تحریر : انصر سحر
بین الاقوامی سطح پر خواتین کو نسلی امتیاز کی بنیاد پر درپیش مسائل اور
ایک منصوبہ بندی کے تحت خواتین کی نسل کشی کے اقدامات کو روکنے کیلئے
امریکامیں قائم فلاحی تنظیم جینڈر سائیڈ اویرنیس پروجیکٹ کی بانی اور صدر
بیورلی ہل نے کہاہے کہ خواتین کو دنیا بھر میں نسل کشی کا سامنا ہے ٗ چین
اس فہرست میں سب سے آگے ہے اور بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ ڈیلس میں ساؤتھ
ایشیا ڈیموکریسی واچ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ساتھ ہونے والے ایک اجلاس میں
خطاب کرتے ہوئے بیورلی ہل نے کہاکہ ساؤتھ ایشین ممالک کی اکثریت میں یہ
مسائل ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس ضمن میں پیچھے نہیں ہیں جس کیلئے
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم عوام میں اس سے متعلق شعور اجاگر کریں تاکہ ان
مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
یہ کام ایک دن یا چند سالوں میں نہیں ہو گا بلکہ اس کیلئے 100 سال سے زائد
کا عرصہ درکار ہے اور ابھی سے اس کیلئے اگر کوششیں نہ کی گئیں تو صورتحال
مزید ابتر ہوتی چلی جائے گی۔ فطری طور پر بھی جہاں مردوں کی پیدائش ہوتی ہے
وہاں عورتوں کی بھی پیدائش ہوتی ہے اور قدرت کا جو نظام بنایا گیا ہے اس کے
مطابق مردوں کی نسل عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جو 105 مردوں کے
مقابلے میں 107 عورتوں کی ہوتی ہے جس میں تھوڑی بہت کمی بیشی دیکھی گئی ہے۔
ہر سال 2 ملین لڑکیوں کو پیدائش سے قبل ہی دنیا میں آنے سے پہلے ہی فارغ کر
دیا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ پہلی عالمی جنگ میں 20 ملین جبکہ ایڈز سے 25
ملین اور دوسری عالمی جنگ میں 70 ملین لوگ لقمہ اجل بنے تاہم اب تک خواتین
کی نسل کشی کے تحت 117 ملین لڑکیوں اور خواتین کو لقمہ اجل بننا پڑا جو کہ
حیرت کا باعث ہے۔ چین میں 10 فیصد‘ بھارت اور افغانستان میں سات سات فیصد
خواتین کی نسل کشی کی گئی۔ اس میں وہ اعداد و شمار بھی ہیں جن کے تحت حاملہ
خواتین ڈلیوری کے دوران طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث لقمہ اجل بنیں
جس میں افغانستان سرفہرست ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں کم عمر لڑکیوں
کی شادیاں اور ان کے ماں بننے کی وجہ سے یہ اموات واقع ہوئیں- اس مسئلہ کو
بین الاقوامی سطح پر آجاگر کرنے کیلئے ایک ایگزی بیشن کے اہتمام کا پروگرام
ہے جس میں 117 ملین بچیوں کے جوتے مختلف ممالک سے جمع کئے جا رہے ہیں تاکہ
اس نمائش کے تحت اس بات کا احساس آجاگر کیا جا سکے کہ کتنی خواتین اب تک
دنیا بھر سے Missiy ہو گئی ہیں۔ بعض جگہوں پر مردوں کو اثاثہ جبکہ لڑکیوں
کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اس ضمن میں یو این او کو بھی اس مسئلہ کی
اہمیت سے آگاہ کرنا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی سے تمام ممالک میں قانون موجود ہیں
مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کی جانب سے جینڈر
سائیڈ پروجیکٹ کی مدد اس کام میں سنگ میل ثابت ہو گی۔
ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے
رہبر انقلاب اسلامی آیت اﷲ علی خامنی کے مردو زن میں عدم مساوات سے متعلق
موقف کی سخت مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حقوق و فرائض میں خواتین اور
مردوں کے درمیان برابری مغربی طرز فکر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا حصہ
ہے۔مردو زن میں مساوات کا مروجہ تصور مغربی طرز فکر کی بنیاد پر ہے۔ اسلام
میں خواتین کی اصل ذمہ داری گھر داری اور بچوں کی تعلیم وتربیت ہے۔اس کے
ردعمل میں سابق صدر علی اکبر ھاشمی رفسنجانی نے جاری ایک بیان میں کہا کہ
’’خواتین کو گھروں میں بند کرنا اور انہیں صرف بچوں کی تعلیم تربیت تک
محدود رکھنا عقل اور منطق کے خلاف ہے‘‘۔ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی
مرد و زن کے حقوق میں عدم مساوات سے متعلق سپریم لیڈر کا موقف مسترد کر
دیا۔ ایرانی ثقافت میں خواتین سے امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
خواتین کو بھی مردوں کے مساوی بنیادی حقوق اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کا حق
ہے اور انہیں مردوں کے برابر سماجی حقوق حاصل ہیں۔ مردوں کو عورتوں پر اور
عورتوں کو مردوں پر کوئی فضیلت اور فوقیت حاصل نہیں ہے اور بہ حیثیت انسان
دونوں برابر ہیں’’ مقام ومرتبے اور انسانی عزت و وقار کے اعتبار سے بھی
عورتیں مردوں کے برابر ہیں۔ اس باب میں دونوں کے درمیان کوئی فرق اور
امتیاز نہیں ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی شرکت کا خوف ایک غلط
سوچ ہے۔ ہمیں اس خوف کو اسلام اور قرآن پاک کی تعلیمات سے نہیں جوڑنا
چاہیے‘‘۔تاہم ایران میں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں کوتاہی
ہوئی ہے جس کے نتیجے میں خواتین کے طبقے میں مایوسی پھیلی ، لیکن وہ خواتین
میں پائی جانے والی مایوسی کو ختم کر کے انہیں مردوں کے برابر لانے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا
کہ خواتین اور مردوں کی ذمہ داریوں کے دائرے الگ الگ ہیں۔ خواتین کا گھر سے
باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا اصل کام گھریلو امور کی نگرانی اور
بچوں کی تعلیم وتربیت اور ان کی نگہداشت ہے۔ مردو زن میں مساوات کا مروجہ
تصور مغربی طرز فکر ہے۔انہوں نے کہا کہ مغرب خواتین کے اصل حقوق و فرائض کو
سمجھنے میں غلطی کر رہا ہے اور اپنی مرضی کا فلسفہ پوری دنیا پر مسلط کرتے
ہوئے عورتوں کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران
کے سابق صدر نے خامنہ ای کے اس فلسفے کو رد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ
خواتین ہرشعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر سکتی ہیں اور
اسلام میں اس کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی خاتون بہتر وزیر،
کارخانے کی ڈائریکٹر، یونیورسٹی کی چانسلر اور سیاسی مشیرہ بن سکتی ہے تو
اسے یہ حق ملنا چاہیے۔ |