محبتیں مار دیتی ہیں

میرا ایک دوست تھا ۔بڑا محبتی بڑا پیار کرنے والا۔میں شہر میں رہتا تھا اور وہ گاؤں میں۔لڑکپن کے دن تھے اور وسائل محدود۔کبھی کبھار ہی گاؤں جانا ہوتا۔ جب بھی لیکن میں گاؤں جاتا جانے اسے کیسے خبر ہوتی کہ وہ ہمیشہ گاؤں کے سٹاپ سے اچکتا اور پھر اس وقت مجھ سے جدا ہوتا جب میں دوبارہ شہر کے لئے گاڑی میں بیٹھ جاتا۔گاؤں میں ہر لمحے وہ میرے ساتھ رہتا۔ وہ میرا دوست بھی ہوتا ہمسفر بھی۔ وہ میرے کپڑے استری کرتا۔میرے جوتے پالش کرتا۔غرضیکہ گاؤں میں قیام کے دوران وہ پل پل میرا دھیان رکھتا۔مجھے اس کا احسان مند ہونا چاہئیے تھا لیکن یارو عجیب معاملہ ہوا کہ تیسری دفعہ جب میں گاؤں گیا تو میری کوشش تھی کہ کسی طرح اسے میرے آنے کی خبر نہ ہو۔میں اس کی محبتوں کے بوجھ تلے تقریباََ دب گیا تھا اور اب اپنی جان چھڑانا چاہ رہا تھا۔یہی دعا کرتا میں گاؤں کے سٹاپ پہ اترا تو اسے منتظر پایا۔ اسے دیکھتے ہی مجھے لگا کہ ایک پہاڑ گویا میرے سر پہ آگرا ہے۔چڑچڑاہٹ کی انتہاء ملاحظہ ہو کہ سٹاپ سے گھر تک آتے آتے میں نے دانستہ زیادتی کر کے اس سے جان چھڑا لی۔

انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی اچھی نہیں ہوتی۔بھولا تھوڑا کمزور تھا۔اس کے چچا کو اس کی بڑی فکر رہتی تھی۔چچا کا اپنا ہوٹل تھاجہاں سارا دن دودھ آتا اور چائے بنتی۔چچا سارا دن دودھ سے بالائی اتار اتار کے جمع کرتا رہتا اور اگلے دن صبح وہ ساری بالائی بھولے کے آگے رکھتا اور کڑچھا ہاتھ میں پکڑ کے اسے کھانے کا حکم دیتا۔ایک ہفتہ تو بھولے نے خوب موج کی لیکن پھر بھولا بالائی دیکھتے ہی قے کرنے لگتا۔چچا فکر مند ہو کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے بھولے کے چچا کو بتایا کہ اگر اب اسے بالائی کھلائی تو یہ مر جائے گا۔چچا نے یہ سنا تو کانوں کو ہاتھ لگا لئے اور بھولا اس کے بعد بالائی کا نام سن لے تو بے ہوش ہو جاتا ہے۔توازن ہی خوبصورتی ہے اور توازن ہی زندگی۔عدم توازن کسی بھی شے میں ہو تباہی لاتا ہے۔نظام کائنات سے لے کے نظام انہضمام تک ہر شے توازن مانگتی ہے۔محبتیں بھی غیر متوازن ہوں تو جان کا روگ بن جاتی ہیں۔

