فقیہ حرمین، برادر اہل بیتؓ رسولؐ،
احلم و اجود امت، سپاہیٔ ابوبکرؓ، عامل عمرؓو عثمانؓ، برادر حیدر کرارؓ،
معتمد حسنؓ،امام تدبر و سیاست، بانی اسلامی بحریہ، کاتب وحی، کاتب رسالت،
فاتح عرب و عجم، خال المؤمنین، راز دار نبوت،برادر نسبتی رسالت، ہم زلف نبی،
امام راشد و عادل ، خلیفۂ برحق
امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ
طبقۂ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام خلاق عالم کی تمام مخلوقات میں افضل و
اشرف ہے اور اس بہترین طبقہ میں سب سے افضل و اشرف، اطیب و اعلیٰ جناب خاتم
الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم ہیں۔ اﷲ رب العزت کی اشرف
مخلوق انسان، کے اعلیٰ ترین طبقۂ انبیا علیہم السلام کے بعد سب سے افضل
طبقہ حضرات صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا ہے، جس کے تاجدار اور
سرخیل اول الصحابہ، اول المسلمین، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق اکبرؓ
ہیں۔ رجب المرجب کا مہینہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ نبی ﷺ کے لائق صد عزت و
تکریم صحابۂ کرامؓ میں انتہائی اہم مقام و مرتبہ کے حامل، برادر نسبتیٔ
رسول، رازدار نبوت، امام تدبر و سیاست، خال المؤمنین، فاتح عرب و عجم، کاتب
وحی، امیر المؤمنین سیدنا معاویہؓ کی وفات کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی 22 تاریخ
کوسیدنا معاویہؓ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے بعد اسلام کے دامن میں
ایسا خلا چھوڑ گئے جو تا قیام قیامت پر نہ ہو سکے گااور نہ ہی یہ امت سیدنا
معاویہؓ کے احسانات سے کبھی سبکدوش ہو سکتی ہے۔
اسلام سے قبل دور جاہلیت میں اہل مکہ میں قبیلہ قریش کے صرف چند افراد نوشت
و خواند جانتے تھے۔ نیز مورخین نے لکھا ہے کہ جب اسلام آیا تو قریش مکہ میں
سترہ آدمی ایسے تھے جو تحریر اور نوشت و خواند کا فن جانتے تھے۔ ان افراد
میں حضرت سیدنا عمرؓبن الخطاب، حضرت سیدنا عثمانؓ بن عفان، حضرت سیدنا علی
المرتضیٰؓ، حضرت سیدنا ابوعبیدہؓ ابن الجراح، حضرت سیدنا طلحہؓ بن عبیداﷲ،
حضرت سیدنا ابوسفیانؓبن صخر بن حرب، حضرت سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ اور
حضرت سیدنا معاویہؓبن ابی سفیانؓ شامل تھے۔ رسول اکرم ﷺ کی جناب میں جہاں
دیگر کاتب حضرات تھے وہاں سیدنا معاویہؓ کو بھی ان کے خاندانی وقار کے پیش
نظر کتابت کے منصب سے سرفراز کیا گیا تھا۔ اور آپﷺ کے کاتبوں میں ان کا خاص
مقام تھا۔ یہ چیزسیدنا معاویہؓ کی صلاحیت و صداقت اور امانت کی دلیل ہے۔
اور یہ ان کے حضورﷺ کے ہاں معتمد ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ قرآن مجید کی حفاظت
میں ایک اہم سبب ’’کتابت ِوحی‘‘ ہے۔ حضورﷺ نے جلیل القدر صحابہ کرامؓ پر
مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ’’کاتبین وحی‘‘ تھے۔ ان میں سیدنا
امیرمعاویہؓ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اﷲؒ محدث دہلوی ’’ازالۃالخفاء‘‘
