کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے ہاں
بے حد خوبصورت لڑکے کا جنم ہوا تو بادشاہ کی ملکہ نے پوری ریاست کے کئی ماں
اور بچے کو اپنی حویلی میں بلا کر دعوت کی اور ایک انتہائی بد صورت لڑکے کی
ماں کو بلایا اور اپنا حسن بھر ا لڑکا سامنے کھڑا کر کے پوچھنے لگا کہ ’’
سچ سچ بتاؤ کہ ان میں سے کون خوب صورت زیادہ ہے‘‘ تو بد صورت لڑکے کی ماں
نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں اپنی رائے سناؤں یا دنیا کی؟ تو ملکہ نے کہا بے
شک تم اپنی رائے بتاؤ تو بدصورت لڑکے کی ماں نے اپنی بد صورت لڑکے کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے نظر میں دنیا کا سب سے خوبصورت لڑکا یہی ہے ۔
تو ملکہ کو بہت غصہ آیا مگر صبر و تحمل سے سوال پوچھا کہ ’’ تم جھوٹ کیوں
بول رہی ہو ‘‘ تو اس خاتون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ ملکہ حضور! آ پ
کے نظر میں آ پکا بیٹا بہت خوبصورت ویسے ہی میرے نظر میں میرا لڑکا بہت
خوبصورت ہے ‘‘
ماں تو اولاد کی بہت قدر کرتی ہے مگر افسوس سد افسوس کے کافی اولاد اپنی
ماں کی عزت و احترام نہیں کرتے بلکہ انھیں ازیتیں و تکالیف دیکر رسوا ہی
کرتے ہیں ۔ اپنی ماں پر جائز یا ناجائز اپنی بیوں و بچوں کو ترجیح دیتے ہیں
۔ کافی اولاد ہیں جو اپنی ماں کو خود پر بوجھ تصور کرتے ہیں۔
میں تیرے قدموں میں بھی نہ سر رکھ پایا ماں۔تیرے لفظوں کی چاشنی ہے کہ کان
اب تلک۔ سنتے ہیں وہی لوری جو بچپن میں سنایا ماںتیری دعاؤں کے صدقے بلائیں
جاتی رہیں۔ اس عبد نے کئی بار یوں آ زمایا ماں۔
سخت گرمی کے ایام میں 10گھنٹے کی مزدوری کے بعد ایک بیٹا اپنا یومیہ اجرت
لے کر گھر پہنچتا ہے تو چہرہ مٹی و پسینہ سے غرق ہوتا ہے اپنی بیوی کو
یومیہ 350 روپے تھماتے ہوئے دوپٹہ مانگ کر چہرہ صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے
تو بیوی فوراََپیچھے ہٹ کر ـ’’ نہیں جی! میرا دوپٹہ خراب ہوجائے گا دوسرا
کہیں سے بھی میلا لے لو ‘‘ جب ماں کے پاس جاتا ہے تود وپٹہ مانگتا ہو تو
ماں اپنا دوپٹہ کی طرف غور کرنے کے بعد بولتی ہے کہ ’’ بیٹا یہ دوپٹہ خراب
ہے میں تمھیں صاف دوپٹہ دیتی ہوں ‘‘ یہ ایک حقیقت المیہ ہے کہ انسان چاہے
کتنی بھی بے مراد، نا فرمان ، گستاغ اور بد نما ہو مگر ’’ ماں ‘‘ کے لئے
سونے سے قیمتی بلکہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
ما ں کی دُعا خا لی نہیں جاتی
اُ س کی بد دعا بھی ٹالی نہیں جا تی
برتن مانجھ کر بھی ماں
تین چار بچے پال ہی لیتی ہے
لیکن چار بچوں سے ایک ماں نہیں پالی جاتی
ماں ایک ایسی عظیم ہستی ہے۔ کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی رونے کی آواز سن
کر رات بھر جاگتی ہے ۔ اپنی نیند کی فکر ہی چھوڑ کر اپنے بچے کی سکون و
نیند کے لئے بے تاب ہوتی ہے ۔ ماں اپنا لقمہ منہ سے نکال کر اپنے بچو کو ہی
دیتی ہے ۔ ساری رات جاگ جاگ کر گزارا کرتی ہے ۔ نیند اپنی بھلا کر سلایا ہم
کو۔ آ نسو اپنے گرا کر ہنسایا ہم کو۔ درد کبھی نہ دینا اُن ہستیوں کو ۔اﷲ
نے ماں باپ بنا یا جن کو۔ بچے کی جوانی میں اپنی خوشیاں نظر انداز کر کے
