اس بار اسلام آباد گیا تو عجیب سی وحشت نے موٹر وے سے
اترتے ہی استقبال کیا ، فضا میں گھٹن اور دھوپ میں تیز چبھن سی تھی،مضطرب
چہروں والے لوگ زلزلے کی سی کیفیت میں لگ رہے تھے ،یہ سب میرے لیے حیران کن
بھی تھا اور پریشان کرنے والا بھی کیونکہ چند ماہ قبل ہی تو میں اس شہر کے
سہانے موسم کو انجوائے کر چکا تھا ، ایوان صدر سے وزیر اعظم ہاؤس تک سب خیر
ہی خیر تھی ، حکومتی وزراء کی اٹھکھیلیاں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہوتی تھیں ،
انہی دنوں نئے آرمی چیف کا تقرر ہوا تھا ، بھانت بھانت کی بولیاں بند ہو
چکی تھیں ، وزیر اعظم اور کچن کیبنٹ کی فہم و فراست کو داددی جا رہی تھی ۔
تاریخی ڈنر اور لنچ اڑاتے بیورو کریٹس بو ٹیوں کے مزے لے لے کر بے کار سے
ہو گئے تھے ۔زنانہ پارلیمینٹرین بھی فیشن کے بدلتے رنگ کے ساتھ نئے نئے
جوڑے تبدیل کر رہی تھیں ، سردی کی ان راتوں میں رات گئے تک جاری محفلوں میں
زرداری اور نواز شریف کی سیاست کا آپریشن نما تجزیہ کرنے والے میرے بہت سے
د وست نواز شریف کے فیصلے پر تالیاں بجا رہے تھے تو نوید چپ سا بیٹھا تھا
آخر میں میں نے چپ کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ ابھی سردی بہت ہے ، نواز
شریف کے فیصلے کا پتہ گرمی میں چلے گا ۔ میں نے کہا کہ اس فیصلے کا گرمی یا
سردی سے کیا تعلق تو کہنے لگا کہ موسم بدل جائے گا توپتہ بھی چل جائے گا ۔سب
نے بات مذاق میں اڑائی کہ نوید جھلا ہو گیا ہے بھلا موسم کا اس فیصلے سے
کیا تعلق ؟ میاں صاحب جلا وطنی میں بہت سے گر سیکھ کر آئے ہیں ۔ زرداری
صاحب سے بھی انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔کابینہ میں بیٹھے لوگ بھی انتہائی
تجربہ کار اور زیرک ہیں اب نواز شریف غلطی کر ہی نہیں سکتے ۔لیکن نوید اپنی
ضد پر قائم تھا اس نے تنگ آکر کہا کہ چار پانچ ماہ صبر تو کر لو دیکھ لینا
حکومتی کلہاڑی کس طرح اپنے ہی پاؤں پر پڑنے والی ہے ۔ یہ اسلام آباد ہے ،
غلام آباد ہے خیر رات گئی ، بات گئی -
میں آج اسلام آباد آیاتو شہر کے رنگ ڈھنگ اور موسم کی شدت نے نوید کی بھولی
بسری باتوں کو یاد دلا دیا ، میں اس شہر کی اس حالت سے اور اس عداوت سے تنگ
آکر راول جھیل کے کنارے جا بیٹھا کہ شاید مجھے گر دآلود افواہی جھکڑوں میں
کسی ایک بھی سوال کا جواب مل جائے ۔میرے ذہن میں سوالوں کی بہتات تھی ۔سوالوں
کی ترتیب ایسی تھی کہ میری سوچ بے ترتیبی سی ہو گئی۔حکومت اور آرمی کے
حالات میں تناؤ کیوں آیا ؟ کیا یہ تناؤ ختم ہوا ہے ؟ یا ختم ہو سکتا ہے؟ یا
تعلقات میں گرہ تو نہیں لگ گئی اور اس کشیدگی حتمی اختتام کیا ہو گا؟ کیا
اس تناؤ کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوشش کامیاب ہو جائے گی ؟طالبان کے ساتھ
مذاکرات پر فوج اور حکومت اگر ایک ہی نقطہ نظر رکھتے ہیں تو ابھی تک اس کا
منطقی انجام کیوں نہیں ہوا؟ کیا حکومت ان مذاکرات کا بوجھ اٹھا سکے گی ؟
