دنیا کی کوئی بھی ریاست اسی صورت
میں چل سکتی ہے جب اسکے ادارے اپنے اپنے دائرہ ٔعمل میں رہتے ہوئے اپنے
فرائض منصبی کلی طور پہ سرانجام دے رہے ہوں ۔ جہاں کہیں بھی کوئی ادارہ
اپنی ذمہ داریوں سے تغافل کا مرتکب ہو گا وہیں ریاست کمزور پڑنا شروع ہو
جائے گی ۔ اور اگر ادارے اپنی حدود سے تجاوز کریں گے تو اداروں کے مابین
تصادم ہو گا جو ریاست ہے لیے خطرناک ہے ۔ اس لیے ریاست کے امور کو بہترین
اسلوب پہ رواں رکھنے کے لیے اداروں کو قوائد و ضوابط بنائے جاتے ہیں اور
حدود و قیود کا تعین ہوتا ہے تاکہ ہر ادارہ اپنی ذمہ داری احسن طور پہ
انجام دے سکے ۔وطن عزیز کے اداروں پہ نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ
یہاں یا تو اداروں کی حدود متعین نہیں ہیں یا پھر ان کی پاسداری کروانے کا
کا کوئی معقول انتظام ہی نہیں ہے ۔ ایک طرف ہمیں ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل
مل جیسے ادارے نظر آتے ہیں جو اپنی ناقص کارکردگی کی بنیاد پہ ملکی وسائل
پہ بار گراں بن گئے ہیں تو دوسری جانب فوج، عدلیہ اور میڈیا جیسے ادارے نظر
آتے ہیں جو اپنی حدود سے تجاوز کر کے حکومت کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں ۔
میڈیا کو موجودہ دور میں ریاست کا اہم ستوں گردانا جاتا ہے اس ادارے کا کام
اقوام عالم کے سامنے اپنے ملک کا تشخص پیش کرنا اور اپنی ریاست کا لوہا
منوانا ہے ۔ میڈیا زبان ، قلم اور کیمرے سے مسلح ہوتا ہے اور ان ہتھیاروں
کے ذریعے اپنے وطن کی ابطالی(Heroic) تصویر دنیا کے سامنے اجاگر کرتا ہے ۔اسی
ابطالی تصور کے نتیجے میں دیگر اقوام عالم اس ملک سے اچھے یا برے روابط و
مراسم قائم کرتے ہیں اور اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات استوار کرتے ہیں ۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملکی میڈیا کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نہ تو
وہ اپنا فرض نبھا رہا ہے اور نہ ہی اپنی حدود و قیود کا لحاظ کر رہا ہے ۔
ہمارے میڈیا نے آزادی ٔ اظہار کی آڑ میں پہلے سیاست دانوں کو نشانہ بنایا
اور دنیا کو باور کرایا کہ ہماری سیاست، پارلیمنٹ اور سیاستدان تو کوئی
کردار نہیں رکھتے ، پھر عدلیہ اور ہردلعزیز ججوں کو دنیا میں بدنام کیا گیا
اور اب پاکستان کی فوج کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے ۔ دشمن ملک کے میڈیا کو
موقع اور ساتھ ہی مواد بھی فراہم کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے مؤقر ادارے پہ
انگلی اٹھائیں اور دشنام طرازی کریں ۔اب تو ملک کے ہر طبقے نے آواز لگائی
ہے کہ میڈیا کو لگام دی جائے اسے حد ادب کا پابند کیا جائے ۔
آزادی ٔ رائے جمہوریت کا حصہ ہے لیکن آزادی کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں یہاں
آزادی کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ جس کے منہ میں جو بھی آئے وہ بلا جھجک
کہہ دے خواہ اسکے نتیجے میں کسی کی عزت و آبرو خاک میں مل جائے ۔ حالانکہ
مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی یہ کلیہ اختیار کیا جاتا ہے کہ قلم کی
مثال ایک لاٹھی کی ہے جسے آپ چاروں جانب گھما سکتے ہیں مگر یہ آزادی وہاں
ختم ہو جاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے ۔ہمارے ٹی وی چینلز نے تو
یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہر وقت کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا ہے اور کوئی چنگاری
ملے تو فورا اسے ہوا دینا ہے ۔ اس ادارے یا اس سے وابستہ افراد کا محاسبہ (میڈیا
ٹرائل )کرنا ہے اور اسکی ناک کو زمیں پہ رگڑنا ہے ۔ کوئی بھی چینل ہو وہ
ملک و قوم کے منفی پہلوؤ ں کو اجاگر کرتا نظر آئے گا اگر کوئی منفرد اہل فن
بھی مل جائے تو اس کے فن کو متعارف کرنے کے بجائے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ
اس فن کی پاکستان میں کوئی قدر نہیں ۔ اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں مایوسی
پھیل رہی ہے اور اہل فن اس ملک سے باہر اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں ۔
