بیچارے بادشاہ

عہدِ جدید کی سراپا مصروف زندگی سے ایک لمحے کے لیے دامن بچا کر اگر ہم عہدِ قدیم پر سرسری نظر ڈالیں تو ایک عجیب کنٹراسٹ کا احساس ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ بھی کیا بادشاہ تھے جو اتنی چھوٹی سی بھی نعمتیں نہیں رکھتے تھے جیسا کہ موبائل فون،لیپ ٹاپ،دو چار سمیں،فیس بک اکائنٹ،ای۔میل ایڈرس ،چیٹنگ ، ڈیجیٹل کیمرہ، انٹرنٹ، کیبل،اے۔سی،فریج وغیرہ وغیرہ۔

کبھی ،کبھی میرا موبائل آف ہو جاتا ہے،یہ اس پر میری صحبت کا اثر ہے،ویسے تو بیٹری چارجنگ کی وجہ ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی نہیں بھی ہوتی۔جب ایسا ہو تو مجھے اپنے اوپر بہت ترس آتا ہے،اور اپنے سے زیادہ زمانہ ماضی میں ان سہولتوں سے محروم رہ کر اس فانی دنیا کو خیر باد کہہ دینے والوں پر آتا ہے کہ وہ بھی کیسے بھلے اور بھولے بھالے لوگ تھے جو کسی کو کوئی میسج کیے بغیر ہی اس دنیا سے چلے گئے۔آہ! وہ بھی کیا انسان تھے جو انپی جیب میں مو بائل رکھے بغیر سفر کیا کرتے تھے۔ جو آپنے پیاروں کو خط لکھا کرتے اور جواب آنے کے انتظار میں ہفتوں یا مہینوں کی شدید گھڑیاں گزارا کرتے۔

زمانہ ماضی لے عام لوگ تو عام لوگ،لیکن وہ مجسمہ ہائے تکبر،وہ غرور کے پیکر، وہ انسانوں کی قسمت کے مالک،سفیدی سیاہی کے کرتا دھرتا۔ وہ شہزادے، شہزادیاں جو ایک زمانے کے محبوب ہوتے تھے لیکن جو اپنی کوئی تصویر بھی فیس بک پے نہ دے سکے، جن کے کان موبائل کی آواز سننے سے مطلق طور پر محروم رہے۔ جو کبھی اے۔سی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے محظوظ نہ ہو سکے وہ بھی کوئی شہزادے،شہزادیاں تھے۔ شہزادے شہزادیاں تو آج کے نوجوان ہیں جو ہر وقت اپنے کانوں میں پیاری پیاری ٹوٹیاں دیے رکھتے ہیں،ہر دم ان کے ہاتھوں کی انگلیاں میسج لکھنے میں مصروفِ عمل رہتی ہیں،کو وقت کے بادشاہ ہیں چاہے ان کی پتلون پھٹی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ ہواؤں پر حکمرانی کر رہے ہیں، فضا ان کے میسجوں اور لمبی، لمبی کالوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے موبائل کے سامنے لا کر جامِ جمشید کو اس زور سے زمین پر پٹخا جائے کہ اس کا ذرہ ذرہ، ریزہ،ریزہ،پاش،پاش ہو جائے۔ نوجوانوں کے ان موبائلوں کے آگے بھلا جامِ جمشید کی کیا ہستی۔

ماضی کے بادشاہوں نے کبھی مواصلاتی سیاروں کا نام بھی نہیں سنا ہو گا۔آج کا بچہ بچہ، دنیا کے کونے کونے سے شناسائی رکھتا ہے، لندن میں ہونے والے میچ لاہور میں ایسے ہے دیکھے جا سکتے ہیں جیسے قذافی سٹیڈیئم لاہور میں ہو رہے ہوں۔وہ بیچارے گھوڑوں اور ہاتھیوں پر بیٹھ بیٹھ کے تھک جاتے،دو چار مگس رانی کرنے والیاں یا والے ہمہ وقت ان کے سر پر سوار رہتے، تخلیہ بھی ملتا تو نہ کوئی برقی پنکھا نہ اے۔سی ، کیبل، نہ موبائل تو تنہائی بھی کس کام کی۔

آج کے ریڑی والے، پھیری والے،مزدور، حتیٰ کہ گداگروں کو وہ سہولتیں میسر ہیں جو کبھی بادشاہوں اور نیلا خون رکھنے والوں کو بھی حاصل نہ تھیں۔ان نیلا خون رکھنے والوں کو کیا خبر کہ بلوٹتھ کیا ہوتا ہے۔یہ تو چند باتیں ہیں جو سامنے لائی گئی ہیں، ورنہ تو دیوان بھر جائیں۔ماضی کے سر کش بادشاہوں کو اس تناظر میں دیکھیں تو وہ کس قدر عاجز، حقیر،اور بیچارے لگتے ہیں۔ بیچارے بادشاہ۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285271 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More