میں لکھتے ہیں کہ ’’ حضورﷺ اسی کو کاتب بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت
دار ہوتا تھا‘‘۔
ابن عساکر نے حضرت علیؓ اور حضرت جابرؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول خداﷺ
نے حضرت معاویہؓ کو کاتب وحی کے منصب پر مقرر کرنے کے لیے جبریل ؑسے مشورہ
کیا۔ حضرت جبریل ؑنے فرمایا: ’’انہیں کاتب مقرر فرما لیں کہ وہ امین ہیں‘‘۔
چنانچہ اس کے بعد حضرت معاویہؓ، حضرت زیدؓ بن ثابت کے بعد دوسرے نمبر پر سب
سے زیادہ کتابت وحی کا اہم فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ یہ دونوں حضرات دن
رات آپﷺ کے ساتھ رہتے ۔محدثین کرامؒ اور ان کے ساتھ ساتھ کبار علماء نے یہ
تصریح بھی ذکر کر دی ہے کہ سیدنامعاویہؓ جناب نبی اقدسﷺ کی خدمت میں کتابت
وحی کا فریضہ بھی دیگر کاتبین وحی کی معیت میں ادا کیا کرتے تھے۔سیدنا
معاویہؓ کی علمی پختگی اور شیفتگی حق ہی کے باعث دربار رسالت میں آپؓ کو
خاص مقام حاصل تھا۔ سیدنا معاویہؓ فتح مکہ سے قبل عمرۃ القضاء کے موقع پر
مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے یہی وجہ ہے کہ کفرو اسلام کے کسی معرکہ میں سیدنا
معاویہؓ افواج کفر کی جانب سے اسلام کے خلاف بر سر پیکار نظر نہیں
آتے۔اسلام لانے کے بعد مستقلاً آپؓ ،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں
رہنے لگے۔ جلد ہی آپؓ کو صحابہ کی ایسی مقدس اور خوش نصیب جماعت میں شامل
کرلیا گیا جسے آنحضرت ﷺ نے کتابت وحی کے لیے مامور فرمایا تھا۔ کاتبان وحی
کو درج ذیل قرآنی صراحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کی صداقت کے لیے یہی
ایک چیز کافی ہے۔
’’یہ قرآن رفعت و بزرگی والے صفحات میں ہے۔ پاکیزہ ہاتھوں میں اور بہترین
افراد اس کے لکھنے والے ہیں‘‘ ۔﴿عبس﴾
حضورﷺ کے تیرہ کاتبین تھے۔ ان میں حضرت معاویہؓ اور حضرت زیدؓ سب سے زیادہ
کام کرتے تھے۔ نبیﷺ کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ اور آپ کے والد گرامی قدر
حضرت ابو سفیانؓ نے سیدنا صدیق اکبرؓکے ہاتھ پر بیعت کی۔ عہد صدیقی میں
حضرت معاویہؓ کا شمار خلافت کے اولین افراد میں ہوتاتھا۔ تذکرہ نگاروں کا
کہنا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں حضرت معاویہؓ
روایت، حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور اس زمانے میں آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت
عثمانؓ اور اپنی بہن ام حبیبہؓ سے احادیث روایت کیں۔
عہد صدیقی میں ایک اہم غزوہ ربیع الاول ۱۲ ھ میں پیش آیا جسے جنگ ِیمامہ کے
نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ عقیدہ ختم نبوت پر واقع ہوئی۔ رسول اکرمﷺ
کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہو چکا تو اس دور میں مسیلمہ بن حبیب نامی ایک کذا ب
نے یمامہ کے علاقہ میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا۔ تو صحابہ کرامؓنے اس کذاب
کو ختم کرنے کیلئے اس کے ساتھ ایک خون ریز جنگ کی۔ جنگ یمامہ میں بڑے اکابر
