اوقات کے تحفظ اورقیمتی بنانے کے سنہری اصول

مفتی ذاکرحسن نعمانی

سب سے قیمتی متاع وقت ہے۔موجودہ آباد دنیاوقت کی قدر کی مرہونِ منت ہے ۔جتنے بڑے لوگ گزرے ہیں انھوں نے وقت کی قدرکی ہے۔دنیاوی ترقی ہویااخروی اس لیے ہوئی ہے کہ اہل دنیااوراہل دین نے اپنے قیمتی اوقات ضائع نہیں کیے ،دین ودنیاکی تعمیر کی طرف قیمتی اوقات کے ساتھ بھرپورتوجہ کی ۔اس لیے اس نعمت کی قدر چاہیے ۔

احساسِ وقت:
وقت کے صحیح اوربھرپوراستعمال کے لیے احساس ضروری ہے ۔وقت کی قدروقیمت جانناہرانسان کافریضہ ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے وقت کی قسمیں کھائی ہیں :
﴿والعصران الانسان لفی خسر﴾
ترجمہ : قسم ہے زمانے کی کہ انسان بڑے خسارے میں ہے ۔
﴿والضحیٰ والیل اذاسجیٰ ﴾
ترجمہ :قسم ہے دن کی روشنی کی اوررات کی جب کہ وہ قرارپکڑے۔
اورایک اورجگہ ارشاد ہے:
﴿اولم نعمرکم مایتذکرفیہ من تذکر﴾
ترجمہ :کیاہم نے تم کو اتنی عمرنہ دی تھی کہ جس کوسمجھناہوتاوہ سمجھ سکتا۔
جن کے ساتھ وقت کااحساس ہوتاہے وہ ایک ایک سیکنڈ کاحساب رکھتے ہیں ایک لمحہ ضائع ہونے نہیں دیتے ۔ وقت ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جائے توپھرہاتھ آتانہیں :
گیاوقت پھرہاتھ آتانہیں
سداعیش دوراں دکھاتانہیں

کفارآخرت میں دوبارہ اپنی زندگی درست کرنے کے لیے دنیاکی طرف لوٹنے کی تمناکریں گے لیکن بے سود تمناہوگی دوبارہ دنیاکی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ تَرٰی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰ یٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴿۲۷﴾ [سورۃ الانعام]
ترجمہ:اوراگرآپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کیے جائیں گے توکہیں گے !ہائے کیااچھی بات ہوکہ ہم پھرواپس بھیج دیے جائیں اوراگرایسا ہوجائے توہم اپنے رب کی آیات کوجھوٹانہ بتائیں اورہم ایمان والوں سے ہوجائیں۔
دوسری آیت میں ارشادہے:
وَلَوْتَرٰی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْ ارُءُ وْسِھِمْ عِنْدَرَبِّھِمْ رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ﴿۱۲﴾
ترجمہ :اوراگرآپ دیکھیں توعجب حال دیکھیں گے جب کہ یہ مجرم لوگ اپنے رب کے سامنے سرجھکائے ہوں گے کہ اے ہمارے پروردگار بس ہماری آنکھیں اورکان کھل گئے سوہم کوپھربھیج دیجیے ہم نیک کام کریں گے ہم کوپورایقین آگیاہے۔

وقت قیمتی بنانے کامطلب:
ہم کب کہہ سکتے ہیں کہ وقت قیمتی بن گیاکونساایساعمل ہے جس کے ساتھ وقت قیمتی بن جاتاہے۔وقت توظرف ہے اس کامظروف کیاہوناچاہیے کیونکہ دنیامیں توسب لوگ ہروقت کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس کاوقت قیمتی بن گیاہے اوراس کاوقت ضائع ہوگیایااس کاوقت قیمتی نہیں بنا۔اگردنیاوی لحاظ سے قیمتی بنانا ہوتوحالات اوروقت کے تقاضوں کے مطابق کام کرناہوگاکیونکہ مقتضی الحال کی رعایت کے ساتھ کام کیاجائے توکوئی کام بگڑتانہیں بلکہ دنیامنورہوجاتی ہے ۔اسی طرح اخروی لحاظ سے وقت قیمتی بناناہے ہردور میں اس دورکے دینی تقاضوں کی رعایت کے مطابق وقت کوقیمتی بناناہوگا۔ وقت جن باتوں سے قیمتی بنتاہے وہ دوباتیں ہیں:جن کی طرف ایک دعامیں اشارہ ہے :
’’اﷲم انی اسئلک صلاح الساعات والبرکۃ فی الاوقات․‘‘

اوقات کی اصلاح اوراوقات میں برکت یہ ہے کہ اگرکسی وقت میں حال کے تقاضوں کومدنظر رکھ کرصحیح کام کیاجائے تویہ وقت کی اصلاح ہے یایوں کہو کہ وقت صحیح اورضروری کام میں صَرف ہوا،فضول کام نہیں کیاورنہ وقت ضائع ہوا۔

