کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا
خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہوگا دل لگانے کا
نیم تاریک کمرے میں ایک اداس سی آواز گونج رہی تھی اور وہ آنکھوں پر بازو
رکھے لیٹی ہوئی تھی کیا ہوا ایسے کیوں لیٹی ہو؟ ناصر نے ٹیپ ریکارڈر کا بٹن
آف کیا اور دروازا بھی کھول دیا -
کچھ نہیں سر درد کر رہا یے اسنے بے رخی سے جواب دے کر کروٹ بدل لی-
تمہارا سر درد تو کبھی ٹھیک ہوگا ہی نہیں مجھے شام کو کراچی جانا ہے میرے
کپڑے استری کر کے بیگ تیار کر دینا
وہ آرڈر جاری کر کے عجلت میں نکل گیاوہ تھا ہی ایسا پتھر دل جذبات سے عاری
انسان اور ایسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنا نگینہ جیسی لڑکی کے کے لیئے
ایسا ہی تھا جیسے کسی زندہ انسان کو قبر میں گاڑ دیا جائے وہ بچپن سے ہی
بہت حساس اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی وہ پھولوں کی دیوانی
تھی خوشبو اسکی کمزوری تھی مگر شادی کے بعد جیسے اسکے سارے خواب ٹوٹ گئے
تھے ناصر کی بے حسی نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا اسکی فطرت ہی ایسی تھی آدم
بے زار وہ اسکی پھوپھی کا بیٹا تھا اور انکی نسبت بچپن میں ہی طے ہو چکی
تھی اب انکی شادی کو 6 ماہ ہو چکے تھے مگر ابھی تک وہ دونو ایک دوسرے کے
لیئے اجنبی سے تھے مگر اب اسے ناصر کی کوئی پرواہ نہیں تھی اب تو وہ کسی
اور ہی دنیا کی باسی بن چکی تھی اب اسے کچھ یاد تھا تو وہ تھیں جمال کی
باتیں اسکی تعریفیں اسکی وارفتگیاں جمال انکے پڑوس میں رہتا تھا وہ ایک
آوارہ اور عیاش فطرت لڑکا تھا-
خوبصورت لڑکیوں کو اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر جھوٹی محبت کا کھیل
کھیلنا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھااور نگینہ کی خوبصورتی کی دھوم تو پورے گاؤں
میں تھی لمبا قد تیکھے نقوش شہابی رنگت کمر تک آتی ریشمی زلفیں بے شک اسکا
حسن سراہے جانے کے لائق تھامگر سراہنا تو دور کی بات ناصر نے کبھی اسے آنکھ
بھر کے دیکھا تک نہ تھا شادی کے بعد تین مہینوں میں ہی وہ کملا سی گئی تھی
ہر وقت بجھی بجھی اور اداس رہتی اور انہی اداسی کے دنوں میں ایک دن وہ چھت
پہ کھڑی بال سکھا رہی تھی جب اسکی نظر گھر کے پیچھے لگے اس باغ پہ پڑی- یہ
باغ جمال نے ہی لگایا تھا اسے بھی پھول پودے لگانے کا شوق تھا اس وقت بھی
وہ پودوں کو پانی دے رہا تھا -
سامنے کے پودوں کو پانی دیتے ہوئے وہ مڑا تو اسکی نظر چھت پہ کھڑی نگینہ سے
ٹکرائی وہ دیوار پر کہنی ٹکائے خاموشی سے اسے دیکھے جا رہی تھی اسکا دھلا
دھلایا اداس سا حسن ایک پل کے لئے جمال کو مبہوت سا کر گیااسنے مسکرا کر
نگینہ کی طرف ہاتھ ہلایا جوابن وہ بھی مسکرا دی-
جمال نے گلابوں کی کیاری سے ایک گلاب توڑا اور نگینہ کی طرف اچھال دیا جو
اسکے سر سے ٹکرا کر اسکے بالوں پہ بکھر گیا تو دونو کھلکھلا کر ہنس دیےپھر
دو مہینے تک یہ سلسلہ چلتا رہا وہ روز چھت پہ جاتی نیچے باغ میں جمال بھی
اسکا منتظر ہوتا وہ روز اسکی طرف گلاب کا پھول اور ایک خط بھی اچھالتا جس
میں نگینہ کے حسن کی بے انتہا تعریفیں اپنی دیوانگی اور محبت کا اطہار اور
باغ میں آکر اسے ملنے کی فرمائش بھی ہوتی
مگر وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی اکیلے اور اسے ڈر بھی لگتا تھا کہ کسی
نے دیکھ لیا تو اسے زندہ نہیں چھوڑینگے پھر ایک دن روز کی طرح وہ چھت پہ
آئی جمال نے اسکی طرف خط پھینکا وہ کھول کر پرھنے لگی
