اہلِ پاکستان عجیب منزلوں سے گزر
رہے ہیں۔ جو محنت کرتے کرتے اَدھ مُوئے ہوجاتے ہیں اُنہیں ڈھنگ سے دو وقت
کی روٹی بھی میسر نہیں ہو پاتی اور جو دن بھر پڑے اینڈتے رہتے ہیں اُنہیں
گھر بیٹھے تنخواہ ملتی ہے، اوور ٹائم کے ساتھ! حصہ طے کردیجیے اور پھر جو
جی میں آئے، کرتے رہیے۔ کس میں دم ہے کہ ٹوکے اور روکے؟
ایک زمانہ تھا جب لوگ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرماتے تھے۔ کسی سے کچھ
مانگنا بھی ہوتا تھا تو زبان کھولنے کی ہمت جُٹانے میں ایک ایک ہفتہ لگاتے
تھے۔ مگر پھر یہ ہوا کہ ہمیں من حیث القوم مانگنے کی عادت پڑگئی۔ یہ عادت
حکمرانوں نے ڈالی۔ جب حکومتیں زمانے بھر کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرتی ہیں تو
عوام کو بھی زیادہ شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حکومت کو بھیک
مانگتے ہوئے دیکھ کر لوگ اِس قبیح فعل کو اپنانے میں زیادہ کشش محسوس کرتے
ہیں کیونکہ اُن میں اِس تفاخر کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ بڑوں کے نقوشِ قدم
پر چل رہے ہیں۔
ہماری ہر حکومت پیٹ بھر دعوٰی کرتی رہتی ہے کہ اُس نے لوگوں کو سَر اُٹھانے
کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ بات اِس قدر درست ثابت ہوئی ہے کہ ملک بھر کے
غنڈوں، لُچّوں، لفنگوں، موالیوں، حرام خوروں اور ہڈ حراموں کے ساتھ ساتھ اب
بھیک کے ٹکڑوں پر پلنے والے بھی سَر اُٹھاکر چلنے لگے ہیں! اور بھکاریوں کو
بھلا کِس بات پر شرم محسوس ہو؟ بھکاری کون ہوتا ہے؟ جو کچھ کئے بغیر کھاتا
ہے۔ یہی کام ہماری سرکاری اور نیم سرکاری مشینری کی جَڑوں میں بیٹھے ہوئے
بہت سے لوگ کر رہے ہیں! جب وہ ذرّہ بھر شرمندہ نہیں تو پھر بھکاری کیوں
شرمائیں؟
بھکاری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ معیشت پر بوجھ نہیں۔ اُن کی زبان پر کبھی بے
روزگاری اور بے کاری کا رونا نہیں ہوتا۔ اوور ٹائم اور انکریمنٹ تو ایک طرف
رہا، یہ لوگ نوکری مانگتے ہیں نہ تنخواہ۔ جب نوکری ہی نہیں مانگتے تو کیسی
گریجویٹی اور کہاں کی پنشن؟ نوکری کے حاجت مند نہ ہونے کی بدولت، ظاہر ہے،
برطرفی کے صدمے سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اِنہیں بھوک
لگتی نہیں اور پیٹ بھرتا نہیں۔
کل ایک بھکاری سے ٹاکرہ ہوا۔ اُس کی صحت دیکھ کر خیال گزرا کہ ہم خواہ
اِتنی محنت کرتے ہیں، لکھنے کے لیے دِل و جگر کا خون جلاتے ہیں۔ یعنی صحت
کا ستیاناس کرتے رہتے ہیں۔ جب ہم نے اُس بھکاری کو ہَٹّا کَٹّا ہوتے ہوئے
بھیک مانگنے کا طعنہ دیا تو ہنستے ہوئے بولا۔ ’’آپ کو حق ہے صاحب جی، جو
چاہیں بول لیں۔ اِس سے زیادہ آپ کے بس میں ہے بھی کیا؟ اب ’طعنہ پروف‘ ہیں
یعنی کوئی بات اثر نہیں کرتی۔‘‘