دوسری بات جس سے وقت قیمتی بنتاہے وہ ہے اوقات میں برکت۔یہ بات ہرکسی کونصیب نہیں ہوتی وقت میں برکت کامطلب یہ ہے کہ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہوجائے۔اولیاء کرام کی کرامات میں یہ ایک مستقل کرامت ہے کہ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہوجاتاہے ۔اس کی مثالیں موجودہیں،لوگوں نے حساب لگایاکہ کام کے لیے مثلاً دس سال چاہیے یعنی حقیقتاً اس کام کے لیے دس سال چاہیے لیکن کام ایک سال میں ہوگیاہے توبقیہ نوسال کاسفرکیسے طے ہوااوربقیہ نوسال کہاں سے آگئے ۔ حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کے دینی کارناموں کودیکھاجائے توان کی پائی گئی زندگی اس کے لیے ناکافی ہے ۔شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اﷲ کے بارے میں مشہورہے کہ عصراورمغرب کے مابین پوراقرآن مجید پڑھ لیتے تھے ۔ خودحضوراکرم ﷺ نے 23سال میں جواسلامی انقلاب برپاکیایہ ایک معجزہ ہے آپ کے بعدہزارسال سے زیادہ ہوگئے ہیں کہ پوری دنیاکے مسلمان آپ جتناکام نہ کرسکے یہ سب کچھ وقت کی برکت ہے ۔ مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں ایک ہے وقت کاطول یعنی دن رات کے چوبیس گھنٹے یاصبح سے لے کرشام تک اورشام سے لے کرصبح تک اس طول سے عام لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اورطول کوہرایک سمجھتاہے کہ اتناوقت باقی ہے،اتنے وقت میں یہ کام ہوسکتاہے ،اتنے وقت میں یہ کام نہیں ہوسکتاپوری دنیاکے مسلم اورغیرمسلم اسی طول کے مطابق انفرادی اوراجتماعی نظام الاوقات بناتے ہیں اور ایک ہے وقت کاعرض جس سے اہل اﷲ فائدہ اٹھاتے ہیں عام لوگ وقت کے عرض اورچوڑائی کونہ سمجھتے ہیں اورنہ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔واقعہ معراج کودیکھ لیں کہ بہت کم عرصہ اوروقفہ میں حضور ﷺ نے جہاں بھرکی سیرکی ،بیت المقدس گئے ،سدرۃ المنتھیٰ گئے ،جنت دیکھی ،دوزخ دیکھی۔یہ شایدہزاروں سال کی مسافت بنتی ہولیکن آپ نے یہ مقدس سفراورسیرچندلمحوں کے اندرکی ہے ۔کسی کووقت سے یہ دوفائدے اصلاح وقت اوربرکتِ وقت مل جائے تواس کاوقت قیمتی بن جاتاہے اورعام لوگوں کے اوقات کی صرف اصلاح ہوجائے توبھی وقت قیمتی بن جاتا ہے۔

تحفظِ اوقات کے اصول:
پہلااصول……دعا:
پہلااصو ل یہ ہے کہ اوقات کے تحفظ کے لیے دعامانگے اورغالباً حضرت عمررضی اﷲ عنہ کی دعاہے :
’’اﷲم انی اسئلک صلاح الساعات والبرکۃ فی الاوقات․‘‘
اے اﷲ میرے اوقات کی اصلاح کردے اورمیرے اوقات میں برکت ڈال دے ۔

بعض لوگ کام توصحیح اوربروقت کرتے ہیں لیکن دعانہیں مانگتے۔اوقات کوقیمتی بنانے کے لیے ان کویہ قیمتی دعاپڑھنی چاہیے۔کام اورمحنت سے وہ کام نہیں ہوتاجودعاسے ہوتاہے اس لیے کسی کام کے اسباب کواختیار کرنے سے پہلے خالقِ اسباب سے دعامانگی جائے کہ اے اﷲ اس کام کے لیے تیرے ہی پیداکردہ اسباب استعمال کررہاہوں ان اسباب پرصحیح اورمفید نتائج وثمرات مرتب فرما۔ دعامیں ہمیشہ اﷲ سے وقت کوقیمتی بنانے کے لیے دعامانگی جائے کہ اے اﷲ وقت کی اصلاح کے ساتھ وقت میں برکت عطافرمااس کے ساتھ کاموں کی اصلاح کے ساتھ اوقات میں برکت ہوگی۔والدین کی خدمت سے عمرمیں برکت کاایک یہ معنی ہے کہ عمرحقیقت میں نہیں بڑھتی بلکہ کم وقت میں اﷲ اس سے زیادہ کام لے لیتے ہیں یاکم وقت میں زیادہ کام سرانجام دیتاہے۔

دوسرااصول ……ضبطِ اوقات:
ضبطِ اوقات کوتقسیم ِ اوقات بھی کہہ سکتے ہیں یعنی اپنے ہرکام کے لیے اوقات مقررکیے جائیں۔ مقررہ وقت جب آئے تواس میں وہی متعین کام کیاجائے ۔مثلاً نماز،ذکر،تلاوت ،مطالعہ ، تکراراورتصنیف وغیرہ اپنے اپنے مقررہ وقت میں ہونے چاہیے ۔اگراوقات میں انضباط اورتقسیمِ اوقات نہ ہوتوآدمی کی زندگی فضول بن جاتی ہے کبھی ایک کام ایک وقت میں کیاکبھی دوسرے وقت میں اس طرح بھی کچھ نہ کچھ کام ہوجاتے ہیں لیکن کاموں کے تزاحم کی وجہ سے بعض کام بگڑجاتے ہیں۔جن لوگوں کے اوقات میں انضباط ہوتاہے اورایک نظام اورضابطہ کے تحت زندگی گزارتے ہیں وہ دنیامیں بہت کام کرجاتے ہیں۔

