الحمد لله الذي كان بعباده خبيراً بصيراً، وتباركَ الذي
جعل في السماء بروجاً وجعل فيها سراجاً وقمراً منيراً و صلى الله عليه وعلى
آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً
بنی نوع انسان کے درمیان تعلقات، باہمی افہام و تفہیم ، تعاون اور ہم آہنگی
کی بنیاد پر قائم ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے {يَا أَيُّهَا النَّاسُ
إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً
وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} [الحجرات: 13] (لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد
اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک
دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو
زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے ) ۔
ایک مسلمان بھائی کے تعلقات کی بنیاد دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ ترابط و
تراحم ، بھائی چارگی ، اچھے معاملات اور حسن سلوک ، وفاداری اور صلہ رحمی
پر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے {وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ
كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ
بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ
فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ
لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ} [آل عمران: 103] (اور خدا کی اس مہربانی کو یاد
کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور
تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ
چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول
کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ )۔ فرمان الہی ہے {إِنَّمَا
الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا
اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [الحجرات: 10] (مومن تو آپس میں بھائی
بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو
تاکہ تم پر رحمت کی جائے ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «مثل المؤمنين في توادهم
وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد الواحد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد
بالسهر والحمى» (صحيح مسلم، ج4، ص1999) (مؤمنین باہمی محبت ، رحمت اور شفقت
میں ایک جسم کی مانند ہیں جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے
سارے اعضاء سخت بے چینی کے شکار ہو جاتے ہیں)۔ اگر تعلقات کی بنیاد مٍذکورہ
بالا مفاہیم اور اقدارپر ہیں تو بلا شبہ یہ صرف لوجہ اللہ ہوں گے اور صاحب
تعلق دنیا اور آخرت میں اللہ کے یہاں ماجور ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے
فرمایا {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِي مِنْ
تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا
لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ. لَقَدْ
جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ
أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ} [الأعراف: 43] ( اور جو کینے
ان کے دلوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے۔ ان کے( محلوں کے )نیچے نہریں
بہہ رہی ہوں گی اور کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا راستہ
دکھایا اور اگر خدا ہم کو رستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پا سکتے۔ بےشک
ہمارا پروردگار کے رسول حق بات لے کر آئے تھے اور (اس روز)منادی کر دی جائے
گی کہ تم ان اعمال کے صلہ میں جو دنیا میں کرتے تھے اس بہشت کے وارث بنا
دیئے گئے ہو )۔
لہذا اسلام تمام صورتوں اور احوال میں سبھی ذارئع اور طرق کو استعمال کرتے
ہوئے مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ایک مسلمان
بھائی کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ جو لوگوں کے درمیان
