میڈیا : اسلامی نقطۂ نظر

دورِ حاضر میں میڈیا کی ضرورت اور مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی میڈیا کا دوسرا نام ذرائع ابلاغ ہے۔ ذرائع ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ٹیلی وژن ’ ریڈیو ہو یا انٹرنیٹ اس کی اہمیت اور اثر انگیزی ہر دور میں مسلم رہی۔ انسانی زندگی میں میڈیا کی حیثیت شہہ رگ کے مانند ہے۔ اگر انسان کو اس کے جذبات و خیالات کے اظہار کا موقع نہ ملے تو وہ مضطرب و بے چین ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میڈیا کے شعبہ میں دن بدن ترقی کے بدولت پوری دنیا ایک چھوٹے گاؤں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ آج دنیا بھر میں ایک چھوٹی سی خبر کو اس میڈیا کے ذریعہ بآسانی پہنچایا جاسکتا ہے۔

اب جہاں تک دور حاضر کے میڈیا کے بارے میں بات کی جائے تو مسلمانوں کو اس میڈیا سے کئی چیلنجس کا سامنا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ جہاں ایک چھوٹی سی خبر کو چند لمحوں میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے تو اسی کے ساتھ دوسری طرف میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کا آلۂ کار بن گیا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ جہاں اظہار خیال کی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو دوسری جانب اسی آزادی کے نام پر اسلام اور مقدس اسلامی تعلیمات کو تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ جہاں اقوام کی ترقی کے حق کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف فلسطین’ مصر’ شام اور دیگر عرب ممالک کے مظلوم و معصوم مسلمانوں کے حقوق کے خلاف میڈیا کے دو دھاری تلوار کو نفرتوں کے زہر میں ڈبوکر انکی زندگی اور حقوق پر وار کیا جارہا ہے۔ اس میڈیا کے یلغار کی وجہ سے سچائی کو جھوٹ میں اور جھوٹ کو سچائی میں بدلنا آسان بن چکا ہے۔ یہ سب مغربی سازشوں میں سے ایک بڑی سازش کا نتیجہ ہے جس کے مطابق مغرب کی سازش اور دشمنی مسلمانوں کے خلاف میدان جنگ تک محدود نہیں بلکہ ثقافتی‘ تہذیبی اور ملی معاملات میں بھی معرکۃ الآرا ہے۔ اس پس منظر میں میڈیا جب چاہتا ہے کوئی نئی اصطلاح یا شوشہ چھوڑ دیتا ہے جس کی نصرت اور تائید میں ساری دنیا متحد ہوجاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس گمراہ کن مغربی میڈیا کے زیر اثر مسلمانوں کی بڑی تعداد ذہنی اور فکری تربیت پارہی ہے۔ اسی میڈیا کی ناپاک اثر انگیزیاں نو خیز اسلامی نسل کو اور ان کے افکار کو تار تار کررہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہورہی ہے کہ ہم جسمانی طورپر ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہیں مگر ذہنی اور فکری طورپر اس میڈیا کے قید خانہ کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ اس داخلی اور خارجی سازش کے ذمہ دار کون ہیں؟ اس بے راہ روی سے نجات اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس میڈیا کے استعمال میں اسلامی احکام کو ملحوظ رکھیں۔

