دنیا آباد میں آموں کی فصل پک کر
مکمل تیار ہوچکی تھی۔ درختوں پر خوبصورت آم ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنے
ہوئے تھے۔ یہاں کے آم پورے علاقے میں اپنے ذائقے اور مٹھاس کی وجہ سے مشہور
تھے۔ فصل کے پکنے پر لوگ دور دراز سے اِدھر آتے اور آموں کی کئی کئی پیٹیاں
اپنے ساتھ لے جاتے۔ دنیا آباد چھوٹا سا خوبصورت گاؤں تھا جس میں میٹھے پانی
کا ایک کنواں بھی موجود تھا۔ گھروں میں لوگ نل کے پانی کی بجائے کنویں کا
پانی استعمال کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور نیلے ڈرموں میں بھر بھر کر گھر لے
آیا کرتے تھے۔ پانی نہایت صاف اور ٹھنڈا ہوتا تھا۔ کئی لوگ بچوں کے بیمار
پڑ جانے پر کنویں کا پانی استعمال کرتے تو ان کے بچے ٹھیک ہو جاتے۔ اس
علاقے میں ایک پرانا قبرستان بھی تھا جو مقامی لوگوں کے مطابق ان کے باپ
دادا کی پیدائش سے پہلے کا تھا۔ دنیا آباد کی آبادی بہت تھوڑی تھی مگر لوگ
پُرامن تھے۔ زیادہ تر مکان گارے سے بنائے گئے تھے۔ چند ایک مکان پکی اینٹوں
سے بنے تھے ان میں سے ایک بلال کے باپ نے اس کی پیدائش سے پہلے بنایا تھا۔
بلال کا باپ دنیا آباد سے باہر رسول پور میں روز موٹر سائیکل پر جایا کرتا
تھا۔ اُدھر اُس کی کریانے کی ایک دُکان تھی جو پورے رسول پور میں مشہور
تھی۔ رسول پور دنیا آباد سے تقریباً تین کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک قصبہ
تھا جو دنیا آباد سے زیادہ خوشحال تھا، مگر وہاں کے لوگ اکھڑ مزاج اور
دھیمی طبیعت کے نہ تھے۔ اس کے کریانے میں روزمرہ استعمال کی اشیا موجود
تھیں اور بلال کے ابا نے کپڑے کے بینر پر دکان کے باہر یہ لکھوا رکھا تھا
کہ ’’ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء ایک چھت تلے‘‘ اگرچہ ضروریات زندگی کی
چند ایسی اشیاء ادھر موجود نہیں تھیں جن کے بغیر انسان کا گزارہ ممکن نہیں،
خیر چھوڑیں۔
بلال سات سال کا ہوا تو اس کی ماں اپنے شوہر عظیم سے روز اصرار کرتی کہ
بلال کو رسول پور کے کسی سکول میں داخلہ دلوا دیں مگر عظیم یہ کہہ کے انکار
کر دیتا کہ ’’ابھی وہ چھوٹا ہے۔‘‘
ثریا کی دو بیٹیاں نیلم اور صنوبر بلال سے عمر میں کافی بڑی تھیں اور دونوں
ہی دلکشی میں کمال تھیں۔ صنوبر نیلم سے بڑی تھی جس کی نیلی گہری آنکھیں
تھیں اور گوری رنگت اس کے ابھرتے شہاب میں باکمال اضافہ تھی۔ عظیم لڑکیوں
کی تعلیم کا شدید مخالف تھا اور اسی لیے اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو دنیاوی
تعلیم سے دور رکھا۔ دونوں دنیا آباد میں موجود اپنے گھر کے قریب واقع مدرسے
میں جایا کرتی تھیں۔ ادھر کی آبادی تقریباً چار سو کے قریب تھی اور وہاں
ایک مسجد اور ایک پرائمری سکول موجود تھا۔ مسجد میں تو لوگ آتے جاتے رہتے
تھے مگر پرائمری سکول میں جانوروں کے ڈیرے آباد تھے۔ اسی لیے تو ثریا اپنے
