قوموں کے اندر جب سچ سننے کی قوت
ختم ہو جائے ،جب معاشروں میں انا پرستی آجائے،جب لوگ اپنے گریبان میں
جھانکنا چھوڑ دیں تو پھر وہ معاشرے ،وہ قومیں ایک جھنڈے کے نیچے، ایک پلیٹ
فارم پر جمع نہیں ہو سکتی،ایک زبان ،ایک سوچ ،ایک نظریے پر متفیق ہو نا
ممکن نہیں، معاشروں میں بہتری لانے کے لئے ضروری ہے کہ قوت برداشت کا مادہ
پیدا کیا جائے۔سچ اور جھوٹ کے فرق کو سمجھا جائے،حقیقت کو تسلیم کیا جائے،
انسان کو زبان،علاقے،برادریوں میں تقسیم کر کے کبھی بھی بہتری نہیں لائی جا
سکتی،جب کسی دوسرے پر تنقید کی جائے تو شاباش اور جب وہی بات اپنے بارے میں
کہی جائے انتقام کی اگ بھڑک اٹھے اس سوچ سے پروان چڑھنے والی نسل کیا ایک
دوسرے کی بات کو براداشت کر نے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے،یوں تو ہمارے معاشرے
میں ہر جگہ،ہر مقام پر دن رات قرآن ،و حادیث،کے حوالے دے کر فلسفے جھاڑے
جاتے ہیں،دوسرے ممالک کے انسانوں کی کہانی سنا سنا ترقی یافتہ قوموں کا راز
بتایا جاتا ہے،مگر جب وہی راز وہی عمل خود پر آجائے تو ان کے تہور بدل جاتے
ہیں،کسی بھی معاشرے میں اگر بہتری آتی ہے تو وہ کسی ایک خاندان یا کسی فرد
پر نہیں بلکہ ایک نسل ایک قوم کی ہوتی ہے،تعمیر کے لئے تنقید ضروری ہے،جب
تنقید نہیں ہوگی ،جب کسی مسئلے کو سامنے نہیں لایا جائے گا تومسئلہ کبھی حل
نہیں ہوگا،بد قسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں جس کلچر کو ہم پروان چڑھا
رہے ہیں اس میں سچ سننے کی ہمت نہیں یہاں پر سچ بولنا جرم سمجھا جاتا ہے،
اس کے نتیجے میں ہم اخلاقی قدروں سے ہاتھ دھو رہے ہیں،26اپریل 2014کے کشمیر
لنک میں ،میں نے ایک کالم جس کا عنوان تھا( چڑھتے سورج کے پجاری) جس کا
مرکزی نقطہ سکول میں بچوں کو سزا کے حوالے سے تھا ، اس میں یہ لکھا تھا کہ
سزا بچوں کے لئے کتنی نقصان دہ ہے، سزا سے بچے کی سوچ پروان نہیں چڑھتی،بچہ
کبھی آزادی سے نہیں پڑھ سکتا اس میں استاد کی اس سختی کو لکھا جس کی وجہ سے
بچہ سکول سے بھاگتا ہے۔رٹے اور ڈانڈے کے خلاف لکھا جانے والا یہ کالم جو اس
معاشرے کے سکولوں کی خامی کی نشاندہی کرتا ہے ،جو اس تعلیمی نظام کو بہتر
اور موثر بنانے کی تجاویز بھی دیتا ہے اس میں تنقید بھی تھی اور تعمیر
بھی،اس کالم کی پاداش میں میرے بچوں اور مسسز کو سکول سے نکال دیا گیااس
کالم کے جو تعمیری پہلو تھے ان کو نظر انداز کر کے تنقیدی باتوں کو ہائی
لائٹ کر کے سز ا کے طور پر بچوں اور مسسز کو سکول جاننے سے روک دیا
گیا،بچوں کو سکول سے روکے جانے کے بعد میں نے سکول کے ہیڈ سے تین بار بات
کرنے کی کوشش کی اور اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی
یہ کالم آپ کی ذاتیات پر ہے یہ اجتماعی صورت حال پر لکھا ہے،مگر سکول کے
ہیڈ نے میرا فون ہر بار یہ کہہ کر کاٹ دیا کہ میں کوئی بات نہیں سنتا،یہ
بچے میرے نہیں یہ اس قوم کے بچے ہیں ،یہ اس معاشرے کے بچے ہیں میں نے بااثر
لوگوں سے اس حوالے سے بات بھی کی کہ اس کالم کو ذاتی ایشو نہ بنایا جائے ،بچوں
کو اور مسسز کو سکول سے نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں مگر لوگوں کی نظر میں
انسانی بچوں کی کوئی اہمیت نہیں ،بچوں کی کوئی اوقات نہیں جن کے سامنے سچ
اور حقیقت کوئی معنی نہیں رکھتی،ظلم زیادتی،جبر،اجارہ داری،سب کچھ ہو اور
نظر نہ آئے یہ بھی سوالیہ نشان ہے،میں بیس سال سے کالم لکھ رہا ہوں اور میں
نے ہمیشہ معاشرے کی بہتری کے لئے لکھا ،سوچ کو بیدار کرنے کے لئے لکھا،ایشو