لعنت ہو تجھ پہ بے غیرت لڑکی شرم نہیں آئی یے سب کرتے ہوئے اسکی ساس نے
اسکے ہاتھ سے کاغذ جھپٹنے ہوئے کہا-
اسکی تو جان ہی نکل گئی انہیں دیکھ کر انہوں نے دیوار سے نیچے جھانکا جمال
اسی طرف دیکھ رہا تھا
انہیں دیکھتے ہی وہ کھسک لیا انہوں نے خونخوار نظروں سے بہو کی طرف دیکھا
کافی دنوں سے انہیں نگینہ کا رویہ کھٹکنے لگا تھا وہ اداس اور خاموش رہنے
والی نگینہ اداسی کے حصار سے نکل آئی تھی اور بات بے بات قہقہے لگانے لگی
تھی اور سب سے زیادہ جو بات انہیں پریشان کرتی وہ تھا نگینہ کا بار بار
بہانے سے چھت پہ بھاگے جانا سو اسی شک کے تحت وہ آج دبے پاؤں اسکے پیچھے
چلی آئیں تھیں چل دفع ہو نیچے انہوں نے اسے بالوں سے پکڑ کر دھکا دیا آج کے
بعد تو چھت کی طرف آئی تو ٹانگیں توڑ دونگی جانتی ہے اسکا انجام ناصر یا
گھر کا کوئی اور مرد دیکھ لیتا تو یہیں گولی مار کر اسی باغ میں دفن کر
دیتے تجھےانہوں نے سیڑھیوں والے دروازے کو تالا لگا دیا اور وہ کاغذ بھی
جلا دیا بھتیجی کی جان اور سب کی عزت بچانے کی خاطر وہ خاموش ہو گئیں اور
بات سنبھال لیا مگر نگینہ کو چین کہا تھا جب سے اسکے چھت پہ جانے پر پابندی
لگی تھی وہ کمرے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی آج پانچواں دن تھا اسے جمال کو
دیکھے ہوئے بن جل مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی وہ نہیں میں ایسے نہیں رھ سکتی
مجھے کچھ کرنا ہوگا مجھے ملنا ہے جمال سے بس پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے اس
نے فیصلہ کیا اور کمرے س باہر نکل آئی دوپہر کا وقت تھا سب گھر والے اپنے
کمروں میں سو رہے تھے وہ دبے پاؤں بیرونی گیٹ کی طرف بڑھی اور گیٹ کھول کر
چوکھٹ پار کر آئی سچ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے جس کی آنکھوں پر محبت نام
کی پٹی بندھ جائے اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا رسموں رواج اصول گناہ ثواب کچھ
نہیں جس کی سماعتیں محبوب کی آواز سننے کو بے قرار ہوں اسے کچھ اور سنائی
کہاں دے گا
اور جس کا دل عشق کی زنجیروں میں قید ہو جائے اسے زمانے کی بندشیں کہاں روک
سکتی ہیں بھلا وہ بھی ہر بندش توڑ کر اسے ملنے چلی آئی تھی-
وہ باغ میں داخل ہوئی تو وہ اسکا منتطر تھا مجھے یقین تھا نگینہ تم ضرور آؤ
گی میرا دل گواہی د رہا تھا کہ تم میری بات نہیں ٹالوگی اور دیکھو میرے دل
کی گواہی سچ ثابت ہوئی میری جان میرے سامنے ہے وہ اسے لفظوں کے جال میں
الجھانے لگااور وہ جو اتنا سب سوچ کے آئی تھی کہ آج جمال سے اپنے دل کی ہر
بات کہہ دے گی
کہ وہ اب اسکے بنا نہیں رھ سکتی بہت دور نکل آئی ہے وہ محبت کے سفر میں بہت
پیار کرنے لگی ہے وہ اسے
پر اب نہ الفاظ ساتھ دے رہے تھے نہ جذبات قابو میں آرہے تھے وہ بس سر
جھکائے آنسو بہاتی رہی
نہیں نگینہ ایسے مت رؤ خدا کے لئے میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں مگر
تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں
مجھے بس کچھ دن کی مہلت دو میں وعدہ کرتا ہوں میں لے جا٥نگا تمیں یہاں سے
بہت دور جہاں کوئی غم تمیں نہیں چھو سکے گا -
جمال نے اسکے آنسو اپنی پوروں پر چنتے ہوئے کہا اور اسے گلے لگا لیاجمال آج
پانچ دن کے بعد میں تمہیں دیکھ رہی ہوں اور یہ پانچ دن مہینے کتنی اذیت میں
گزارے ہیں یہ میرا دل جانتا ہے پتا ہے جمال جس دن میں تمہیں دیکھ نہیں پاتی
تھی اس دن کو میں اپنی زندگی میں شمار نہیں کرتی تھی مگر اب میں نے ،،
اسکی بات اسکے منہ میں رھ گئی
جمال نے اچانک اسے دھکا دے کر خود سے دور کیا