صحابہؓ شریک ہوئے اور مسئلہ ختم نبوت کوان حضرات نے کسی زبانی بحث و مباحثہ
یا کتابی مناظرہ کے ذریعے نہیں بلکہ تیر و تلوار سے حل کیا اور باطل نبوت
کے مدعی کو اور متبعین کو تہ تیغ کر کے ان کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا۔ابن
کثیر نے لکھا ہے کہ حضرت معاویہؓجنگ یمامہ میں حاضر ہوئے اور مسیلمہ کے قتل
میں بھی شامل تھے۔
صدیقی دور میں علاقہ شام کی طرف مسلمانوں کے مختلف جیوش اور عساکر
وقتاًفوقتاً حسب ضرورت ارسال کئے گئے۔ چنانچہ حضرت ابوسفیانؓ کے بڑے فرزند
حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کو شام کی طرف صدیقی دور میں مہمات سر کرنے کے
لئے بھیجا گیا اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ ؓ بھی ان مہمات میں شامل تھے۔بعض
دفعہ یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو مزید کمک کی ضرورت پیش آئی تو حضرت ابو بکر
صدیقؓنے حضرت معاویہؓ کوایک دستہ کا امیر بنا کر روانہ فرمایا۔ فتوح
البلدان کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہؓ اپنے بھائی کے بعد
دوسرے شامی لشکر کے امیر بنائے گئے غرض حضرت معاویہؓ ان خوش نصیب مجاہدوں
سے ایک ہیں جن کو صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓکی نگاہ انتخاب نے امت مسلمہ
کی قیادت کے لیے چنا۔ شام جانے والا یہ پہلا لشکر تھا جسے مشہور سپہ سالار
ان ابو عبیدہؓ بن الجراح، خالدؓ بن ولیداور عمروؓبن العاص سے بھی پہلے دس
ہزار سپاہ کی معیت میں روانہ کیا گیا۔حضرت معاویہؓحدود شام میں داخل ہوئے،
آپ ؓ کی پہلی مڈبھیڑ اردن کے آدمیوں سے ہوئی ،یہاں آپؓ نے اپنی حربی
صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فتح و نصرت حاصل کی۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کا دور خلافت صرف دو سال تین ماہ دس دن پر مشتمل تھا۔اس
لیے جولانی طبع کے جوہر دکھانے کا صحیح موقع عہد فاروقی میں آپؓ کو ملا۔
فتح مرج کے بعد آپؓ نے اپنے بھائی یزیدؓ بن سفیانؓ کے ساتھ شام کے مضبوط
قلعے قلعہ صیداء، عرفہ، جبیلی اور بیروت کی تسخیر کے لئے پیش قدمی کی۔ عرفہ
کے قلعہ کو فتح کرنے کیلئے حضرت معاویہؓ نے جان جوکھوں میں ڈال دی۔ ان
قلعوں کی فتح نے حضرت عمر فاروقؓ کو بہت متاثر کیا انہوں نے خوش ہو کر آپؓ
کو اردن کا گورنر مقررکر دیا۔قبل ازیں جو علاقے رومیوں کے قبضے میں چلے گئے
تھے، آپؓنے وہ دوبارہ چھین لیے اور وہاں اسلامی شوکت و حشمت کا پھریرا لہرا
دیا۔
علاقہ شام کی فتوحات میں فتح اردن ۱۵ھ میں ہوئی ،یہ ایک مشکل مہم تھی۔ اس
موقع پر لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح تھے۔حضرت عمر
وؓبن العاص اس موقعہ پر امیر الافواج تھے لیکن ابو عبیدہؓ بن الجراح امیر
الامراء تھے۔ جب سواحل اردن کا معاملہ پیش آیا توحضرت عمر وؓبن العاص نے
حضرت ابو عبیدہ ؓبن الجراح کو کمک بھیجنے کے لئے لکھاتو حضرت ابو عبیدہؓ نے
یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو ان کی طرف بھیجنے کے لئے آمادہ کیا اور ان کے ساتھ
