زرینہ‘ دو سال پہلے‘ میری زندگی میں بالکل اچانک‘ اور
حادثاتی طور پر‘ داخل ہوئی۔ جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا‘ توں توں وہ‘ میری
روح وجان میں اترتی گئی۔ یہ معاملہ یک طرفہ نہ رہا۔ میں بھی اہمیت اختیار
کرتا گیا۔ وہ جب تک مجھے دیکھ نہ لیتی‘ سکھ اور سکون کے سانس سے محروم رہتی۔
اکثر کہتی‘ اگر تم مجھے نہ ملے‘ تو جان دے دوں گی۔ اب میں بھی‘ اس کے بغیر
زندہ رہنے کا‘ تصور نہیں کر سکتا تھا۔
اب غور کرتا ہوں‘ کہ وہ واقعہ ایسا غیرمعمولی نہ تھا‘ جس کے نتیجہ میں‘ دو
انسان‘ اتنے قریب آ جاتے‘ کہ الگ ہونے کی سوچ‘ سوچی ہی نہ جا سکے۔ قربت نے‘
دو دلوں اور دو روحوں کو فرحت بخشی۔ ایک بار‘ اسے کچھ دنوں کے لیے‘ ماموں
کے ہاں‘ جانا پڑا۔ یہ کچھ دن‘ ہم دونوں کے لیے‘ صدیوں پر بھاری گزرے۔
ہوا یہ‘ کہ میں منڈی سے گھر کا سودا لا رہا تھا۔ محلے کی چھوٹی گلی سے
گزرتے ہوئے‘ وہ مجھ سے ٹکرا گئی۔ سامان کا توڑا‘ میرے سر سے گر گیا۔ وزن کی
وجہ سے‘ میرا دماغ پہلے ہی‘ خراب ہو گیا تھا‘ اوپر سے وہ ٹکرا گئی‘ اور
توڑا زمین پر آ رہا تھا۔ میرے منہ سے‘ بےساختہ نکل گیا۔
اندھی ہو‘ دیکھ کر نہیں چلا جاتا۔
کہنے کو تو کہہ گیا‘ لیکن بعد میں‘ محسوس ہوا‘ کہ میرا یہ انداز و رویہ‘
قطعی غیر مہذیب اور غیرشریفانہ تھا۔ اس نے‘ غصہ کرنے کی بجائے‘ مسکرا کر‘
میری طرف دیکھا‘ اور سوری کا اظہار کیا۔ اس کی سوری میں‘ ملاوٹ نہ تھی‘
بالکل اصلی اور صاف شفاف۔
اس واقعے نے‘ ہمیں قریب۔۔۔۔۔اور قریب کر دیا۔ ایک وقت ایسا آیا‘ کہ ہم
دونوں‘ چھپ چھپ کر ملنے سے‘ اکتا گیے تھے۔ ہماری کیفیت‘ چوروں سے‘ کسی طرح
مختلف نہ تھی۔ سچی محبت کرنے کے باوجود‘ ہم چور سے‘ ہو گیے تھے۔ پتہ کی
آواز تک‘ ہمارا خون‘ خشک کر دیتی تھی۔ پکڑے جانے کے‘ کئی موقعے آئے‘ لیکن
ہر بار‘ الله نے ہاتھ دے کر‘ بچا لیا۔ اکثر سوچتے‘ یہ سب‘ کب تک چل سکے گا۔
زرینہ کی شادی ہو گئی‘ تو میں مارا جاؤں گا۔ وہ اپنی پہاڑ زندگی‘ کس طرح
گزارے گی۔ وہ تو میرے بغیر‘ مر جائے گی۔ وہ اپنے خاوند کو‘ خوش گوار زندگی‘
نہ دے سکے گی۔ گویا ہم دونوں کا‘ ہر لمحہ‘ ہوکوں اور سسکیوں میں گزرے گا۔
ہم کسی کام کے نہ رہیں گے۔ اب‘ جب کہ کوئی ایسی بات ہی نہیں‘ ہم بےزار
زندگی گزار رہے ہیں‘ اس کی شادی کے بعد‘ قیامت ہی ٹوٹ پڑے گی۔ ہم دو الگ
برادریوں کے لوگ تھے۔ ہم دونوں کے ہاں‘ غیر برادری میں‘ شادی کا تصور تک
موجود نہ تھا۔
کئی بار‘ فرار ہو جانے کی ٹھانی۔ ہم دونوں بنیادی طور پر‘ بزدل تھے۔ دوسرا‘
میرے پاس کوئی روزگار بھی نہ تھا۔ عملی زندگی میں‘ تہی دستی‘ شخص کو‘ اس کے
ہونے سے‘ بہت دور رکھتی ہے۔ جو بھی سہی‘ میری پہلی اور آخری ترجیح‘ اس کا
حصول تھا۔ کوئی کام کرنے کو‘ جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ میں اس کے حصول کے
لیے‘کئی بابوں کے پاس گیا۔ اماں ابا کی گرہ کا چرایا مال‘ انہیں دیتا رہا۔