اس نے حیران ہو کر سر اٹھایا تو سانس لینا بھول گئی
اسکا شوہر اسکا مزاجی خدا اسکے سامنے کھڑا تھا
اسکی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا
مٹھیاں بھینچے وہ جیسے ضبط کی انتہاؤں پہ تھا
شعلہ بار نگاہوں سے انہیں گھور رہا تھااسنے کانپتے ہاتھوں سے جمال کا بازو
پکڑا اور اسکے پیچھے چھپنا چاہا
مگر جمال نے جیسے کرنٹ کھا کر اپنا بازو اسکے ہاتھوں سے چھڑایا اور باہر کی
طرف بھاگا وہ خالی خالی نظروں سے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھیاسکا محبوب وہ
محبت کا خدا اسے اسے چھوڑ کر جا چکا تھا
موت کو سامنے دیکھ کر وہ اپنے سارے وعدے سارے دعوے ساری محبت بھول گیا تھا-
اور وہ حیران سی کھڑی رھ گئی ہم نہ اس صف میں تھے نہ اس صف میں تھے رستے
میں کھڑے ان کو تکتے ہی رہے جو پیچھے مڑ کر دیکھا تو پھولوں کا رنگ جو کبھی
سرخ تھا اب زرد ہی زرد ہے اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا جہاں دل تھا کبھی
وہاں درد ہی درد ہے،، باغ سے گھر تاک وہ اسے گھسیٹتے ہوئے لایا تھا اسکے
جسم پر بے شمار خراشیں آئی تھیں مگر اسے ہوش کہاں تھا ان زخموں کا روح کے
زخموں کی شدت ہی اتنی گہری تھی وہ پتھرا سی گئی تھی کوئی اتنا بے حس کیسے
ہو سکتا ہے اتنا بڑا کھیل کیسے کھیل سکتا ہے کوئی ابھی تو وہ وعدے کر رہا
تھا اسکا ساتھ دینے کے اسکا ہر درد بانٹنے کے اتنا جھوٹ اتنا بڑا فریب کاش
میں اسکی باتوں میں نہ آتی اسے اب احساس ہو رہا تھا اپنی نادانی کا مگر اب
کیا ہو سکتا تھا وہ خود اپنے دامن پر اپنے ہاتھوں ایک بدنما داغ لگا چکی
تھی باپ بھائیوں کی عزت اپنے ہاتھوں خاک میں ملا چکی تھی اسکے شوہر نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا تھا اسے ایک غیر مرد کے ساتھ اسنے کوئی گناہ نہیں کیا تھا
مگر وہ گناہ گار تھی لوگوں کی نظر میں
کاری تھی وہ اپنے شوہر کی نظر میں اور غیرت کی عدالت میں ایک کاری کی سزا
صرف موت تھی گولی چلنے کی آواز سن کر سب اپنے کمروں سے باہر بھاگے یا الله
خیر عابدہ بیگم نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر کمرے کا دروازہ کھولا صحن کا
منظر دیکھ کر انکی سانس رک گئی وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہاتھ میں بندوق لئے
بیٹے اور صحن کے بیچ پڑی خون میں تر بہو کی لاش کو دیکھ رہی تھیں
یہ تونے کیا کر دیا ناصر
وہ سینے پر ہاتھ مار کر چیخیں
آس پڑوس کی عورتیں دیواروں پر چڑھ آئیں
اور پھر گھر میں جیسے کہرام مچ گیا
سارا گاؤں اس قیامت خیز منظر کو دیکھنے کے لئیے جمع ہو گیا صحن کے بیچ
نگینہ کاخوبصورت وجود عبرت کا نشان بنا پڑا تھا اور اسکا بے گناہ لہو زمانے
کی ہر لڑکی سے چیخ چیخ کر کھ رہا تھا کہ۔۔
زندگی کے سفر میں ہمیشہ محتاط رہنا
کبھی کوئی غلطی نہ کرنا
ورنہ ٹوٹ جاؤگی بکھر جاوگی
اور کوئی تمہیں سمیٹنے والا نہ ہوگا
عورت کو ہمیشی تنہا ہی جینا پڑتا ہے بنا کسی سہارے کے کوئی اسکا ہمدرد نہیں
ہوتا مردوں کے اس معشرے میں عورت کی حیصیت کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں اس
ظالم معشرے کا ہر مرد خود غرض ہے ٍریبی ہے انا پرست ہے کبھی اپنے قدموں کو
بھٹکنے نہ دینا ورنہ رسوائی تمہارا مقدر ٹھرے گی۔۔۔
سنو اے نادان لڑکیو
زمانے سے انجان لڑکیو
بھولے سے نہ کبھی پیار کرنا
نہ خواب سجانا آنکھوں میں
نہ دامن اپنا داغدار کرنا
راج ہے اس دیس پہ
زمانے کے خداوں کا
ہر شخص کی سماعتوں پر
چڑھا ہے خول اناؤں کا
کوئی نہ دے گا جواب تمہاری
درد بھری صداوں کا۔۔۔۔ |