اُس کے بدن پر کپڑے بھی شاندار تھے۔ ہم نے جُملہ کسا کہ کپڑے تو ماشاء اﷲ
بہت اچھے ’’پائے‘‘ ہوئے ہیں۔ لگتا ہے تمہاری اوقات بدل گئی ہے۔
ذرا بھی بُرا مانے بغیر اُس نے ڈِھٹائی سے جواب دیا۔ ’’آپ نے ٹھیک پہچانا۔
مگر خیر، اب تو سبھی کی اوقات بدل گئی ہے۔ کل تک جو جُھوٹے کہلاتے تھے، اب
سیاست دان کہلاتے ہیں۔ کل تک جنہیں لوگ بڑبولے کہہ کر ہُوٹ کیا کرتے تھے وہ
اب ٹی وی پر اینکر کی جاب کر رہے ہیں۔ جو بے سَر پیر کی ہانکا کرتے تھے وہ
ڈراما نگار ہوگئے۔ اور جنہیں سوچنا نہیں آتا وہ دانشور کہلاتے ہیں!‘‘
ہم نے غیرت دلانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم معاشرے میں کسی مقام کی
خواہش نہیں رکھتے؟‘‘
بھکاری نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔ ’’جن کا مقام ہوتا ہے اُن کا مکان نہیں
ہوتا۔ ہم جہاں ہیں ٹھیک ہیں۔ مقام وقام کے چکر میں ڈال کر ہماری توجہ منتشر
نہ کریں۔‘‘
بھکاریوں کی ویسے تو کوئی مستقل رہائش نہیں ہوتی مگر پھر بھی ہم نے پوچھ ہی
لیا کہ آج کل رہائش کہاں ہے۔ اُس نے کہا۔ ’’ہم وہاں ہیں جہاں سے ہٹیں گے تو
پانی آئے گا۔ مطلب یہ کہ میں بیوی بچوں کے ساتھ ایک بڑے پائپ میں رہتا
ہوں۔‘‘
ہم نے اثاثوں کا پوچھا تو اُس نے گھور کر دیکھا اور بولا۔ ’’یہ سوال تو مجھ
سے میرے باپ نے بھی کبھی نہیں پوچھا۔ اور کیوں بتاؤں کہ میرے پاس کیا کیا
ہے؟ مجھے کون سا الیکشن لڑنا ہے؟‘‘
’’تمہیں الیکشن لڑنے کون دے گا؟ تم کون سے گریجویٹ ہو؟‘‘
اِس پر بھکاری تُنک کر بولا۔ ’’کیا مطلب؟ کیا آپ نے مجھے جاہل سمجھ رکھا
ہے؟ بھائی صاحب! پڑھا لکھا بھی ہوں اور سمجھدار بھی۔ بھیک مانگتا ہوں،
کوچنگ سینٹر نہیں چلاتا!‘‘
ہم نے گھیرنے کی کوشش کی۔ ’’اگر تم پڑھے لکھے ہو تو شعور بھی رکھتے ہوگے۔
اگر شعور رکھتے ہو تو بھیک کیوں مانگتے ہو؟‘‘
’’شعور ہے جبھی تو بھیک مانگ رہا ہوں۔ بے شعور ہوتا تو کسی دفتر میں بابو
گیری کرکے آٹھ دس ہزار روپے مہینہ کما رہا ہوتا۔ آپ جیسے کچھ لوگوں نے پہلے
بھی سمجھانے اور غیرت کے نام پر دلدل میں گرانے کی کوشش کی تھی۔ میں نے بہت
غور کیا، حالات کا جائزہ لیا اور اِس نتیجے پر پہنچا کہ ’خاندانی ہُنر‘ کو
سینے سے لگائے رکھنے ہی میں فائدہ ہے۔‘‘
ہم نے پوچھا ہاتھ میں یہ فائل کیسی ہے۔ وہ بولا۔ ’’ایک سرکاری پروجیکٹ کی
فائل ہے۔ کچھ اعلیٰ افسران میرے پاس آئے تھے۔ میں اپنی برادری کا صدر بھی
تو ہوں۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر پوچھا سرکاری افسران تم سے ملنے کیوں آئے تھے؟ اُس نے
وضاحت کی۔ ’’امداد دینے والے ملکوں کا ایک اہم اجلاس پیرس میں ہو رہا ہے۔
سرکاری افسران اُسی سلسلے میں آئے تھے۔ حکومت کشکول توڑنے کا اعلان کرچکی