جو دستہ روانہ کیا اس کے مقدمتہ الجیش پر حضرت معاویہ ؓ نگران تھے۔
فتح دمشق کے ساتھ ہی اس علاقے کے سواحل صیداء، عرفہ، جیبل بیروت وغیرہ کی
طرف اسلامی فوجوں نے توجہ کی اور ان علاقوں کو بڑی کوششوں سے فتح کیا۔اس
موقع پر لشکر کے مقدمتہ الجیش پرسیدنا معاویہؓ تھے اور ان کی کمان میں یہ
فتوحات کثیرہ ہوئیں۔ خصوصاًعرفہ کی فتح سیدنا معاویہؓ کی کوشش سے ہوئی یہ
ان کی فہم و تدبیر کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔مختصر یہ کہ دمشق اور اس کے
ملحقات کی فتوحات میں حضرت معاویہؓ نے مع دیگر صحابہ اکرامؓ کے بڑی قابل
قدر مساعی کیں اور شاندار کارنامے بجا لائے اور ان تمام ممالک پر عظمت
اسلام کا پرچم لہرایا۔
امیر المومنین حضرت عمرؓ نے قیساریہ کی مہم سر کرنے کے لیے حضرت معاویہؓ کا
انتخاب فرمایا۔ قیساریہ بحیرہ روم کے ساحل پر بڑا عظیم الشان شہر تھا۔ اس
کی عظمت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے شہر پناہ پر ایک لاکھ
سپاہی رات کو پہرہ دیا کرتے تھے اور اس میں تین سو بازار تھے۔ چنانچہ اس
عظیم شہر کوفتح کرنے کے لئے حضرت معاویہؓ کی طرف سے ۱۵ہزار کا لشکر پہلے ہی
سے خیمہ زن تھا چونکہ حضرت معاویہؓ اول درجہ کے منتظم جنگ تھے۔ اس لیے فوج
کی ترتیب اس انداز سے کی گئی کہ رومی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔غرضیکہ جنگ
چھڑی، گھمسان کا رن پڑا اور چند روز کی لڑائی کے بعد انہیں پسپا کر
دیاگیا۔اور وہ شکست کھا کر شہر بند ہوگئے ،حضرت معاویہؓ نے بڑھ کر شہر کا
محاصرہ کر لیا۔آخر ایک دن رومی بڑے جوش و خروش کے ساتھ ایک لاکھ کا لشکر لے
کر نکلے اور بڑی خون ریز جنگ کے بعد وہ میدان جنگ سے ہٹے اور حضرت معاویہؓ
نے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔چونکہ یہ ایک مشہور مقام تھاس لیے اس کی فتح سے
گویا شام کا مطلع صاف ہو گیا۔ اس جنگ میں ۸۰ہزار رومی مارے گئے اور اس کے
فتح ہونے کی خبر امیر المومنینؓ نے سنی تو زبان مبارک سے بے ساختہ اﷲ اکبر
کا نعرہ نکل گیا۔تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ اس فتح سے رومیوں کے دلوں میں
حضرت معاویہؓ کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ دوبارہ سر اٹھا نہ سکے۔
فاروقی دور میں فلسطین کے علاقہ میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور بہت سے
علاقے اہل اسلام نے فتح کیے۔ ان مواضعات میں عسقلان کی فتح کے متعلق مؤرخین
نے لکھا ہے کہ مرکز اسلام مدینہ طیبہ سے حضرت عمر فاروقؓ نے والی شام سیدنا
معاویہؓ کو ایک مکتوب ارسال کیا کہ فلسطین کے باقی علاقوں میں سے عسقلان کی
طرف توجہ دیں اور اسے فتح کرنے کی سعی کی جائے۔ چنانچہ حضرت معاویہؓ نے
امیرالمومنین کے اس حکم کی تعمیل میں عسقلان کی طرف پیش قدمی کی اور اسے
فتح کرلیا۔ اور بعض مورخین نے لکھاہے کہ حضرت عمروؓبن العاص نے عسقلان کو
فتح کیا تھا اور جب آپؓ اسے فتح کرنے کے بعد واپس ہوئے تو اہل عسقلان کی