ظرف یامعیار:
وقت ظرف ہوناچاہیے یامعیار اگراپنے اوقات کوتقسیم کرکے ضابطہ بنالیاہے کہ فلاں فلاں وقت میں یہ یہ کام کروں گاتووقت اپنے کام کے لیے معیار بن جائے گاورنہ وقت ظرف رہے گاپتہ نہیں چلے گاکہ اس وقت کون ساکام کروں اس لیے کہ وقت اگرظرف ہوتواس میں ہرکام کی گنجائش رہے گی کاموں کی اہمیت بھی ختم ہوجائے گی،کبھی ایک کام کرے گاکبھی دوسرا۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اوقات کواپنے کاموں کے لیے معیار بنائیں کہ اس وقت میں صرف یہ متعین کام ہوگادوسراکام نہیں ہوگا۔جس طرح رمضان میں دن میں فرض روزہ رکھناہوتاہے، کوئی اورقضایانفل کاروزہ نہیں رکھ سکتایا دن میں صرف ایک روزہ رکھ سکتاہے مثلاً نفل یاقضا۔ایک دن میں روزہ کی جنس سے کئی روزے نہیں رکھ سکتا۔اس لیے روزہ کے لیے وقت معیارہے ۔منظم اورباضابطہ زندگی گزارنے والوں کے اوقات ان کے متعین کاموں کے لیے معیارہوتے ہیں جس کافائدہ یہ ہوتاہے ان کے اہم کام پورے ہوجاتے ہیں کوئی کام قضاء نہیں ہوتا،کوئی اورکام اس متعین کام کی جگہ نہیں لے سکتا،ایمرجنسی میں کوئی کام پیش آجائے توالگ بات ہے۔

منظم تکوینی نظام:
اﷲ تعالیٰ کاتکوینی نظام بھی بڑامنظم اورباضابطہ ہے ۔سورج ،چاند،ستارے وغیرہ کانظام دیکھیں بروقت طلوع اورغروب ہوتے ہیں ۔دن رات کااختلاف ملاحظہ فرماویں ۔اﷲ تعالیٰ کے منظم نظام الاوقات کے تحت ہم نے گھڑیاں بنائی ہیں ،اپنے اوقات متعین کرلیے ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے نظام میں ذرہ برابر تغیراورتبدیلی نہیں آتی ورنہ ہمارے تمام نظام الاوقات درہم برہم ہوجائیں گے ۔ہم نے آسانی کے لیے دن رات کوچوبیس گھنٹوں میں تقسیم کررکھاہے ،ایک گھنٹہ میں 60منٹ اورایک منٹ میں 60سیکنڈمقررکیے ہیں۔اگراﷲ تعالیٰ رات کولمباکردیں یادن کولمباکردیں یابالکل چھوٹاکردیں توپوری دنیاکانظام بگڑجائے گا۔

تشریعی نظام:
اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کوجن کاموں کے لیے مکلف بنایاہے وہ بھی ایک منظم تقسیم الاوقات کے مطابق ہیں ۔ نماز کے لیے اوقات مقررکردیے :
﴿ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتاباً موقوتا﴾
ترجمہ :یقینانماز مسلمانوں پرفرض ہے اوروقت کے ساتھ محدود ہے۔

روزہ کے لیے رمضان کامہینہ مقررکیاپھردن مقررکیاپھربتلادیاکہ صبح صادق سے لے کرغروبِ آفتاب تک کھانے پینے اورجماع سے پرہیز ہوگا۔اگرکسی نے صبح صادق سے روزہ رکھااورغروب آفتاب سے ایک منٹ پہلے افطار کرلیاتوروزہ صحیح نہیں اورپورے دن کی محنت ضائع ہوگی۔اگرکوئی کہے کہ سارادن پوری پابندی کی صرف ایک منٹ کی غلطی اورجلدی سے روزہ کیوں خراب ہوگیاتوجواب ظاہرہے کہ اﷲ تعالیٰ کامقرر کردہ ضابطہ ٹوٹ گیااگرچہ ایک منٹ کی جلدی یاغلطی کے ساتھ ٹوٹاہے۔اگرکسی نے نمازوقت سے پہلے پڑھ لی تونماز نہیں ہوئی ،حج کے لیے وقت مقرر ہے ،عرفات،مزدلفہ اورمنی کے میدان ساراسال خالی پڑے رہتے ہیں حالانکہ حج کے اعمال پوراسال بڑی آسانی کے ساتھ اداہوسکتے ہیں ۔اگرکوئی حج کے مقرر اوقات کے علاوہ اوقات میں حج کے افعال اداکرے تونہ حج اداہوتاہے نہ ثواب ملتاہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿الحج اشہرمعلومات﴾حج چند مہینے ہے جومعلوم ہیں یعنی شوال ،ذی قعدہ اورذی الحجہ میں حج اداہوتاہے ۔