ہے۔ افسران کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کشکول ہاتھ میں لیے بغیر عالمی
برادری میں بھیک کس طرح مانگی جائے! میں نے اُن سے کہا یہ تو کوئی پرابلم
ہی نہیں ہے۔ ہم بھکاریوں نے کشکول بہت پہلے توڑ دیا تھا۔ شاید حکومت نے
ہماری ہی نقل کی ہے۔ پھر میں نے اُنہیں چند خاندانی نُسخے بتائے جن سے بھیک
بھی خوب ملتی ہے اور ’عزتِ نفس‘ بھی داؤ پر نہیں لگتی!‘‘
لوگ کہتے ہیں بھکاری بہت کچھ پاکر بھی تبدیل نہیں ہوتے، اُن کی مجموعی
اوقات وہی رہتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ ہم نے جب یہ سوال سامنے رکھا تو
بھکاری نے کہا۔ ’’وہ زمانے گزر گئے۔ اب ہم بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اب میری
مثال لیجیے۔ میں وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بدلتا گیا ہوں۔ آج میرے پاس تین
کریڈٹ کارڈ اور چار بینکوں میں اکاؤنٹ ہیں۔ ہماری برادری ایوننگ بینکنگ سے
بھرپور استفادہ کر رہی ہے۔ شام تک ہم جو کماتے ہیں وہ اُسی علاقے کے کسی
بینک میں جمع کرادیتے ہیں۔‘‘
باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بھیک مانگنے کے دھندے کو کوئی خطرہ لاحق
نہیں۔ جب ہم نے اِس حوالے سے بات کی تو بھکاری بولا۔ ’’ایسی بات نہیں ہے کہ
ہمارے لیے ہر طرف سُکون ہی سُکون ہے۔ ہمارے بھی سو دشمن ہیں۔ آج کل آپ کو
ٹریفک سگنلز پر ایک عجیب سی مخلوق دکھائی دے رہی ہوگی جو he میں ہے نہ she
میں۔ یہ مخلوق ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ لوگوں کی جیب سے مال نکلوانے
کے لیے یہ سجی سجائی مخلوق جو کچھ کرتی ہے وہ ہم نہیں کرسکتے۔ ہمارے بھی
کچھ ’اصول‘ ہیں، کچھ ’روایات‘ ہیں۔ ہم عام لوگوں کی طرح ذرا سی دولت کے
اپنا سب کچھ داؤ پر نہیں لگاسکتے۔‘‘
یہ ساری باتیں ہم سے ہضم نہیں ہو پارہی تھیں کیونکہ ہم خود بھی اِن کی زد
میں آرہے تھے! جان چُھڑانے کی غرض سے ہم نے رسمی نوعیت کا الوداعی سوال
داغا۔ ’’تمہیں اپنے دھندے کا مستقبل کیسا دکھائی دیتا ہے؟‘‘
اُس نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔ ’’معاملہ گڑبڑ ہے۔ ہمارے دھندے کے
اُفق پر کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی
ہے۔ حالات نے سب کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیا ہے۔ لوگوں کو مانگنے کا
ڈھنگ آتا نہیں اور مانگنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارا دھندا خراب کر
رہے ہیں۔ اب میں کیا بتاؤں کہ غیر پیشہ ور بھکاریوں کو دیکھ کر ہم پر کیا
گزرتی ہے۔ کبھی کبھی تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ یہ لوگ کن کن طریقوں سے
بھیک مانگ رہے ہیں! اگر یہی حال رہا تو میری برادری کو بوریا بستر لپیٹ کر
کینیڈا شِفٹ ہونا پڑے گا!‘‘ |