روم نے مدد کی اور انہوں نے نقض عہد کردیا اور باغی ہوگئے۔ ان حالات کے
بعدحضرت معاویہؓ نے عسقلان کی طرف پیش قدمی کی اور اسے دوبارہ فتح کیا۔ پھر
وہاں اپنی افواج کو ٹھہریا اور حفاظتی دستے متعین فرمائے۔ حضرت معاویہؓ کے
ساتھ دیگر صحابہ کرامؓ جو بلاد روم کی فتوحات میں شامل تھے ان میں حضرت
عبادۃؓ بن صامت، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت شدادؓ بن
اوس زیادہ قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات نے سیدنا معاویہؓ کی نگرانی میں ان مہمات
کو سر کیا اور ان مقامات کو اسلامی حکومت کے دائرہ میں شامل کیا۔
۲۴ ھ میں حضرت عثمانؓ سر یر آرائے خلافت ہوئے تو آپؓ نے بھی معاویہؓ کو
دمشق کا عامل بنائے رکھا بلکہ ان کی ذہانت و فراست اور حربی صلاحیت دیکھ کر
پورے شام کا گورنر بنادیا۔ حضرت معاویہؓ نے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو
کام میں لاتے ہوئے فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کردیا اور آزمودہ
جرنیلوں کو فوج کی کمان سپرد کی اور ان کو مختلف مقامات پر فوج کشی کرنے کا
حکم دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے طرابلس اور شام فتح ہوا۔ اس کے بعد خود
۲۵ ھ ایک لشکر جرار کے ساتھ آگے بڑھے اور انطاکیہ، طرطوس، شمشاط، اور
ملعلیہ تک کے علاقے فتح کرتے ہوئے عموریہ تک چلے گئے اور ان علاقوں کی
فتوحات کے بعد یہاں نئی بستیاں بسائیں، متعدد قلعے تعمیر کرائے، فوجی
چھاؤنیاں بنوائیں اور مسلمانوں کو لاکر بسایا۔
کم لوگوں کو علم ہوگا کہ بحری بیڑے کے موجد حضرت معاویہؓ ہیں۔ ایک سیرت
نگار لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ کی فطرت عالمگیر تھی۔ ان کی ہمت عالی کا
تقاضا یہ تھا کہ ایشیاء سے نکل کر یورپ و افریقہ پر حملہ ممکن نہ تھا جب تک
کہ بحری بیڑہ نہ ہو۔ آپؓ کی دور اندیشی اور فراست ایمانی کا یہ فیصلہ تھا
کہ اگر اسلام کو بہ حیثیت ایک نظام حیات دنیا پر غالب کرنا اور روم کی غیر
اسلامی شوکت و سطوت کو اپنے پاؤں تلے کچلنا ہے تو اس کے لیے بحری بیڑہ وجود
میں لانا پرے گا۔ چنانچہ آپؓ نے عہد فاروقی میں اس کا اظہار کیا تھا جسے
بعض وجوہ کی بنا پر حضرت عمرؓ نے منع کیا۔ پھر آپؓ نے عہد عثمانیؓ میں پہلا
اسلامی بیڑہ بحیرہ روم میں اتارا اور کچھ ہی دنوں میں افریقہ اور یورپ کی
وسیع سرزمین پر اسلامی جھنڈا لہراتا ہوا نظر آیا۔
ابن کثیرلکھتے ہیں کہ ۲۴ھ میں اہل روم نے ایک عظیم لشکر تیار کیا جس سے اہل
شام خائف ہو گئے اور انہوں نے مرکز اسلام میں امیر المومنین حضرت عثمانؓ کی
خدمت میں اس امر کی اطلاع بھیجی اور امداد اور تعاون کی درخواست کی۔ اس پر
حضرت عثمان ؓ نے کوفہ کے حاکم ولیدؓ بن عقبہ کو تحریری حکم بھیجا کہ یہ
مکتوب پہنچنے پر آپ ملک شام میں مسلمان بھائیوں کی امداد کیلئے ایک امانت
دار اور بہادر شخص کی ماتحتی میں۸یا ۹ہزار مجاہدین بھیج دیں۔ چنانچہ ولیدؓ
بن عقبہ والی کوفہ نے مرکز کی جانب سے مکتوب ملنے پر لوگوں کو جمع کر کے
