رات کے دو بجے تھے ۔جمیل آباد کی
پولیس چوکی میں کانسٹیبل طارق عثمان ضلعی ہیڈ کوارٹر کیلئے دن بھر کی ڈائری
لکھ رہا تھا ۔چوکی کے دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ قلم روز نامچے پر رکھتے ہوئے
اُٹھا اور دروازے میں مختصر سی کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھنے لگا ۔سامنے
حاجی فرید شکورے کو ایک ہاتھ سے پکڑ ے کھڑ ا نظر آیا ۔شکورے کی ناک سے بہتے
ہوئے خون کو دیکھ کر اُس نے جھٹ سے دروازہ کھولا۔اور شکورے سے پوچھا کیا
ہوا بیٹا؟اس سے پہلے کہ شکورا کوئی جواب دیتا حاجی فرید نے کہا ۔چوری کر
رہا تھا ۔بدبخت! ـ
کیا ؟طارق عثمان نے اس انداز سے سوال کیا جیسے اُسے یقین نہیں آرہاتھا
۔شکورا ہچکیاں لے لے کر رونے لگا اُس نے روتے ہوئے کہا ۔کاکاجی میں چور
نہیں ہوں ۔حاجی فرید جھٹ سے بولا۔اگر تم چور نہیں ہو تو رات کے دو بجے
دیوار پھلانگ کر کیا تم میرے بچوں کے ساتھ گُلی ڈنڈا کھیلنے آئے تھے۔
طارق عثمان نے حاجی فرید سے کہا ۔حاجی صاحب اگر تھانے ہی لانا تھا تو اس
قدر اس معصوم کو بے دردی سے مارنے کی کیا ضرورت تھی۔وہ چوکی کا دروازہ بند
کر کے حاجی فرید اور شکورے کو کمرے میں لایا ۔اپنی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے
حاجی فرید کو بیٹھنے کیلئے کہا اور میز پر پڑے ہوئے سلور کے جگ سے مٹی کے
کٹورے میں پانی ڈال کر شکورے کو پینے کیلئے دیا اور ساتھ والی چارپائی پر
بیٹھنے کو کہا۔
کانسٹیبل طارق عثمان عرصہ دراز سے اس چوکی میں متعین تھا ۔ایماندار ،صاف گو
اور نمازی پرہیز گار طارق عثمان کو جمیل آباد کا ہر فرد بخوبی جانتا تھا ۔
طارق عثمان نے حاجی فرید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا حاجی صاحب مجھے یقین نہیں
آتا کہ شکورے نے چوری کی ہوگی میں اس بچے کو بخوبی جانتا ہوں مزدور باپ کا
انتہائی خاموش طبع او ر سمجھدار بیٹا ہے اور اس کی چھوٹی بہن جسے سب چھوٹی
کہتے ہیں بڑی پیار ی اور معصوم ہے ۔
حاجی فرید کہنے لگا ،میں بھی یہی سمجھتا تھا ۔لیکن میں نے اسے اپنے گھر میں
ہی رنگے ہاتھوں پکڑا ہے طارق عثمان نے شکورے کی طرف دیکھا۔وہ ہچکیاں لیتے
ہوئے خوف سے کانپ رہا تھا اُس کا چہرہ انار کی طرح سُرخ ہونٹ سوجھے ہوئے
اور ناک سے بہتا ہوا خون قمیض کے دامن سے باربار صاف کر رہا تھا ۔اُس نے
شکورے کو دلاسہ دیتے ہوئے پوچھا ۔شکورے میں جانتا ہوں تم چور نہیں ہو لیکن
حاجی صاحب بھی تو غلط نہیں کہہ سکتے۔
شکورا بلک بلک کررونے لگا ۔طارق عثمان نے اُسے پاس بُلایا۔اور تسلی دیتے