بیٹے کو رسول پور کے سکول میں داخلے کے لیے گاہے بگاہے اپنے شوہر سے کہتی
رہتی تھی۔ دونوں بہنیں آپس میں خوب لڑائی کیا کرتیں تھیں۔ جہاں لوگ کم ہوں
وہاں آپ دیواروں سے تو باتیں کرنے سے رہے۔ اسی غرض سے دونوں ایک دوسرے کو
جلد بلانے لگ جایا کرتی تھیں۔ وہ صنوبر کو باجی کہہ کر پکارا کرتی تھی۔
وہاں کے چند پکے مکانوں میں سے ایک مکان علی کا بھی تھا۔ علی چند برس پہلے
اپنے باپ کی زمین بیچ کر سائپرس چلا گیا تھا جہاں وہ ڈرائیوری کرتا تھا۔
علی ابھی دنیا آباد سے سائپرس کے لیے نکلا ہی تھا کہ ایئرپورٹ پر اسے فون
آگیا کہ اس کے ابا کا انتقال ہوگیا ہے۔ علی نے پیچھے مڑنے کی بجائے آگے
جانے کو فوقیت دی اور باہر چلا گیا۔ پیچھے اس کی بوڑھی ماں بیٹے کی خیر و
عافیت کی دعائیں کیا کرتی تھی۔ ابتدائی ایام میں اس نے ماں کو کئی خطوط
لکھے اور حال احوال پوچھتا رہا، مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس نے خط و
کتابت بھی بند کر دی اور پیسے کی ہوس میں مگن ہوگیا پھر ایک روز جب وہ
ڈرائیوری سے واپس اپنے فلیٹ پر آیا تو اس کے دوست نے اسے بتایا کہ اس کی
ماں فوت ہوگئی ہے اور مقامی قبرستان میں دفنا دی گئی ہے۔ وہ چکرایا اور
بولا:
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
اس کا دوست بولا:
’’ابھی ابھی پاکستان سے کسی عظیم نامی شخص کا فون آیا تھا، اس نے بتایا کہ
تمہاری والدہ فوت ہوگئی ہے۔‘‘
علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر وہ چپ رہا۔ ادھر دنیا آباد میں آم اترتے
ساتھ ہی سالانہ میلے کی تیاری عروج تھی۔ میلہ تین دن تک لگا رہتا تھا جس
میں مٹھائیوں والے، جھولوں والے، کھلونوں والے اور بہت سے لوگ دنیا آباد کا
رخ کیا کرتے تھے اور تین دن تک ادھر ٹھہرتے تھے۔ عظیم نے بلال کو میلے پر
لے جانے کے لیے اس سے وعدہ کیا تھا کہ آج وہ جلدی کام سے لوٹ آئے گا، تاکہ
دونوں میلے پر جاسکیں۔ وہ وعدے کا پاس رکھتے ہوئے وہ رسول پور سے جلدی گھر
واپس لوٹ آیا۔ وہ گھر پہنچا تو دیکھا بلال سفید شلوار قمیض پہنے اور بالوں
پر سرسوں کا تیل لگائے بالکل تیار کھڑا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو ساتھ لیا
اور دونوں میلے پر روانہ ہوگئے۔ صنوبر کی چھوٹی بہن ہاتھ کی سلائی میں بہت
ماہر تھی اور زیادہ تر وقت سلائی کڑھائی میں ہی گزارا کرتی تھی۔ وہ بھی
خوبصورت تھی مگر صنوبر کے مقابلے میں کچھ نہ تھی۔ ان کے گھر میں تین کمرے
تھے ایک میں عظیم اور اس کی بیوی ہوتی، دوسرے میں دونوں بہنیں جبکہ تیسرے
میں صندوق اور بستر وغیرہ پڑے ہوتے تھے۔ بلال اپنی مرضی سے ہر کمرے میں آیا
جایا کرتا تھا اور اس کے مطابق ہر کمرہ اسی کا تھا۔ عظیم اور اس کا بیٹا
میلے میں خوب گھومتے پھرتے رہے اور واپسی پر گھر والوں کے لیے تازہ جلیبیاں
اپنے ہمراہ لے آئے۔
جب وہ گھر کے اندر داخل ہوئے تو ماں نے آتے ساتھ کہا:
