اشاعت اسلام کے لیے تعلیماتِ سلطان الہند کی ضرورت و افادیت

اسلام اپنی اخلاقی تعلیمات، فطری صداقت اور پاکیزگی ولطافت کی وجہ سے عام ہوا ہے۔ اس سچائی کو اﷲ کے آخری پیغمبررحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پیش فرمایا جن کے اختیارات اور جود وعطا سے خدا کی عنایت کردہ ان عظمتوں کا اظہار ہوا جس کے آگے دنیا کی بادشاہت و جلالت اور شکوہِ عمارت و حکومت سرنگوں ہوکررہ گئی۔ عظمت و شان اور اخلاق و کردار کے وہ عظیم جلوے جس نے قیصر وکسریٰ اور فراعنہ کے جبر واستبداد کا خاتمہ کر دیا اور اسلام کی نور بار کرنیں عرب کی سرحدوں سے نکل کر افریقہ کے تپتے صحرا میں بسنے والے وحشیوں کو انسانی اقدار سے آشنا کرنے لگیں۔ خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد صحابہ و تابعین وداعیانِ دینِ متین نے اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا اور حق و صداقت کی شمع دلوں کے طاق پہ فروزاں رکھی۔ ان کے بعد اولیائے اسلام وعلمائے کرام کے ذریعے دین کی اشاعت ہوتی رہی۔

ابتدائی صدی میں ہی اسلام کی کرنیں عرب تجار و تابعین کے ذریعے ہندوسندھ کی زمیں کو منور کرنے لگی تھیں۔ ساحل مالابار،کیرلا اور سندھ کے علاقے اسلام کی مقدس پناہ میں آچکے تھے۔ باب الاسلام سندھ میں خدمت حدیث کی مسندِ تدریس حضرت شیخ اسماعیل بخاری کے توسط سے سج گئی تھی۔ پھر پنجاب کی سرزمیں داتا گنج بخش ہجویری کے عرفاں سے اسلام کی کرنوں سے آشنا ہوئی اور اہلِ شرک کے صنم کدوں میں اذانِ توحید گونجی جس نے دلوں کے زنگ دھو ڈالے اور نبوی اخلاق سے متصف عاشقانِ صادق نے ایمان کی وہ سوغات تقسیم کی کہ دنیا انھیں ’’داتا گنج بخش‘‘ کہہ کر یاد کرنے لگی۔جن کی عطا کا آج بھی چرچا اور سخا کا شہرہ ہے۔

چمنِ رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا گُلِ تر بشکلِ معین الدیں حسن اجمیری واردِ سندھ حاضرِبارگاہِ داتاہوتا ہے اور کسبِ فیض کے بعد دہلی پہنچتا ہے، اس وقت تک اشاعتِ اسلام کا کارواں ہند میں کچھ دھیما دھیما سا رواں تھا، رحمتِ باری کو جوش آنا ہی تھا اورخواجۂ ہند کے ذریعے اشاعتِ حق کے کارواں کو تیزی کے ساتھ بڑھنا منظور تھا۔ نبوی اخلاق کا وہ عظیم مظاہرہ آپ نے ہند کے اصنام زدہ ماحول میں کیا کہ ایمان کی کھیتی ہری بھری ہو گئی۔ ۹۰؍لاکھ لوگوں کا اسلام قبول کر لینا کوئی لمحاتی واقعہ نہ تھا۔ اس کے لیے مشیت نے خواجہ غریب نواز کو چُنا تھا جن کے دم قدم سے ہند کی زمیں شاداب ہونی تھی اور ابرِ رحمت جھوم کر برسنا ہی تھا؛ بقول علامہ حسنؔ رضا بریلوی ؂
گلشنِ ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ! اے ابرِ کرم زور برسنا تیرا