میڈیا۔ اسلامی نقطۂ نظر
اسلام نے میڈیا کو ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ نیک مقاصد‘ مثبت فکر اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے میڈیا کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ لیکن ہر حال میں اسلامی حدود کو ملحوظ رکھا جائے۔ ابتداء کے اسلام سے لے کر آج تک دیں اسلام کی دعوت ساری دنیا میں عام کرنے والی مقدس ہستیوں نے اپنے اپنے دور کے مطابق وسائل کا استعمال کرتے ہوئے دین کے پیام کو ساری دنیا میں پیش کیا۔ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دین کے منشا کو سرگشتگانِ وادیٔ ضلالت کو راہ راست پر فائز کرنے کے لئے علی الاعلان مختلف ممالک کے غیر مسلم بادشاہوں کو اسلامی احکام پر مشتمل خطوط روانہ فرمائے۔ یہی نہیں بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سچائی پر مبنی کھرے اسلامی تعلیمات کو کوہ صفا پر بے بانگِ دہل پیش فرمایا۔
یہودیوں کی خرابیوں میں سے ایک یہ بھی خرابی تھی کہ وہ توریت میں موجود اﷲ تعالیٰ کے احکام کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے چھپاتے تھے اور تحریف کا ارتکاب کرتے تھے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان یہودیوں پر قرآن پاک میں لعنت کا ذکر فرمایا۔ اس پس منظر میں میڈیا کو اسلامی مقاصد اور اسلامی احکام میں موجود حکمتوں کو پیش کرنے کے لئے استعمال کریں تو امت مسلمہ کی اصلاح ممکن ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات کا نام ہے۔ اسلام چونکہ ساری دنیا کے لئے حقیقی معنوں میں محبت و انسانیت کا پیمبر ہے ۔ اس میں میڈیا کے حوالہ سے احکام موجود ہیں۔ قرآن پاک میں ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر (آل عمران : ۰۱۱) ‘‘ کے ذریعہ اسلام کے آفاقی پیغام کے ابلاغ و ترسیل کا حکم دیا گیا۔ اس سلسلہ میں چند امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے میڈیا کا استعمال کیا جائے تو امت مسلمہ حقیقی معنوں میں خیر امت کے لقب سے ملقب ہوسکتی ہے اور غیر مسلمین بھی ذہنی و فکری اور معاشی بحران جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں چند حقوق اور فرائض پیش کئے جا رہے ہیں۔
فکری آزادی : اسلام نے ہر موقع پر انسانیت کو اظہار رائے کرنے کا موقع دیا ہے۔ ہر شخص کی رائے کا احترام کرنے اسلام ہمیں حکم دیتا ہے۔ خلفائے راشدین کے دور سے بنی امیہ اور بنی عباسیہ کا دور اس بات کی پوری تائید کرتا ہے اور یہ آزادی صرف مرد و خواتین تک نہیں بلکہ غلاموں کو بھی فراہم کی گئی ہے۔ سرکار دو جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے ہر اہم موقع پر تمام چھوٹے بڑے صحابہ سے مشاورت فرمایا کرتے۔ معلوم ہوا کہ اسلام آزادیٔ فکر کا امین و نقیب ہے۔ اس میں ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ بشرطیکہ اس کی رائے قرآن و حدیث کی تعلیمات سے متصادم نہ ہو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی نہ ہو۔ اظہار رائے کے وقت ان دونوں دائروں کے درمیان رہ کر اپنی رائے کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔

حکومت وقت سے سوال کا حق : اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہر صحافی کو ملک کی سب سے بڑے انتظامیہ سے بھی سوال کرنے کا حق ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک صحابی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے یہ سوال کیا تھا کہ ہر صحابی کو مال غنیمت سے ایک چادر ملی ہے آپ کے بدن پر یہ دو کیسے؟ تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے باوجود ناگواری کی کیفیت آپ کے اندر نہیں پائی گئی اور انتہائی سنجیدگی سے آپ کے صاحبزادہ نے یہ جواب دیا کہ ایک چادر میرے حصہ کی ہے اور دوسری چادر میرے والد کے حصہ کی۔ اس سے بڑھ کر بازپرس کرنے کا حق کسی جمہوری ملک میں نہیں۔ اسلام آزادیٔ اظہار رائے کا علم بردار ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اس ملک کے مواطنین کے رائے اور ان کے خیالات کو جمع کرنا مستقبل کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔

ظلم اور نا انصافی کے خلا ف آواز اٹھانے کا حق : اسلامی تعلیمات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم کا فرد جمعیت ظلم و ستم کا شکار ہو تو اس کے خلاف میڈیا کے ذریعہ احتجاج اور صدائے حق بلند کیا جاسکتا ہے۔ قرآن پاک کی آیت ہے ’’ لا یحب اﷲ الجھر بالسوء الامن ظلم‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ بر ملا بری بات کہنے کو ہر گز پسند نہیں فرمایا لیکن ظلم و ستم کیا جائے تو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھایا جاسکتا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ ’’ افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جابر ۔(ترمذی )

گواہی کی آزادی : میڈیا کے ذریعہ جب مختلف خبریں منظر عام پر آتی ہیں تو حکومت اور انتظامیہ کو فوری طور پر حرکت میں آنا ضروری ہوجاتا ہے۔ جب مجرمین حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو میڈیا کے ذریعہ ان خبروں کو منظر عام پر لانے اور حکومت ان مجرمین کے خلاف کاروائی کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ گواہی کی اس اہمیت کو مانتے ہوئے میڈیا کو حق حمایت اور مجرمین کے خلاف گواہی دینے میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ اسلام میں گواہی چھپانے والوں کے لئے سخت وعید سنائی گئی ہے۔