بھی بنتے رہے۔ تبدیلی اور بہتری بھی ہوتی رہی مگر یہ اپنے اپنے ظرف کی بات
ہے کہ کون کتنا سچ سننے کی طاقت رکھتا ہے کون کتنا سچ برداشت کر سکتا ہے
میں نے معاملے کو بڑھنے سے روکنے کے لئے اس سکول کی ضلعی اعلیٰ انتظامیہ سے
بھی رابطہ کیا اور ان کو اپنا کالم بتایا،کہ اس کی باداش میں یہ سزا دی جا
رہی ہے مگر وہ بھی لیت ولعل سے کام لیتے رہے کہ دیکھیں گے بات کرے گے
مشاورت کریں گے خیر آپ معذرت کر لیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ میں تعلیمی اداروں
کو چلانے والوں کے پاس نہیں بلکہ کہیں اور آگیا ۔اگر یہ تعلیمی اداروں کو
چلانے والے ہوتے ،یہ احساس اور درد دل رکھنے والے ہوتے تو میرے بچے نہیں یہ
ان کے بچے تھے یہ اس قوم کے بچے تھے،جن کو کتابوں میں قوم کا مستقبل کہا
جاتا ہے،مگر شاہد میرا خیال غلط تھا،اگر یہ بھی اس قوم کا مستقبل ہوتے تو
ان کے مستقبل سے نہ کھیلا جاتا۔مصلحت کے دروازے پر دستک دینے کے بعدجب کوئی
آواز نہ آئی تو میں نے اپنی قلم کا سہارا لیا میں کہا تک لکھو گا کب تک
لکھو گا یہ فیصلہ وقت کرے گامیرا سوال اس معاشرے کے با اثر لوگوں سے
ہے،میرا سوال سکول کی اعلیٰ انتظامیہ اور نیٹ ورک چلانے والے کشمیر بھر ،پاکستان
بھر میں بیٹھے منصفوں سے اور بچوں کو تعلیم دلانے کے دعوے کرنے والوں سے
ہے،میرا سوال ایوانوں میں بیٹھے اقتدار کی کرسی سنبھالنے والوں سے ہے میرا
سوال انسانی حقوق کی تنظیمیں چلانے والے دنیا کے منصفوں سے ہے ،کہ وہ کون
سی برائی ہے جواس معاشرے میں نہیں پائی جاتی،وہ کون سی تنقید ہے جو نہیں کی
جاتی ،پھر وہ کون سا جرم ہے جس کی بنیاد پر بچوں کو سکول سے نکالا جائے
اوردن رات کم سے کم اجرت پر بھی محنت اور کوالٹی پر سمجھوطہ نہ کرنے
والے،ادارے کے لئے اپنی خدمات سرانجام دینے والوں کی اوقات بس کیڑے مکوڑے
کے برابر راہ جائے،جب چاہا نکال دیا جب چاہا پھنک دیا۔
اس اقدام کو کیا نام دیا جائے ،یہ اجارہ داری ہے،یا تعلیمی نظام،یہ قبیلائی
ازم ہے یا مساوات، یہ وڈیرہ شاہی ہے یاقوم کی خدمت ۔ وہ سکول ،وہ نیٹ
ورک،جو خود کو اسلام اور اسلامی اصولوں کے پیروکار کہلاتے ہیں ،میں نے چند
الفاظ پہلے کالم میں بھی علامتی لکھے تھے جن کو بنیاد بنا کر یہ اقدا م
اٹھایا گیا،اب بھی یہی کہوں گا کہ اگر کوئی کسی کو تھپڑ مار دے تو اسے گنڈہ
گردی کہا جاتا ہے کسی کو سزا دی جائے تو اسے ظلم اور دینے والے کو ظالم کہا
جاتا ہے۔اس کا جواب آپ دیں کہ اگر بچوں سے ان کی تعلیم چھینی جائے تو اسے
کیا کہا جاتا ہے، بچوں کا مستقبل تاریک کر نے والے کو کیا نام دیا جائے،کسی
کی روزی روٹی روزگار چھینے والے کو کن الفاظ سے پکارہ جائے یہ فیصلہ آپ
کرے۔سکول کا کردار معاشرے میں کیا ہوتا ہے۔چھ ماہ تک بچوں کے ٹھیک طرح سے
نام تک داخل نہ کئے جائیں تو آپ کیا کہئے گے،آپ کس کو سزا اور کس کو سزا
نہیں کہتے ،اگر بچے سزاکے خوف سے سکول نہ جائیں تو اسے کیا نام دیا جائے گا
،یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے وہ چار بچے جن کا تعلیمی دروازہ بند کر دیا گیا ہے
ان کا جواب دے کون ہے،اگر اپ کا ضمیر زندہ ہے تو فیصلہ کریں آج سچ بولنے پر
چار بچے نکالے گئے تو اس معاشرے سے سچ ختم ہو جائے گا۔ان بچو ں کی جگہ آپ
کے بچے ہوں تو آپ کیا کریں گے،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کالم میں جن پہلو کی
نشاندہی کی گئی تھی ان کی اصلاح کی جاتی مگر اصلاح کے بجائے سچ کو دبانے کی
کوشش کی گئی،دباو ڈالا گیا،کیا آپ انصاف کریں گے۔ |