ہم دونوں نے‘ اپنے ابنے والدین کو‘ ان بابوں کے تعویز پلائے۔ ان کے سرہانوں
اور چارپائی کے پایوں کے نیچے‘ تعویز دبائے۔ خدا جانے‘ کیا کیا پاپڑ بیلے‘
لیکن کسی پر رائی بھر‘ اثر نہ ہوا۔ حرام ہے‘ جو کسی نے‘ ہم سے پوچھا ہو‘ کہ
کیا چاہتے ہو۔
اب میرا‘ ان فراڈ بابوں سے‘ یقین اٹھ گیا تھا۔ جب شیخ ہی بگڑ گیا ہو‘ تو
سوسائٹی میں خرابی آنا‘ لازم ٹھہر جاتا ہے۔ شیخ مایوس اور ناامید لوگوں کا‘
زمین پر آخری سہارا ہوتا ہے۔ سیاست‘ لوٹ عام کرتی ہے‘ مولوی تقسیم کے
دروازے کھولتا ہے۔ ایسی صورت حال میں‘ بندہ جائے‘ تو کدھر جائے۔ بس‘ اب
بابا حق کے پاس جانا‘ باقی رہ گیا تھا۔ سابقہ تجربوں کے باعث‘ میرا دل نہیں
مانتا تھا‘ کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ زرینہ‘ مجبور کر رہی تھی‘ اور کہہ رہی
تھی‘ حوصلہ نہ ہارو‘ آزمانے میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے‘ یہاں ہی سے‘
خیر پڑ جائے۔ میں نے‘ دل میں سوچا‘ خیر خاک پڑنی ہے‘ بس امی کی گرہ کا
چرایا مال‘ لوٹا کر آ جاؤں گا۔ اس کے اصرار پر‘ میں نے جانے کی حامی بھر
لی۔
مردہ دلی سے‘ میں بابے حق کے پاس پہنچ گیا۔ پہلی نظر میں‘ بابا حق‘ مجھے
دوسرے پیروں سے‘ بہت ہی مختلف لگا۔ اس کے چہرے پر‘ عیاری سے زیادہ‘ وقار
اور وجاہت تھی۔ مجھے دیکھتے ہی‘ بابے حق کے لبوں پر‘ بڑی زہریلی مسکراہٹ
نمودار ہوئی۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں ایک گوشے میں‘ دبک کر بیٹھ
گیا۔ بابے حق نے‘ ایک بار پھر میری طرف دیکھا۔ اب کی بار کی دیکھنی میں‘
کھوج کا عنصر موجود تھا‘ یا یہ بھی ہو سکتا ہے‘ کہ میرے ظرف کا اندازہ لگا
رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے‘ محفل کو‘ کاٹ کھانے والی‘ چپ سی لگ گئی۔ تھوڑی
دیر کے بعد‘ بابا حق نے‘ حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا:
تم میں سے‘ کسی کی بہن یا بیٹی کو‘ کسی سے عشق ہو جائے‘ تو تمہارا کیا
ردعمل ہو گا۔
ہر چہرے پر غیرت سے لبریز اشتعال پھیل گیا۔ ایک صاحب نے کہا:
میں اس عاشق کو چیر کر رکھ دوں گا۔
بابے نے پھر پوچھا:
بہن یا بیٹی کا‘ کیا کرو گے۔
اس نے بلاتوقف کہا: اس کے سینے میں‘ چھے کی چھے گولیاں اتار دوں گا۔
بابا پھر بولا:
اگر کوئی تمہاری ماں سے‘ عشق فرمانے لگے‘ اور تمہاری ماں بھی‘ اس عشق میں‘
برابر کی شریک ہو‘ تو کیا کرو گے۔
ایک اور صاحب بولے:
میں ایسی ممتا کے منہ پر‘ تھوک کر‘ سو لعنتیں بھیجوں گا اور اسے ہمیشہ کے
لیے‘ خیرآباد کہہ دوں گا۔ اس گفتگو کے باعث‘ پوری محفل پر‘ سکتے کا عالم
طاری ہو گیا۔
یہ سکتائی حالت‘ سات منٹ طاری رہی۔ لگتا تھا‘ کہ بابے نے‘ کوئی بڑی ہی‘
کڑوی بات کہہ دی تھی۔ یہ عشق بازی‘ ازلوں سے‘ معاشروں کا حصہ رہی ہے۔
عاشقوں کے نام آج بھی‘ زندہ ہیں۔ ان کے متعلق‘ شعرونثر میں‘ ان گنت قصے
