مشرف کے خلاف غداری کیس پر پیچ و تاب کھانے اور ٹی
وی پر بیٹھ کر کرغرا نے والے بعض ’’کن ٹٹے ‘‘ (یہاں مراد سرکش) اینکرز اور
تجزیہ کار اب حیات و موت کی جنگ میں موت کو شکست دینے والے صحافی ،اسکے
بھائی اور ایک بڑے نجی نشریاتی ادارے پر یوں چڑھ دوڑے ہیں جیسے’’ کاٹنے
‘‘کو تیار ہی تو بیٹھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ پورے جمہوری نظام کو بھی ڈرا
رہے ہیں، ملک میں کسی بھی نوعیت کا کوئی بھی واقعہ ہو جائے ، ان حضرات کے
نزدیک آن کی آن میں جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے ، ٹی وی ٹاک شوز کے نام پر
’’نوٹنکی ‘‘ کرنے والے درجہ بندی کے دیوانے ان ’’ جدیدمراثیوں‘‘ کو پرواہ
نہیں ہوتی کہ ان کے اس فعل سے ملک کا کس قدر نقصان ہو سکتا ہے اور اداروں
کے درمیان کیسی کیسی غلط فہمیاں جنم لے سکتی ہیں مگر نہیں جناب ان عقل کے
ماروں کو جنہیں یو ں تو شاید اپنی خبر بھی نہیں ہوتی یہ خمار ہو تا ہے کہ
دنیا جہاں کا علم انہی کے دل و دماغ میں رچ بس گیاہے، جس کو بھی چھیڑ لیں
ایک ہی نتیجہ سامنے آئے گاکہ ان جیسا صاحب علم نہ دنیا میں کبھی آیا ہے اور
نہ آئے گاااور ان میں سے ایسوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے چندافراد کا نام
جمہوریت اور چند کا ریاست رکھاہوتا ہے،فلاں کو کچھ ہوا توریاست کو خطرہ اور
فلاں کو کچھ ہوا تو جمہوریت کو خطرہ ، خطرے کے ان’’ اندھے ریڈاروں‘‘ کے
مطابق دنیا جہان کے سارے خطرات نے جیسے ہمارا ہی گھر دیکھ لیا ہے، یہ لوگ ا
نتہائی غیر تربیت یافتہ اور چلتے پھرتے ’’بم‘‘ کی طرح ہیں جن کی احتیاط
اورذمہ داری کے لفظ سے بشناسائی تک نہیں، حامد میر پر حملہ ہوا ،انکے بھائی
نے ہوش کی بجائے جوش میں آکر جذباتی رویہ اپنایا،اس کو جو اسکے بھائی نے
بتا رکھا تھاا س نے بول دیا اور ٹی وی چینل نے جسے زعم تھا کہ آج تک تمام
تر مخالفت کے باوجوداسکی ’’امن کی آشا ‘‘ کا کسی نے کیا بگاڑ لیا ہے غلط
اندازے کی بناء پر وہ سب چلا دیا جس کے نتیجے میں اب اسے سنگین غداری کے
الزامات کا سامنا ہے،ثابت ہوا کہ میڈیا لاکھ دعوے کرے مگر ابھی بلوغت کی
منزل تک نہیں پہنچا،واقعے پر حساس ادارے کا رد عمل حیران کن نہیں تھا،لیکن
یہ کیا،دانشوروں نے تو یہ ثابت کر کے چھوڑا کہ دانش ان کو چھو کر بھی نہیں
گزری،نام نہاد اور جعلی دانشوروں کے ساتھ ساتھ سارے’’ سیاسی یتیم‘‘ اور
زاہدہ حنا کے الفاظ میں تو’’ سیاسی بے روزگار‘‘ ان چینلز نے اکھٹے کر کے
بٹھا لئے اور پھرحب الوطنی کے قومی مقابلوں کا آغاز ہو گیا، سب سے بڑا سوال
یہ بن گیا کون کس کے ساتھ ہے ،حالانکہ کو ئی احمق ہی ہو سکتا ہے جو اپنے
