قومی اردو کانفرنس:شکوہ/ جواب شکوہ،ایک صدی کے تناظر میں

۱۵اپریل کواستاد محترم ڈاکٹر ارشاد شاکراعوان کا فون آیا’ اردو اور ہندکو کے معروف شاعرکرنل فضل اکبر کمال شدید علیل ہیں اور اب ڈوبتے کو تنکے کا سہاراوالی بات ہے‘۔کمال صاحب گردوں کے عارضے کا شکار ہیں۔استاد محترم کا اصرار تھا کہ باغ میں کوئی پیر صاحب روحانی علاج کرتے ہیں۔ ان کا معلوم کرکے بتائیں۔ ان کو حسب الحکم اطلاع دی اور وہ دوسرے دن کرنل صاحب کو لے کر مظفرآباد سے ہوتے باغ روانہ ہوئے۔ بنک روڈ پر ان سے ملاقات ہوئی ۔کرنل صاحب کو اس حالت میں دیکھ کر دکھ ہوا۔ اس حالت میں بھی انہوں نے اپنے تازہ ہندکو شعری مجموعے ’ٹہل سیوا‘کی کچھ کاپیاں مظفرآباد میں اپنے کچھ دوستوں تک پہنچانے کے لیے دیں۔ واپسی پر دوسرے دن ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کی دو باتیں یاد رہ گئی ہیں کہ ’آپ کیسے ہیں: جواب تھا اﷲ کا شکر ہے وہ جس حال میں رکھے ‘ اور دوسرا یہ کہ’ اس کتاب پر مختصر تبصرہ کر دیں‘۔ یہ مجھ پر ان کا قرض ہے۔ وہ واپس چلے گئے اور اب ان کی یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ جانے سے پہلے شاکر صاحب نے سہ روزہ اردو کانفرنس کے دو دعوت نامے میرے اور رحمت صاحب کے نام دیے اور آنے پر اصرار کیا۔یہ قومی اردو کانفرنس ہزارہ یونی ورسٹی ایچ ای سی HEC کے تعاون سے کروا رہی ہے اور اس کا عنوان تھا ’شکوہ/ جواب شکوہ :ایک صدی کے تناظر میں‘استاد محترم کے حکم پر ہم نے رخت سفر باندھا۔

۲۱ اپریل کو سویرے نکلے لیکن لوہار گلی سلائیڈ کی وجہ سے راستہ بند تھا۔ براستہ شہید گلی روانہ ہوئے۔ ہم جب پہنچے تو پہلا سیشن ختم ہو چکا تھا۔ تعارفی سیشن میں سنا کہ وائس چانسلر بھی تشریف لائے تھے۔ چائے کا دور ختم ہو چکا تھا۔احباب سے مختصر ملاقات کی۔اس کے بعد دوسرا سیشن شروع ہوا اور اس سیشن میں دو مقالے پیش کیے گئے۔پہلا مقالہ ڈاکٹر واجد تبسم کا تھا۔’ شکوہ/ جواب شکوہ کا سیاسی پہلو :عہد حاضر کے تناظر میں‘۔ املاء اور تلفظ کے مسائل موجود ہیں۔ موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے اور عہد حاضر کے ساتھ تعلق بھی جوڑ نہیں سکے۔ مواد کے اعتبار سے کمزور مقالہ تھا اور پیشکش بھی اچھی نہ تھی۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کا تھا، ’اثرات اورمعنویت: شکوہ اور جواب شکوہ‘۔۴۵منٹ کا بھرپور مقالہ تھا ۔ شکوہ/جواب شکوہ کے پس منظر اور اس دور کا مکمل احاطہ کیا۔ ان حالات کا مطالعہ پیش کیا جو اس تخلیق کا سبب بنے۔ انہوں نے ان تراجم کا تذکرہ کیا جو شکوہ /جواب شکوہ کے کیے گئے۔ انہوں نے تاریخ و واقعات کو ایک زنجیر میں پرودیا۔شکوہ اور جواب شکوہ کے درمیان لکھی گئی نظموں کا فکری اور فنی جائزہ بھی لیا ۔ مقالے میں وحدت فکر موجود تھا اور مواد بھرپور تھا اور استعمال بھی۔ بعد کی شاعری پر اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ اقبالؒ کی اردو اور انگریزی نثرپر اثرات بھی بیان کیے خاص طور پر ’کیا مذہب کاامکان ہے‘پر۔ اس کے علاوہ فارسی شاعری پر اثرات کا ایک مطالعہ بھی پیش کیا۔تنولی نے شکوہ/جواب شکوہ کا موازنہ اور تقابل ٹی ایس ایلیٹ کی’ویسٹ لینڈ(wasteland )‘ سے کیا ہے جو ۱۹۲۵ء کی تخلیق ہے اور کہا کہ ایلیٹ کے ہاں مایوسی ہے اور حل تجویز نہیں کیا گیا جبکہ اقبالؒ کے ہاں امید ہے اورمسائل کا حل دیا گیا ہے تاہم دونوں نے اپنے ماحول ، معاشرے، سماج، مذہب کو بیان کیا ہے۔

