عربی لغت کے ایک قول کے مطابق لفظ انسان ’’اُنس‘‘ سے
بناہے جس کا معنی ہے محبت، اس سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ انسانی دل ودماغ
میں پیارومحبت کے حسین جذبات موجزن بلکہ ایسے پیوست ہوں گے کہ یہ
شعورواحساس اورروح کے لیے جزلاینفک ہوگا، یہاں ایک دوسری چیزکااضافہ بھی
مناسب معلوم ہوتاہے اوروہ ہے ’’خوش آوازی‘‘، عقل سلیم اورذوقِ تمام رکھنے
والاہرشخص میرے ساتھ اس فلسفے میں متفق ہوگا کہ شایدہی کوئی انسان ایسا
ہوجس کادل عشق ومحبت سے خالی ہواوروہ خوش آوازی سے متاثرہوئے بغیررہ سکے۔
اگرکوئی چلتاپھرتا شخص بھی یہ دعوی کرے کہ اس پرخوش آوازی سے لرزہ طاری
نہیں ہوتا یاحُسن دیکھ کراس کی حالت وکیفیت نہیں بدلتی تو اس پربے حسی،
ذہنی کمزوری یاکسی اور بیماری میں مبتلاہونے کاحکم لگانایقیناًجائز ہوگا،
لیکن یہاں میں ایک بنیادی نکتے کی طرف آناچاہتاہوں کہ حسن پرستی الگ چیزہے
اور فحاشی دوسری چیز، اسی طرح خوش آوازی اور موسیقی یافن کاری کے درمیان
بھی کافی بُعدہے۔ کوئی بھی سچاعاشق میرے ساتھ اس دعوے میں بھی اتفاق کرے گا
کہ عشق ومحبت اس بات کامحتاج نہیں کہ انسانی آنکھوں کے سامنے کوئی جِرم،
کوئی شکل یاکوئی بدن موجودہوبلکہ یہ وہ قلبی اور روحانی کیفیت ہے جس میں
داخل ہوکرانسان غم وسرور کے اس گرداب میں پھنس جاتاہے جس کاکوئی سرا معلوم
نہیں ہوتا اور اس کی ذہنی اور فکری حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ محسوس ہونے کے
باجودزبان اس کے بیان سے قاصررہتی ہے ، اُس کی روح تڑپتی ہوئی کسی نامعلوم
منزل تک رسائی کی کوشش میں لگی رہتی ہے اور اس اندرونی جلن کاظاہری
اثرپھریوں نکل آتاہے کہ آنکھوں کے سامنے آنے والی ہرچیز کو پھر وہ ایک عجیب
نگاہ سے دیکھتاہے، اگرخوبصورت چیزمیں لذت پاتاہے توبدصورت چیزبھی سامان سے
خالی نہیں ہوتی۔اگلی بات ’’حسن پرستی‘‘ کی بنتی ہے، آج کل کے لوگوں نے
فحاشی، عریانی اور بے راہ روی کے راستے پرگامزن ہوتے ہوئے گورے اجسام سے
لہوو لعب اور لونڈے بازی کوعشق ومحبت یاحسن پرستی کانام دیدیا حالانکہ ’’حسن‘‘
صرف انسانی چہرے تک محدودنہیں بلکہ قدرت کی کائنات میں ایسے ہزاروں مظاہر
ہیں جن سے حسن کے کرشمے پوٹ پوٹ کرچمکتے ہیں اور ہرباذوق اور حقیقی حسن
پرست ان مظاہرقدرت کودیکھ کرتاثرلیتاہے۔پھر وہ اپنی حسین و رنگین روحانی
کیفیت کی تسکین کے لیے پھول کی پتیوں، سرسبزوشاداب درختوں، بلندپہاڑوں،
پانی کے آبشاروں، چمکتے ہوئے تاروں، روشن چاند، گھاس پر پڑی شبنم اور
لہلہاتے کھیتوں تک میں راہیں ڈھونڈتاہے۔ محبت کے اس مقام پرپہنچناہردل
کاکام نہیں بلکہ اس کے لیے پاک دل درکارہوتے ہیں جوبہت کم ہی میسرہواکرتے
ہیں۔ مخموردہلوی کے بقول:
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جوہرسازپہ گایانہیں جاتا
افسوس کہ آج کل بعض بے ذوق و نامراد بلکہ خبیث الاخلاق نوجوانوں نے اپنی
نفسانی بلکہ حیوانی خواہشات کی ناجائزتکمیل کے لیے اختیارکردہ اُس
غیراخلاقی فعل کوعشق ومحبت کانام دیدیا ہے جس میں کسی ماں، بہن اور بیٹی کی