اﷲ تعالیٰ کے یہ دونوں تکوینی اورتشریعی منظم اورمنضبط نظام ہمیں اس بات کادرس دیتے ہیں کہ اپنی بقیہ دنیاوی زندگی یادینی زندگی منظم کرلو۔اسی میں دنیاوی اوردینی ترقی اورراحت ہے۔اگرایک شخص منظم زندگی گزارتاہے تواس کی اپنی زندگی بھی بنتی ہے اوردوسروں کی بھی۔اگرزندگی منظم نہ ہوتوخود اس کابھی نقصان ہے اوردوسروں کابھی ۔دنیابھر کے تعلیمی اوردیگردینی اوردنیاوی ادارے بڑے منظم نظام الاوقات کے تحت چلتے ہیں ذراسی بے ضابطہ گی سے ادارہ کوزبردست نقصان پہنچتاہے ۔کسی تعلیمی ادارہ میں داخلہ اورپڑھائی کے اوقات مقرر ہوتے ہیں ۔ریلوے کانظام منظم ہے سب لوگ ٹائم ٹیبل کے مطابق سہولت کے ساتھ سفرکرتے ہیں،دنیابھرکے ہوائی جہازوں کانظام الاوقات ہے لوگ سہولت کے ساتھ اس میں سفرکرتے ہیں اگراس ہوائی اورزمینی منظم نظام میں چنددنوں کے لیے بدنظمی پیداکردی جائے توپوری دنیاایک کرب اورمصیبت میں مبتلاء ہوجائے گی۔دینی ودنیاوی اواروں کی طرح ایک فرد کوبھی چاہیے کہ اپنے کاموں کے لیے زندگی کوایک منظم نظام کے تحت بنالے۔دنیاکے جتنے بڑے بڑے دینی اوردنیاوی زعماء گزرے ہیں ان کی زندگیاں منظم تھیں۔اس منظم زندگی کے تحت زندگی گزارتے تھے ۔جس کی وجہ سے بہت مفید کام کرگئے دین اوردنیاکوزبردست فائدہ پہنچایا۔باقی لوگ ان کی وجہ سے دین ودنیاسے خوب مستفید ہورہے ہیں۔ تعلیمی ادارہ ہویاکوئی دنیوی ادارہ نظم وضبط اس کی مجبوری ہے ،مجبوراپورادارہ ایک خاص نظام الاوقات کے تحت چلاناپڑتاہے ۔بات دراصل افراد کی ہے ادارہ سے ہٹ کریاادارہ سے باہررہتے ہوئے ان لوگوں کی زندگی بے نظم ہوتی ہے جس کے بہت زیادہ نقصانات ہیں۔انفرادی سطح پرلوگوں کوچاہیے کہ ایک خاص نظام الاوقات کے تحت زندگ بسرکریں تاکہ اداروں کی طرح ان کی نجی اورانفرادی زندگی بھی لوگوں کے لیے باعث رحمت اورمفید بن جائے۔

تیسرااصول ……پابندی اوقات:
مرتب اورمنظم کاموں کے لیے جوبھی ترتیب بنائی جائے اس کی پابندی ضروری ہے عموماًایسا ہوتاہے کہ ادارے اورافراد اپنے اہم اورضروری کاموں کے لیے کوئی ٹائم ٹیبل بنالیتے ہیں لیکن اس ٹائم ٹیبل کی پابندی نہیں کرتے ۔حالانکہ اصل کام نظام الاوقات کی پابندی ہے جس ادارہ میں پابندی نہیں ہوتی وہ تباہ ہوجاتاہے۔انفرادی ،نجی اورذاتی ٹائم ٹیبل کی تولوگ اس لیے پابندی کرتے ہیں کہ کوئی نقصان نہ پہنچے ۔لیکن ادارہ میں بعض لوگ زیادہ پرواہ نہیں کرتے اس لیے کہ نقصان ان کانہیں ہوتابلکہ ادارہ کاہوتاہے ۔حالانکہ جوادارہ یافرد نظام الاوقات کی پابندی کرتاہے اس کافائدہ ہمیشہ دوسروں کو ہوتاہے۔اچھاانسان وہی ہے جودوسرون کے کام آئے اپنے کام توہرایک کرتاہے اس لیے اپنانقصان برداشت کرنے کے لیے انسان تیارنہیں ہوتا۔حدیث میں آتاہے ’’خیرالعمل مادیم علیہ ‘‘بہترین عمل وہ ہے جس پرمداومت کی جائے ۔جب کسی پتھرپرپانی کاایک قطرہ ہمیشہ گرتارہے توپتھرمیں سوراخ بن جاتاہے کیونکہ Dripping(قطرہ ریزی )ایک دوامی عمل ہے تواس کے مقابلہ میں اگرکسی پتھرپر ایک وقت میں دریابھی گزرجائے تواس کے اثرات پتھر پرمعلوم نہیں ہوتے ۔بعض اعمال دوامی ہوتے ہیں ان میں ناغہ بھی نقصان دہ ہے اورترک بھی ۔ناغہ تومتعدی بیماری ہے ایک دفعہ شروع ہوجائے توسلسلہ چلتارہتاہے ۔اس لیے ناغہ سے بچنا بہت ضروری ہے اورعمل دائمی ہوناچاہیے۔بعض کام ایسے ہوتے ہیں جس کے لیے ایک خاص وقت تک عمل کرناپڑتاہے یعنی اس کام کی تکمیل تک توایسے عمل کی تکمیل تک پابندی ضروری ہے۔ ایک حدیث کاٹکڑاہے :
’’وکان احب ذالک الی الرسول اﷲ الذی یدوم علیہ صاحبہ․‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں رسول اﷲ ﷺ کووہی عمل زیادہ پسند تھاجس پرآدمی دوام کرسکے ۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ نیک اعمال کے ٹائم ٹیبل کی پابندی کرنی چاہیے ۔ایک اورحدیث میں ابوصالح کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ ؓ اورام سلمہؓ سے پوچھا:
’’ای العمل کان احب الی رسول اﷲ ﷺ قالتا مادیم علیہ وان قل․‘‘
حضورﷺ کے نزدیک کون ساعمل افضل تھاتودونوں نے جواب دیاکہ جس عمل پرمداومت کی جائے خواہ کتناہی کم ہو۔
ایک اورارشاد ہے:
قال علیہ السلام یاعبداﷲلاتکنمثل فلان کان یقوم من الیل فترک قیام الیل․
حضورﷺ نے ارشاد فرمایااے عبداﷲ فلاں شخص جیسا نہ ہوناکہ وہ رات کواٹھتاہے پھراس کوترک کردیتاہے (بلکہ ہمیشہ پابندی سے تہجدپڑھتے رہو)