’’بلال آگئے ہو میلہ دیکھ کر؟‘‘ یہ تمہارے ہاتھوں میں کیا ہے؟ بلال ہاتھوں
میں موجود چیزوں کو دیکھنے لگ گیا جبکہ عظیم بولا:
’’یہ ضد کر رہا تھا کہ کھلونے لے دو، کھلونے ہیں یہ۔‘‘
’’اچھا تو ہمارے لیے کیا لائے ہو؟‘‘
اتنے میں صنوبر پاس آئی اور بھائی کے ہاتھوں میں موجود کھلونوں کو دیکھنے
لگ گئی۔
ان کا باپ بولا:
’’یہ آپ لوگوں کے لیے جلیبیاں لایا ہوں۔‘‘
جلیبیوں کا نام سنتے ہی نیلم بھی دوڑتی ہوئی باہر آگئی اور اپنے ابا کے
ہاتھ سے جلیبیوں کا شاپر پکڑ کر کھولنے لگ گئی۔
اس کی ماں بولی:
’’آرام سے، آپ لوگوں کے لیے ہی آئی ہیں۔‘‘
پاس کھڑی صنوبر نے کہا: ’’ماں اسے ہر کام کی جلدی ہوتی ہے، یہی کھا لے، وہ
یہ کہتے ہی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
عظیم بولا:
’’اچھا اب لڑائی نہ کروں، سب کے لیے ہیں اور کافی زیادہ ہیں۔‘‘ پھرسب بڑے
کمرے میں بیٹھ گئے اور جلیبیاں کھانے لگ گئے۔ سائپرس میں بیٹھے نادان کو
اپنے ماں باپ کی یاد خوب ستانے لگی اور وہ اپنے آپ کو ان کی موت کا مجرم
سمجھنے لگا۔ شام کو ڈرائیوری سے واپسی پر وہ رات دیر تک جاگا کرتا اور گاؤں
کی حسین زندگی کو سوچا کرتا تھا اسے اکثر پرانے قبرستان کے قریب واقع کنواں
یاد آتا جہاں وہ بچپن میں خوب کھیلا کرتا تھا اور چاندنی راتوں میں دوستوں
کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔
گرم لحاف میں بیٹھے علی کو دنیا آباد کے آم پردیس میں ستایا کرتے تھے اور
وہ اکثر گوروں کو اپنے گاؤں کے آموں کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔ وہ اُدھر
ہی پلا بڑھا تھا اور پرائمری کے بعد باقی تعلیم کے لیے رسول پور جایا کرتا
تھا۔ سائپرس میں موجود غیر ملکیوں نے وہاں جرائم کی شرح میں کافی اضافہ کر
دیا تھا۔ وہاں کی گورنمنٹ نے غیر ملکیوں کو دھکے دے کر واپس نکالنا شروع کر
دیا تھا۔ علی کا ویزہ تین ماہ قبل ہی ختم ہو چکا تھا ور وہ وہاں غیر قانونی
طور پر مقیم تھا۔ ایک رات مقامی پولیس نے ان کے فلیٹ پر چھاپا مارا اور کئی
ایشیائی لڑکوں کو گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔ علی بھی ان نوجوانوں میں شامل
تھا جو اس رات پکڑے گئے تھے۔ پانچ دن کی سزا کے بعد تمام نوجوانون کو
سائپرس سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ وہ بھی واپس آگیا۔ ایئرپورٹ پر اترا تو اس
نے دیکھا کہ کئی نوجوانوں کے رشتہ دار انہیں لینے آئے ہیں اور گلے لگ کے ان
کا ماتھا چوم رہے ہیں۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک آئے کیونکہ اسے لینے کوئی
وہاں موجود نہ تھا۔ علی کے پاس سائپرس کی تین سالا کمائی موجود تھی۔ اس نے
ٹیکسی پکڑی اور دنیا آباد کی طرف جانے لگ گیا۔
راستے میں وہ پریشان تھا کہ وہ وہاں پہنچ کر کدھر جائے گا، پتہ نہیں ان کے
مکان میں کون رہائش پذیر ہوگا، مکان ہوگا بھی کہ نہیں، یہ وہ خیالات تھے جو