ملک کے دفاعی اداروں کے ساتھ نہ ہو،ہر پاکستانی دفاع وطن کے لئے افواج
پاکستان کے ساتھ ہے اور حامد میر بھی ہے، ہاں مگر اسے شکایت تھی لیکن یہ
شکایت نئی تو نہ تھی وہ تو چلتے پھرتے بہت سے لوگوں کے سامنے اس کا اظہار
کرتا رہا اس لئے یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی’’ تیسرے ‘‘ نے اس بات سے فائدہ
لینا چاہا ہو،یہ بہت احتیاط اور فہم و فراست سے دیکھنے والا معاملہ تھا جو
میڈیا کے ’’بچوں ‘‘ کے ہتھے چڑھ گیا،وزیر اعظم نے جوڈیشل کمیشن قائم کر کے
اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں دیر نہیں کی مگر اپنی ’’وفاداریاں‘‘ دکھانے کے
لئے ’’دانش کے دشمنوں ‘‘نے ٹی وی پر سراسیمگی کی صورت حال پیدا کردی، میڈیا
کایہ اعزاز بھی کیا کم ہے کہ ان اینکرز نے شیخ رشید جیسا بندہ جس کی کوئی
ایک زبان نہیں دانشور بنا کر بٹھایا ہو تا ہے، حسن نثار کو سیاستدانوں کی
مٹی پلید کرنے کی ڈیوٹی سونپنے والوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ان پر بھی
برا وقت آسکتا ہے اور کیا کبھی ایک اورٹی وی کے مالک کو یہ احساس ہوا ہے کہ
مبشر لقمان جیسے لوگ ہر روز رات کو نظام اور عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیلتے
ہیں، یہ ساری ’’وارداتیں‘‘ اظہار کی آزادی کے نام پر ہوتی ہیں،اپنی آزادی
کی طرف کسی کی میلی آنکھ نہ بھی ہو تو اسے پھوڑ ڈالنے میں دیر نہیں لگاتے
لیکن دوسروں کی زبان پر مہر لگانا اور انکے منہ میں اپنی زبان ڈالنا ان سب
کی خواہش اور پسندیدہ مشغلہ ہے، سو شل میڈیا تو اس سے بھی کہیں بے مہار
ہے،سو ہم وطنوں کا ایک دوسرے پر تبریٰ جاری ہے، البتہ کوئی لینا چاہے توحب
اوطنی کے سرٹیفیکیٹس مبشر لقمان کے پاس وافر مقدار میں دستیاب ہیں، زخمی
صحافی جسکی جان لینے کی کوشش قریب قریب کامیاب ہو گئی تھی اسکی حالت اتنی
پتلی ہو گئی ہے کہ مقدمے میں خود یا اس کا کوئی عزیز مدعی بننے کے قابل
نہیں رہا، حامد میر کا ادارہ اب صفائیاں پیش کرنے اور غداری کے ’’الزام‘‘
سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور قومی تاریخ بے بسی کے ساتھ ہمارا
منہ تک رہی ہے، ذمہ داری کا احساس جگانا لازم اور وطن کی حفاظت کرنے والے
اداروں کا وقار مقدم لیکن ٹی وی چینل کی بندش سے کوئی نیک نامی شاید ہمارے
حصے میں نہ آسکے کہ ہمارے دشمن اس اقدام کو بھی ہمارے خلاف پراپیگنڈہ بنائے
بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے، ہم وطنوں پر غداری کا الزام لگاتے ہوئے ہمیں
نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسے ہی کچھ ہم وطن تھے جنہیں ہم غدار قرار دے کراپنی
حب الوطنی پر اتراتے پھرتے تھے اور آج وہ بنگلہ دیشیوں کے نام سے جانے جاتے