ان احادیث سے معلوم ہوکہ جب تک اعمال کی پابندی نہ ہوتوٹائم ٹیبل بنانافضول ہے۔یہ پابندی خود ساختہ اورخود عائد کردہ ہوتی ہے ۔شرعی ،اخلاقی ،عرفی اورمعاشرتی پابندی اس کے علاوہ ہیں ۔یہ وہ خود عائد کردہ پابندیاں ہیں جوبندہ خود اپنے اوپرمقررکرتاہے ۔

چوتھااصول……منظم لوگوں کی صحبت اوران کے حالاتِ زندگی کامطالعہ:
ہراہم کام کوسیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس لیے اس کام کے ماہرین اورتجربہ کاروں کی تعلیم وتربیت میں رہ کربہت کچھ سیکھاجاسکتاہے ۔عموماً دیکھنے میں آیاہے جن کوبڑے لوگوں کی صحبت حاصل ہوچکی ہوتی ہے توان پران بڑے لوگوں کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں ۔منظم زندگی کوسیکھنے کے لیے بھی منظم لوگوں کی صحبت ضروری ہے ۔صحبت کااپنارنگ اوراثرہوتاہے ۔حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کی منظم زندگی کے اثرات ان کے مریدان باصفامیں بہتزیادہ دیکھنے میں آیا ۔اعمال کے پابنداورمنظم لوگوں کی صحبت میں آدمی رہ کربہت کچھ سیکھ سکتاہے۔بعض کام کوبظاہرمشکل اورناممکن معلوم ہوتے ہیں وہاں رہ کرآدمی محسوس کرتاہے کہ یہ کام ممکن ہیں ۔بظاہراوقات کا تحفظ ،اعمال کی پابندی اورمنظم ماحول کے تحت زندگی بسرکرنابڑامشکل معلوم ہوتاہے لیکن منظم لوگوں کے پاس رہ کرمنظم زندگی گزارناآسان بن جاتی ہے ۔اسی طرح تاریخ میں بہت بڑے بڑے منظم زندگی گزارنے والے گزرے ہیں ان کے حالاتِ زندگی کامطالعہ بہت ضروری ہے ان کے معمولات کامطالعہ کرناچاہیے۔ کس طرح یہ لوگ اپنے منظم اعمال اورٹائم ٹیبل کی پابندی کرتے تھے ۔ڈاکٹر کے پاس ڈاکٹروں کی کتابیں موجود ہوتی ہیں ،حکیم کے پاس حکماء کی کتابیں موجود ہوتی ہیں ،سائنسدان کے پاس سائنسدانون کی کتابیں موجود ہوتی ہیں،پہلوان کے پاس پہلوانون کی کتابیں موجود ہوتی ہیں توان کتابوں کامطالعہ کرکے وہ اپنی لائن میں پکے ہوجاتے ہیں۔اسی طرح منظم زندگی گزارنے کے لیے منظم لوگوں کے سوانحِ عمریاں مطالعہ میں رکھنی چاہیے تاکہ منظم زندگی گزارنے کی ترغیب اورتوفیق ملے۔