اصل میں میڈیا بھی ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے قلمی صحافت اب برقی صحافت میں
بدل گئی ہے ۔ جرنلزم اب ماس میڈیا میں ڈھل گیا ہے اخبار کی جگہ ٹی وی چینل
نے لے لی ہے قلم کی جگہ کیمرہ آگیا ہے کالم نگار کی جگہ اینکر پرسن آگئے
ہیں غرض ایک انقلاب ہے جو برپا ہو چکا ہے ۔ مادی طور پہ تو صحافت نے ترقی
کر لی ہے لیکن دوسری جانب اس ترقی نے صحافت کو مقام ادب سے دور کر دیا ہے ۔
جب تک صحافت کا تعلق قلم سے تھا تو یہ ادب کی صنف سمجھی جاتی تھی اب کیمرے
کی وجہ سے یہ فلم اور تھیٔٹر کی صف میں آگئی ہے ۔ قلمکار الفاظ کا چناؤسوچ
سمجھ کر کرتا تھا اور آداب گفتگو کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسا ادب پارہ
سامنے لایا کرتا تھا جو تنقید سے بھرپور ہونے کے باوجود تضحیک سے خالی ہوتا
تھا ۔ لیکن برقی میڈیا تو ایک شتر بے مہار ہے جس پہ نہ کوئی سنسر ہے اور نہ
کوئی ضابطہ ٔ اخلاق بس ایک تھیٔٹر ہے اور جگت بازی ہے جو چرب زبانی میں
سبقت لے گیا وہ کھیل میں بازی لے گیا ۔اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ قلمی صحافت
پڑھے لکھے اور مہذب افراد تک محدود تھی جبکہ برقی میڈیا کا دائرہ عامۃ
الناس ہیں ۔ لیکن یہ بات بھولنا نہیں چاہیے کہ میڈیا کا کام رہنمائی کرنا
اور تعلیم دینا ہے جبکہ ہمارا میڈیا تو غیر تعلیم یافتہ افراد کی ڈگر پہ چل
پڑا ۔اخلاقی معیار کی پستی کا یہ عالم ہے کہ معاشرتی اقدار تو دور دور تک
میڈیا میں نظر ہی نہیں آتے ۔ ایسا لگتا ہے کہ فلم و ڈرامہ کے اداکار آکر ان
چینلز میں بیٹھ گئے ہیں جو تعلیم و تربیت کے کسی مرحلے سے گزرے ہی نہیں ۔
میڈیا کے بگاڑ کی ایک وجہ چینل مالکان بھی ہیں جن کی توجہ کا مرکز صحافت
نہیں بلکہ پیسہ ہے ۔انہوں نے پیے کو معیار مقرر کر لیا ہے ۔ جس طرح کے
پروگرام عوام پسند کرتے ہیں ان کے لیے زیادہ اشتہارات مہیا ہوتے ہیں اس لیے
مالکان زیادہ سے زیادہ پروگرام اسی نوعیت کے ہی چلاتے ہیں ۔ ان پروگرامات
کے چلانے کے لیے ایسے ہی فنکار تلاش کیے جاتے ہیں ۔ اسی لیے تو اقدار کے
پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں ۔ ان پروگرامات، اشتہارات ،تجزیوں اور مباحثوں میں
وہ کچھ دکھایا جاتا ہے جس کا ہماری تہذیب و ثقافت سے دور کا بھی کوئی تعلق
نہیں ہوتا اپنی تہذیب و ثقافت کی جھلک نظر آنا تو درکنار غیر ملکی ثقافت کو
پروان چڑھایا جا رہا ہے اور اسے آزادی ٔ صحافت سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔
آزادی کی حدود و قیود متعین نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا نے خود کو عفریت بنا
لیا ہے اور یہ بھی ایک مافیا کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ میڈیا اہلکار خود
کو ہر قسم کی قانونی و اخلاقی پابندیوں سے آزاد سمجھتے ہیں ۔ میڈیا کا کارڈ
پاس ہو تو جو جی میں آئے کر گزرو ۔ بعض میڈیا اینکرز نے تو خود کو چیف جسٹس
آف پاکستان سمجھ لیا ہے وہ جس صاحب وقار شخصیت کا انتخاب کر لیں انہیں اپنے
رو برو حاضر ہو نے کے لیے سمن جاری کرتے ہیں اور مطلوبہ فرد کا فرض بن جاتا
ہے کہ وہ اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اینکر صاحب کی عدالت میں
حاضرہو کر اپنی صفائی پیش کرے وگرنہ یکطرفہ طور پہ آپ کو قوم کے سامنے مجرم
قرار دیا جائے گا ۔
حکومت وقت پہ یہ گراں ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ دور کے اس عفریت کو
لگام دی جائے ۔ میڈیا کے لیے ضابطہ ٔ اخلاق تیار کیا جائے اور تمام چینلز
کو اس ضابطے کا پابند کیا جائے۔خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ
جوئی کی جائے اور ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں ۔ تمام چینل مالکان ازخود
یہ فیصلہ کریں کہ معاشرتی اقدار اور نظریہ ٔ پاکستان سے متصادم مواد کی
تشہیر نہیں کریں گے ۔اگر میڈیا کو حد ادب کا پابند کر دیا جائے اور باقی
ادارے بھی اپنے دائرہ کار میں کام کریں تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا
تشخص دنیا میں قائم ہو گا اور یہ اقوام عالم کی امیدوں کا مرکز ہوگا ۔ |