اس نشست کے مہمان خصوصی ممتاز محقق بشیر احمد سوز تھے۔ انہوں نے شکوہ /جواب شکوہ کو اقبال کا مرثیہ قرار دیا( جو درست نہیں۔ اقبال مرثیے کے خلاف تھے اور یہ اندازمرثیے کا ہے بھی نہیں)۔ سوز کے نزدیک اکبر اور حالی کی شاعری میں بھی یہی انداز ہے البتہ اقبالؒ کا انداز منفرد ہے اور اسلوب بھی اور مسائل کا حل بھی منفرد اسلوب میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے اقبالؒ کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ۔ان کے بعد اس نشست کے صدرپروفیسر صوفی رشیدنے صدارتی خطبہ دیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں فارسی کے حوالے زیادہ دیے۔ انہوں نے اقبالؒ کو پیام برخودی اور شعور کاشاعرقرار دیا۔اقبالؒ کی فارسی شاعری پڑھنے اور سیکھنے پر زور دیا۔جناب ہماری قوم کو اقبال کے اردو کلام کی سمجھ نہیں آتی اور آپ فارسی کی بات کررہے ہیں۔ تسلسل بیان نہیں تھا شایدعمرکی وجہ سے۔ان کے صدارتی خطبے کے اختتام پر کھاناتھا۔ اس کے بعد چار بجے جامعہ کی سیر کی اور گیسٹ ہاؤس میں ’پڑھے لکھے سکالرز‘ سے کچھ دیر گفتگو رہی۔ لاہور سے تشریف لائے ایک پڑھے لکھے کا خیال تھا کہ یہ ملک فوج اور ایجنسیوں کا بچایا ہوا ہے ورنہ باقی تو اسے بیچ کھا چکے ہوتے۔ ہم ان فرمودات سے محظوظ ہوتے رہے۔ قہوہ نوش جان کیا۔ شا م کو مانسہرہ آئے کہ یاروں نے رہائش کا بندوبست بہت دور کیا تھا۔ ’اولیووگرین ہوٹلolive green ‘۔ پشاور یونیورسٹی کے اویس قرنی اورہمارے میزبان ڈاکٹر الطاف یوسف زئی سے ادب کے موضوعات پر اچھی گفتگو رہی۔ڈاکٹر الطاف یوسف زئی اردو ادب اور ہزارہ یونی ورسٹی کا اچھا مستقبل ہیں اور عصری تقاضوں سے باخبر بھی۔ ملتان سے تشریف لائے ایک مقالہ نگار کی بیگم بھی ان کے ہمراہ ہیں جو واحد نسوانیت ہے اس ہوٹل کی۔دن کا ایک اور شام کا دوسرا لباس تھا۔ ثابت ہوا لباس بدلنے اور اتارنے میں پڑھی لکھی اور ان پڑھ خواتین میں کوئی فرق نہیں۔ پونے آٹھ بجے واپس جامعہ روانہ ہوئے۔ شام سے پہلے کی بونداباندی نے موسم کو مزید خوشگوار بنا دیا ہے جو دن کو تھوڑا گرم تھا۔ کھانا پُرتکلف تھا اور مقدار میں زیادہ بھی۔ اس کے بعد شام غزل میں شریک ہوئے۔ مقامی فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان میں جامعہ کے ایم فل سکالر محمد طارق بھی شامل تھے جنھوں نے سماں باندھا ۔ شعبہ اردو کے لیے یہ فنکار ایک اچھا اثاثہ ثابت ہوں گے اور اب تلفظ کے مسائل کم ہوں گے۔سردرد اورتھکاوٹ کی وجہ سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔شدید تھکاوٹ کی وجہ سے ہم دس بجے ہی مورچے چھوڑ گئے اور ہوٹل روانہ ہوئے۔آج کی سب سے افسوس ناک خبر کرنل فضل اکبر کمال کی وفات کی ہے جو موت سے لڑتے لڑتے آخر کار جان ہار گئے۔اﷲ ان کی مغفرت فرمائے۔

۲۲ اپریل صبح کے ناشتے میں پروفیسر نواز خان بھی تشریف لے آئے تھے جو ہمارے کالج کے کولیگ اور مانسہرہ کے رہائشی ہیں۔ان کے ساتھ دس بجے تک وقت گزرا اور پھر پڑھے لکھے ’فتنے‘ اٹھنے لگے۔ان کے ہمراہ جامعہ روانہ ہوئے۔عجیب بے حسی دیکھی کہ اعلان تک نہ کیا گیا کہ کمال صاحب وفات پاچکے ہیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت نہ سہی دکھ کا اظہار ہی کردیا جاتا۔اس معاملے میں یہاں کے ’مولوی‘ کچھ زیادہ ہی ’سیکولر‘ لگے۔پہلے سیشن کا پہلا مقالہ ڈاکٹر قاضی عابد کا تھا۔ آغاز ہی عجیب سا لگا ’کچھ مقالات آپ نے کل سنے اور میں بھی کل سے یہیں ہوں۔ کچھ ۱۱۲ منٹ لگاتے ہیں (طاہر تنولی کی طرف اشارہ لگتا تھا)۔ میں بارہ ہی منٹ لگاؤں گا۔ تاہم تیس منٹ لگائے۔ انہوں نے شکوہ/جواب شکوہ کا ایک تجزیہ پیش کیا۔ کچھ مضامین/کتابوں کا تذکرہ کیا اور ان پر تنقید کی۔پہلا سرعبدالقادر جنہوں نے اقبالؒ کے شکوہ/جواب شکوہ کامیرؔ کے واسوخت سے تقابل پیش کیا (جو درست نہں)۔ دوسرا نام ایم ڈی تاثیر کا تھا جن کی ایک ریڈیو تقریر میں شکوہ/ جواب شکوہ کا بین المتون مطالعہ کیاگیا اور اسے دنیا کی تبدیلی کا مضمون قرار دیاگیا۔ انہوں نے اسے امید کی شاعری کہا۔ نیزجدلیت پر بھی بحث کی کہ شکوہ تھیسس، جواب شکوہ اینٹی تھیسس اور بعد کی شاعری synthesis ہے۔ تیسرا نام عابد علی عابد کا ہے جس پر قاضی نے زیادہ بحث کی اور حوالے دیے۔عابد علی عابد نے شکوہ/ جواب شکوہ کو انسان اور خدا کے درمیان تعلق کہااوراس کی زبان کو علامتی قرار دیا ہے۔ چوتھا نام سلیم احمد کا ہے جس پر قاضی بہت برسے۔ ضیاء کے مارشل لاء کو فکری غذا ان کے بقول سلیم احمد کی اقبالؒ پر کتاب نے مہیا کی۔اور ایک نیم مذہبی جماعت (جماعت اسلامی) نے۔ ترقی پسندی اور ترقی پسندوں کے تذکرے کیے۔ان کے بقول سلیم احمد نے اقبالؒ کی شاعری کو موچی دروازے کی زبان قرار دیا اور خوب برسے۔ پانچویں رفیع الدین ہاشمی اور چھٹے عبدالمغنی کے مضامین کا تذکرہ کیا۔ دونوں کو جاہل قرار دیا کہ ہاشمی نے اقبالؒ کو سمجھا ہی نہیں۔ ان کے تذکرے میں دوبارہ جماعت اسلامی کے لتے لیے۔ اختتام پر فرمایا کہ کل اور میرے بعد آنے والے کچھ مقالہ نگاراور آئندہ کسی کانفرنس تک کے مقالہ نگارمجھ سے خوف زدہ رہیں۔ ویسے مجھے تو موصوف مجہول ہی لگے نہ سر نہ پیر وہی پر انی گھسی پٹی باتیں۔ ترقی پسندی کے تذکرے، جماعت اسلامی اور دائیں بازو کو کوسنے اور چیلنج۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ مولوی کوگالی لیکن خود کٹھ ملا کی طرح کے بھاشن۔ ویسے یہ ترقی پسند تو طالبان سے بھی زیادہ بڑے مولوی ہیں یا شاید مایوسیوں کے اتھاہ ساگر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

دوسرا مقالہ ڈکٹر ضیاء الحسن کا تھا جو لاہور سے تشریف لائے تھے۔ان کے مقالے نے سوچ کی نئی جہات کو وا کیا۔انھوں نے فرمایا کہ شکوہ/ شکایت نسوانی مزاج کا عکاس ہوتا ہے۔انھوں نے غالب کی شاعری سے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ شکوہ غالب کے ہاں بھی ہے لیکن اقبال کا شکوہ لاشعور سے شعور کا سفر ہے۔یہ غالب کے ہاں لاشعور اور اقبال کے ہاں شعور میں ہے۔شکوہ/ جواب شکوہ عہد سازی ہے اور بعد کی شاعری مزاج سازی ہے۔یہ اپنے دور کا عکاس ہے۔اس کا لب و لہجہ مجموعی شعری لہجے سے مختلف ہے۔پہلے چار مصرعوں میں خدمات اور آخری دو مصرعوں میں شکوہ / شکایت کا انداز نسوانیت کا عکاس ہے۔اسلوب کی نسوانیت سے کام لیا گیا ہے۔روزمرہ زندگی میں شوہروں کو اس سے واسطہ پڑتا ہے۔انھوں نے پاکستان میں آنے والے مارشلاؤں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ قوم منتشر ہجوم میں تبدیل ہوچکی ہے۔خودی کھو چکے ہیں اورہمارے حکمران جب مانگنے جاتے ہیں تو وہ ساری قوم کو گروی رکھ کر آ جاتے ہیں۔آج ہمارا انفرادی اور اجتماعی عمل اسی چیز کی غمازی کرتا ہے جو شکوہ میں ہے۔کردار سازی جواب شکوہ میں ہے۔اور حضورؐ کی پیروی اس کا حل ہے۔آپ ؐ نے زوال کی وجوہات اور کمال کے سارے راستے بتا دیے تھے۔