اس کومحبوب بنادے وہ اخلاص فی العمل اور اعمال صالحہ کے ذریعہ تقرب الہی
ہے۔ارشاد باری تعالی ہے{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدّاً} [مريم: 96] (اور جو لوگ ایمان لائے
اور نیک عمل کئے خدا ان کی محبت (مخلوقات کے دل میں) پیدا کردے گا ) ان
وسائل میں ایک بلا شک مسکراہٹ اورچہرے کی ہشاشت و بشاشت ہے ۔ مسکراہٹ اللہ
تعالی کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی اور عظیم نعمت ربانی ہے۔مسکراہٹ
انسانی چہرے پر نمودار ہونے والا سب سے خوبصورت جذبہ ہے جو انسان کی
خوبصورتی اور مجموعی شخصیت کو چارچاند لگادیتاہے۔ ایسا حلال جادو ہے جو دل
کی گہرائی سے نکل کر ہونٹوں پر رونماں ہوتاہے بعد ازاں پیار کی خوشبو
بکھیرتاہے اور نسیم محبت کے جھونکے چلاتاہے۔حسد ،نفرت اور بغض کے گرہیں
کھول کر الفت و محبت دلوں میں جاگزیں کرتاہے۔ابن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا
کہ " چہرے کی بشاشت دلوں کو جیت لیتى ہے"۔ مسکراہٹ ایک ایسا انمول تحفہ ہے
جو غریب سے غریب آدمی بھی کسی کوبھی پیش کر سکتا ہے۔بڑے عظیم ہوتے ہیں وہ
لوگ، جو غم اور دکھ اپنے سینے میں چھپا کر دوسروں کو مسکراہٹ کا تحفہ پیش
کرتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ " اے میرے
بیٹے چہرے کی بشاشت اور نرم کلامی بہت ہی آسان نیکی ہے" ۔ حبیب مصطفی ﷺ نے
مسکراہٹ اور بشاشت کی بنیاد ڈالی ۔اپنے فعل و عمل اور سیرت معطرہ کے ذریعے
یہ لطیف اور آفاقی زبان بنی نوع انسان کو سکھائى۔آپ ﷺ کا چہرہ سدا ہشاش و
بشاش اور چمکتا و دمکتا رہتاتھا۔ ایک ہی نظر میں آدمی آپ سے محبت کرنے لگتا
اور اپنے جان و مال اور اہل و عیال کے ساتھ آپ پر فدا ہوجاتاتھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ وتبسم اپنے اہل و عیال اور صحابہ کیلئے
ایسی بنیادی شیء ہے جسکے دہرے ثمرات مرتب ہوئے یعنی دنیا میں نیکی اور آخرت
میں بے حساب اجر۔ پہلی شیء معجل نیکی ہے جس سے قلوب کو اطمئنان ، ضمیر کو
راحت ملتی ہے اور اطباء کے مطابق مسکراہٹ کے دوسرے صحت سے متعلقہ جسمانی
فوائدبھی ہیں اسکے نتیجے میں اجتماعی اور شرعی مصالح جیسے تالیف قلوب ،
محبت کی مضبوط ڈور سےدلوں کو مربوط کرنااور رغبت حب دین جیسے منافع حاصل
ہوتے ہیں ۔ مسکراہٹ ایک ایسی اسپیڈ کوریرہےجو بغیر مال خرچ کئے ہوئے اور
بغیر جسمانی مشقت کے تمام لوگوں کے پاس پہنچ جاتی ہے۔بلکہ ایک ہی وہلہ میں
اسکا عظیم اثر دل کی گہرائی میں پہنچ جاتاہے۔
دوسری شیء موجل نیکی ہے جو صدقہ اور معروف کے جزاء کےطور پر حاصل ہوتی ہے ۔
مسلمان سے مسکراکر ملنا ایسا بہترین صدقہ ہے کہ غریب اور مالدار یکساں طور
پر کر سکتے ہیں۔ "ما رأيت أحدا أكثر تبسماً من رسول الله صلى الله عليه
وسلم" (سیدنا عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ
ﷺ سے زیادہ کسی کو مسکراتے اور تبسم فرماتے نہیں دیکھا (الترمذي: 3641)۔
صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا «إنكم لن تسعوا الناس
بأموالكم فليسعهم منكم بسط الوجه وحسن الخلق». (تمہارے اموال میں تمام
لوگوں کیلئے ہرگز وسعت نہیں ہوگی پس تمہیں چاہئیے کہ ان کے ساتھ بشاشت اور
حسن اخلاق سے پیش آؤ)۔
ابتسامہ و مسکراہٹ کا ہدیہ جو اللہ کے رسول ﷺ سے حضرت جریر ابن عبد اللہ
بجلی رضی اللہ عنہ کو ملاتھا اسے ہمیشہ اپنے دل سے چمٹائے رکھا۔ "ما رآني
رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا تبسم في وجهي" (رواه البخاري) (بخاری کی
روایت ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے جب بھی مجھے دیکھا مسکراتے ہوئے دیکھا )۔
منور مسکراہٹ جس سے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک کھل اٹھتا تھا حضرت جریر ابن عبد
اللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے نزدیک تمام یادگاروں سے افضل اور تمام تمناؤں
سےبلند و برتر تھا۔ جب کبھی لوگ آپ کا مبتسم چہرہ انور کو دیکھتے تو انکے
قلوب اسیر اور نفوس مسحور اور روح مائل ہوجاتےتھے۔ مسکراہٹ صدقہ اور عبادت
ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا «فتبسمك في وجه أخيك صدقة»(رواه الترمذي)
(اپنے بھائی سے مسکراکر ملنا صدقہ ہے) ۔ اس عبادت میں بہت ہی کوتاہی اور اس
صدقہ میں بہت بخالت ہورہی ہے۔ یہ حلال جادو ہے۔ اخوت کا اعلان ہے۔ پاکیزگی
کی پیشگی ہے ۔مودت اور محبت کا پیغام ہے ۔ مسکراہٹ حسد کے پتھر کو پگھلا
دیتاہے۔ عداوت و دشمنی کے کھنڈرات کو ملیامیٹ کردیتاہے۔بغض وکینہ کے پہاڑ
کو ریزہ ریزہ کردیتاہے۔کینہ کے میل کو دھوڈالتاہے۔قطع رحمی کے زخم کو مندمل
کردیتاہے۔
جب سلیمان علیہ الصلاۃ و السلام ایک وسیع و عریض وادی میں ایک ننھی جان
چیونٹی کیلئے جو اپنی قوم کو آپ کی فوج سے خبردار کررہی تھی مسکرائے تھے
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {فَتَبَسَّمَ ضَاحِكاً مِّن قَوْلِهَا
وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ
عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاهُ
وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ} [النمل:19] (تو
وہ اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اے پروردگار! مجھے توفیق عطا
فرما کہ جو احسان تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر
اداکروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے اور مجھے اپنی رحمت
سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما)۔ تو ہمیں اپنے بھائیوں اور پڑوسیوں کو
اپنی مسکراہٹ سے خوش کرنیکی بہت زیادہ ضرورت ہےجبکہ مادہ پرستی کی طغیانی
کے زمانے میں جہاں الفت ناپید ہے ، تنازعات کی کثرت ہے۔شوہر اور بیوی
کوباہمی طور پر خوش رکھنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ اجتماعی مشاکل بہت سنگین
صورت اختیار کرتے نظر آتے ہیں جہاں انسان کی پیشانی پر ہمیشہ غصہ اور یتور
ہی دکھلائی دیتے ہیں گویاکہ ہم لوگ بقاء اور زندگی کے اکھاڑے میں ایک دوسرے
سے جوجھ رہے ہیں تو اس وقت اس بات کی نہایت ہی اہمیت ہے کہ منیجر اور
اساتذہ تکبر ، فخر اور عناد سے بالاتر ہو کر اپنےطلبہ اور اسٹاف میں
مسکراہٹ کے پھول بکھیر کر ان کی دلجوئی کریں تاکہ ان کے حوصلے اور عزائم
بلند ہوں اوران کے اندر کچھ کر گذرنے کی چاہت پیدا ہو۔
اسکے بجائے کہ ہم ظالمانہ ، غیر منصفانہ فتاوے جاری کرکے فرقہ واریت ،
مذہبیت ،نزاع و اختلافات کے بیج ڈالیں ، مسلمانوں کیلئے گمراہ ، بدعتی اور
فاسق جیسے برے القاب استعمال کریں يا علماء ربانی اور مخلص داعیوں کی عزت
سے کھلواڑ کریں۔ ہمیں مسکراہٹ ، بشاشت وجہ ، انشراح صدر ، روح کی لطافت اور
نرمی و سماحت کے ذریعے امت اسلامیہ کو متحد کرنیکی اشد ضرورت ہے۔امت کے
یتامی ، بیواؤں ، فقیروں اور محتاجوں کے سامنے اگر ہم مسکراہٹ کے پھول
بکھیرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں مسرت اور خوشی
جاگزیں ہوگی اور ان کے چہرے مسکراہٹ سے کھل اٹھیں گے اور ان جیسے اعمال کا
اجر اللہ تعالی کے پاس بے حساب ہے۔
ہمیں اس تاجر سے زیادہ مسکراہٹ اور ابتسامہ کی ضرورت ہے جو اپنی خوش اخلاقی
اور مسکراہٹ سےگراہکوں کے دل جیت لیتاہے جس کے نیتجے میں اللہ تعالی اپنی
رحمت اور برکت سے اس پر رزق کی بارش کرتاہے رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کیلئے
رحمت کی دعاء كى ہے جو بیع وشراء اور قرض کے مطالبہ میں نرمی کا معاملہ
کرتاہے۔ فقد روى البخاري دعاء النبي صلى الله عليه وسلم بالرحمة حيث قال:
رحم الله عبداً سمحاً إذا باع سمحاً إذا اشترى سمحاً إذا قضى سمحاً إذا
اقتضى (رواه الألباني)۔ ایک روایت میں مغفرت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ
اللہ تعالی اس شخص کی مغفرت فرمائے جو ٖخرید و فروخت اور قرض کی وصولیابی
میں نرمی اور آسانی کا معاملہ برتے۔ يقول صلى الله عليه وسلم: «غفر الله
لرجل ممن كان قبلكم كان سهلاً إذا باع سهلاً إذا اشترى سهلاً إذا اقتضى»
(أخرجہ أحمد عن جابر- حديث رقم 4162 - صحيح الجامع)۔
