پاکستان ایک سنگ میل اور عبور کر
چکا ہے، موبائل براڈ بینڈ سروس میں ایک اضافہ اور ہو چکا ہے، ٣جی اور ٤جی
سروس کا آغاز ہو چلا ہے، نیلامی میں تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔
بات خوشی کی ہے بس دکھ ہے تو اس بات کا کہ بڑے سائییں، پرویز اشرف اور
رحمان ملک اور گیلانی اس نیلامی میں شامل نہیں، کتنے عظیم لوگ وطن عزیز کے
حکمران رہے ہیں، ان کو سوچ کر، ان کے چہرے یاد کر کے اپنے پاکستانی ہونے پر
فخر محسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ صاحبان ہوتے تو ڈالر کی اتنی بے قدری نا ہوتی
جتنی کہ اب ہو رہی ہے، نا اتنے ڈالرز کہیں سے آتے، اگر آ بھی جاتے تو خزانے
کے بجائے جیبوں میں جاتے۔ سعودی ڈالرز کے بعد اب یہ ڈالر، خدا خیر کرے۔
ہمارے صرف موبائل فونز تیسری اور چوتھی جنریشن میں پہہنچے ہیں، وہ بھی
گوروں کی مرہون منت۔ جبکہ ہم انفرادی اور انسانی قدروں میں پچھلی جنریشنز
کی طرف رواں دواں ہیں۔ ہم اتنے پیچھے جا رہے ہیں کہ مجرا ہمارا قومی شوق بن
چکا ہے۔ قوم کے منتخب نمائندے قوم کی طرف سے بھیجی گئی اسمبلی کے لاجز میں
مجرے کرواتے ہیں، عدالت میں ثابت ہو یا نا ہو، بطور قوم ہمیں اپنے رنگ باز
لیڈروں کا بخوبی علم ہے۔ ویسے جمشید دستی صاحب کو بھی اب چوتھی جنریشن میں
داخل ہو جانا چاہئے۔ پتہ نہیں کس طرح اس دقیانوسی سوچ اور وطیرہ کے ساتھ وہ
اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ لاجز میں تو چلیں ٹھیک ہے، وہ تو ان شہنشاؤں کی
شہنشاہانا زندگی کا حصہ ہے۔ اب پارلیمنٹ کے اندر کیسے یہ کام کئے جائیں وہ
بھی اجلاس کے دوران، تو اس کا حل سائیں کے پاس ہے، سندھ اسمبلی میں موبائل
پر اس طرح کے کام کرتے پائے گئے ہیں۔ ایک سائیں سے تو ہمیں یہ بھی امید ہے
کہ وہ خواب میں بھی ایسی چیزیں دیکھ لیتے ہوں گے۔ اب3جی اور 4جی سروس کا یہ
فائدہ ضرور ہوگا کہ سائیں بلا کسی وائی فائی کے کبھی بھی کہیں بھی سپر تیز
انٹرنیٹ کے ساتھ گانے ٹھمکے اور فرح خان کو دیکھ سکیں گے۔ سندھ اسمبلی کی
ایک خاتون ممبر نے جب سائیں کی شکائیت کی اسپیکر صاحب سے تو سائیں کا پارہ
چڑھ گیا۔ غصہ سے آگ بگولہ ہو گئے کہ جی بچوں کو تمیز نہیں ہے۔ اس طرح تو
مجھے دستی صاحب بھی بچے ہی لگتے ہیں. سا ئیں کا غصہ بجا ہے کہ بچوں کو بڑوں
کی عزت ضرور ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے۔ بلکل اسی طرح ہمارا خیال ہے کہ سیاست
دان بھی فوج کے سامنے بچے ہی ہیں۔ انہیں بھی چاہئے کہ تھوڑا عقل سے کام لیں۔
البتہ میڈیا نوجوان ہے۔ جوان لوگ زیادہ منہ زور ہوتے ہیں۔ اب دیکھیں کہ جو
منہ زوری میڈیا نے فوج سے کی ہے اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ خیر سائیں تو
سائیں سائیں کا غصہ بھی سائیں اور سائیں کا ایپل آئی فون بھی سائیں۔
ویسے تو اسمبلی میں وائی فائی سروس بھی دی ہی جاتی ہوگی تاکہ ممبرز کو بور
ہونے سے بچایا جا سکے۔ ویسے بھی یہ ترقی یافتی دور ہے کوئی مکھیاں مارنے کا