حمایت و مخالفت کا حق: کسی کی حمایت اور مخالفت میں میڈیا کا اہم رول ہوتا ہے۔ عوام میڈیا کے ذریعہ شائع ہونے والے رپورٹ کے ذریعہ اسی کے مطابق فیصلہ کرلیتی ہے۔ میڈیا ذہن سازی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ خصوصاً جب کسی ملک میں انتخابات کا موقع آتا ہے تو ایسے موقع پر میڈیا کے اس رول میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے حمایت و مخالفت میں اصول متعین کردیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے ’’ افضل الاعمال الحب فی اﷲ و البغض فی اﷲ‘‘ ( ابوداؤد ۔ بیہقی ۔ شعب الایمان) یعنی کسی سے محبت ہو تو فقط اﷲ کے لئے ہونی چاہئے اور کسی سے بغض و عداوت بھی ہو تو فقط اﷲ کی وجہ سے ہو۔ اور یہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہترین عمل ہے۔ حمایت و مخالفت کو اس بنیاد پر عمل میں لایا جائے کہ جس کی حمایت و مخالفت کی جارہی ہے واقعی وہ اس کا مستحق ہو۔ لیکن میڈیا کو ان تمام امور سے باز رہنا چاہئے جن کا تعلق حدود و قصاص سے ہے۔

میڈیا کے اسلامی تقاضے : میڈیا جدید معاشرے کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ اہم شعبہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ یہ ایسا شعبہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہو کر ان کی صورت گری میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس لئے اس شعبہ کے تمام امور اسلامی اساس کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ اس شعبہ میں اسلامی اصول و احکام کی کمی کے مضر اثرات بہت نمایاں ہیں۔ چنانچہ اس شعبہ میں چند باتوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

صدق : میڈیا کے ذریعہ نشر و اشاعت میں ہمیشہ سچائی اور سچی بات کو پیش نظر رکھا جائے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ وقولو قولا سدیدا‘‘ (احزاب : ۰۷) یعنی جب بات کرو حق بات کرو۔ اگرچیکہ اس کے بدلہ میں تمہیں نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ حق بات کے بدلہ میں اگر کسی کی جان بھی چلی جائے تو وہ شہید کے مقام پر فائز ہوگا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جن کے ہاتھ میں تمہارا رزق ہوگا۔ جب وہ بات کریں گے تو جھوٹ کہیں گے۔ جب وہ کام کریں گے تو برا کریں گے۔ وہ تم سے راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے برائیوں کو اچھے نہ بتاؤ۔ پس تم حق پیش کرتے رہو جب تک وہ تم سے راضی رہیں۔ پس جب وہ اس میں تجاوز کریں تو جو ایسی صورت میں قتل کیا جائے گا وہ شہید کا درجہ پائے گا۔‘‘ (کنزالعمال : ج:۲ ص : ۷۹۲)

اعتدال پسندی : میڈیا کے زیر اثر نشر و اشاعت کو اعتدال پسندی کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔ شخصیت پرستی اور عصبیت ان دونوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔‘‘ حدیث شریف میں ارشاد عالی ہے ’’والعدل فی الرضا والغضب‘‘۔ (مجمع الزوائد۔ ج۔۴۔ ص۔۹۳۱) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رضامندی اور غصہ ہر دو حالتوں میں اعتدال پسندی کو پیش نظر رکھنے کا حکم فرمایا۔

ایمان و ضمیر کا سودا نہ کیا جائے : ہر صاحب ایمان پر یہی حق ہے کہ وہ حق بات ہی کریں اور کسی ذاتی غرض کے عوض خلاف حق کوئی بات نہ کرے اور ان تمام امور کے کہنے اور لکھنے میں بچے جو حق کے خلاف ہیں۔ کیونکہ خلاف حق بات کہنا یا لکھنا یہ دراصل اﷲ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے کے مترادف ہے۔ یہی ایمان و ضمیر کا سودا ہے۔ ’’ ولا تشتروبعھد اﷲ ثمنا قلیلا‘‘۔ (النحل: ۵۹)اﷲ تعالیٰ کے عہد کو کم قیمت (دنیا) کے عوض مت بیچو۔ اﷲ تعالیٰ مزید فرماتا ہے ’’انما عنداﷲ ھو خیر لکم ان کنتم تعلمون‘‘ بے شک اﷲ کے پاس وہ چیز ہے جو تمہارے لئے (اس سے) بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ یعنی اﷲ کی جانب سے دئیے جانے والے اجر کے مقابلے دنیا کی بڑی سے بڑی چیز ہیچ ہے۔