چینی لوگوں کے نزدیک ایک محاورہ زبان زد ہےکہ جو شخص مسکرانا نہیں جانتا
اسے کوئی دکان نہیں کھولنی چاہئے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اور انٹرنیشنل
کمپنیاں گراہکوں اور کلائنٹ کے سامنے مسکرانے کےلئیے اپنے اسٹاف کو ٹریننگ
دینے کیلئے بے دریغ پیسہ بہادیتی ہیں۔جبکہ ان کامطمح نظر صرف دنیا وی دولت
کمانا ہوتاہے۔ بدرجہ اولی ہم مسلمانوں کو اس جیسے اخلاق سے مزین ہونا چاہئے
جس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی مضمرہے ۔ اللہ تعالی کا قول مومنین کے
متعلق سچ ہے ، فرمایا : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي
الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ
النَّارِ[البقرة: 201](اور بعض ایسے دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا
میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے
ہم کومحفوظ رکھ)۔
مسکراہٹ کے طبی اور نفسانی فوائد پر بے شمار سائنسی ریسرچ اور سٹڈیز کا
اہتمام کیا گیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسکراہٹ نہ صرف انسان کو جسمانی
اور نفسانی طورپر تندرست رکھتى ہے ،بلڈپریشر کو کم کرنے میں مدد کرتى
ہے،خون کے دوران کو چست بناتى ہے بلکہ امراض ، نفسیاتی اور حیاتیاتی پریشر
کے خلاف جسمانی قوت عطاء کرتى ہے۔کافی مقدار میں آکسیجن برقرار رکھنے کیلئے
مسکراہٹ دماغ کی مدد کرتى ہے۔ اور دل و دماغ اور بدن کے فنکشن پر اسکے
دوسرے ایجابی آثار بھى ہیں۔مسکراہٹ چہرے کےحسن و جمال اور نکھارکو بڑھاتى
ہے،معدہ کی تیزابیت کو دور کرتى ہےمزيدبرآں ڈپریشن اور غم کو کم کرنے میں
بہت مدد گارہے۔
مسکراہٹ کے ان طبی فوائد کے ساتھ ساتھ یہ صدقہ اور خیر کے دروازوں میں سے
ایک دروازہ ہے۔ قال صلى الله عليه وسلم: «وأحب الأعمال إلى الله سرور تدخله
على مسلم أو تكشف عنه كربة» (رواه الطبراني في الكبير) "اللہ تعالی کے
نزدیک سب سےمحبوب عمل ایک مسلمان کو خوش کرنا اور اس کے دکھ و درد کو دور
کرناہے" اس سےنفس کو راحت ، روح کو سکون ، غم اور پریشانی سے چھٹکارا
ملتاہے۔ مسکراہٹ حسن اخلاق کے مظاہر میں سےایک مظہر ہے جسکی اسلام دعوت
دیتا ہے۔« قال صلى الله عليه وسلم:{ لا تحقرن من المعروف شيئاً ولو أن تلقى
أخاك بوجه طليق» (رواه الحاكم والبيهقي في شعب الإيمان) "سیدنا ابوذر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: نیکی میں
کسی بھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگرچہ تو اپنے(مسلمان) بھائی سے خندہ پیشانی
(خوش روی) سے ہی ملے(یعنی مسکراتے ہوئے ملنا بھی نیکی ہے) (صحیح مسلم:جلد
سوم:حدیث نمبر 2189)" یہ آپ کے نامئہ اعمال میں سب سے وزنی چیز ہوگی (ان
شاء اللہ) سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا قیامت کے دن مومن کے میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز
نہیں ہوگی اس لیے کہ بے حیاء اور فحش گو شخص سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2090)۔ اس میں سید
الخلق ﷺ کا قدوہ ہے جو سب سے بڑے اخلاق والے اور سب سے زیادہ مسکراہٹ کے
پھول بکھیرنے والے تھے۔
رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے خواب میں بھی مسکراتے تھے ۔
ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ "رسول اللہ ﷺ ایک دن میرے
قریب سوئے ہوئے تھے اور مسکراتے ہوئے اٹھے تو میں نے عرض کیا کس چیز نے آپ
کو ہنسایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ "میری امت کے ایسے لوگ ہمارے اوپر پیش کئے
گئے جو بادشاہوں کی طرح سبز سمندر میں تخت پر سوار ہوں گے ، میں نے عرض کیا
آپ میرے لئے بھی دعاء کریں اللہ تعالی مجھے بھى ان لوگوں میں شامل کردے تو
آپ ﷺ نے ان کیلئے دعاء کی" (بخاری) بلکہ اپنے امت کے لئے خیر کے اسباب جان
کر خوش ہوتے ، مسکراتے اور ہنستے بھی تھے۔
رسول اللہ ﷺ رضامندی ، فرح و سرور اور خوشی سے مسکراتے تھے خصوصاً جب قیامت
کے دن کے عطیات سے خوش ہوتے تھے ۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "ایک دن
رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرماتھے ، اچانک آپ پر ہلکی سی غنودگی
چھاگئی ، پھرآپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا ، ہم لوگوں نے عرض کیا یا
رسول اللہ ﷺ کس چیز نے آپ کو ہنسایا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "میرے اوپر کچھ
دیر پہلے ایک سورت نازل ہوئی ہے اور آپ ﷺ نے سورۃ الکوثر کی تلاوت فرمائی ،
آپ نے فرمایا کیا تم لوگ جانتے ہوکہ کوثرکیاہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور
اسکے رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ وہ نہر ہے جس کا میرے رب سبحانہ
و تعالی نے وعدہ کیاہے اور اس میں بے انتہا خیر ہے ، قیامت کے دن اس حوض پر
میری امت حاضر ہوگی اور اسکے برتن ستاروں کے شمار کے برابر ہیں۔
رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنی امت کو ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کے پیچھے نماز میں دیکھ رہے تھے جبکہ آپ کو مرض نے بہت کمزور بنادیا
تھا اس حال میں بھی اپنی امت کو دیکھ کر مسکرائے ۔ انس بن مالک رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ "پیر کے دن مسلمان فجر کی نماز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
کے پیچھے پڑھ رہےتھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ نےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے
حجرہ سے پردہ اٹھایا اور مسلمانوں کو نماز کے صفوں میں دیکھ کر مسکراتے
ہوئے ہنس پڑے ۔ آپ ﷺ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنی امت کو نمازکی صفوں اور عبادت
کی محرابوں میں دیکھتے ہوئے مسکراکر اس دنیا سے رخصت ہوں (بخاری)۔
ایک اچھی ہنسی آپ کے دل کو مکمل طور پر ہلکا کر دیتی ہے۔دماغ کے جن حصوں
میں مطلوبہ مقدار میں خون نہیں پہنچ پاتا ،وہاں وہ اچھی مقدار میں پہنچ
جاتا ہے ،اس لیئے کچھ نہ کچھ ایسا ہنسی مذاق کرتے رہنا چاہیئے جس سے کسی کو
تکلیف نہ پہنچےذہن پر بھی مسکراہٹ کا خوشگوار اثر مرتب ہوتا ہے ۔پر امیدی
انسان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتی ہے اور مسکراہٹ اس کے بدلے میں ذہن کو
متحرک کرنے اور نا امیدی پیدا کرنے والے خیالات کو دور کرنے کا کام دیتی ہے
،جس کے نتیجہ میں آدمی ایک انوکھی بشاشت اور خوشی محسوس کرتا ہےمولانا ابو
الکلام آزاد فرماتے ہیں "اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ
لیا ہے ، تو یقین کیجئے کہ زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا ہے "۔ خوش رہنا
ایک فطری عمل ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری بهى ہے۔ مسکراہٹ انسانی
شخصیت کی آئینہ دار ہے۔ اسے چہرے پر طاری کرنے کے لئے شعوری کوشش سے کام
نہیں لینا پڑتا، کیونکہ انسانی شخصیت کے اصلی اور حقیقی خدوخال ہمیشہ
لاشعوری طور پر نمایاں ہوتے ہیں ۔
دکھوں اور پریشانیوں کے باوجود مسکرائیے۔ آخر ستارے بھی تو اندھیرے میں
جھلملاتے ہیں،پھول بھی تو کانٹوں کے بیچ مسکراتے ہیں، اپنی زندگی کانٹے کی
طرح نہیں بلکہ پھول کی طرح گزارئیے۔ وہ پھول جسے سہرے میں سجانے کیلئے سوئی
کو پھول کے جگر کے پار کیا جاتا ہے مگر پھول کی اعلٰی ظرفی دیکھئے کہ وہ
اپنے جگر کے پار ہونے والی سوئی کو بھی خوشبو سے مہکا دیتا ہے۔
پس اگر مسکراہٹ ہمارا شعار بن جائے تو ہماری اپنی زندگی خوشگوار ہوگی اور
حرارت پیدا ہوگی۔ بلکہ جن افراد سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے ان میں بھی اىک تازہ
جوش عطا ہوگا۔ پس اس قدر اہم اور مفید قوت کا حصول زیادہ دشوار نہیں ۔
مسلمان بھائیو! ہمیں مسکراہٹ کے فن کوسچائی کے ساتھ سیکھنا ہے ۔ بشاشت ،
سماحت اور سعادت کی ثقافت کو اپنی مسلم سوسائٹی میں عام کرنا ہے ۔ بیشک اسی
میں ایک سعادتمند زندگی اور باہمی بھائی چارگی کی واقعی ضمانت ہے ۔ اللہ کے
رسول ﷺ کے قدوہ کو اپنائیں ۔ اللہ سبحانہ تعالی ہم سب کو اجر عظیم سے نوازے
۔ آمین |