پانچواں اصول……منظم ماحول بنانا:
منظم زندگی گزارنے کے لیے اوراوقات کومحفو ظ کرنے کے لیے اگریہ ضروری ہے کہ خود کومنظم کرنے کی کوشش کرتے کرتے منظم بنناہے تومنظم بننے کے بعد منظم زندگی کابقابھی ضروری ہے کیونکہ جب تک منظم زندگی میں دوام اوربقانہ ہوتوفائدہ نہیں۔منظم زندگی ایک دودن کی بات نہیں بلکہ پوری عمر کامسئلہ ہے ۔منظم بننے کے بعد سب سے ضروری مرحلہ یہ ہے کہ اپنے حلقہ اورماحول کوبھی منظم بنانے کی بھرپورکوشش کرے تاکہ اس کے ٹائم ٹیبل میں کوئی خلل واقع نہ کرے ۔اگراپنے ماحول کومنظم نہ بنایاتواس کواپنے ٹائم ٹیبل پرعمل کرنامشکل ہوجائے گا۔قدرتی بات ہے کہ کسی کام کے ماحول میں وہ کام آسان ہوجاتاہے ۔حرمیں شریفین میں تہجد پڑھنے کاماحول ہے سب لوگ تہجد کی نماز پڑھتے ہیں ،رمضان میں روزہ کاماحول ہوتاہے سب کے لیے روزہ رکھنا آسان ہوتاہے۔اگر کسی کا رمضان کا روزہ رہ جائے توایک روزہ کی قضااچھے اچھے دینداروں کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔مدرسہ میں حضورﷺ کی صورت اور سیرت کا ماحول ہوتا ہے،تو سب کو حضورﷺ کی پیاری سنتیں پوری کرنے میں دشواری نہیں ہوتی،جبکہ کالج اور یونیورسٹی میں سنتوں پر عمل کرنا دشوار ہوجاتاہے۔الحمدﷲ تبلیغی جماعت والوں نے ہر جگہ دینی ماحول اور فضا بنانے کی خوب کوششیں کی ہیں جس کی وجہ سے دین پر چلنا آسان ہوجاتاہے۔ اگر ماحول منظم نہیں بناسکتے ،یا پورا ماحول منظم نہیں بنا تو کم ازکم اپنے حلقہ تعارف میں یہ احساس پیدا کریں کہ کوئی آپ کا وقت فضول ضائع نہ کرے۔بعض منظم لوگوں میں حیا زیادہ ہوتی ہے ان کے نظم میں خلل ڈالنے والوں کو حیا کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے ،حالانکہ اندر سے وہ پریشان ہوتے ہیں،کہ کاموں کا حرج ہورہا ہے۔اس لیے عام لوگوں کو بھی چاہیے کہ بڑے بڑے منظم لوگوں کے کاموں میں حرج نہ ڈالیں ،نہ ان کا قیمتی وقت ضائع کریں حالات اور ماحول کے مطابق ان کا وقت لیں۔

چھٹا اصول ……مراقبہ اوقات اور محاسبہ اوقات:
اپنے قیمتی ، ضروری اور اہم کاموں کے لیے جو ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہے تو کوشش کرے کہ اس کی خوب پابندی ہو ۔اپنی پابندی کوجاننے کے لیے اپنامحاسبہ کرے،اپنے اوقات کامراقبہ کرے اوریہ روزمرہ کامعمول بنادے ۔مثلاًرات کوسوتے وقت مراقبہ اورمحاسبہ کرے کہ آج میں نے ٹائم ٹیبل پرعمل کیاہے یانہیں ،پوراعمل کیاہے یاکچھ اعمال باقی رہ گئے ۔اگرروزمرہ کے معمولات پورے نہیں ہوئے تووجہ کیاہے؟کیااعذارتھے ،کیاواقعی اعذارتھے یاسستی تھی یاغفلت ہوگئی۔معمولات پورے نہ کرناکبھی کبھی ہوتاہے یا اکثر ایسا ہوتا ہے۔کیاناغہ جیسی متعدی بیماری کاشکارتونہیں ہوا۔اگرمعمولات میں کوتاہی کسی قوی عذر کی وجہ سے ہے توٹھیک ہے انسان عاجز ہے ۔ضروری نہیں کہ سوفیصد کام پورے ہوتے رہیں لیکن اگرمعمولات میں کوتاہی کاسبب سستی ،غفلت یابے پرواہی ہے توفوراًاس کے علاج کی طرف متوجہ ہوناچاہیے کیونکہ ہربیماری کاعلاج اورمعالج موجود ہوتاہے ۔دیگرمنظم لوگوں سے مشورہ کرے ، اپنے پیراورمرشدکی طرف رجوع کرے کہ میری یہ کمی اورکوتاہی کیسے پوری ہوگی۔روزانہ مراقبہ کرتارہے اگرتمام اعمال پورے پورے اورصحیح طورپراداہورہے ہیں تواﷲ تعالیٰ کاشکراداکرے اگرکوتاہی ہورہی ہوتوفکراورعلاج شروع کردے۔

ساتواں اصول……آزادی عمل:
جوبھی اپنے اہم کاموں کے لیے جس قسم کاٹائم ٹیبل بنائے تویہ بھی سوچے کہ اس پرعمل کی آزادی میرے ساتھ ہے یانہیں ۔آیاکسی طرف سے کوئی رکاوٹ تونہ ہوگی۔اکثر لوگ کسی ادارہ یافرد کے ماتحت زندگی بسرکرتے ہیں اس لیے اپنے بنائے گئے ٹا ئم ٹیبل پرمکمل عمل دشوار ہوتاہے ۔جولوگ کسی کی ماتحتی میں کام نہیں کرتے یاخود مختار اورآزاد ہوتے ہیں ،کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ایسے حضرات کامیابی اورپوری آزادی کے ساتھ اپنے معمولات پرعمل کرسکتے ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ جوحضرات کسی کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں وہ اپنے لیے کوئی ٹائم ٹیبل نہ بنائیں بلکہ جس ادارہ یافرد کے تحت کام کرتے ہیں اسی ادارہ یافرد کے کاموں کومنظم کرلیں یعنی اپنی ڈیوٹی منظم کرلیں۔ڈیوٹی کے اوقات کے علاوہ اپنے لیے ایک نظام الاوقات بنالیں اوراسی پرپابندی سے عمل پیراہوں۔

