ہندالولی سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے مشن کو عام کیا
جائے
سر زمین ہندوستان متعدد وجوہ سے اہمیت وخصوصیات کی حامل ہے۔ہند کی سر زمین
کاتذکرہ نگار خانۂ قدرت کے عظیم شاہکار مصطفی جان رحمت ﷺ بھی کرتے ہیں۔جیسا
کہ روایت میں آیاہے کہ آپ ﷺ تشریف فرما تھے اور دائیں جانب دیکھ کر مسکراتے
جاتے اور ارشاد فرماتے:’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘۔صحابہ کرام علیہم الرضوان
نے عرض کیا:فداک امی وابی یارسول اﷲ ﷺ!دائیں جانب دیکھ کر مسکرانے کاسبب
کیا ہے؟حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میں سرزمین ہندسے عشق کی خوشبومحسوس کررہا
ہوں‘‘۔اسی لیے ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہواجہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ہندوستان نکہتوں،گلشنوں،رعنائیوں،خوشبوؤں اورباغ وبہار کی سرزمین
ہے۔ہندوستان کو اس وجہ سے بھی اہم مقام حاصل ہیکہ نورِ محمدی ﷺ سب سے پہلے
ہندوستان آیا۔ یہاں مراد موجودہ ہند نہیں بلکہ وہ ہند ہے جس کی سرحدیں
پاکستان،افغانستان،بھوٹان،نیپال،بنگلہ دیش،میانمار(برما)،سری لنکا اور ،مالدیپ
تک وسیع تھیں۔علامہ عبدالرزاق بہترالوی تحریر فرماتے ہیکہ’’حضرت آدم علیہ
السلام سراندیپ(سری لنکا)میں اورحضرت حوا کو’جدّہ‘میں اتارے گئے‘‘۔(تذکرۃ
الا نبیاء،ص؍۶۰)حسان الہند مولانا سید غلام علی آزاد بلگرامی(م۱۲۰۰؍ھ)رقم
طراز ہیں:’’حضرت آدم علیہ السلام کی برکت سے ہندوستان میں جواہرات اور
کانوں کا وجود ہے۔کسی نے ہندوستان کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ’اس کے
سمندرموتی ہے،اس کے پہاڑ یاقوت ہیں،اس کے درخت عود اور پتے عطر ہیں‘‘۔(شمامۃ
العنبر،طبع جائس،ص؍۶۴)حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہندوستان کی زمین
اس لئے عمدہ اور ہری بھری ہے اور عود ،قرنفل وغیرہ خوشبوئیں اس لیے وہاں پر
پیدا ہوتی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام جب اس زمین پر آئے تو ان کے جسم پر
جنّتی درخت کے پتے تھے۔وہ پتے ہواسے اُڑکرجس درخت پرپہنچے وہ ہمیشہ کے لیے
خوشبودار ہوگیا۔(تفسیر نعیمی،جلد۱،ص؍۲۸۴)مولانا سید غلام علی آزاد بلگرامی
نے اپنے اشعار میں بھی ہندوستان کاذکر کیاہے۔جس میں مذکورہ نکتہ کی وضاحت
ہوتی ہے
قدأوع الخلاق آدہ نورہ متلالاًکالکوکب الوقاد
والہندمہبط جد قاومقامہ قول صحیح جیدالأسناد
فسوادأرض الہند ضاء بدایۃ من نور احمد خیرۃ الأمجار
ترجمہ:بنانے والے نے آدم علیہ السلام کے اندراپنا نور رکھ دیا،روشن ستارے
کی طرح چمکتا ہوا۔ہندوستان ہمارے جد امجد کی جائے نزول اور قیام گاہ ہے۔یہ
صحیح قول ہے اوراس کی سند مضبوط ہے تو ہندوستان کی سر زمین سب سے پہلے نورِ
محمدیﷺ سے ضیاء بار ہوئی،جو سب عظمت والوں سے بہتر ہیں‘‘۔(شمامۃ العنبر،طبع
جائس،ص؍۸۹)ڈاکٹر اقبال نے اسی نکتہ کی وضاحت کچھ اس طرح کی
ہے اگرقومیت اسلام پابند قوم
ہند ہی بنیاد ہے اس کی،نہ فارس ہے نہ شام
ہندوستان پرکئی مجاہدین نے فوج کشی کی مگر غزوۂ ہندکایہ ذوق محض کشور کشائی
کے جذبے سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے جہادِ ہندکے لیے پیش رفت ارشاد نبوی کی
تکمیل کے لیے کی تھی۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے دوگروہوں کو اﷲ
تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھاہے۔ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد
کرے گااور دوسرا وہ گروہ جو حضرت ابن مریم کا ساتھ دے گا۔(سلطان الہند
خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ،ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)مذکورہ روایتوں سے
قارئین کرام پر ہند وستان کی اہمیت یقیناواضح ہوچکی ہوگی،بھلا وہ ملک جہاں
سب سے پہلے آپ ﷺ کا نور جلوہ گر ہوا،وہ ملک جہاں پہلے نبی اتارے گئے ہواور
جس سے حضور ﷺ اس قدر محبت کرتے ہو وہ مقدس سرزمین اسلام کی دعوت وتبلیغ سے
کیسے محروم رہ سکتی تھی،یوں تو دور رسالت ہی میں یہاں اسلام کی شمع روشن ہو
چکی تھی۔مسلم فاتحین وسلاطین نے طاقت وقوت کے زور پر ہندوستان میں شمع
اسلام کو روشن کیا۔تاج وتخت کے مالک بنے اور شاہانہ طمطراق کے جلوے دکھا
کررخصت ہوگئے اور ان کے ساتھ ہی شمع اسلام ٹمٹماکر ماند پڑگئی،مگر رسول اﷲﷺ
کی نگاہِ کرم نے ہند کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہند میں علم حدیث کو عام
کرنے کے لیے کبھی حضور ـﷺ نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کو
ہندبھیجاتو کبھی سرکار معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کو اسلامی بنیادوں کو
مستحکم وتقویت فراہم کرنے کے لیے بھیجا اسی لیے آپ کونائب النبی، عطائے
رسول اور ہندالولی کہاں جاتا ہے۔درحقیقت قدرت نے ہندوستان کی فتح اور یہاں
اسلامی اقتدار کاقیام ایسے فرزند توحید کے نام لکھ دیاتھاجس نے ﷲیت،دربانیت،عشق
خدا،ذوق اتباع سنت ، حب رسول ،دل سوزی ،بلند ہمتی،تازگی فکر،نور
بصیرت،فراست ایمانی،حقیقت پسندی،اعتقاد صحیح،عمل صالح،وسعت قلب ونظراور
اخلاص وایثار کی متاع گراں بہاسے شمع اسلام کو بقاکی تابندگی عطاکی۔جسے
دنیا قطب الاقطاب،معین الملۃ والحق،خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین
چشتی اجمیری کے نام سے جانتی ہے۔ہم ہندوستانیوں کو بھی چاہئے کہ رسول اکرمﷺ
کی نگاہ خاص کے فیوض وبرکات کو حاصل کرتے ہوئے مقصد خواجہ پر عمل کریں،دعوت
وتبلیغ کا فریضہ انجام دیں۔بزرگان دین سے محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ان
کے مشن کو عام کیا جائے۔اﷲ پاک ہمیں اسلاف کے دامن سے وابستہ ہونے اور دینی
خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |