پہلوان اور پروفیسر کی دوستی بہت
پرانی تھی۔ اصل میں پروفیسر کو بچپن ہی سے کشتیاں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔
یہی شوق پروفیسر کو اکھاڑے میں لے گیا۔ اکھاڑے میں پہلوانوں کو لڑتا دیکھنا
اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ جی تو اس کا بھی بہت چاہتا کہ لنگوٹ باندھے اور
اکھاڑے میں اتر جائے مگر اﷲ پاک نے بدن بڑے حساب سے دیا تھا۔ منخنی پتلا
دبلا، بالکل اکہرا اسے یقین تھا کہ اگر کسی پہلوان نے اس اٹھا کر ایک دفعہ
زمین پر پٹخ دیا تو وہ زندگی بھر اٹھ نہ سکے گا۔ زندگی شاید خود اٹھ جائے
گی۔ اس لئے وہ اکھاڑے میں پہلوانوں سے ذرہ بچ کر ہی کھڑا ہوتا اور فقط
کشتیوں سے محظوظ ہوتا تھا۔ کشتی کے بعد البتہ وہ پہلوانوں سے داؤ پیچ کی
باتیں کرتا اور انہیں اپنے مفید مشورہ سے نوازنا اپنا فرض سمجھتا۔ سارے
پہلوان اس کی علمی اور عقلی باتوں کے بہت قائل تھے اور خصوصاً اس کا دوست
تو اس کا بہت معتقد تھا۔ پروفیسر کا دوست پہلوان اگرچہ خود کو دنیا کا
انتہائی زیرک اور عقل مند شخص سمجھتا مگر ہر ضروری بات یا کام میں پہلے
پروفیسر سے مشورہ ضرور کرتا اور پھر ہمیشہ ایک ہی بات کہتا کہ پروفیسر
تمہاری سوچ مجھ سے بہت ملتی ہے۔ میں نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ تمہاری رائے بھی
یہی ہوتی ہے جو میری ہوتی ہے۔ شاید دوستی کا کمال ہے۔
ایک دن پہلوان پروفیسر کے گھر بیٹھا تھا۔ پتہ نہیں کیا موڈ آیا۔ کہنے لگا
یار پروفیسر! گاجر کا حلوہ کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ کہیں سے منگواؤ۔ کہیں
سے کیا مراد، گلی کی نکر پر دودھ والی کی دکان ہے۔ خالص دودھ اور خالص دہی
کے علاوہ گاجر کا حلوہ بھی بناتا ہے۔ بہترین دودھ اور کھوئے سے بنے اس حلوے
کی پورے شہر میں دھوم ہے۔ ابھی منگوا دیتا ہوں۔ کریمو! پروفیسر نے اپنے
ملازم کو آواز دی۔ لمحہ بھر میں ملازم موجود تھا۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ
کریمو بیٹا مہمان گاجر کا حلوہ کھانا چاہتے ہیں جلدی سے لے کر آؤ۔ ابھی آیا
کہہ کر کریمو پلٹا۔ پروفیسر صاحب پھر بولے۔ بہت محنتی، فرض شناس اور
ایماندار آدمی ہے۔ موقع کی مناسبت سے کام کو کرنا جانتا ہے اور سمجھتا ہے۔
ابھی دروازہ کی آواز آئی تھی۔ وہ باہر نکلا ہو گا۔ پورے محلے میں اس کا بہت
احترام ہے کہ ہر ایک کی خدمت اپنا فرض سمجھتا ہے۔ گلی کے موڑ تک فاصلہ ہی
کیا ہے۔ بھاگم بھاگ گیا ہو گا اور میرے خیال میں دکان پر پہنچ گیا ہو گا۔
دکان پر گاہکوں کا ہروقت ہجوم ہوتا ہے مگر اس نے سب سے منت کی ہو گی کہ
بھائی گھر میں مہمان بیٹھے ہیں۔ اجازت ہو تو پہلے میں حلوہ لے لوں؟ سب نے
خوش دلی سے اسے پہلے حلوہ خریدنے کی اجازت دے دی ہو گی۔ دودھ دہی والے کو
بھی اس نے پیار سے درخواست کی ہو گی۔ اس نے اسے جلدی سے حلوہ دے دیا ہو گا۔
دکاندار اور دکان پر موجود ہجوم کا اس نے شکریہ ادا کیا ہو گا اور امید ہے
اب گھر کو واپس بھاگتا ہوا آ رہا ہو گا۔ اس کا حسن اخلاق بھی خوب ہے۔ سارا