کہانیاں ملتی ہیں۔ دوسرا‘ یہ تو‘ انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ اسے کیسے برا کہا
جا سکتا ہے۔ سچے عاشقوں کی لوگ عزت کرتے آئے ہیں۔
خدا خدا کرکے‘ خاموشی کا بت ٹوٹا۔ بابا گویا ہوا: میرے بچو! یہ عشق نہیں‘
جنسی ہوس ہے۔ جو چیز‘ تم اپنی ماں بہن اور بیٹی کے حوالہ سے‘ پسند نہیں
کرتے‘ اوروں کی ماں بہن اور بیٹی کے لیے‘ کیوں روا رکھتے ہو۔ یہ دوہرا
معیار ہے۔ مومن کی زندگی‘ دوہرے معیار کی حامل نہیں ہوتی۔ کوئی دیکھے
نادیکھے‘ الله تو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مومن کے لیے‘ نکاح کا رستہ موجود ہے۔
اس غلط فہمی میں نہ رہنا‘ کہ کوئی نہیں دیکھ رہا۔ لوگوں کی دوربینیں‘ ان
عاشقوں کو‘ فوکس میں رکھتی ہیں۔ کسی مومن کے پاس‘ اتنا وقت نہیں ہوتا‘ جو
اس کام پر‘ اپنا وقت برباد کرے۔ مومن‘ کائنات کے‘ ہر ذرے پر‘ نظر رکھے ہوئے
ہوتا ہے۔ جہاں کہیں‘ خرابی آتی ہے‘ فورا سے پہلے‘ درستی کی تدبیر کرتا۔ یہ
سب‘ بیمار ذہنوں کا کام ہوتا ہے۔ یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے‘ کہ مرد یا
عورت پہٹھ‘ تنور اور حمام پر موضوع گفتگو بنیں۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا یہ درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ درست نہیں۔۔۔۔۔۔
افسوس ہے‘ ان بہنوں‘ بیٹیوں اور ماؤں پر‘ جو محض‘ چند لمحوں کی لذت کے لیے‘
اپنوں کی عزت کو‘ بازار میں لے آتی ہیں۔ اس جنسی فراڈ کو‘ وہ عشق کا نام
دیتی ہیں۔ ان کی کوئی عزت نہیں‘ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ ان کے اپنوں کی
بھی‘ کوئی عزت نہیں۔ مانتا ہوں‘ الله‘ ان کا کچھ نہیں لگتا‘ یہ تو ان کے
اپنے ہیں۔
ایک صاحب نے سوال کیا:
بابا جی! ہیر اوررانجھا‘ سچے پریمی تھے۔ آپ کے؛ اس پیمانے کی رو سے‘ وہ بھی
غلط ٹھہرتے ہیں۔
میں نے کب کہا ہے‘ وہ درست تھے۔ رانجھا کام چور اور نکما شخص تھا۔ اسے یہ
ہی کام‘ آسان لگا‘ لہذا اسی میں جٹ گیا۔ دوسرا اس کا پیار‘ رد عملی تھا۔
جاؤ‘ جا کر‘ ہیر رانجھا مثنوی کا‘ مطالعہ کرکے‘ دیکھ لو۔ اس نے یہ کام
کرکے‘ بنی نوع انسان کی‘ کیا خدمت انجام دی ہے۔ کام وہ ہی اچھا‘ جس سے‘ بلا
کسی تفریق‘ انسان کی بھلائی نکلتی ہے۔ کیدو غیرت کی علامت ہے‘ اسے سب برا
کہتے ہیں۔ لفظ عشق‘ صرف الله ہی کے لیے ہے۔ ماں سے‘ بڑھ کر کون ہو گا۔ اس
کا‘ یا اس سے‘ پیار‘ محبت‘ عزت‘ خلوص‘ شفقت‘ ہم دردی‘ رحم دلی وغیرہ ہو
سکتی ہے‘ عشق نہیں۔ الله سے عشق‘ راستی پر رکھتا ہے۔ جنسی حاجت‘ گم راہی کی
طرف لے جاتی ہے۔
انسان‘ الٹے قدموں چلنے لگا ہے۔ الٹے قدم‘ ڈائن چلتی ہے‘ شخص ڈائن نہیں۔
میرے پچو! الٹے چلن کے باعث‘ انسان‘ خسارہ میں چلا آتا ہے۔ سب‘ سکندر کا
نام جپتے ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے‘ اس کے پیش نظر‘ کون سا فلاحی ہدف تھا۔
