یہ ایک ناقبل حقیقت ہے کہ دنیا
کا کوئی بھی عمل علم کے بغیر نہ ممکن ہے.کوئی قوم علم کے بغیرعزت حاصل نہیں
کر سکتی .علم روشنی ہے جہالت اندھیرا ہے.اچھی تعلیم و تربیت ہی قوم کی ترقی
و خوشالی پرمنحصر ہے .علم بھی وہ ذریعہ ہےجس سے انسان کے ذریعہ انسان کو
عرفان الہی جیسی عظیم نعمت حاصل ہو سکتی ہے.علم ہی وہ چراغ ہے جس کی مدھم
سے مدھم لو کو بھی دنیا اسے بجھا نہیں سکتی.لیکن افسوس آج ایک مسلمان
اسلامی تعلیم سے منہ موڑ کرصرف دنیوی تعلیم کے حصول میں منہمک و مصروف ہے .جو
نہایت خطرناک و ہلاکت خیز ہے .الله رب العزت نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ
یاایھا الذین امنو قو انفسکم و اھلیکم نارا و قعودھا الناس والحجارۃ
اےایمان والو اپنی جانو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن
آدمی اور پتھر ہے.
لہٰذا اے میری دینی اور ایمانی بھائیو!آج دنیوی تعلیم پر ہزاروں لکھوں خرچ
کرتے ہیں.اپنے بچوں کو دنیا میں پیش آنے والے مصائب و آرام آفت و بلیات سے
بچانا کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں اگر خدا نخواستہ ذرا سی تکلیف
ہو جائے تو اچھا سے اچھا ڈاکٹر اور ہسپتال تلاش کرتے ہیں .نہایت مضبوط اور
مستحکم اور خوبصورت مکانات تعمیر کراتے ہیں چلنے کے لیے بہترین سواری مہیا
کرتے ہیں .تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو،قیمتی لباس،عمدہ بستر لذیذ کھانےاور
ضروریات کی دیگر اشیا بھی بڑی فکر سے لا کر رکھتے ہیں لیکن صرف اس دنیا
فانی کے لیے اور آخرت کے لیے کچھ نہیں ...............
مگر یہ بتائیں کہ آپ نے اپنے پیارے اور چہیتے بچوں کو قیامت کے اس ہولناک
وقت کے جس کا پہلا دن پچاس ہزار برس کا ہو گا زمین تانبے کی ہو گی سورج
نہایت قریب ہو گا ،گرمی کی سختی سے کھوپڑی کھولتی ہو گی، زبان سوکھ کر
کانٹا ہو جائیں گے .ان دل دہلا دینے والی سختیوں اور پریشانیوں سےبچنے کے
لیے کیا کیا ؟ آخرت کے اس عذاب اور جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے بچانے کے لیے
آپ کیا کر رہے ہیں؟آخر آپ کو آخرت کے عذابوں سے خود اور انکو بچنے کے لیے
کوئی فکر کیوں نہیں ؟کیا یہی اولاد سے محبت کا تقاضا یہی ہے ؟ کیا اسی کا
نام پیار ہے؟ کہ دنیا میں پیش آنے والی پریشانیوں سے بچانے کا نام ہی
ہمدردی ہے؟
خدا نخواستہ اگر ایسا ہے تو آخرت کا عذاب اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ تو
دور کی بات ہے .موت کا ایک جھٹکا ہمیں جگا دے گا .
اندھیرا گھر اکیلی جان دم گھٹتا دل اکتاتا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
اگر ہم نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم نہ دی تو یاد رکھیں بارگاہ خداوندی میں
جواب دینا پڑے گا .حدیث پاک ہے کہ باپ کے ذمے اولاد کے حقوق ہیں اور اولاد
کے ذمے باپ کے حقوق ہیں .حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس ایک آدمی اپنے بچے
کو ساتھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یہ مجھے بہت ایذا اور تکلیف پہنچاتا
ہے.تو اس بچے نے کہا کہ کیا اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں والدین پر .تو حضرت
عمر رضی الله عنہ نے فرمایا تین حق ہیں .