آٹھواں اصول……معتدل نظام الاوقات:
انسان اگرایک طرف انتھک محنت کرکے مختلف کارنامے سرانجام دیتاہے تودوسری طرف دیگر طبعی ،شرعی اورمعاشرتی تقاضے بھی ہوتے ہیں ۔ایک دوسرے پرحقوق بھی ہوتے ہیں ۔اسی طرح ہرانسان کی قوت عقلی اورقوت عملی بھی محدود ہے ۔ایسانہیں کہ انسانی عقل اورطبعی قویٰ ہرقسم کالوڈ اوربوجھ برداشت کرسکتے ہوں۔انسانی دماغ اوربدنی طاقت کام سے گھٹتی ہیں،قوت ضائع ہوتی ہیں،انسان تھکتاہے۔اس لیے نظام الاوقات ایسامعتدل ہوکہ تمام کاموں کوخوب نشاط کے ساتھ کرسکتاہو۔ایسانہ کرے کہ بس ایک مرتبہ خود کوتھکادے اورپھردوسرے وقت کام کانہ ہوبلکہ اتنی محنت کرے کہ برداشت کرسکے اوردوسرے وقت ملال نہ رہے بلکہ خوب نشاط ہو۔جس طرح انسان کھاتاپیتاہے۔ایک ہی وقت میں اتنانہیں کھاتاکہ دوسرے وقت کے کھانے میں ڈکارآئیں اوربھوک نہ لگے بلکہ اتناکھائے کہ خوب سیرنہ ہوبلکہ پیٹ میں کچھ خالی جگہ چھوڑے دوسرے وقت کے کھانے کے لیے بھوکاہوتاکہ دوسرے وقت کاکھانامزے لے لے کرکھائے ۔ایسانظام الاوقات نہ بنائے کہ جس سے دوسرے لوگوں کے حقوق ضائع ہوں۔ایک حدیث کامفہوم ہے کہ ایک صحابی کی شادی ہوئی ۔بجائے اس کے کہ بیوی کے حقوق اداکرے پوری رات عبادت میں گزاردی ۔جب حضورﷺ کوپتہ چلاتوفرمایا:بدن کابھی حق ہے یعنی آرام اورنیندکرے ،بیوی کابھی حق ہے ۔جوانسان بھی کوئی نظام الاوقات بنائے توخیال رہے کہ اﷲ ،رسول ،والدین ،استاذ،لیڈر،پڑوس اوردیگرمسلمانوں کے واجب حقوق نہ مارے اورنہ بدن پراتنابوجھ ڈالے کہ بدن کام چھوڑدے یااپنے اوپرنیندحرام کردے۔حضورﷺ کافرمان ہے:
’’علیکم من الاعمال ماتطیقون واﷲ لایمل حتی تملوا․‘‘
اﷲ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں گھبراتے یہاں تک تم عمل سے گھبراجاؤ۔اﷲ تعالیٰ اعمال کااجردینے سے نہیں تھکتے ۔انسان اعمال میں تھک جاتاہے ۔عمل اتناکیاجائے کہ نشاط باقی رہے اگرایک ہی وقت میں خود کوتھکادے تودوسرے وقت عمل دشوارہوگا۔

نواں اصول……خودکوجرمانہ کرنا:
اوقات واعمال کے تحفظ کے لیے اپنے اوپر نذرکی صورت میں جرمانہ لازم کرے مثلاً اگرفلاں کام چھوٹ جائے یابروقت نہ کیاتو10روپیہ کسی فقیرکودوں گایاکسی رفاہی ادارہ کودوں گا۔اپنی اصلاح کے لیے ایساکرنابری یاغلط بات نہیں بلکہ اپنی اصلاح اوراوقات کی حفاظت میں بعض بزرگوں کایہ طریقہ رہاہے کہ فرائض واجبات سے ہٹ کرنوافل کے درجہ کے کاموں میں ناغہ پرخود کوجرمانہ کرتے تھے ۔جرمانہ توایک تعبیرہے کیونکہ نفس پراس طرح کاانفاق ایک بوجھ بن جاتاہے ورنہ حقیقت میں یہ تصدق کاالتزام اورنذرہے ۔بعض اوقات بعض لوگ نذرمانتے ہیں پھرنذر پوری کرتے ہیں ۔اپنے معمولات میں ناغہ نہ ہواوراوقات محفوظ بن جائیں یاٹائم ٹیبل کی پابندی قائم رہے تواس کے لیے التزام تصدق ایک بہترین علاج ہے۔