خواجہ غریب نواز نے اپنے اخلاقِ کریمانہ سے اسلامی تعلیمات کی عملی تصویر پیش کی۔ یاد رہے! جب دل شرک کی آماج گاہ بن جاتا ہے،تو حق باتیں قبول کروانے کو بڑی تدبیر درکار ہوتی ہے، صدیوں سے اپنے ہاتھوں کے تراشیدہ اصنام کی پرستش کرنے والے یوں ہی توحید کے نغمے نہیں گنگناتے اس کے لیے فضلِ باری اور عنایتِ نبوی سے کرم نوازی ہوتی ہے۔ یہی کچھ خواجۂ ہند کے ساتھ ہوا۔ ان کے اعلیٰ اخلاق اور چمکتے کردار کے ساتھ عطائے ایزدی کی وہ بارانِ رحمت نازل ہوئی کہ صدیوں سے تاریک فضا میں ایک انقلاب آگیا۔ ایسا انقلاب کے فکر کے غبار دھلنے لگے، تھکی تھکی طبیعتیں کھلنے لگیں، راجستھاں کا خطۂ ریگ زار ہی کیا شمال سے وسطِ ہند تک کی فضا کلمۂ توحید ورسالت سے جھوم جھوم اٹھی۔اجمیر کی زمیں سے جو پیغام صدیوں پہلے دیا گیا تھا اس کی صدائے دل نواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی ہے، غریب نواز نے اولیائے کرام کے مقدس مشن کی ترجمانی کی تھی،دلوں کے زنگ کیا دھوئے کہ ہر دل ان کا اسیر ہوگیا، نبوی چوکھٹ سے جود وسخا کے جو دھارے نکلے تھے اور ان سے غریب نواز نے سیرابی کی تھی، اسی کا فیض آج بھی اجمیر سے جاری وساری ہے اور ذہن تسلیم کر رہے ہیں کہ اُس دور میں اہلِ شرک نے توحید کااقرار کر کے حق کا کلادہ گلے میں ڈالا تھا اور آج زنگ آلود قلب عرفان ویقیں کے جام پی کر حق آشنا ہو رہے ہیں۔ع
خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

زمانی تقاضوں کے ساتھ اشاعتِ اسلام کا قافلہ آگے بڑھا ہے۔ فلسفۂ یونان کا جب زور تھا تو عشق رسول کریم سے سرشار فکرِ غزالی و تعلیماتِ غوثیہ نے اسلام کی نکھری تعلیمات کی ترجمانی کی تھی۔ جب ہند میں شعبدہ بازوں نے شرک کی حمایت میں اپنے تمام حربے آزما ڈالے تب شریعت کی استقامت کے کوہِ گراں غریب نواز نے اساسِ دیں کی حفاظت اور دعوتِ حق کی انجام دہی کی غرض سے اظہارِ کرامت فرمایا۔ کرامت اُس دور کی ضرورت تھی۔ اشاعتِ اسلام کی خاطر خواجۂ ہند نے جے پال کے سحر کو کیا توڑا تمام جادوگر اسلام کے دامن میں آگئے۔

اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیمات اور روحانی تب وتاب کے ساتھ دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ خواجہ غریب نواز کی روحانی فتوحات کے زیرِ اثر ہند میں اسلامی سلطنت کی بنا قائم ہوئی۔ تاریخ کے صفحات میں خواجہ غریب نواز کا وہ تاریخی جملہ محفوظ ہے ’’پرتھوی راج را زندہ گرفتار کردہ بہ لشکر اسلام دادیم‘‘ یعنی پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر کے اسلامی لشکر کے حوالے کر دیا۔ یہ مومنانہ بصیرت تھی جس نے مستقبل میں ہونے والے خدائی فیصلے کا اعلان پہلے ہی کردیا، اس سے انھیں درس لینا چاہیے جو نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے غیبی علوم میں کلام کرتے ہیں۔

جن دلوں کو ایمان کی روشنی دی تھی آج ان کی نسلیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور اسلامی معاشرہ قائم ہے، بعد کے ادوار کے علما و صلحا اور اولیا و مقبولانِ بارگاہِ صمدیت کی مساعی جمیلہ سے دین کی اشاعت ہوتی رہی۔ کبھی تیز وتند آندھی نے تجدید واحیا کی صورت پیدا کی تو عزمِ معینی لے کر سرہند کی زمیں پر مجدد الف نے آندھیوں کی زد پر یقیں کے چراغ جلائے، کبھی بریلی کی زمیں سے محبت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا درسِ زریں عام ہوا اور جس کی خوشبو سے اکنافِ عالم معمور ہوا۔ ہمیں آج کے اِس دورِ حزیں میں تعلیماتِ خواجہ کی اشد ضرورت ہے، تاکہ اسلامی تعلیمات کے حسیں انقلاب سے یہود ونصاریٰ اور مشرکین کی سازشوں کا دنداں شکن جواب دے کر حق کی شمع فروزاں رکھی جاسکے، جو اہم ضرورت بھی ہے اور مسلم معاشرے کے استحکام کا باعث بھی۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.