ نے انٹیلی جینس کے حوالے سے ایک نئے خوفناک منصوبے کے بارے میں اطلاع دی ہے۔ میڈیا کے مطابق ایک گروہ انسانی بم بنانا چاہتا ہے۔ اس گروہ کے لیے کام کرنے والے جراحوں نے برطانیہ کے بہترین اسپتالوں میں تربیت حاصل کرکے انسانی جسم میں بم نصب کرنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ واضح رہے کہ ایسے بم کا پتہ لگایا جانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔کیا، یہ کوئی من گھڑت افسانہ ہے یا پھر عالمی برادر کو زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے؟ تجزیہ نگار یوگینی یرمولائیو اور ماہر شرقیات ویکتور نادیئین رائیوسکی کا کہنا تھا کہ یہ گروہ کچھ بھی کرنے کے قابل ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سن دو ہزار نو میں بم بنانے والے ماہر ابراہم حسن العسیری نے اپنے بھائی عبداﷲ کے جسم میں بم نصب کیا تھا تاکہ وہ سعودی انٹیلی جینس چیف کو ہلاک کرے۔ یہ معلوم ہے کہ ابراہم العسیری نے اپنے بھائی کے جسم میں انتہائی طاقت ور بم نصب کیا تھا لیکن اْس مرتبہ جراحی نہیں کی گئی تھی۔ دھماکہ خیز مادہ انسانی جسم میں قدرتی طور موجود سراغ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن قاتلانہ حملہ ناکام رہا تھا، اس میں صرف خودکش بمبار ہلاک ہو گیا تھا۔ لیکن یہ ایک پروپیگنڈہ ہی تھا ، کیونکہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ خودکش حملہ آوروں کے جسم میں بم نصب کرنے کا مقصد کیا تھا، کیونکہ یہ ایک ا مشکل طریقہ تھا۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ جراحی کے بعد ٹانکے ایک طویل عرصے تک دور نہیں ہوتے ۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ کپڑوں کے نیچے سے ٹانکے نہیں دکھائی دیں گے۔ مختصر یہ کہ انسانی بم بنائے جانے کے بارے میں اطلاعات من گھڑت افسانہ ہی تھی۔ مغربی ممالک میں عام لوگوں کو ڈرانے کی کوشش میں یہ بات بھی پروپیگنڈہ کا حصہ تھی۔ لیکن مغربی سائنس دانوں نے انسانی جسم میں تحلیل ہوجانے والے آلات ضرور بنا لیئے ہیں۔ ایک جریدے ’’سائنس‘‘ میں شایع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ آلات اپنا کام مکمل کرنے کے بعد جسم میں حل ہو جائیں گے۔ تحلیل ہونے والے آلات کا بنیادی مقصد زخموں کو انفیکشن سے بچانا ہے۔ یہ آلات سیلیکون اور میگنیشیم آکسائیڈ کے بنے ہیں اور تحفظ کے لیے انھیں ریشم کے باریک ترین پردوں میں لپیٹا گیا ہے۔یہ تحقیق ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس’’Transient Electronics‘‘ کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے اور اسے ان محققوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے جو قبل ازیں جلد کے ساتھ پھیلنے اور سکڑنے والے آلات بناچکے ہیں۔محققین نے ان حل ہو جانے والے آلات کو روایتی برقیات کے مقابلے میں ’’پولر اپوزٹ‘‘ یعنی قطبی مخالف کا نام دیا ہے۔ روایتی برقی آلات پائیدار اور ٹھوس ہوتے ہیں جب کہ یہ آلات جسم کے ساتھ پھیلتے سکڑتے ہیں اور جسم میں ہی حل ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔ٹفٹ اسکول آف انجنیئرنگ کے پروفیسر فائرنزو اومینیٹو کے مطابق اس طریقہ کار میں دو عوامل کار فرما ہیں: ایک یہ کہ اس میں اشیا حل ہو جاتی ہیں اور دوسرے یہ کہ انھیں کب حل ہونا ہے۔سلیکون پانی میں تحلیل ہو ہی جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روایتی برقیات میں سلیکون سے بننے والے آلات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ تحلیل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگاتے ہیں۔سائنس دانوں نے سلیکون کی ایک ایسی باریک جھلی تخلیق کی جو ہفتوں اور دنوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس جھلّی کا نام انھوں نے ’’نینو میمبرین‘‘ رکھا ہے۔ ان آلات کے تحلیل ہونے کی رفتار کو ریشم کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، اور یہ مادہ ریشم کے کیڑے سے حاصل کیا جاتا ہے۔پروفیسر اومینیٹو کا کہنا ہے، ’’موجودہ آلات کے مقابلے میں ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس کی کار کردگی بہتر ہے کیونکہ وہ ماحول میں ایک معینہ مدت کے اندر پوری طرح سے گھل جاتے ہیں، خواہ منٹوں میں یا برسوں میں۔‘‘تجربے گاہ میں ان آلات کی متعدد اقسام کے استعمال پر تحقیق کی گئی ہے جن میں چونسٹھ میگا پکسل ڈیجیٹل کیمرے سے لے کر حرارت جانچنے والے آلات اور شمسی خلیے شامل ہیں۔زخموں کو انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کو دوسرے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر جسم کے اندر ایسی دواوں کا داخلہ جو آہستہ آہستہ خارج ہوتی رہیں۔ مزید یہ کہ اس ٹیکنالوجی سے بنے سینسر دل اور دماغ میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کو ایسے کمپیوٹر اور موبائل فون بنانے کے لیے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے جو ماحول دوست ہوں۔ برقیاتی کچرا ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ایسے کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر برقیاتی آلات بنالیے جائیں جو اپنی مدت پوری ہونے کے بعد کچرے کے ڈھیر کی صورت میں پڑے رہنے کے بجائے گْھل کر ختم ہوجائیں تو اس سے ماحول کو کتنا فائدہ ہوگا۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387656 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More