عصمت کولوٹ کرنہ صرف فخر کیاجاتاہے بلکہ دوست واحباب کی محفل میں اس کواپنی
عظیم کامیابی منوانے پرشرم بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ یہی حال خوش آوازی
کابھی ہے جس سے متاثر ہونا یقیناًہرصاحب ذوق کی فطرت ہے لیکن اس کایہ مطلب
ہرگزنہیں کہ صرف کسی حسین دوشیزہ کے ہونٹوں، آنکھوں یابالوں کے اوصاف
پرمشتمل گیت وغزل سنتے ہوئے دل ودماغ میں شیطانی اور ہیجانی کیفیت
پیداہوجائے اور فرطِ جذبات سے اٹھ کرناچناشروع کیاجائے یاکسی لہوولہب پر
مبنی حالت کی منظر کشی سنتے ہوئے بڑے بڑے قہقہے لگائے جائے بلکہ حقیقی
معنوں میں خوش آوازی سے متاثر شخص پر دورانِ سماع بے ہوشی کی کیفیت طاری
ہوجاتی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو کے قطرات ٹپکنے کے ساتھ ساتھ دل کی
دنیامیں بھی گویا انقلاب بپاہوجاتاہے، وہ کسی بھی قسم کی نغمہ سرائی کے وقت
سازوموسیقیت پرنظرنہیں رکھتا بلکہ اس کے دل میں سوزوارمان کے ایسے جذبات
موجزن ہوجاتے ہیں کہ زبان سے واہ واہ کے بجائے آہ آہ کی دردناک آوازیں
نکلناشروع ہوجاتی ہیں، ایسے ’’دیوانے‘‘ کوکسی ریڈیو، ٹی وی یاکمپیوٹر وغیرہ
پرگانے سننے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ حمدباری تعالیٰ، نعت رسول مقبول،
پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کے بہاؤ، بوندوں کی جمجماہٹ، ہواؤں کی سرسراہٹ،
صوفیوں کے ہوہو یاحق حق اور اسی طرح کسی محفل میں بغیر آلاتِ موسیقی کے
سنائے جانے والے ایک عام سے مگرپُر سوز کلام میں بھی خوبصورتی ڈھونڈنکال
لاتاہے۔میرے فلسفے کاخلاصہ یوں بنے گا کہ ’’میں عریانی وفحاشی جیسے گھٹیا
اعمال کوعشق ومحبت کانام نہیں دیتا ، صرف ناجائز وناشائستہ جذبات کوحرکت
دینے والی موسیقی کوخوش آوازی سے تعبیرنہیں کرتا اور اسی طرح کسی گورے چہرے
کو دیکھ دیکھ کر نفسانی خواہشات کے غلبے کوحسن پرستی بھی قرارنہیں دیتا‘‘۔
سچے عاشق اور سوز کے سانچے میں ڈھلے ہوئے دیوانے میرے ساتھ اتفاق کریں گے
جبکہ محض حسین چہروں کے متلاشی صرف گانے کوروح کی غذا قراردینے والے کچھ
نوجوان میرا بُرامانیں گے۔یہ معاشرتی اصطلاحات اپنے حقیقی معنوں کے بجائے
مجازی یاغیرحقیقی معنوں میں نہ صرف مستعمل ہونے لگی ہیں بلکہ اس کے عملی
مظاہرے بھی غیرحقیقی اندازسے معاشرے پراثرانداز ہورہے ہیں، جس کالازم نتیجہ
نقصان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔بہرحال میں اُن لوگوں کوقدر کی نگاہ سے
دیکھتاہوں جن کے دل عشق ومحبت کے عظیم جذبات سے بھرے ہوتے ہیں، اُس ذوق
کوبھی سلام پیش کرتاہوں جس میں حسن پرستی کے لیے جگہ ہو اور وہ پاکیزہ
طبیعت بھی مجھے پسندہے جوخوش آوازی کوکھینچ لیتی ہو لیکن اختلاف طریقۂ
کارسے ہے جومثبت وحقیقی ہوناچاہئے، حرف آخریہ کہ میری دعوت ۔۔۔اخلاقی بگاڑ
اور ناشائستہ کرداروں سے پاک معاشرہ۔۔۔ جہاں ہرکسی کی عزت محفوظ ہواور
ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کے راستے پرگامزن نہ ہو۔ |