آج ۱۹۱۲ء کی نسبت زوال زیادہ ہے اور احساس زیاں نہ ہونے کے برابر۔آج بھی اپنے ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔بیگانوں نے اتنے مسلمان نہیں مارے جتنے یگانوں نے مار دیے ہیں۔ہمارا سب کچھ مختلف ہو سکتا ہے لیکن دین ،ایمان ، اﷲ، رسولؐ ، قرآن ، کعبہ اور کتاب ایک ہے۔ہمیں اتحاد کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔اخروی نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ آپؐ کے اتباع میں ہے۔قرآن نے ہی عرب کے بدوؤں کو منظم کیا اور وہی آج پوری دنیا کے مسلمانوں کو منظم کر سکتا ہے۔ہم کو اپنے مرکز کی طرف لوٹنا ہوگا۔اس سیشن کے مہمان خصوصی ڈاکٹراحسان الحق نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ دونوں مقالے بہترین اور ہمارے افکار و خیالات کوجھنجھوڑتے ہیں۔ سوسالوں میں مسلمانوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے دونوں نظموں کو ایک ہی شعور کی رُو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے کہ شکوہ / جواب شکوہ کا بعد کے شعراء کی شاعری پر کیا اثر پڑا۔ اور ان خیالات کو شعراء نے کس حد تک قبول کیا اور اس فکر کو اپنایا۔

ڈاکٹرفخرالحق نوری نے صدارتی خطبے میں اس موضوع کو عصر حاضر کا موضوع قرار دیا نیز انہوں نے اس کانفرنس کو اس لحاظ سے حیات آفرین قرار دیا کہ اس کا انعقاد اقبالؒ کے یوم وفات پر کیا گیا ہے، جس کی ضرورت تھی۔ ان کے مطابق اقبالؒ کے فن کا عروج’بال جبریل‘ کی نظموں اور غزلوں میں ملتا ہے۔ اس کے بعد ارتقاء فکر و فن ملتا ہے۔ شکوہ میں انفرادی انا اجتماعی انا کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ شکوہ واسوخت نہیں۔ اس معاملے میں سر عبدالقادر کا موقف غلط تھا۔ اقبالؒ جواب شکوہ میں اﷲ کے ترجمان بن کر سامنے آتے ہیں۔نوری نے متنی تحقیق پر زور دیا اور اقبالؒ کے متون کو سامنے رکھ کر بات کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے قاضی عابد سے بھی اختلاف کیا کہ ہاشمی پر تنقید کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ہاشمی نے اگر غلطی کی ہے تو اس کی اصلاح ایسے ہی ممکن ہے کہ متن کو سامنے رکھا جائے۔تاہم انہوں نے بھی ہاشمی اور عبدالمغنی پر تنقید کی۔ ایسا لگتا ہے کہ لاہور کے دودبستان سامنے آ رہے تھے اور نوری کا بھی کوئی پرانا تعصب بول رہا تھا اور یہ تعصب ہے ہاشمی کی اقبال شناسی پر چوٹ کرنے کا ۔ نوری ہاشمی کے پرانے نقادوں میں سے ہیں۔ انہوں نے ہاشمی کی اس بات کو رَد کر دیا کہ جواب شکوہ ،شکوہ کی تلافی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر ضیاء کے مقالے کے نفسیاتی پہلوپر بھی بات کی کہ اقبالؒ کا شکوہ کا انداز نسوانی ہے اور احتجاج نسوانی ادا ہے۔ویسے نفسیاتی تنقید اور تحلیل نفسی کرنے کا ڈاکٹر سلیم اختر کو بہت شوق ہے۔آپ بھی یہ شوق پورا کرلیں۔نوری نے غالب کے اشعار کے برمحل حوالے دیے جو شکوہ کے انداز کے ہیں۔ نیز انہوں نے اقبالؒ کو ماضی پرست قرار دیا کہ ’میری تمام سرگزشست کھو ئے ہوؤں کی جستجو‘۔