زمین اور وسائل پر‘ بازور شمشیر قبضہ جمانا‘ کون سی خدمت میں آتا ہے۔ ہر
مزاحم‘ اور غیر کا سر‘ کاٹتے چلے جانا‘ کہاں کی دلیری ہے۔ دلیر تو وہ ہے‘
جو جانوں کی حفاظت کرے۔ وہ اچھا اس لیے ہے‘ کہ اس نے ہندو راجہ پورس کو
شکست دی۔ درستی کا یہ معیار‘ قطعی غیر منطقی اور غیرانسانی ہے۔
یہ ہی حال‘ محمود کا ہے‘ اسلام میں کہاں لکھا ہے‘ کہ غیر مسلموں کی عبادت
گاہوں کو‘ ڈھاؤ یا نقصان پہنچاؤ۔ یقین تو‘ من منے کا میلہ ہے۔ دیکھو‘ اوروں
کو چھوڑو‘ تم جو موجود ہو‘ مجھ سے وعدہ کرو درست چال ہی کو‘ درست سمجھو گے۔
انسان کے لیے‘ کچھ کرو۔ عشق‘ صرف الله سے کرو۔ ہر ماں‘ بہن اور بیٹی کو‘
عزت اور احترام کی نظروں سے‘ دیکھو۔ نسل جاری رکھنے‘ اور جنسی تسکین کے
لیے‘ نکاح کا رستہ اختیار کرو۔ اگر انصاف کر سکتے ہو‘ ایک کیا‘ چار نکاح
کرو۔ تمہیں دیکھ کر‘ لوگ‘ از خود‘ راستی کی راہ‘ پکڑ لیں گے۔ بابا خاموش
ہوا‘ تو چاروں طرف سے‘ حق حق حق کے آوازے بلند ہونے لگے۔
مجھے وہ بابا‘ بابا کم‘ کھپتی زیادہ لگا۔ ہر بات‘ پٹھی کر رہا تھا۔ وہ بابا
حق کم‘ بابا پٹھی زیادہ تھا۔ میں نے مدعا بیان کیے بغیر‘ کھسک جانے کا
ارادہ کیا۔ میں نعروں کے بیچ‘ نکل جانا چاہتا تھا۔ اچھا موقع تھا۔ کسی کی‘
میری جانب توجہ نہ تھی۔ میں نے‘ جاتے ہوئے‘ چور نظروں سے دیکھا۔ اس کی
نظریں‘ مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ اب کہ اس کے چہرے پر‘ سنجیدگی اور متانت تھی۔
مجھے یوں لگا‘ جیسے اس کا مخاطب‘ کوئی اور نہیں‘ میں ہی تھا۔ اس نے‘ مجھے
جاتے ہوئے‘ روکا نہیں۔ میں نے‘ کمرے سے باہر آکر‘ گھڑے سے دو گلاس پیے‘ تو
جان میں جان آئی۔
واپسی پر‘ میرے اندر جنگ چھڑ گئی۔ دل کہہ رہا تھا‘ بابے نے جو کہا‘ بکواس
سے زیادہ‘ کچھ نہیں۔ دماغ مان رہا تھا‘ بابے کی باتوں میں دم تھا۔ اگر بابے
کی باتیں‘ زرینہ سن لیتی‘ تو صدمے سے‘ وہیں فوت ہو جاتی۔ اب کوئی رستہ بھی
تو باقی نہ رہا تھا۔ بابے کو نہ مانتے ہوئے بھی‘ شاید نے دم نہ توڑا تھا۔
زرینہ انتظار میں تھی۔ وہ گھر کی چھت پر‘ دھلے کپڑے ڈالنے کے لیے‘ آ جا رہی
تھی۔ اسے دیکھتے ہی‘ گزرے لمحموں کی بازگشت تک باقی نہ رہی۔ مجھے یاد تک نہ
رہا‘ کہ میں بابا حق سے‘ ملا بھی تھا۔ ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو
حق حق حق کے نعروں نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی‘ کہ
دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘ خلاصی پا لوں‘ مگر کہاں جی۔ میری ایما
کے برعکس‘ میرے منہ سے بھی‘ حق حق حق کے آوازے نکلنے کو ہی تھے‘ کہ میں نے‘
سورت اخلاص پڑھنا شروع کر دی‘ شاید خدا سے‘ عشق کا‘ میرا یہ پہلا قدم تھا۔
یہ پہلا موقع تھا‘ جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم والے پانی اور تعویزوں کا مرہون
منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘ مجھے ایک اکنی بھی نہ دینا پڑی۔ |