ہوئے کہا ،گھبراؤ مت جو سچ ہے کہہ دو ۔شکورا کہنے لگا،کا کاجی آپ تو جانتے
ہیں ، میری ماں حاجی صاحب کے گھر 50روپے ماہوار تنخواہ پر اُن کے گھر کا
کام کاج کرتی ہیں سکول سے چھٹی کے دن میں بھی ماں کے ساتھ جا کر حاجی صاحب
کے گھر برتن وغیرہ دھولیتا ہوں ۔باورچی خانے کی صفائی کر دیتا ہوں ۔ماں
گذشتہ دو دن سے بیمار ہے جس کی وجہ سے کام پر نہیں جاسکی اور حاجی صاحب سے
گھر میں بچا کچا کھانا بھی نہیں لاسکی۔آج دو پہر کو ماں کی دوا کیلئے پیسے
چاہیے تھے میں ماں کے ساتھ حاجی صاحب کے گھر آیا تھا ماں نے مہینہ پورا
ہونے پر پیسے مانگے تو حاجی صاحب نے کہا تم گذشتہ دو دن سے کام پر نہیں
آرہی ہو بیماری تو صرف بہانہ ہے پیسے آج میر ے پاس نہیں ہیں ۔کل آکر لے
جاؤ۔
میں ماں کے ساتھ اس لئے گیا تھا کہ حاجی صاحب کے گھر میں روٹی کے بچے کچے
ٹکڑے باورچی خانے میں پڑے ہوئے کنستر میں پڑے ہوں گے ساتھ لے آؤں گا لیکن
حاجی صاحب غصے میں تھے۔اس لئے نہیں لایا ۔ابا جی کی بھی شہر میں ہڑتال ہونے
کی وجہ سے دیہاڑی نہیں لگی خالی ہاتھ گھر آئے تھے گھر میں کھانے کیلئے کچھ
نہیں تھا اس لئے ہم کچھ کھائے بغیر سو گئے ۔
شکورے نے رونا بند کر دیا تھا اور بڑی روانی سے سب کچھ بلاکسی خوف کے بتانے
لگا تھا ۔
حاجی فرید اور کانسٹیبل طارق عثمان خاموشی سے اُس کو سُن رہے تھے۔شکورے نے
کہا مجھے سخت بھوک لگی تھی اس لئے نیند نہیں آرہی تھی ۔ساتھ والی چٹائی پر
چھوٹی کی سسکیاں سُن کر میں اُس کے قریب آیاتو چھوٹی رورہی تھی شکورے نے
آستین سے ناک سے بہتا ہوا خون صاف کیا اورہچکیاں لے لے کر پھر سے رونے لگا
۔طارق عثمان نے جیب سے رومال نکال کر شکورے کو دیتے ہوئے کہا۔بیٹا اب رونے
سے کیا فائدہ جو تم نے کرنا تھا کرلیا اور جو حاجی صاحب نے کر نا اُس نے
بھی کرلیا ۔اور میں اُس وقت تک کچھ نہیں کر سکوں گا جب تک آپ مجھے بتائیں
گے نہیں ۔
شکورا ہچکیوں میں کہنے لگا کا کا جی چھوٹی کو روتے دیکھ کر میرا دل بھر آیا
میں خاموشی سے اُٹھ کر گھر سے نکل آیا اور دیوار پھلانگ کر حاجی صاحب کے
گھر میں داخل ہوا ۔تو باورچی خانے کا دروازہ کھلا تھا ۔میں باورچی خانے میں
گیا اور کنستر کا ڈھکنا کھولا تو حاجی صاحب کے گھر والے جا گ اُٹھے ۔اور سب
نے مجھے پکڑکر مارنا شروع کر دیا میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں چور نہیں
شکورا ہوں ،لیکن کسی نے میر ی بات نہیں سُنی ۔شکورے نے ایک لمبی ہچکی لیتے
ہوئے کہا ،کا کاجی میں کیا کرتا ۔میں تو چھوٹی کیلئے روٹی لینے گیا تھا
۔اُس کو بھوک لگی تھی ۔ |