محلہ اس کا معترف ہے۔ ہر ایک کی مدد کرنا اپنا فرض جانتا ہے۔ پروفیسر صاحب
ملازم کی تعریفیں کر رہے تھے کہ دروازے کی آواز آئی۔ وہ واپس آ گیا۔
پروفیسر نے نعرہ لگایا اور آواز دی کریمو! جی صاحب۔ جواب ملا۔ حلوہ لائے؟
جناب پلیٹ میں ڈال کر لا رہا ہوں۔ پہلوان نے آنکھیں گھما کر پروفیسر کی طرف
دیکھا اور دل میں کہا۔ بغیر کسی وجہ سے ملازم کی تعریف کئے جاتا ہے۔ ملازم
تو سارے ہی ایسے ہوتے ہیں۔
کچھ دن بعد پروفیسر صاحب پہلوان کے گھر موجود تھے۔ گپ شپ جاری تھی۔ پہلوان
بار بار پروفیسر کو کہہ رہے تھے کہ کچھ کھانا ہے تو بولو۔ ابھی منگوالوں
گا۔ پروفیسر پہلے تو انکار کرتے رہے مگر پہلوان کے بار بار اصرار پر کہنے
لگے یار تمہارے محلے کے شروع میں ایک دکان والا سموسے بنا رہا تھا۔ خوشبو
سے تو بہت اچھے لگتے تھے۔ چلو وہی منگوا لو۔ چائے سے پہلے کھاتے ہیں۔ ابھی
آ جاتے ہیں۔ یہ بھی کوئی بات ہے۔ پہلوان نے دروازے کی طرف منہ کر کے آواز
لگائی۔ اوئے فیقے! دو منٹ بعد ایک موٹا تازہ کثرتی جسم کا ملازم جھومتا
جھامتا کمرے میں آیا۔ جی پہلوان جی۔ پتر مہمان آئے ہیں ان کے لئے بھاگ کر
جا اور سموسے لے کر آ۔ اچھا جی یہ کہہ کر فیقا واپس مڑ گیا۔ پہلوان اب فیقے
کا تعارف کرانے لگا۔ پروفیسر دیکھی ہے اس کی جان۔ بازو کی مچھلیاں کیسی
شاندار ہیں۔ ہر کام فٹا فٹ کرتا ہے۔ اس وقت محلے میں تیزی سے دکان کی طرف
جا رہا ہو گا۔ مجال ہے جو کوئی اس کے راستے میں آئے۔ اسے چھو کر کسی نے
مصیبت کو دعوت دینی ہے۔ محلہ پورا اس سے ڈرتا ہے۔ امید ہے سموسے والی دکان
پر پہنچ گیا ہو گا۔ تمہیں پتہ ہے اس دکان پر رش تو ہر وقت ہوتا ہی ہے مگر
فیقے کو رش سے کیا۔ آگے کھڑے لوگوں کو اٹھا کر پرے رکھ دیا ہو گا۔ دکاندار
تو اسے دیکھ کر ویسے ہی سہم جاتا ہے۔ سب کچھ چھوڑ کر سب سے پہلے فیقے کو
سموسے دئیے ہوں گے۔ بس سمجھ لو وہ واپس آ رہا ہے۔ بس پہنچنے ہی والا ہے۔
پہلوان کی گفتگو جاری تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ پہلوان نے خوشی سے
آواز لگائی۔ فیقے سیدھے اندر آ جاؤ۔ فیقہ اسی طرح جھومتا منہ لٹکائے پہلوان
کے سامنے تھا۔ پہلوان نے حیرانی سے پوچھا اوئے سموسے کہاں ہیں؟ فیقے نے اس
طرح منہ لٹکائے جواب دیا کہ جناب ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو گیا ہوں جوتی ہی
نہیں مل رہی۔ سموسے کیسے لاؤں؟
جناب وزیر اعظم نواز شریف کا تعلق بھی پہلوان فیملی سے ہے اور حکومت میں ان
کے خاندان کے افراد کی ایک معقول تعداد موجود ہے جو سبھی پہلوان ہیں۔ اگر
کسی کے جثے میں کچھ کمی ہے تو اسے اس کی عقل پوری کر دیتی ہے۔ چنانچہ کچھ
شکل کے پہلوان ہیں اور کچھ عقل کے۔ نواز شریف بہت سی خوش خبریاں لوگوں کو
سناتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد تو ان کے ساتھی پہلوانوں کو ہی کرنا ہوتا ہے۔
مگر کیا کیا جائے جوتی ملے گی تو حرکت ہو گی۔ میاں صاحب کو بھی سوچنا ہو گا
کہ بہتر لوگ لائے جائیں یا موجودہ لوگوں کے لئے جوتیوں کا انتظام کیا جائے۔
عوام تو حد سے زیادہ تنگ ہیں اور جوتوں کے ضرورت مندوں کے لئے جوتوں کے
منتظر۔
|