خطبہ دیا۔ اور ان کو امیر المومنین کے فرمان کی اطلاع دی اور مسلمانوں کو
جہاد کی اس مہم میں شرکت کی دعوت پر آمادہ کیااور حضرت معاویہؓ کی معاونت
اور اہل شام سے تعاون کی ترغیب دلائی اور تین دن کے اندر قریباً۸ہزار
مجاہدین کا لشکر تیار کر کے سلمانؓ بن ربیعہ کی سر کردگی میں ملک شام روانہ
کیا ۔وہاں لشکر اسلام مجتمع ہوئے تو انہوں نے اجتماعی طور پر بلاد روم پر
حملہ کیا اور فتح حاصل کر کے بے شمار لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ بہت سے عظائم
حاصل کئے اور متعدد قلعوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
۲۵ھ میں حضرت معاویہؓ نے قلعوں کو فتح کیا اور مورخین لکھتے ہیں کہ ۲۷ھ میں
آپؓ نے قنسرین کو بھی فتح کر لیا اور بعض مورخین کا قول ہے کہ ۲۷ھ میں
معاویہؓ نے قبرص کی طرف پیش قدمی کی اور اسے فتح کر لیا تھا۔اکابر علماء نے
لکھا ہے کہ معرکہ قبرص میں حضرت معاویہؓ نے بذات خودشرکت فرمائی، آپؓ کی
اہلیہ فاختہ بنت قرظؓ بھی تھیں۔ اس معرکہ میں آپؓ کے ساتھ اکابرین صحابہؓ
جن میں ابوذرغفاریؓ، ابو درداؓ،شدادؓبن اوس اور عبادہؓ بن الصامت، حضرت
مقدادؓبن اسود،حضرت ابوایوب انصاریؓبھی شریک تھے۔ حضرت عبادہؓ بن الصامت کی
اہلیہ ام حرامؓ بنت ملحان ان کے ساتھ تھیں جن کے متعلق حدیث صحیح میں ایک
پیشنگوئی جناب نبی کریمﷺکی موجود ہے۔آپﷺنے خواب سے بیدار ہوتے ہوئے ارشاد
فرمایاکہ میری امت کا پہلا لشکر جو بحری غزوات کرے گا انہوں نے اپنے اوپر
جنت کو واجب کر لیا۔اس ارشاد کے سننے پر حضرت ام حرامؓنے عرض کیا کہ یا
رسولﷺ کیا میں ان میں شامل ہوں گی؟ تو آپﷺنے فرمایا کہ تم ان میں داخل ہو۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کے دو حصے ہیں، ایک ام حرامؓ
اور ان کے ساتھیوں کے متعلق ہے کہ اس میں شامل لوگوں کو جنت نصیب ہوگی۔ یہ
واقعہ ۲۷ھ میں سیدنا معاویہؓ کی سر کر دگی میں اہل اسلام کی افواج کو پیش
آیا۔اور اس کا دوسرا حصہ مدینہ قیصر قسطنطنیہ کے غزوہ کے متعلق ہے جو ۵۱ھ
یا ۵۲ھ میں پیش آیا جب صحابہ کرامؓ قبرص کی مہم سے فارغ ہو کر واپسی کا سفر
اختیار کرنے لگے تو حضرت ام حرامؓ ایک خچر پر سوار ہوئیں مگر اس سے گر پڑیں
اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔علماء نے ذکر کیا ہے کہ جزیرہ قبرص میں ان کی
قبر مبارک ہے وہاں کے لوگ ان کا بہت احترام کرتے ہیں اور بعض اوقات بارش
طلب کرنے کیلئے ان سے تو سل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک صالحہ خاتون
کی قبر ہے۔اس واقعہ سے جناب نبی کریمﷺ کی مذکورہ پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی
کیونکہ ام حرامؓ پہلے بحری غزوہ میں شریک ہوئیں اور وہیں انتقال کر کے جنت
میں خیمہ زن ہوئیں۔مختصر یہ کہ جزیرہ قبرص کی فتح حضرت معاویہؓ کی مساعی سے
ہوئی اور دیگر اکابر صحابہ کرامؓ بھی اس مہم میں ان کے ساتھ شامل تھے۔اور
اس غزوہ کے اہل جیش کے حق میں بنی کریمﷺ کی طرف سے جنت کی خوشخبری دی گئی
ہے۔پس حضرت معاویہؓکے سمت یہ حضرات اس بشارت کے حق دار ہوئے۔ یہ ایک بڑی
