آپ عربی کیسے سیکھیں ؟

فون ،فیس بک ،ٹویٹر ،ای میل ،وائبر اور سکائپ وغیرہ کے ذریعے آئے روز ملک بھر اور آج کی الیکٹرونک دنیا کے کونے کونے سے ہمارے دوست احباب ہم سے یہی سوال کرتے ہیں ، آپ نے عربی کیسے سکیھی اور ہم کس طرح اسے سیکھ سکتے ہیں ؟ہم انہیں ’’العربیہ بین یدیک ‘‘ نامی ایک شہرۂ آفاق اور تیر بہدف کتاب کا پتہ دیتے ہیں ، ’’العربیہ للناشئین ‘‘ ،’’تسہیل الادب ‘‘، ’’عربی کا معلم ‘‘ ، ’’معلم الانشاء ‘‘ ، الطریقۃ العصریۃ،الجزیرۃ نیٹ ورک کا مستقل چینل ’’تعلیم العربیہ ‘‘ اور نیٹ پر موجود موضوع سے متعلقہ وافر مواد کا بھی حوالہ دیدیتے ہیں ۔ نیز’’پاکستان اربک بورڈ‘‘کے مولانا سمیع عزیز ،’’قرآنی عربی ‘‘ کے مفتی ابولبابہ ،پاکستان عربک لینگویج اوپن یونیورسٹی کے شیخ قمر ،جمعیۃ اللغۃ العربیہ کے شیخ امجد ،معہد اللغۃ العربیہ اسلام آباد کے مولانا بشیر سیالکوٹی ،جامعہ عائشہ وجامعہ ابن عباس کے ڈاکٹر امجد،شیخ موسی عراقی ،جامعہ بنوریہ کے شیخ عزیز عظیمی،مولانا عبید الرحمن، جامعہ فریدیہ کے شیخ ناصر ، شیخ خالد حجازی اور ان اداروں وشخصیات کی طرح کئی دیگر صاحبانِ فن کی بھی میدان میں موجودگی سے با خبر کردیتے ہیں ،جن سے حسب سہولت رابطہ کر کے استفادہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔

لیکن ان سب سے ہٹ کر’’ طرق التدریس ‘‘میں سے ایک کامیاب طریقہ، بذات خود سیکھنے ’’التعلم الذاتی ‘‘ کا بھی ہے ،اس وقت بابا چلاسی عربی ،اردو، فارسی شعر وشاعری،تفسیر،حدیث ،فقہ ،تصوف ،اور رعایت اﷲ فاروقی جدیداردو ادبیات،کالم نویسی اور خاکہ کشی میں بغیرکسی استاذ کے عبقریت کے مقام پر فائز ہیں، کراچی کے مایہ ناز تاجرو صنعت کار جناب الطاف موتی نے بغیر کسی استاذ اور عربی صرف ونحو کی گرانوں اور قوانین کے رٹوں سے کوسوں دور ایسی عربی سیکھ لی ہے کہ ان کی تحریر پڑھ کر آدمی محو حیرت ہوجاتاہے ،آج کل بی بی سی عربک ،الجزیرۃ اور شبکۃ المدارس پر ان کے تبصرے اور مقالات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوا، آئیے وحیدالدین خان کی کتاب ’’راز حیات ‘‘ سے ایک رازلیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بذات خود عربی سیکھنے کیلئے یہ نسخہ بروئے کا ر لاتے ہیں:’’ ایک خاتو ن نے انگریزی اس طرح پڑھی کہ ان کے والد مولوی تھے، ان کے گھر پر انگریزی کا ماحول نہ تھا، چنانچہ ایم اے (انگلش) انھوں نے بمشکل تھرڈنمبروں سے پاس کیا، ان کو شوق تھا کہ ان کو انگریزی لکھنا آجائے ،یہ کام ایک اچھے دوست کے بغیر نہیں ہوسکتا ،لیکن ان کے گھر کے حالات ا س کی اجازت نہیں دیتے تھے، کہ وہ کوئی استاذ رکھیں اور اس کی مدد سے اپنے اندر انگریزی لکھنے کی صلاحیت پیدا کریں ،مگر جہاں تمام راستے بند ہوتے ہیں ،وہاں بھی ایک راستہ آدمی کے لئے کھلا ہوتاہے، شرط صرف یہ ہے کہ آدمی میں طلب ہو اور اپنے مقصد کے حصول میں اپنی پوری طاقت لگادے، خاتون نے استاذ کے مسئلہ کا ایک نہایت کامیاب حل تلاش کرلیا، انھوں نے چھپی ہوئی ایک کتاب پڑھی ،اس میں انگریزی مصنف نے بیرونی ملکوں کے انگریزی طالب علموں کو یہ مشورہ دیاتھا ،کہ وہ انگریزی لکھنے کی مشق اس طرح کریں،کہ کسی اہل زبان کی لکھی ہوئی کوئی کتاب لے لیں، اس کے بعد روزانہ اس سے چند صفحات لے کر پہلے اس کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں، پھر کتاب بند کرکے الگ رکھدیں اور اپنے ترجمہ کو بطور خود انگریزی میں منتقل کریں، جب ایسے کرلیں، تو اس کے بعد دوبارہ کتاب کھولیں اور اس کی چھپی ہوئی عبارت سے اپنے انگریزی ترجمہ کا مقابلہ کریں، جہاں نظر آئے کہ انھوں نے کوئی غلطی کی ہے، یا طریق اظہار میں کوتاہی ہوئی ہے، اسکو اچھی طرح ذہن میں لائیں اور کتاب کی روشنی میں خود ہی اپنے مضمون کی اصلاح کریں، خاتون نے اس بات کو پکڑ لیا، اب وہ روزانہ اس پر عمل کرنے لگی،انگریزی اخبار یا رسالہ یا کسی کتاب سے انگریزی کا کوئی مضمون لے کر وہ روزانہ اسکا اردو میں ترجمہ کرتیں اور پھر اپنے اردو ترجمہ کو دوبارہ انگریزی میں منتقل کرتیں اور اپنے انگریزی ترجمہ کو اصل انگریزی عبارت سے ملاکر دیکھتیں کہ کہاں کہاں فرق ہے، کہاں کہاں ان سے کوئی کمی ہوئی ہے، اس طرح وہ روزانہ تقریباً دوسال تک کرتی رہیں، اس کے بعد ان کی انگریزی اتنی اچھے ہوگئی، کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں، ان کے مضامین انگریزی جرائد میں چھپنے لگے، ان کے بھائی نے ایکسپورٹ کا ایک کام شروع کیا، جس میں انگریزی خط وکتابت کی کافی ضرورت پڑتی تھی ،خاتون نے انگریزی خط وکتابت کا پورا کام سنبھال لیا اور اس کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔

مذکورہ خاتون نے جو تجربہ انگریزی زبان میں کیا، وہی تجربہ دوسری زبانوں میں بھی کیا جاسکتاہے، ہماری دنیا کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی کامیابی تک پہنچنے کے بہت سے ممکن طریقے ہوتے ہیں، کچھ دروازے اگر آدمی پر بند ہوجائیں، تب بھی کچھ دوسرے دروازے کھلے ہوتے ہیں، جن میں داخل ہوکر وہ اپنی منزل تک پہنچ سکتاہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی شخص کی ناکامی کا سبب ہمیشہ پست ہمتی ہوتاہے ،نہ کہ اس کے لئے مواقع کا نہ ہونا۔‘‘

لہذاہر انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنی طرف دیکھے،کوئی بھی آدمی اپنی امکانیات وصلاحیتوں کو بروئے کار لاکرکسی بھی میدان میں بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتاہے،لیکن جب کوئی اپنی امکانیات و صلاحیتوں کو استعمال نہ کرے،تو اسی کا دوسرا نام’’ ناکامی‘‘ہے۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877931 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More