زمانہ تھوڑی ہے۔زیادہ تر ممبران ویسے بھی اسمبلی اجلاس کے دوران بور ہی
ہوتے ہیں۔ نا کاروائی سمجھ آ رہی ہوتی ہے اور نا کوئی دلچسپی ہی ہوتی ہے۔
آج کل تو انسان بور ہونے لگے تو بے تحاشہ شغل ہیں۔
پاکستان تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔ 2جی سے سیدھا 3جی اور 4جی، جبکہ
دنیا بھر میں طویل عرصے سے 3جی موجود ہے۔ وہ اب 4جی استعمال کر رہے ہیں۔
ہمیں دونوں ایک ساتھ مل گئی ہیں۔ اب تو اچھی کوالٹی کے ساتھ سکائپ، وائبر
اور وائس سروسز استعمال کی جا سکیں گی۔24 گھنٹے آن لائن۔ اب تو موبائل فونز
کے گھنٹوں کے پیکجز سے بھی نجات۔ ساری رات ہی نہیں دن بھر بھی بات۔ وڈیو
کالز کے ساتھ ۔ اب عاشق صرف باتیں ہی نہیں دیدار بھی کر سکیں گے۔ گھر میں
بھی نہیں۔ جب بھی جہاں بھی دل چاہے۔ ویسے ہمارا مشورہ خصوصی طور پر کراچی
کے رہائشیوں کو اور عمومی طور پر پاکستانیوں کو ہے کہ برائے مہربانی ان
موبائل فونز کو جو کہ4جی سپورٹ کرتے ہوں ہرگز گھروں سے باہر استعمال نا
کریں۔ خاص طور پر اس صورت میں جس میں آپ کو موبائل زندگی سے بھی زیادہ
پیارا ہو۔ (4جی سپورٹیو موبائل ہونا بھی چاہئے)۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ
ڈاکووں کو بھی وہ موبائل جان سے پیارا ہو۔ ایسی صورت میں موبائل اور زندگی
دونوں سے ہاتھ دھویا جا سکتا ہے۔ ویسے انسان کو کچھ بھی زندگی سے پیارا
نہیں ہونا چاہئے، یا کم از کم عزت سے پیارا نہیں ہونا چاہئے۔ پھر سوچتا ہوں
کی جب اسمبلیوں میں اور ایوانوں میں لوگ آنے جانے والے ہیں، تو عزت بھی تو
آنی جانی چیز ہی ہوگی ان کے لئے کیا فرق پڑتا ہوگا۔ ویسے بھی ان ایوانوں
میں عزت چاد دن کی مہمان ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کے ایوان صدر سے چک شہزاد کے
فاصلے جتنی مہمان ہے۔
ہمیں تو 2جی،3جی یا 4جی میں جو فرق سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ4 کی اسپیڈ 3
سے اور 3 کی 2 سے زیادہ ہے۔ ہر اگلی جنریشن پچھلی سے تیز ہوتی ہے۔ اب جو
جنریشن پارلیمنٹ میں موجود ہے۔ وہ پچھلی سے بے تحاشا تیز اور ایڈوانس ہے۔
کرپشن میں بھی چار نہیں بلکہ آٹھ ہاتھ آگے ہیں۔ گیلانی کی نئی جنریشن،
چودھریوں کی نئی جنریشن، کرکٹ کی نئی جنریشن ہی دیکھ لیں، محمد آصف، عامر
اور سلمان بٹ کو ہی دیکھ لیں۔ کوئی کسی سے کم نہیں۔ زندہ باد۔
اگر کوئی پیچھے رہ گیا تو وہ غریب ہیں۔ عظیم لوگ فرماتے ہیں کہ اگر آپ غریب
پیدا ہوئے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، پر اگر آپ غریب مر گئے تو
یہ آپ کا قصور ہے، اگر غریب پیدا ہوا ہے تو وہ آپ نہیں بلکہ آپ کا باپ قصور
وار ہے جس نے اس غربت کے عالم میں آپ کو پیدا کیا ہے۔ غریب کا بیٹا ہونا
بھی تو قصور ہے۔ اور بھٹو، شریف، چودھری اور گیلانی کا بیٹا ہونا بھی بڑی
کامیابی ہے۔ خیر تھر میں رہنے والے غریب کو کیا لگے کہ4 جی کیا چیز ہے، یہ
تو سائییوں کے لئے ہے. |