کھانے کے بعد دوسرے سیشن کے پہلے مقالہ نگار ڈاکٹر عابد سیال تھے جنہوں نے شکوہ کے ہلے بند کا اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا۔ ان کے مطابق خاص الفاظ کا چناؤ اقبالؒ کا اسلوب ہے۔ انہوں نے پہلے بند کو قصیدے کی تشبیب قرار دیا۔تجسس ہے،گریز ہے اور ڈرامائی کیفیت۔ ہمدم دیرینہ کی تلاش ہے اور خواہش بھی۔ Affirmative کا اردو انہیں نہ ملا (کیونکہ وہ NUML سے آئے تھے)۔تاہم ان کا مقالہ جاندار تھا۔ انہوں نے اقبالؒ کے لہجے کو اپنائیت کا لہجہ قرار دیا، گستاخی کا نہیں۔ان کے انداز نے بتایا کہ وہ الفاظ کے استعمال سے واقف ہیں اور الفاظ سے کھیلنا جانتے ہیں۔دوسرا مقالہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادکا تھا،’ فکر اقبال میں شکوہ /جواب شکوہ کی عصری معنویت ‘۔ ابتداء۱۸۵۷ء سے کی اور تاریخی پس منظر بیان کیا اور شکوہ/ جواب شکوہ کوتشکیلی دور کی نظمیں قرار دیا۔ یہ نظمیں مکالمہ اور جواب مکالمہ کے انداز کی ہیں۔ شکوہ اور جواب شکوہ میں ڈرامائی عناصر ہیں حالانکہ اقبال ڈرامے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے صوفی تبسم کی اس بات کو جھٹلایا کہ یہ نظمیں بچے کی فریاد ہیں(چلیں جی بڑے کی فریاد کہہ لیتے ہیں)۔ان کے مطابق شکوہ میں شوخی زیادہ ہے جبکہ جواب شکوہ میں ٹھہراؤ اور سنجیدگی زیادہ ہے۔

پروفیسرڈاکٹر ارشاد شاکر مہمان خصوصی تھے اور انھوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہم (عالم اسلام) خلافت اسلامیہ کے دور میں ہی ہیں۔ اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے اقبال کے پہلے مقالے ’قومی زندگی‘ کا حوالہ دیا اور اسے عہد نامہ جدید قرار دیا۔اقبال کی پہلی نظم ’ہمالہ‘ میں بقاء کا اصول طے کر دیا گیا کہ ’مذہب نہیں سکھاتاآپس میں بیررکھنا‘(پاکستان کی پھر کیا ضرورت)۔ شکوہ اور جواب شکوہ احساس ذمہ داری کا نام ہے اور یہ ذمہ داری حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں ہے۔ انہوں نے طالبان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور میثاق مدینہ کا حوالہ دیا جس میں اﷲ اور محمدؐ ہی کو آخری ثالث تسلیم کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ آئین میں ہی ہماری بقاء ہے اورآئین خدا نے دے دیا ہے(یہ بات تو طالبان بھی کہتے ہیں)۔ دوسرے کو برداشت کرنا ہی زندگی کی بقاہے۔ناظم خانہ فرہنگ ایران علی یوسفی نے صدارتی خطبہ فارسی میں دیا اور فرمایا کہ اقبالؒ کی شاعری کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ فارسی کی روایت کو زندہ رکھا جائے(یہاں تو اردو اور اردورسم الخط کی روایت کوبچانے کی فکر میں ہیں ہم سب اور آپ کو فارسی کی روایت کی فکر ہے)۔ انہوں نے اقبالؒ کو فلسفی، شاعر، عظیم انسان قرار دیا۔ فکر اقبالؒ کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ جواب شکوہ کا آخری شعر ہی کافی ہے۔علامہ اقبال کثیرجہات تھے لیکن شاعر اقبال کو انھوں نے اقبالؒ جاویدان قرار دیا۔ انہوں نے پروفیسر ڈاکٹرارشاد شاکر کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے فارسی کا ایک پرچہ ایم اے اردو کے نصاب میں شامل کیا۔کھانے کے دوران ہی ڈاکٹر نوری سے رحمت صاحب نے جب یہ کہا کہ ’یہ ڈاکٹر عبدالکریم ہیں اور آپ ان کے بیرون ممتحن تھے‘ تو نوری صاحب نے اس مضمون کا تذکرہ کیا جو میں نے ’سروش‘ میرپورمیں لکھا تھا اورجو ایک رپورتاژہے۔ ناراضگی کا اظہار کیا کہ’ ہم نے آپ کو سپورٹ کیا تھا ورنہ آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری نہ ملتی اور آپ کو جس جامعہ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی اس کے خلاف آپ کوکچھ نہیں لکھنا چاہیے تھے‘۔ میرا انہیں جواب تھا کہ’ جامعہ نے اور افراد(افراد بھی پڑھے لکھے)نے ہمارے ساتھ جو کیا وہ میں نے سچ سچ لکھا ہے اور یہ افراد کے رویوں کے خلاف احتجاج ہے‘ ۔