خوش نصیبی ہے اور یہ بحری جنگیں مذکورہ پیش گوئیوں اور بشارتوں کے اعتبار
سے حضرت معاویہؓ کے بہترین فضائل و کمالات میں شمار کی جاتی ہیں۔
اسلام دشمنی سے لبریز یہودی شرارتی ذہن کی ناپاک سازشوں اور چالوں کی وجہ
سے حضرت سیدنا علی مرتضیٰ ؓ اور حضرت سیدنا امیرمعاویہؓ کے مابین اختلاف
ِرائے کو کافی حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا حالانکہ بات صرف یہ تھی کہ
سیدنا علیؓ کا خیال تھا کا بیعت ِخلافت کے قیام کے بعد قاتلین ِعثمان ؓ کی
سرکوبی کی جائے جبکہ سیدنا معاویہؓ اس حق میں تھے کہ پہلے قصاص عثمان غنی
لیا جائے پھر بیعت لی جائے۔ اس اختلاف میں کافی عرصہ گزرا اور کئی شورشیں
دشمنوں کی طرف سے کی گئیں جس کے نتیجہ میں تاریخ میں کئی ایسے واقعات درج
کر لیے گئے کہ جو ناموس صحابہؓ کے بالکل بر عکس ہیں۔ انہی سازشوں کی بدولت
خوارج کا فتنہ اٹھا اور سیدنا علی ؓ کی شہادت بھی ایک خارجی ابن ملجم کے
ہاتھوں ہوئی۔ شہادت علیؓ کے بعد سیدنا حسنؓ بن علیؓ چھ ماہ کے لیے خلافت پر
متمکن ہوئے مگر اپنی دور اندیشی اور صحابیت کے مقام کی سربلندی اور دانائی
کے باعث آپؓ نے سیدنا معاویہؓ سے صلح کرلی اور ـ’’فتح الباری‘‘ میں تحریر
نبیﷺ کی یہ پیشنگوئی پوری ہوئی کہ:
’’یہ میرا بیٹا سید ہے۔ خدا اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں
صلح کرائے گا ‘‘۔
یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ امیر المؤمنین معاویہؓ کا عہد خلافت اسلام میں بڑا
اہم دور ہے۔ اس دور میں اسلام کو کامل فروغ حاصل ہوا۔ دین و شریعت کے تمام
شعبوں میں ترقی ہوئی اور اس عہد کے باقی مخالف ادیان یہود و نصاریٰ وغیرہ
پر اسلام غالب آگیا اور اسلام کی مخالفت پر کمربستہ عظیم سلطنتوں کا زور
ٹوٹ گیا۔ چنانچہ اس زریں عہد کے حالات اور واقعات لاتعداد طور پائے جاتے
ہیں۔ ان پر نظر غائر کرنے سے اس دور کی قدرومنزلت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔
اور حضرت معاویہؓ کی ملی خدمات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اورخلافت ِراشدہ و عادلہ
کا بہترین نقشہ سامنے آتا ہے۔سیدنا معاویہؓ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے
ان کی اوصاف حمیدہ سے عبارت مبارک زندگی کے تمام حالات خصوصاً فتوحات
ِمعاویہ ؓ کا مکمل تذکرہ ان قلیل صفحات میں کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف
ہے لہٰذا مختصراً اجناب معاویہؓ کی فتوحات کا ذکر خیر کیا جاتاہے۔
امت مسلمہ کے متفقہ اور اجماعی خلیفہ کے منصب پر متمکن ہونے کے بعد سب سے
پہلے امیرالمؤمنین سیدنا معاویہؓ نے خوارج کا قلع قمع فرمایا۔اور پھر شرقی
ممالک، خراسان، ترکستان، سجستان، سمرقند و بخارا جیسے اہم علاقوں اور خطوں
کو فقط اعلاء کلمۃاﷲ کے جذبۂ ایمانی سے فتح کیا اور یہاں خلافت اسلامیہ کا
پرچم لہرایا۔ پھر قندھار، ہندوستان کے کئی علاقوں کو خلافت ِاسلامیہ میں ضم
کیا۔ پاکستان میں چارسدہ کے علاقہ میں ’’اصحاب بابا‘‘ کے نام سے مشہور قبر
سیدنا معاویہؓ کے دور میں یہاں بھیجے ہوئے ایک مشہور صحابیؓ کی ہے۔ فتوحات
کا سلسلہ بڑھتا گیا اور بلاد روم، قسطنطنیہ، روڈس، قلعۂ کمخ، بلاد افریقہ،
قیروان،جلولاء، قرطاجنہ اور جزیرۂ قبرص جیسے اہم علاقے خلافت ِاسلامیہ میں
شامل ہوتے چلے گئے۔ اپنی وفات تک سیدنا معاویہؓ نے 65 لاکھ64 ہزار مربع میل
کے رقبہ پر دین اسلام کا جھنڈا گاڑا اور اسی لیے انگریز یہ کہنے پر مجبور
ہوئے کہ مسلمانوں نے نصف صدی تک نصف سے زائد دنیا پر حکومت کی۔ اگر سیدنا
معاویہؓ کے تابناک دور کو اسلامی تاریخ سے جدا کر دیا جائے تو یہ قول ثابت
نہیں کیا جاسکتا۔
کیا رفعت و عظمت اور شان بے نیازی ہے قافلۂ صحابیت کے اس عبقری صفت انسان
کی کہ غیر مسلم بھی انگشت بدنداں ہے اور تعریف کیے بناء نہیں رہتا۔ اﷲ پاک
نے قرآن مجید میں صحابۂ کرامؓ کی شان میں تقریباً750آیات نازل فرمائیں ہیں۔
دیگر صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ ان آیات کا مصداق
سیدنا معاویہؓ بھی ہیں۔ اور عمومی طور پر عظمت ِصحابیت کے حق میں جو احادیث
ِنبویہ ہیں، سیدنا معاویہؓ بھی دیگر صحابۂ کرامؓ کی طرح ان احادیث مبارکہ
کے اہل ہیں۔ اور کئی احادیث مبارکہ خاص طور پر سیدنا معاویہؓ کے لیے لسان
نبوت سے صادر ہوئیں۔ جن احادیث کے مطابق مت میں سب سے حلیم الطبع سیدنا
معاویہؓ ہیں۔ نطق پیغمبر نے سیدنامعاویہؓ کو اپنا رازدار قرار دیا ہے۔سیدنا
امیرمعاویہؓنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے براہ راست163 احادیث مبارکہ روایت
فرمائی ہیں۔ راقم کی کتاب ’’مقام امیر معاویہؓ و مرویات امیر معاویہؓ ‘‘
میں یہ تمام احادیث مبارکہ پہلی مرتبہ مع ترجمہ یکجا کی گئی ہیں۔ان احادیث
سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کس اعلیٰ پایہ کے فقیہ اور محدث
تھے کہ کبھی ممبر مکہ پر فرامین رسالت سے استدلال کرتے ہوئے امت کی رہنمائی
فرما رہے ہیں تو کبھی ممبر مدینہ پر فروکش ہو کر پوچھتے ہیں کہ کہا ں ہیں
تمہارے علماء؟
حضرت معاویہؓ نے اپنی تجہیز و تدفین کے متعلق ہدایات دیں کہ ’’مجھے رسول
اﷲﷺ نے ایک کرتا مرحمت فرمایا، جسے میں نے اپنی جان کے برابر حفاظت سے رکھا
ہے، اب یہی میرا کفن ہوگا۔ حضور انورﷺ کے کچھ تراشے ہوئے ناخن اور ریش
مبارک کے کچھ بال میں نے شیشی میں حفاظت سے رکھ چھوڑے ہیں، یہ آنکھوں پر
رکھ دینا بس یہی میرے لیے کافی ہیں۔ یہ فرما ہی رہے تھے کہ کلمہ توحید زبان
پر آگیا اور 22 رجب 60 ھ بمطابق 17 اپریل 680 ء کو فضل و کمال اور رشد و
ہدایت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
حضرت سیدنا معاویہؓ کو غسل دیا گیا اور حسب ِوصیت اور تبرکات جو آپؓ نے
محفوظ کیے ہوئے تھے، کفن میں شامل کئے گئے۔ جب تجہیز و تکفین کے مراحل طے
ہوچکے تھے تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد حضرت ضحاکؓ بن قیس نے نماز جنازہ
جامع مسجد دمشق میں پڑھائی اور انہیں دارالامارۃ دمشق جسے الخضراء کہتے
ہیں، میں دفن کیا گیا۔
|