راستے میں اسے آتے رہے وہ انہی خیالات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ٹیکسی
ڈرائیور بولا:
’’صاحب جی کس ملک سے واپس آئے ہیں آپ؟‘‘
اس نے نہ سنا اور اپنے خیالوں میں مگن رہا۔
چند منٹ بعد ڈرائیور پھر سے بولا:
’’بابو لندن سے آئے ہو کہ امریکہ سے؟‘‘
اس نے کہا:
’’میں سائپرس سے آیا ہوں۔‘‘
’’جی کہاں سے؟‘‘
’’سائپرس سے۔‘‘
ڈرائیور بولا: ’’اُدھر بھی گورے ہوتے ہیں؟‘‘
’’جی اُدھر بھی وہ ہوتے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو گھر والوں سے ملنے آئے ہو؟
علی خاموش ہوگیا اور کچھ دیر بعد بولا: ’’جی انہیں سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
ڈرائیور بولا: ’’میرا بھی بڑا شوق تھا کہ میں باہر جاؤں پر غریبی لے ڈوبی
ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔
ایئر پورٹ کی حدود سے باہر نکلتے ساتھ ہی سرسبز فصلیں شروع ہوگئیں۔ علی نے
دروازے کا شیشہ نیچے کر لیاا ور ان کا نظارہ کرنے لگ گیا۔ ڈرائیور نے مہدی
حسن کے گانوں کی کیسٹ لگا دی پھر دونوں دنیا آباد تک مخصوص ہوتے گئے۔
جب ٹیکسی دنیا آباد پہنچی تو ڈرائیور نے کہا: ’’صاحب جی دنیا آباد آگیا ہے
کدھر اتاروں آپ کو؟‘‘
اس نے کہا: ’’پرانے قبرستان کے قریب کنویں کے پاس اتار دو۔‘‘
وہ بولا : ’’ٹھیک ہے صاحب۔‘‘
ٹیکسی والے نے علی کو اُدھر اتارا اور واپس مڑ گیا۔
علی کے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک بیگ تھا جو بہترین کمپنی کا معلوم پڑتا
تھا۔ لباس گوروں کے دیس والا تھا اور پاؤں میں کالے جوتے چمک رہے تھے۔ اس
نے بیگ کندھے پر اٹھا لیا اور گھر کی طرف چلنے لگا۔ جہاں بچپن گزارا ہو
وہاں کی گلیاں کبھی نہیں بھولتیں۔ وہ گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے مکان کے قریب
پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ مکان کی دیواریں خستہ حال ہوچکی ہیں اور دروازے
کا رنگ بھی مدھم ہوگیا ہے۔ دروازے پر تالا لگا ہے اور باہر ابھی تک اس کے
باپ کا نام درج ہے۔ وہ دروازے کے قریب گیا اور اسے کئی منٹ تک دیکھتا رہا۔
عظیم رسول پور سے واپس گھر آ رہا تھا۔ جب وہ علی کے دروازے کے قریب پہنچا
تو اس نے رفتار کم کر لی اور اس بابو کو دیکھنے لگ گیا۔
علی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک موٹر سائیکل والا اس کے پیچھے کھڑا تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر عظیم نے موٹر سائیکل کو کک لگائی تو علی
بولا:
’’بھائی صاحب ایک منٹ رکیے گا۔‘‘
’’اس نے موٹر سائیکل بند کر دی اور بولا: ’’تم علی ہو؟‘‘
وہ حیران ہوگیا اور کہا: ’’جی میں علی ہوں، پر آپ کو کیسے معلوم؟‘‘
’’بیٹا ہمیں تو پتا ہے تمہیں کچھ نہیں معلوم‘‘ وہ ساتھ ہی بولا:
’’کیا بنا تم باہر سے واپس آگئے؟‘‘
’’جی‘‘
’’آپ کا نام کیا ہے؟ تاکہ میں آپ کو اسی نام سے پکاروں‘‘
’’میں عظیم ہوں۔ جب تم چھوٹے تھے تو میری بیٹی صنوبر کے ساتھ کھیلا کرتے