١.اس کا یعنی (بچے ) کا اچھا نام رکھنا
٢.اس کی ماں اچھی ہو
٣.اس کو قرآن کی تعلیم دینا
تو وہ بچہ حضرت عمر رضی الله عنہ سے کہنے لگا کہ انہوں نے ایک حق بھی ادا
نہیں کیا۔۔۔
١.انہوں نے میرا نام جوھلان رکھا ( جو پاخانے میں پیدا ہوتا ہے اس کیڑے کا
نام ہے)
٢.انہوں نے ایک باندی سے شادی کی
٣.انہوں نے مجھے قرآن کی تعلیم نہیں دی
تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس آدمی سے کہا کہ اس ایذا اور تکلیف کا سبب
تو خود بنا ہے .
تو مرے بھائیو الله کی بار گاہ میں ہمیں جواب دینا پڑہے گا حدیث پاک ہے کہ
کلکم ذراع و کلکم مسئول عن رعیۃ
یاد رکھو ! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اسکی ذمہ داری کے
بارے میں باز پرس ہو گی (بخاری )
تمہاری وہ اولاد جس کے لیے تم نے پریشانیاں برداش کیں .جس کی خاطر رات دن
خون پسینہ کیا لیکن مرنے کے بعد بےعملی اور دینی تعلیم سے نابلد اولاد آپ
کے کام تو کیا آہے گی آپکی بخشش و نجات کا ذریعہ کیا بنے گی بلکہ آپکو اپنے
دیگر گناھوں کی سزا کے ساتھ اپنی اولاد کو دین نہ سیکھانے کی سزا سے دو چار
ہونا پڑہےگا .اگر اپ نے اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے ذریعہ نیک اور صالح
بنایا تو دنیا میں بھی نیک نامی اور مرنے کے بعد بھی اولاد کی نیکوں کا اجر
و ثواب آپکو ملتا رہے گا .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے انسان جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل
منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزیں (کہ مرنے کے بعد بھی یہ عمل ختم نہیں ہوتا
)
١.صدقہ جاریہ ٢. علم جس سے نفع حاصل کیا ہو ٣.اولاد صالح جو اس کے لیے دعا
کرتی ہے (مسلم شریف )
اور فرماتے ہیں کوئی آدمی اپنی اولاد کو ادب سیکھا دے وہ اس کے لیے ایک صاع
صدقہ کرنے سے بہتر ہے
آج ہم دنیا کی فکر میں مبتلا ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں
کہ اولاد کس طرف جا رہی ہے۔پر جب اولاد نا فرمانی کرتی ہے تو اس وقت ہمیں
احساس ہوتا ہے لیکن وقت جا چکا ہوتا ہے اس کی دین و دنیا ہم خود تباہ کرتے
ہیں .جو بڑھاپے کا سہارا بنے کی بجائے خار بن کر آنکھوں میں کھٹکتا ہے جب
یہی اولاد والدین کےسامنے کھڑے ہوتے ہیں تو والدین گلہ کرتے ہیں کہ اولاد
نافرمان ہے ،ہمیں بے عزت کرتی ہے تو جب آپ نے اولاد کو دین سے دور رکھا ان
کو والدین سے برتاو کا آپ نے بتایا ہی نہیں تو ان سے گلہ کس بات کا۔۔ لہٰذا
اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں .وقت کی ضررورت و اہمیت کے
پیش نظر دنیوی تعلیم بھی دیں لیکن دنیوی تعلیم کے چکر میں اولاد کی آخرت
تباہ نہ کریں .الله پاک ہم سب کو اپنی اولاد کو دینی تعلیم دینی دینے کی
توفیق عطا فرمائے ......آمین |