دسواں اصول……اعمال کی قضا:
یہ بات توسب کومعلوم ہے کہ فرائض وواجبات کی قضاہوتی ہے کیونکہ جوعمل ذمہ پرفرض اورواجب ہوتاہے اس سے ذمہ اس وقت فارغ ہوگاجب اس کی ادائیگی ہویاجس کاحق ہے وہ معاف کردے لیکن جوٹائم ٹیبل انسان نے خود اپنے لیے بنایاہے اس کی شرعاًقضانہیں کیونکہ اپنانظام الاوقات بنانے سے اس پرکسی کاحق ثابت نہیں ہوتایہ توخود اپنی خوشی سے اپنے اوپرایک نظام الاوقات لازم کیاہے جس کی پابندی اپنے اوپر لازم سمجھتاہے ۔اگراپنے ٹائم ٹیبل پرعمل نہ کیاتوخود شرعاً،عرفاً یااخلاقاً گناہ گار نہیں کیونکہ کسی انسان کااپنے لیے کوئی ٹائم ٹیبل بنانے سے نہ شرعاًلازم ہے اورنہ اخلاقاًاورنہ عرفاً۔ اگراپنے نظام الاوقات پرعمل نہ کیاتوکسی کاحق ضائع نہیں ہوتا۔دن رات ایک دوسرے کے خلیفہ ہیں ۔رات کاوظیفہ اگرچھوٹ جائے تودن کوپوراکرے ۔اگردن کاکوئی وظیفہ چھوٹ جائے تورات کوپوراکرے ۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں:
’’کان اذالم یصل باللیل منعہ من ذلک النوم او غلبتہ عیناہ صلی من النھار ثنتی عشرۃ رکعۃ ․‘‘
حضورﷺ جب کسی عارض کی وجہ سے رات کوتہجد نہیں پڑھ سکتے تھے تودن میں چاشت کے وقت بارہ رکعتیں پڑھ لیاکرتے تھے ۔
اگرچہ تہجدکی نماز آپ پرفرض نہیں تھی تویہاں فضیلت کے لیے قضافرماتے ۔
’’قال القاری فیہ دلیل علی قضاء جواز النافلۃ بل علی استحبابہ ․‘‘
اس حدیث میں نوافل کی قضاکے جواز کی طرف اشارہ ہے بلکہ قضاافضل ہے اوریہ ظاہرہے کہ اپنابنایاہوا نظام الاوقات نفل ہی ہوتاہے ۔حضورﷺ کاارشادہے کہ جوشخص اپناورد اورمعمول رات کوپورا نہ کرسکے اس کوچاہیے کہ صبح کے بعد سے دوپہرتک کسی بھی وقت پوراکرلے یہ ایساہی ہے گویارات کوپوراکیا۔

شیخ الحدیث مولانامحمدزکریارحمہ اﷲ فرماتے ہیں:اسی سے مشائخِ سلوک کایہ معمول ماخوذ ہے کہ ذکروغیرہ اگررات کوپورانہ ہوسکے توصبح کوپوراکرلے ۔وقت گزرجانے کی وجہ سے بالکل ترک نہ کرے پھرنفس اس کاعادی ہوجاتاہے ۔نفلی کاموں کی قضامیں فائدہ یہ ہے کہ نفس ناغہ جیسی متعدی بیماری کاعادی نہیں بنتا۔یہ ایسے اصول ہیں جن پراگرعمل کیاگیاتوان شاء اﷲ اوقات محفوظ ہوکرقیمتی بن جائیں گے ۔

تنبیہ:
کبھی اپنے بنائے گئے نظام الاوقات سے ہٹ کرکوئی اہم ضروری کام پیش آجاتاہے جس پرکچھ وقت لگتاہے اوراس کام کاکرنابھی ضروری ہوتاہے ۔ایسے وقت میں بعض لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ وقت نہیں،وقت کی کمی کاواویلہ سننے میں بہت آتاہے جن کی وجہ سے اکثرلوگ ان ضروری کاموں سے محروم ہوجاتے ہیں اور کئی لوگوں کونقصان ملتاہے یااس کام کے فائدہ سے لوگ محروم ہوجاتے ہیں۔

ایک دفعہ شیخ الاسلام مولانامحمدتقی عثمانی مدظلہ العالی نے فرمایاکہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کام کے لیے وقت نہیں تویہ بات قلتِ اہتمام کی دلیل ہے اورحوالہ حضرت مولاناخیرمحمد جالندھری رحمہ اﷲ کادیااوردوسری بات اپنے والد ماجد حضرت مولانامفتی شفیع رحمہ اﷲ کے حوالہ سے فرمائی کہ نئے کام کوپرانے کاموں کے اوقات میں داخل کردیتاہوں اس لیے کہ وقت میں اﷲ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ خود بخود گنجائش نکل آتی ہے ۔یہ اﷲ والوں کی باتیں ان کے اوقات میں برکت ہوتی ہے۔جوکام پیش آتاہے اس کوکرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں ۔اس طرح اﷲ تعالیٰ ان کے کاموں کوپورافرمادیتے ہیں اوران سے خوب کام لیتے ہیں ۔نیک اوربڑے لوگوں کی برکت والے کاموں پراگرکوئی لکھناچاہے توپوری کتاب لکھ سکتاہے ۔تاریخ میں بے شمارایسے افراد ملتے ہیں جنہوں نے تھوڑے وقت میں بہت زیادہ کام کیاہے۔

ایک اورضروری بات یہ ہے کہ بعض اوقات کسی کام کے لیے وقت متعین کردیاجاتاہے اوراگرکچھ عرصہ بعدوہ کام مکمل ہوجاتاہے تواس کی جگہ فوراًدوسرانیک عمل شروع کردیناچاہیے ۔ایساصحیح نہیں کہ بس چھٹی کردی ۔حدیث میں ہے کہ زیادہ پسندیدہ عمل الحال والمرتحل ہے یعنی مسافر منزل پراترتے ہی آگے سفرشروع کردے ۔مطلب یہ ہے کہ اپنے کسی خاص اوراہم کام کوآخری مرحلہ پرپہنچاکرفارغ نہ بیٹھوبلکہ ایک عمل ختم کرکے دوسراعمل شروع کردو۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت جب اختتام کوپہنچتی ہے تواسی وقت دوبارہ شروع سے تھوڑاساپڑھاجاتاہے جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ یہ تلاوت میراآخری عمل نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ ختم القرآن کایہ کام باربارچلتارہے گاکوئی مرحلہ رکنے کانہیں آئے گا۔
 
Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 211982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.