ہر خبر میں حکمت پیش نظر رہے : تحریر و گفتگو میں کامیابی اور خوبی یہ ہے کہ قاری اور مخاطب کو لوگ اسکا اثر قبول کریں اور اثر پیدا کرنے کے لئے یہی کافی نہیں کہ جو بات کہی جائے وہ علم اور حقیقت پر مبنی ہو بلکہ اس کے ساتھ اس پہلو کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس میں حکمت دلسوزی ہو۔ قرآن کریم میں اس کی ہدایت دی گئی ہے ’’ادع الی سبیل ربک با اللحکمت والموعظۃ الحسنۃ‘‘ (النحل : ۵۲۱) اپنے رب کی طرف حکمت اور بہترین انداز میں نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔‘‘

بیان کی پاکیزگی : اسلام ہمیں شر م و حیا کا حکم دیتا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بے شرمی کے باتوں کے قریب نہ جائیں۔ ہماری تحریر و تقریر فواحش و لغویات کے شائبہ سے مکمل طورپر پاک ہو ’’ولا تقربو الفواحش ما ظھر منھا وما بطن‘‘ (انعام : ۱۵۱) فحش چیزوں کے قریب نہ جاؤ ان میں جو ظاہری طور پر ہوں یا باطنی طورپر۔ والذین ھم عن اللغو معرضون‘‘ (المؤمنون : ۳) یعنی ایمان والے بندوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں۔

دل آزاری کی ممانعت : اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی تحقیر و تذلیل کو برداشت نہیں کرتا۔ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے ’’ اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کو برے القاب نہ رکھو‘‘ (الحجرات : ۱۱) اس آیت میں طعن و تشنع کے علاوہ بے بنیاد الزامات دھرنے ‘ عیب جوئی کرنے‘ کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں کے ذریعہ کسی کو نشانۂ ملامت بنانے جیسے مفہومات شامل ہیں۔ یہ وہ تمام حرکتیں ہیں جو دل آزادی‘ آپسی تعلقات بگاڑنے اور معاشرے میں فساد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس لئے ان تمام کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔
میڈیاکے استعمال میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں: مذکورہ تمام حقوق و تقاضوں کے بعد اب ملت اسلامیہ کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا جیسی دو دھاری تلوار کو اسلام کے تحت دئیے جانے والے احکام کے مطابق استعمال کریں۔ تفریح طبع کے نام پر غلط لٹریچر اور فواحش و منکرات کے فروغ پر مبنی پروگرام کی اسلام نے اجازت نہیں دی ہے جیسے آج کل تفریح طبع کے نام پر حیا سوز اور ماورائے اخلاق پروگراموں کو پش کیا جاتا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ مذاق و تمسخر کی بھی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ذریعہ آپسی اختلافات اور نزاع پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے لئے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ہم خیر امت ہونے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف ان تمام امور کے مرتکب ہوں جو سراسر منشاء خدا ور سول کے خلاف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ میڈیا کی مثال اس تلوار جیسی ہے جس سے پھل بھی توڑا جاسکتا ہے یا کسی کا گردن بھی کاٹا جاسکتا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ کسی کی جان بھی بچائی جاسکتی ہے اور کسی کی آبرو و عزت کے ساتھ کھیل بھی کیاجاسکتا ہے۔ پتہ چلا کہ میڈیا فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ اس کے حسن و قبح‘ جواز و عدمِ جواز کا دار و مدار اس کے استعمال اور نیک مقاصد پر محمول ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک صحت مند‘ بدعنوانی اور ہر قسم کی برائی سے پاک معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں میڈیا کا مثبت استعمال اہم رول ادا کرسکتا ہے۔

میڈیا اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ نیم عریاں رقاصاؤں اور فلمی اداکاروں کے ذریعہ ماورائے اخلاق پروگرام نشرکرنے اور فحاشی و عریانیت کو فروغ دینے سے باز رہے‘ خواہ اس کے بدلے انہیں وقتیہ طورپر کچھ نقصان ہو ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
٭٭٭
کتابیات :
القرآن الکریم
ترمذی (کتاب الفتن )
ابو داؤد
مجمع الزوائد
کنز العمال
الترغیب و الترہیب
اسلام کا قانون صحافت

Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 101 Articles with 90154 views i am a humble person... View More