اس کے بعد سہ پہر سے شام تک چائے کے باغات کی ۔سیر کا شعبہ اردو نے اھتمام کیا ہوا تھا۔ویسے شام کی سیر کے دوران رحمت صاحب نے خوب فوٹو گرافی کی۔شام کو ہم جامعہ میں ہی رہے اور رات کے کھانے کے بعد سہ لسانی مشاعرے میں علامتی شرکت کی کیونکہ ہم کو مشاعروں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔اس مشاعرے میں ہزارہ کے دو بڑے شاعر آصف ثاقب اور سلطان سکون نظر نہیں آئے۔ رات واپسی پر ہوٹل میں چائے کا دور چلا اور ڈاکٹر طاہر تنولی اور پروفیسر ڈاکٹر فقیرا خان فقری سے اچھی گپ شپ رہی۔

۲۳ اپریل کی صبح ڈاکٹر طاہر تنولی واپس روانہ ہوگئے۔ناشتے کی میز پر ڈاکٹر فخرالحق نوری سے دوبارہ گفتگو ہوئی اور اب کی بار ان کا موقف تھا کہ ’آپ کو اپنی صلاحیتیں اس طرح کے مضامین پر ضائع نہیں کرنی چاہیے‘،جو صائب مشورہ تھا‘۔ویسے بھی یہ رپورتاژ میرا کیتھارسس تھا جو ہو گیا۔ناشتے کے بعد ڈاکٹرقاضی عابد اور ان کی ’ترقی پسندی‘(معہ بیگم) رخصت ہوگئے۔ہم یعنی ڈاکٹر عابد سیال،ڈاکٹر ضیاء الحسن،میں اور رحمت صاحب جامعہ پہنچے تو لگا کہ ہمارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ آج کا پہلا مقالہ ڈاکٹر طارق ہاشمی کا تھا۔ان کے نزدیک اقبال کی شاعری پر مقصدیت کا غلبہ ہے۔ ترقی پسند اور راسخ العقیدہ اقبالؒ کو نہیں سمجھے۔ میرکی شاعری سے حوالے دیے کہ ان کی بازگشت اقبالؒ کی شاعری میں ہے(اقبال میر سے متاثر نہیں)، غالب کی مثالیں دیں۔ان کے نزدیک بھی اقبالؒ کی جواب شکوہ / شکوہ واسوخت نہیں۔ مرزاداغ کی شاعری سے بھی حوالہ دیا’ روز ہم روز جزا روز جزا کرتے ہیں‘۔ عبدالمغنی کے حوالے دیے کہ ان نظموں کو مذہبی قرار دے کر رد کرنا انتہا پرستی ہے ۔یہ ایک مونو لاگ ہے۔انھوں نے نظم کی صوتیات پر بات کی اور شعری محاسن پربھی۔لسانیات پر ان کی گرفت حیرت انگیز تھی۔انھوں نے ان نظموں کو کشمکش اور عرب تہذیب کی بھرپور عکاس قرار دیا۔ دونوں نظموں میں بھرپور شعر نگاری ہے۔ افلاک کی منظر نگاری حیرت میں ڈالتی ہے۔ شاعری کی تیسری آواز کی تکنیک اقبالؒ کے ہاں کم ملتی ہے۔ان نظموں سے عام قاری متاثر ہے۔ تاہم اہل ذوق بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ہاشمی کے نزدیک یہ نظمیں اگر ’بال جبریل‘ کے دور میں تخلیق کی جاتیں تو شایداقبال پھرکئی مصرعوں،ا شعار اور بند حذف کردیتے یا تبدیل کرتے۔ ان کا اقبالؒ سے یہ شکوہ تھا کہ’ آپ نے اس نظم میں مسلمانوں کے صرف عسکری کارنامے ہی گنوائے ،ان کے علمی، ادبی اور تہذیبی کارناموں پر کھل کر بات نہیں کی‘کہ’ خوگر حمد سے تھوڑا ساگلہ بھی سن لے‘۔ بھرپور مقالہ تھا اور خوبصورت انداز سے پیش کیا گیا۔

دوسرامقالہ ڈاکٹر منور ہاشمی کا تھا۔ ان کے نزدیک شکوہ سوال اور جواب شکوہ جواب ہے۔ اقبال تمثیلی انداز اختیارکرتے ہیں۔ اقبالؒ کی شاعری میں فیصلہ ہے یا پیش گوئی لیکن شکوہ /جواب شکوہ میں ایسا نہیں۔ یہاں وہ وکیل ہیں ۔وہ انسان اور خدا دونوں کے وکیل ہیں۔ فن اور فکری جمالیات ہے۔ ان کے نزدیک شکوہ میں شکوہ کشمکش کی ایک کیفیت کا نام ہے اور یہ امت کی بے چارگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تقابل بھی ہے، ماضی کا واسطہ دے کر مستقبل چاہتے ہیں۔ یہ دوست سے شکوہ ہے کہ میں نے تمہارے لیے یہ اور یہ کیا اور تم نے میرے لیے کیا کیا۔ شکوہ امت مسلمہ کا مرثیہ ہے۔ روایتی ہیئت مسدس کا استعمال کیا گیا ہے۔ جواب شکوہ میں خوبصورت انداز سے خدا امت کو ڈانٹ رہا ہے۔ اقبالؒ کے تمام نظریات جواب شکوہ میں موجود ہیں۔ عشق کے تصور کوارضی سے فلکی بنا دیا۔ اقبالؒ کے بنائے ہوئے خاکے سے تشکیل پانے والے ملک پاکستان پر غیروں کی عملداری ہے۔ کشمیر اور فلسطین لہولہو ہیں۔ جواب شکوہ کے حالات آج بھی موجود ہیں۔ ان نظموں کی افادیت موجود ہے۔ اقبالؒ نے احساس پیدا کیا اور آج احساس زیاں ہی نہیں۔ آج وہ جذبہ موجود نہیں۔ قوم پستیوں سے نکلنا چاہتی ہے تو ایک بار پھر محسوس کرے کہ اقبالؒ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان کے نسخوں کو استعمال کرے۔اس سیشن کے مہمان خصوصی ہندکو کے معروف شاعر پروفیسر یحییٰ خالد تھے جنہوں نے کہا کہ اقبالؒ نے دنیا کی مایوسیوں کا شکوہ اﷲ سے کیا۔ وہ مسلمان قوم کے شاعر تھے اور اپنے لیے خدا سے نہیں امت کے لیے مانگا۔ ہم سب کو آج اتحاد کی ضرورت ہے اور اس کے لے فکر اقبالؒ روشنی فراہم کرتی ہے۔

پوری کانفرنس کا ماحصل پروفیسر ڈاکٹر فقیرا خان فقری کا صدارتی خطاب تھا۔ انہوں نے تین دن کے مقالات کا اجمالی جائزہ لیا ۔ اقبالؒ کی فارسی شاعری کے برمحل استعمال نے ہم سب کو حیرت زدہ کر دیا۔ اس لیے کہ ہم پچھلے دو دن سے ان کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے۔انھوں نے فی البدیہہ خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ دوش کے آئینے میں فردا کو دیکھنے کا نام شکوہ اور جواب شکوہ ہے۔ اقبالؒ کا شکوہ فرد کانہیں امت کا ہے۔ ان کے فن کی بنیاد ’کاش سمجھتاکوئی فریاد اس کی‘ ہے کہ اس کو پڑھنے، گانے، لکھنے والے اس کی فکر کو سمجھ نہیں رہے۔ نیا دوراورنئے دور کانوجوان اس کے پیغام سے آشنا نہیں۔ ہم با عمل نہیں تو پہلے با عمل بنیے۔حرکت اور عمل کی ضرورت ہے۔ہم عشق کے پیرو نہیں رہے۔ آج کا کوہ غم ہم سب پر ٹوٹا ہے ماضی میں صرف عثمانیوں پرٹوٹا تھا ۔ ہم اتحاد کے ذریعے اس بوجھ کے نیچے سے نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج غاصب طاقتیں چاروں اطراف سے پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ دوسرا اقبالؒ نہیں پیدا ہوگااس لیے اس کے پیغام کو سنیں، پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔ شکوہ/جواب شکوہ کا تجزیہ کریں۔ اپنے حال اور ماضی کا تجزیہ کریں۔ پرکھیں اور سب چیزوں کو آج کے تناظر میں دیکھیں۔

ان کے تفصیلی خطاب کے بعد کھانے کا وقفہ تھا اور اس کے بعد’ شام غریباں‘ہی تھی۔ چند مہمان اورطلبہ و طالبات کانفرنس کی اختتامی تقریب کے لیے ہی باقی بچے۔ آخری سیشن میں سفارشات پیش کی گئیں جو ڈاکٹر سفیان نے پیش کیں اور کہا کہ اقبالؒ کو سکول سے جامعات تک کی سطح پر ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے ۔نویں ،دسویں میں جواب شکوہ/شکوہ کو شامل نصاب کیا جائے۔ اقبالیات کا مضمون صرف ایم اے ہی نہیں، ایف اے اور بی اے میں بھی ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ قیام پاکستان کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے بی اے، ایف اے کے نصاب میں’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘،’ خطبہ الہ آباد‘اور’ اسلام اور قومیت‘ کو شامل کیا جائے۔ اقبالیاتی ادب کو سمجھنے کے لیے عربی اور فارسی کے مطالعے کو اقبالیات پڑھنے والے کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔سفارشات میں عربی اور فارسی کی بات تو کی گئی لیکن اردو زبان اور آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کا تذکرہ نہ تھا۔اور ایک آخری بات۔