ہیں ، جمہوری نظام کو’’ بھنبھوڑنے ‘‘کے لئے بے تاب برسوں کے بھوکوں نے فٹا
فٹ نئے سکرپٹ پہ کام شروع کر دیا ہے انکی عادتیں بدلیں نہ طور طریقے
حالانکہ وطن سے محبت کا معیار اگر کوئی ہے تو فقط اتنا کہ جوجمہوریت کا
دشمن وہ ملک کا دشمن اور سب سے بڑا غدار،جمہوریت چلتی رہے گی تو ادارے
مضبوطی پکڑیں گے اور ہم باہمی اختلافات کونظام کے اندر رہ کر مل بیٹھ کر
بھی حل کر سکتے ہیں، ہمیں یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ ہم ایک عظیم قوم اور
عظیم ملک کے لئے کام کرنے والے لوگ ہیں،چند گھنٹوں کی کوئی ٹرانسمیشن ہمیں
عوام کی نظروں سے گرا نہیں سکتی کیونکہ افواج پاکستان کے ساتھ محبت عوام کے
خون میں رچی بسی ہوئی ہے،ہاں مگر فوج کے سیاسی کردار کی کوئی گنجائش نہیں
،ماضی کے مارشل لاؤں نے دفاعی اداروں کے اصل کام سے انکی توجہ ہٹائی اورفرد
واحدکے فیصلوں نے ملک کو اغیار کی جنگوں میں دھکیلا جس کا خمیازہ آج تک قوم
بھگت رہی ہے رہی بات میڈیا کی تو اس پر پابندی کی بجائے اسے دفاعی اداروں
ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں سمیت سب کے احترام کا سبق سکھانا ہو گا اور دوسروں
پرکیچڑ اچھالنے کی پالیسی ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہوگی ، صد شکر کہ ملک میں
آج جیسی تیسی جمہوریت موجود ہے ماضی کے سارے تجربے اور کامیابیاں اور
ناکامیاں نواز شریف کے سامنے پڑی ہیں اصل امتحان بھی تو انہی کا ہے انہیں
یوں بھی پانچ سال امتحانات دینے میں ہی گزارنے ہیں عوام کے بجھے چولہے
جلانے اور کھویا ہوا چانن واپس لانے کے لئے اپنی ساری صلاحیت استعمال کرنی
ہوگی ان کا آغاز اتنا اچھا ہے کہ یہ بات یقینی ہے کہ پوزیشن ہولڈر نہ بھی
سہی وہ اچھے نمبروں سے ضرور پاس ہو جائیں گے ، آصف زرداری اور انکے حواری
ٹولے نے عوام کا جمہوریت پر یقین انتہائی کمزور کر دیا تھانواز شریف کی
حکومت کو نیک نامی اور کامیابی کی تلاش ہے اسکے بعض وزیر جن میں خرم دستگیر
خان اور خواجہ سعد رفیق سر فہرست ہیں اس کامیابی کے لئے جنون کی آخری حدوں
کو چھو رہے ہیں اورانہیں کام کی دھن میں کھانے پینے تک کا ہوش نہیں، وزیر
خزانہ اسحاق ڈار کی پٹاری سے نکلنے والے سانپوں نے اب عوام کا پیچھا چھوڑ
دیا ہے اور ڈالر کو ڈس کرشیخ رشید کی پشین گوئیوں کو منہ دکھانے لائق نہیں
رہنے دیا۔ جمہوری حکومت کی یہ تگ و دو اوراس پر عوام کاا عتماد نظام کو
تقویت بخش رہاہے سوملک میں جمہوریت پنپ رہی اور معیشت ’’وینٹی لیٹر‘ سے
نجات پا کر کھلی فضا ء میں سانس لینے لگی ہے ۔’’سیاسی یتیموں‘‘ کے پیٹ میں
مروڑ اٹھ رہے ہیں تو اٹھتے رہیں اسکی پرواہ ہی کس کو ہے۔ |