تھے۔‘‘
علی نے بات کاٹی اور کہا: ’’جی جی بالکل مجھے یاد آگیا ہے۔‘‘
عظیم موٹر سائیکل کی چابی کو اپنی قمیض کی جیب میں ڈالتے سمے بولا:
’’چلو تمہیں کچھ تو یاد ہے۔‘‘
علی پاس گیا اور عظیم سے گلے ملا بعد میں دونوں وہاں کھڑے گھنٹوں باتیں
کرتے رہے۔ اس نے علی کو بتایا کہ اس کی ماں بیٹے کی یاد میں سسک سسک کر مری
ہے۔ یہ سنتے ہی علی کی آنکھوں میں سے آنسو اُمڈ آئے۔
پھر علی نے عظیم سے پوچھا: ’’یہ مکان ہمارا ہی ہے ناں؟‘‘
وہ بولا: ’’ہاں یہ تمہارا ہی ہے۔ میں نے ہی سائپرس تجھے فون کرکے اطلاع دی
تھی کہ تیری ماں چل بسی ہے، اور اس کے جانے کے بعد میں نے ہی اس گھر کو
تالا لگا دیا تھا۔‘‘
وہ بولا: ’’شکریہ آپ کا۔‘‘
پھر عظیم گھر واپس لوٹ آیا۔ گھر آکر اس نے اپنی بیوی کو علی کے متعلق بتایا
تو اگلے ہی روز اس کی بیوی نے اپنی دونوں بیٹیوں کو علی کے بارے میں بتا
دیا۔ صنوبر اور علی ایک دوسرے کے ساتھ پلے بڑھے تھے۔ بچپن میں صنوبر علی کو
خوب چاہتی تھی اور اسے کرکٹ کی دو باریاں دیا کرتی تھی جبکہ خود وہ ایک
باری پر اکتفا کرتی تھی۔ دونوں کنویں پر جا کر خوب کھیلا کرتے تھے۔
نیلم نے اپنی بہن سے کہاؒ: ’’باجی علی واپس آگیا ہے، اس کے آنے کا اب کیا
فائدہ، ماں باپ تو چلے گئے۔‘‘
وہ بولی : ’’آگیا ہوگا ماں باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے۔‘‘
’’باجی آپ نے مجھے بتایا تھا نہ کہ بچپن میں آپ دونوں خوب کھیلا کرتے
تھے؟‘‘
وہ بولی: ’’ہاں تو؟‘‘
’’تو اگر اب وہ آپ کو کسی دن ملا تو اب بھی؟‘‘
اس نے بہن کی بات کاٹی اور کہا: ’’جو منہ میں آتا ہے بول دیتی ہو، چلو نکلو
یہاں سے۔‘‘
علی نے گھر میں دوبارہ رنگ و روغن کرا دیا اور باپ کے نام کی تختی کو کالے
رنگ سے عیاں کروا دیا۔
اس نے اپنے ماں باپ کی قبروں پر سفید رنگ کا پتھر لگوایا اور ان پر خوبصورت
انداز سے درود و سلام لکھوا دیا۔ ایک روز وہ کنویں پر بیٹھا تھا کہ اس نے
دیکھا، عظیم کی پچھلی سیٹ پر ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی ہے اور اس کے سفید
پاؤں جوتے سے باہر دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور موٹر
سائیکل کے پیچھے بیٹھی حسینہ کو تکنے لگ گیا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ
صنوبر ہے، مگر صنوبر کو پتا نہ چلا۔ علی کو پیچھے بیٹھی لڑکی خوب ستانے
لگی۔ وہ چاہتا تو گاؤں کی کسی بھی لڑکی سے شادی کرسکتا تھا کیونکہ اسے پیسے
کی کوئی کمی نہ تھی۔
چند دنوں بعد وہ رسول پور میں واقع عظیم کی دکان پر چلا گیا اور کچھ سودا
خریدنے لگ گیا۔ باتوں باتوں میں عظیم نے خود ہی اس سے اُس کی شادی کے بارے
میں دریافت کیا۔ علی نے اسے بتایا کہ اس نے سائپرس میں کوئی شادی نہیں کی
تھی اور جلد ہی ادھر شادی کرنا چاہتا ہے۔
عظیم کو علی کے پیسے سے کچھ حد تک محبت تھی اور دوسرا وہ خوبصورت بھی تھا۔