ہزارہ یونیورسٹی شعبہ اردو کی ڈھائی افراد کی ٹیم نے بڑا کام کیا ہے۔لیکن سب کچھ اچھا نہ تھا۔ جامعہ کے باقی شعبہ جات کا تعاون مجھے نظر نہ آیا۔ جامعہ میں تو شعبہ جات کو تعاون کرنا چاہیئے اور لینا چاہیئے۔ میں نے جامعہ کے باقی کسی شعبہ کے اساتذہ کو نہ دیکھا اور نہ سنا۔ میری رائے میں تو حکومتی نمائندوں کو بھی ایک سیشن میں شامل کیا جانا چاہیئے تھا۔ شرکت کے حوالے سے بھی بھرپور کانفرنس نہ تھی۔ اپنے طلبہ و طالبات کو بھی پابند نہیں کیا گیا تھا اگرچہ کچھ طلبہ و طالبات نے بہت کام کیا۔ سیشن بروقت شروع نہ ہونا بھی ایک مسئلہ تھا۔ سوال جواب کا باقاعدہ کوئی سیشن نہ تھا اور نہ ہی اختتام سے پہلے مہمانان سے ان کے تاثرات لیے گئے۔ جامعہ کا ریسٹ ہاؤس بھی شعبہ اردو کے مہمانوں کے لیے مہیا نہ تھا۔ رہائش بہت دُور مانسہرہ سے بھی باہر تھی اور وہاں سے جامعہ پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا اگرچہ جامعہ کے قریب اچھے ہوٹل نہیں لیکن شنکیاری زیادہ قریب تھا اور پُرسکون بھی۔ بیرونی سکالرز کی ایک بھرپور ملاقات کا اہتمام بھی جامعہ میں باقی شعبہ جات پر اچھا اثرمرتب کرسکتا تھا۔ان سب کے باوجود ایک نئے شعبے کا جس کی عمر پانچ سال سے کم ہو: ایک موثر، منظم کانفرنس کا انعقادقابل ستایش ہے۔ ہم ڈاکٹر نذرعابد، ڈاکٹر الطاف یوسف زئی، ڈاکٹر محمد رحمان اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اس کانفرنس کی آخری بات ڈاکٹر الطاف کا سب کا شکریہ ادا کرنے کی تھی لیکن وہ رحمت علی خاں کو بھول گئے جنہوں نے خوب فوٹوگرافی کی اور تمام تصاویر کو فیس بک پر بھی ڈال دیا۔ انہوں نے اپنی برمحل گفتگو، چٹکلوں، شاعری سے شرکاء کانفرنس کو بہت متاثر کیا۔ خاص طور پرپروفیسر ڈاکٹر فقیرا خان فقری اور اویس قرنی کو۔ تین روزہ کانفرنس میں ایک بھرپوربک سٹال کا نہ ہونا حیرت انگیز تھا۔ یہی تو مواقع ہوتے ہیں عام افراد اور طلبہ کوکتاب کے قریب لانے کے۔ اقبال اکیڈمی، ادارہ فروغ اردو،نیشنل بک فاؤنڈیشن سے رابطہ کرکے ان کو تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ سٹال لگا لیں ۔یہ بہت بڑی کمی تھی جو میں نے محسوس کی۔مقالات کے معیارات میں واضح فرق محسوس کیا۔ ہزارہ سے تعلق رکھنے والے سکالرز کے مقالے کمزور جبکہ لاہور،اسلام آباد،ملتان سے تشریف لائے مقالہ نگاروں کے مقالے اچھے تھے۔ ہزارہ سے تعلق رکھنے والے مقالہ نگاروں کو مزید محنت کرنا ہو گی اگرچہ ڈاکٹر فقری نے کمی کو پورا کیالیکن نوجوان مقالہ نگاروں کو مواد اور املا وتلفظ پر زیادہ محنت کرنا ہوگی۔آزادکشمیر یونی ورسٹی میں شعبہ اردو نہ ہونے اور جامعہ ہزارہ کے قریب ہونے کا ہمارے سکالرز کو بڑا سکھ ہے۔یہاں کے اساتذہ بہت مہربان اور شفیق ہیں اور اس وقت بھی مظفرآباد سے پانچ سکالرز ایم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ہم اس بات پر بھی جامعہ کے شعبہ اردو کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے کمال محبت سے ہم کو مدعو کیا اور اجنبیت کا احساس تک نہ ہونے دیا ویسے بھی ہم اس جامعہ کو اپنا دوسراگھر سمجھتے ہیں۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51457 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More