دُکان پکوڑوں کی

اگر آپ نے سرگوشی ریکارڈ کرائی ہو تو پلے بیک کی صورت میں والیوم یعنی آواز بڑھانے پر سرگوشی کی نوعیت تبدیل ہوسکتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ ہم والیوم خواہ کتنا بڑھائیں، سرگوشی تو سرگوشی ہی رہے گی۔

ریس کے لیے اعلیٰ نسل کے گھوڑے تیار کئے جاتے ہیں۔ برف کی گاڑی کھینچنے والے مَدقوق اور تھکے ہارے گھوڑے کسی اور ریس میں تو کیا جیتیں گے، وہ تو بقاء کی ریس میں بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسے گھوڑوں کو ریس میں دوڑانے کی کوشش نِری حماقت کہلائے گی۔

یہی حال ہماری سرکاری مشینری کا ہے۔ ہم نوعیت تبدیل کئے بغیر صرف details بدلنے پر توجہ دیتے رہتے ہیں، لیپا پوتی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تزئین و آرائش کو عمارت کے استحکام میں اِضافے سے تعبیر کرنے کی ذہنیت اپنالی گئی ہے۔ یہ ذہن و نظر کا دھوکا ہے مگر سب خوشی خوشی دن رات یہ دھوکا کھائے جارہے ہیں۔

سرکاری مشینری کے جن اہلکاروں کا عوام سے براہِ راست رابطہ دن رات رہتا ہے وہ پولیس کے سپاہی ہیں۔ ہمارے ہاں پولیس اہلکاروں کی بھرتی اور تربیت کس طور ہوتی ہے، سبھی جانتے ہیں۔ سیاسی بنیاد پر کی جانے والی بھرتیوں سے پولیس کا دامن بھی اچھا خاصا داغدار رہا ہے۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی پولیس کو مکمل غیر جانبدار بنانے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ ہو بھی کیسے؟ جیسی بنیاد ہوتی ہے ویسی ہی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی ہو تو ثُریّا تک اُٹھائی جانے والی دیوار بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔ ہماری پولیس بھی ایسی ہی ٹیڑھی دیوار ہے۔

بھائی مظفر پولیس کی کرکٹ ٹیم سے وابستہ ہیں۔ ہم نے اُنہیں کرکٹ کھیلتے تو نہیں دیکھا مگر ہاں کرکٹ کی باتیں اُن کے منہ سے ضرور سُنی ہیں۔ اُن باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھیل بھی لیتے ہوں گے۔ اب ہماری زندگی ایسے ہی اندازوں کے سہارے بسر ہو رہی ہے۔

گزشتہ دنوں دفتر سے واپسی پر یعنی رات تین بجے کی چائے (!) پر بھائی مظفر سے ملاقات ہوئی تو پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کا ذکر چِھڑ گیا۔ جب کبھی ہمارے پاس دِل بہلانے کے لیے کوئی ڈھنگ کا موضوع نہیں ہوتا، ہم پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے موضوع پر کچھ دیر بَتیاکر تَفنّنِ طبع کا اہتمام کرلیا کرتے ہیں!

پولیس کو دہشت گردوں کے سامنے کھڑا کرنا ہمارے چند بنیادی مسائل میں سے ہے۔ جن اہلکاروں کے پاس جدید ہتھیار ہیں نہ اختیارات، اُنہیں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اور واضح ’’مقاصد‘‘ کے تحت میدان میں اُترنے والے دہشت گردوں کے سامنے کھڑا کرنا ایسا ہی ہے جیسے اکشے کمار سے کہا جائے کہ اداکاری میں دلیپ کمار کو پچھاڑ کر دکھاؤ! بے چارہ اکشے ٹریجڈی کنگ سے تو کیا جیت پائے گا، اپنی جیسی تیسی اداکاری سے بھی جائے گا! دہشت گردوں سے مقابلے کے معاملے میں ہماری پولیس کا بھی کچھ ایسا ہی حشر ہوا ہے۔

بات ہو رہی تھی رات کی چائے پر بھائی مظفر سے ملاقات کی۔ باتوں ہی باتوں میں ذکر چِھڑ گیا پولیس کے حوصلے بڑھانے کا۔ پولیس کو دہشت گردوں کے سامنے کھڑی ہونے کے قابل بنانے کے لیے حکومت اور کچھ تو کر نہیں سکتی، اِس لیے ہر بار تان ٹوٹتی ہے شہادت کا ’’صِلہ‘‘ بڑھانے پر! پولیس کے جو اہلکار دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا جام نوش کرتے تھے اُن کے پس ماندگان کو پانچ سے دس لاکھ روپے ملا کرتے تھے۔ یہ ’’صِلہ‘‘ ایسا پُرکشش نہ تھا کہ کوئی اپنی جان داؤ پر لگائے، شہادت کو اپنائے۔ پھر یہ ہوا کہ شہید اہلکاروں کے پس ماندگان کو بیس لاکھ روپے تک دیئے جانے لگے۔ اولاد کو نوکری بھی ملنے لگی۔ مگر شاید یہ بھی کم تھا۔ ’’حوصلہ افزائی‘‘ نہیں ہو پارہی تھی!

سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے ایک سمری کی منظوری دی ہے جس کے تحت ہر شہید پولیس اہلکار کے پس ماندگان کو ایک کروڑ روپے ملا کریں گے۔ ہم نے بھائی مظفر کو مبارک باد دی۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ اِس خبر سے بہت خوش ہوئے ہوں گے اور ہمیں ’’ٹریٹ‘‘ دیں گے۔ مگر یہ کیا؟ بھائی مظفر تو سوچ میں ڈوب گئے۔ ہم نے اضمحلال کا سبب پوچھا تو کہنے لگے۔ ’’شہادت پر ایک کروڑ کے ’انعام‘ سے خوف محسوس ہو رہا ہے!‘‘

ہم حیران ہوئے کہ اِس میں خوف کی بات کیا ہے۔ اچھا ہے، گھر والے بہترین آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ جب کسی اہلکار کو یقین ہو کہ دہشت گردی کی نذر ہونے پر اُس کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے ملیں گے تو اُسے شہادت کو گلے لگاتے ہوئے کچھ ملال نہ ہوگا۔ ہم نے کہا کہ اب تو پولیس اہکاروں کو یہ شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ اُن کے اور اُن کے اہل خانہ کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جارہا۔ اِس پر بھائی مظفر بولے۔ ’’ایک کروڑ کا انعام ہی تو پریشانی کا باعث ہے۔ جب سے وزیر اعلیٰ نے سمری کی منظوری دی ہے، ہماری (یعنی پولیس اہلکاروں کی) آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی ہے۔‘‘

ہم مزید حیران ہوئے۔ کیا پولیس اہلکار جیتے جی ایک کروڑ روپے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ بھائی مظفر نے وضاحت کی۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ اب ہم پولیس والوں کو بیویوں اور اولاد سے خطرہ لاحق ہے! دہشت گردوں سے ٹاکرہ تو جب ہوگا تب ہوگا، اہل خانہ کے لیے ہم ایک کروڑ روپے کا جیتا جاگتا پرائز بونڈ ہیں! ہمارے جیتے جی تو گھر والوں کو ایک ٹکا نہیں ملے گا اور جیتے جی ہم اُن کے لیے ایک ٹکے کے بھی نہیں۔ اب پولیس اہلکار بیویوں سے لڑتے جھگڑتے ڈرا کریں گے۔ اگر بیویوں نے ایک کروڑ کے پرائز بونڈ کو ’کیش کرانے‘ کا فیصلہ کرلیا تو!‘‘

اب ہم سمجھے کہ بھائی مظفر کیوں مضمحل دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بھی اہل و عیال والے ہیں۔ پریشان کیوں نہ ہوں گے؟ اب تو وہ بھی ایک کروڑ کا جیتا جاگتا، چلتا پھرتا پرائز بونڈ ہیں۔ وہ بھی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ اُن کے جانے کی دیر ہے کہ ایک کروڑ روپے آیا چاہتے ہیں! کہیں اہل خانہ نے کروڑ پتی بننے کا فیصلہ کرلیا تو؟

پس ماندگان کو ملنے والی رقم میں اضافے کے فیصلے سے پولیس اہلکاروں کی کارکردگی بہتر تو کیا ہونی ہے، وہ بے چارے مزید اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ پولیس کا محکمہ اب تک جو کچھ کرتا آیا ہے وہ محض ایسا ہی ہے جیسے پکوڑوں کی دُکان چلائی جائے۔ صرف باتیں اور دعوے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف فولادی عزم کی بات ہزار بار کہی جاچکی ہے جبکہ تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر پولیس پست معیار کے لوہے کی زنگ آلود چادر سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمومی زبان میں اِس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کہا جاتا ہے باتیں کروڑوں کی، دُکان پکوڑوں کی! مگر اب محض بات کروڑوں کی نہیں ہے مگر صِلہ بھی کروڑوں میں ہے! ایسے میں بے چارے پولیس اہلکار دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے زیادہ اہل خانہ سے نہ ڈریں تو اور کیا کریں!

بھائی مظفر پولیس کرکٹ ٹیم میں ہیں۔ گگلی اور باؤنسر سے وہ بخوبی واقف ہوں گے۔ اور یارکر کے بارے میں بھی جانتے ہی ہوں گے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے پولیس کے ہر شہید اہلکار کے اہل خانہ کے لیے ایک کروڑ کے معاوضے کا اعلان کرکے گگلی کرائی ہے، یارکر کی ہے یا باؤنسر پھینکا ہے، اِس کا درست ترین اندازہ تو بھائی مظفر ہی لگاسکتے ہیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ سرکاری فیصلے سے فی الحال وہ ’’ہٹ وکٹ‘‘ ہوگئے ہیں!

پولیس کے شہید اہلکاروں کے اہل خانہ کے لیے ایک کروڑ روپے کے اعلان پر عبیداﷲ علیمؔ کا ایک مطلع بے ساختہ یاد آگیا ؂
عزیز اِتنا ہی رَکّھو کہ جی بہل جائے
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524781 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More