یہ واقعہ نما لطیفہ یا لطیفہ نما واقعہ میں پہلے بھی نقارہ خدا میں آپ کے گوش گزار کر چکا ہوں کہ میاں نے بہت دنوں بعد بیگم کے ہاتھ کا گوبھی گوشت کھایا تو انہیں بہت مزہ آیا۔شومئی قسمت بیگم سے اس سالن کی تعریف کر دی۔بس پھر کیا تھا اگلے دن پھر گوبھی گوشت اور اس سے اگلے دن بھی۔جب پانچویں دن بھی میاں نے دسترخوان پہ گوبھی گوشت دیکھا تو ڈونگہ اٹھا کے یوں پھینکا کہ پڑوسیوں کے ہاں سے اٹھا کے لانا پڑا۔اگلے دن بیگم محلے کی اپنی سہیلیوں کو حیرت سے سنا رہی تھیں کہ منے کے ابا کی طبیعت بھی عجیب ہے خود ہی سالن کی تعریف کرتے ہیں اور جب اتنی محنت سے پکا کے سامنے رکھو تو ڈونگا اٹھا کے پڑوسیوں کے صحن میں پھینک دیتے ہیں۔ضرور کسی نے ان پہ کوئی ٹونہ کروایا ہوا ہے۔اب اس اﷲ کی بندی کو کون سمجھائے کہ اس پہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود تم نے یکسانیت کا ٹونہ کیا ہے جس سے تنگ آکے اس نے اس منظر نامے میں کچھ تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔انسان ایک حال پہ کبھی خوش نہیں رہتا۔گاؤں کے کھیت میں کھڑا بچہ آسمان پہ اڑتے جہاز کو دیکھ کے آہ بھرتا ہے کہ کاش وہ بھی اس جہاز کا مسافر ہوتا جبکہ جہاز کا کپتان گاؤں کے سرسبز کھیت دیکھ کے ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے کہ کاش کبھی اس کے پاس بھی فرصت ہوتی تو وہ زندگی کے چند لمحے مزے کے ساتھ اس جنت نظیر علاقے میں بسر کرتا۔انسان تبدیلی چاہتا ہے۔بعض اوقات منفی تبدیلی بھی اس کی ضرورت بن جاتی ہے۔ جھیل کا پانی بھی ساکت و ساکن ہو تو بو دینے لگتا ہے۔ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے ایک جگہ رک جانے کا نہیں۔

میرے قارئین حیران ہوں گے کہ میں آخر کہنا کیا چاہتا ہوں۔کچھ خاص نہیں۔مجھے دراصل وطن عزیز میں جاری منظر نامے کے بارے میں کچھ تشویش ہو رہی ہے۔ آپ اسے خالصتاََ میرا وہم بھی قرار دے سکتے ہیں۔فوج کے لئے اور فوج اور آئی ایس آئی کی محبت میں نکالی جانے والی ریلیاں کچھ زیادہ ہی رش لینے لگی ہیں۔ ان میں اب وہ عناصر بھی نظر آنے لگے ہیں جو ازلی طور پہ فوج کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ اس سے برسر پیکار بھی ہیں۔ابھی تک تو میں ان ریلیوں کو حب ِ علی میں نکالی جانے والی ریلیاں سمجھتا تھا لیکن اب مجھے اس میں بغضِ معاویہ کی بو بھی دکھنے لگی ہے۔فوج کے بارے میں تو مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے سوائے اس کے کوئی مقاصد نہیں کہ اس بطور پاکستانی فوج اس کا جائز مقام دیا جائے۔ بطور ادارہ اس کا احترام ہو اور اسی طرح وہ بھی دوسرے اداروں کا احترام کرے۔جیو جنگ اور آئی ایس آئی تنازعے میں حکومت کا کردار افسوسناک تھا اور اس میں بے حسی اور بے اعتنائی کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا لیکن سری پائے اور لسی چڑھانے والوں کو اب اپنے اس روئیے پہ افسوس ضرور ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اس سے کافی سبق بھی سیکھ لیا ہوگا۔عوام الناس کی طرف سے دکھائی جانے والی محبت نے فوج اور اس کے اداروں کے مورال کو بھی آسمان پہ پہنچا دیا ہے لیکن اب قائدین سے درخواست ہے کہ اس ٹیمپو کو سلو کریں کہ ابھی عشق کے شاید اور بھی بہت سے امتحان ہیں۔ فوج کو قدم قدم پہ قوم کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔یہ ریلیاں اگر عمران خان کے دھرنے اور طاہر القادری کے جلسوں میں ضم ہو گئیں تو انگلیاں کس طرف اٹھیں گی اس کے لئے ذمہ داروں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ لوگ عمران کے دھرنے اور طاہر القادری کے جلسوں میں ان کے ایجنڈے کی بناء پہ شاید کم آئیں لیکن عابد شیر علی اور خواجہ آصف کے ستائے ہوئے زیادہ آئیں گے۔بھپرے ہوئے ستائے ہوئے درماندہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔بھلا ہو گا اگر گیارہ مئی سے پہلے پہلے فوج کی محبت میں نکالی جانے والی ریلیاں اختتام پذیر ہو تا کہ یہ محبتیں قائم رہیں اور انہیں کوئی دوسرا رنگ نہ دیا جا سکے۔روز روز گوبھی گوشت کھانا مشکل ہوتا ہے اور بالائی بھی۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291941 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More