کیا طالبان کے مذاکرات نہ کرنے والے دھڑے اور بیرونی طاقتیں اس ڈائیلاگ کے
عمل کو کامیاب ہونے دیں گے؟؟؟ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پلان بی کیا
ہو گا؟ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں افغانستان پر اس کے کیا
اثرات ہوں گے؟
مشرف کی بیرون ملک روانگی کے لیے کی گئی ڈیل میں حکومتی کردار کتنا ہو گا ؟
کیا عدلیہ مشرف کی بیرون ملک روانگی میں رکاوٹ ہو سکتی ہے ؟ مشرف کے معاملے
پر ممکنہ عوامی رد عمل کیا ہو سکتا ہے ؟ مشرف کو بیرون ملک بھجوا دینے کے
بعد حکومت کے خطرات کم ہو جائیں گے یا بڑھ جائیں گے ؟خواجہ آصف کا مستقبل
کیا ہو گا؟ کیا ان سے صرف و زارت دفاع لے لی جائے گی یا پانی و بجلی کی
وزارات کا قلمدان بھی؟ ٓآئی ایس آئی اور جیو کی لڑائی میں کس کا فائد ہ اور
کس کا نقصان ہو گا ؟؟ کیا حکومت جیو کو بند کرنا چاہتی ہے ؟ آئی ایس آئی
اور فوج کو جیو کی رپورٹنگ سے فائدہ ہوا یا نقصان ؟حامد میر کا کیس
انکوائریوں سے آگے بھی بڑھے گا کہ نہیں ؟ حامد میر پر حملے سے کس کس کو
فائدہ ہوا اور اصل نقصان کس کا ہوا؟ میڈیا کا ایک دوسرے پر وار کس کو فائدہ
پہنچا رہا ہے ؟ بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ پر عوامی رد عمل کتنا ہو گا ؟ لوڈ
شیڈنگ پر اپوزیشن جماعتوں کا کردار کیا ہو گا ؟11مئی کے جلسوں میں کیا نئی
لائن کھینچی جا رہی ہے ؟ اور اس طرح کے درجنوں سوال تھے اور جواب ۔۔۔۔۔
جواب یہی آتا کہ سب اچھا نہیں ہے ۔موسم گرد آلود اور حبس زدہ ہے ۔
میں کئی گھنٹے جھیل کنارے بیٹھا رہا ، جنوبی جانب سے کالی گھٹائیں نمودار
ہو رہی تھیں ، شمالی طرف سے گرج چمک کی لہر تھی ، ، فضا میں ابھی بھی حبس
تھا، ماحول گھٹن زدہ سا تھا ، جھیل سے سورج غروب ہونے کا منظر المناک سا
تھا ، سورج کہ رہا تھا کہ موسم وقت کے ساتھ بدل جاتا ہے ، میں سردیوں میں
دور تھا اب قریب آرہا ہوں ۔وہ مسکراتے ہوئے کہ رہا تھا وقت کے ساتھ ساتھ
حالات بدل جاتے ہیں ، میں نے سارا دن اس دنیا کو روشنی دی لیکن میں بھی اب
ڈوب رہا ہوں، سورج کا ایک کنارہ لال سا ہوا اور کالی گھٹاؤں میں ڈوب گیا ۔
اسلام آباد کی بتیاں روشن ہوئیں لیکن نجانے کیوں مجھے اندھیرے اور حبس زدہ
موسم سے ڈر لگ رہا ہے ، مجھے حبس سے اس لیے بھی ڈر لگتا ہے کہ جب حبس بڑھ
جاتا ہے اور پھر طوفانی جھکڑ درختوں کو جڑوں سمیت اکھیڑ لے جاتا ہے اور
پتوں کا تو پتہ بھی نہیں چلتا ۔
اﷲ کرے میرے خدشات غلط ہو جائیں ، اسلام آباد میں اعتماد کی بارش ہو جائے ،
جو گرد آلود بے یقینی ، حبس زدہ بے چینی کو ختم کر دے ، ایسی بارش جو سیاسی
قیادتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان بننے والی خدشات کے گارے کی دیواروں
کو ڈھا دے۔
جگر مرا دآبادی کہتے ہیں
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ شکوہ دیرو حرم نہیں
مرگ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشکبار
اک سانحہ صبح مگر اتنا بھی اہم نہیں |