اس نے اپنی بیوی کو علی کے بارے میں بتایا تو وہ بولی: ’’وہ اپنے ماں باپ
کی موت پے تو ادھر آیا نہیں، ہماری بچی کو کیا خاک سکھی رکھے گا۔‘‘
’’دیکھوں وہ اس کا ذاتی فعل تھا، اور تم مجھے بتاؤ پورے دنیا آباد میں کوئی
پڑھا لکھا نوجوان ہے تیری نظر میں؟‘‘
وہ بولی: ’’نہیں۔‘‘
’’توپھر؟‘‘
وہ چپ رہی اور اٹھ کر بڑے کمرے میں موجود باورچی خانے میں چلی گئی۔ صنوبر
کے دل میں بھی علی کے لیے الفت تھی اور وہ بچپن سے اسے پسند کرتی تھی۔ پر
اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ علی نے ادھر شادی کی ہے کہ نہیں۔ جب اسے اس بارے
میں جانکاری ہوئی تو اس نے بھی مہم تیز کر دی۔ نیلم دونوں کے درمیان خط و
کتابت کا ذریعہ بن گئی۔ جلد ہی دونوں دوبارہ ایک دوسرے کو کنویں پر ملنے لگ
گئے۔ پھر ایک دن صنوبر نے اپنی ماں کو علی سے شادی کے متعلق آگاہ کیا، جس
پے اس کی اماں اس سے ناراض ہوگئی۔
تھوڑے دن بعد علی، صنوبر کے کہنے پر ان کے گھر آٹپکا دروازہ کھٹکھٹایا تو
آوز آئی:
’’کون؟‘‘
وہ نہ بولا۔
پھر دوبارہ آواز آئی ’’کون ہے؟‘‘
اس نے کہا : ’’میں علی ہوں۔‘‘
صنوبر کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اس کی ماں نے دروازہ کھولا تو دیکھا،
سامنے دبلا پتلا نوجوان انگریزی لباس پہنے کھڑا تھا جس کے ایک ہاتھ میں
رومال تھا ور دوسرا ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا۔ بال مینار پاکستان کی طرح
اوپر کھڑے تھے اور بوٹوں پر پالش خوب چمک رہی تھی۔
’’تو تم ہو علی؟‘‘
’’اتنے بڑے ہوگئے ہو؟‘‘ آؤ اندر۔
وہ اندر چلا گیا۔ ’’اندر داخل ہوتے ہی اس نے دور کھڑی صنوبر کو دیکھا۔ جس
نے نیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگی تھی اور
ہاتھوں میں کانچ کی خوبصورت چوڑیاں موجود تھیں۔
صنوبر نے اسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے اندر دوڑ گئی۔ کچھ دیر بعد عظیم بھی
گھر آگیا اور پھر خوب باتیں ہوتی رہیں۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، صنوبر کی
ماں رشتے کے لیے مان گئی اور پھر چند دنوں بعد ان کی شادی ہوگئی۔ علی نے
صنوبر کو بہت محبت دی۔ دونوں ہر شام کنویں پر جایا کرتے تھے اور چاندنی
راتوں میں چھت پر چڑھ کر خوب باتیں کیا کرتے تھے۔ علی اسے سائپرس کے قصے
سنایا کرتا تھا۔ علی نے اپنی بیوی کی خواہش پر دنیا آباد میں ایک بہت بڑا
سکول تعمیر کروایا جس میں وہ خود ہی پرنسپل تھا۔ سکول اتنا چلا کہ رسول پور
سے لوگ دنیا آباد میں آنے لگ گئے۔ علی اپنی بیوی کو ہر سال سالانہ میلے میں
لے جا کر چوڑیاں چڑھایا کرتا تھا، اور سائپرس میں موجود اپنے گورے دوستوں
کو دنیا آباد کے آم پارسل کروایا کرتا تھا۔ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اسے
اپنے ماں باپ کی یاد خوب ستایا کرتی تھی۔ اور وہ ابھی بھی اپنے آپ کو اُن
کی موت کا مجرم سمجھتا تھا۔‘‘ |