بلکہ بے فکر ہو کے اپنے بچے کی خوشیوں کے لئے خدا کے سامنے گڑھ گڑھاتی ہے
اور اولاد کے ایسی قربانی دیتی ہے جس کی مثال ہی نہیں ملتی ہے ۔ زرا سا
بخار یا چوٹ ماں کے لئے بہت عزاب ہوتی ہے ۔ بچے کا کوئی مسئلہ بچے سے زیادہ
ماں کو فکر ہوتی ہے۔
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تا بش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ماں ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے اولاد پر کوئی آفت برداشت نہیں کرتی اس کی
ہمیشہ خواہش رہتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کی اولاد خوش اور آباد رہے
ماں زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کامینا رہے اور باپ ٹھو کروں سے بچانے
والا مضبوط سہارا ہے زرا سی چوٹ لگے تو آ نسو بہا دیتی ہے۔ سکون بھری گود
میں ہم کو سُلا دیتی ہے ۔ ہم کرتے ہیں خطا تو چٹکی میں بھلا دیتی ہے ۔ ہوتے
ہیں خفا ہم تو دنیا کو بھلا دیتی ہے ۔ مس گستاخی کرنا اس ’ ماں ‘ سے ۔جو
اپنے بچوں کی چاہ میں اپنا آپ بھلا دیتی ہے ۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں بہت سی ایسے مائیں در پدر ہیں جو اپنی
اولاد کی وجہ سے بھیک مانگ کر اپنا گزر و بسر کر رہے ہیں ۔ ہزاروں مائیں
ٹھوکریں کھا رہی ہیں ۔ کچھ ایسے بھی اولاد ہیں جو اپنی ترقی ، تعلیم ،
معاشرے میں نام و پہچان اور قد آور شخصیت بننے کی وجہ سے سادہ بے لوث
والدین کو اپنے اسٹیٹس (اپنے مقام یا اپنے برابر ) کے نہیں سمجھتے اور ان
کے ساتھ لڑائی جھگڑا کر کے ان کو بیگانہ بنا دیتے ہیں۔ یہ کسی رشتے دار کے
ہاں یا پھر سڑکوں پر ہی چلے جاتے ہیں اور بعد ازاں ان کی نعش ایدھی والوں
کے لئے باعث ثواب بن جاتی ہے ۔ انسان کتنا بھی قد آور شخصیت بن جائے مگر
ماں کے ساتھ ایسا کرنا جاہلت کا ثبوت دیتا ہے ۔
ہم پاکستانی غیر اسلامی تہذیب و تہوار تو بہت ہی خوب دھوم دھام سے مناتے
ہیں۔ جیسے ویلن ٹائن ڈے 14 فبروری کو ، اپریل فول یکم اپریل کو، کرسمس ڈے ۔
مجھے اعتراض ڈے منانے سے نہیں بلکہ ڈے منانے کے موقع پر ایسا سسٹم متارف
ہوتا ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے جیسا کہ ویلن ٹائن ڈے کو
منانے کا مطلب محبت کا اظہار کا دن یا محبت منا نے کا دن۔۔۔ لیکن ہمارے میں
معاشرے میں اس دن کو ناپاک عشق منانے کی نیت سے منا یا جاتا ہے ۔ اس سے بہت
سے نقصانات جنم لیتے ہیں ۔ مثلا غیر اخلاقی رسم، محبت کے نام پر دھوکہ ، یا
جعلی محبت کا رنگ دکھا کر لڑکیوں کے سے غیر اخلاقی حرکات پیش آتے ہیں جو کہ
بعد ازاں سوشل میڈیا پر بھی نظر آتے ہیں جو کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے
کا زریعہ ہے ۔ لیکن ایسے دن جو کہ کسی کام کے نہیں ہوتے ہیں منانا فضول
ہیں۔ اسی طرح 9مئی کو بھی ماؤں کا عالمی دن منا یا جاتا ہے ۔ لیکن 9مئی کو
غیر اخلاقی سر گرمی نہیں بنتی تو اس کو کوئی بھی نہیں مناتا ہے ۔ کسی کو
پتا تک نہیں کہ نو مئی کو ماں کا عالمی دن ہے کہ وہ اپنی ماں کے لئے کوئی
تحفہ جس سے وہ خوش ہوں لے جائے یا اپنی ماں کی کوئی پرانی خواہش پوری کرے
یا دیرانہ تکلیف دور کرے یا تو اپنے کو چند لمحات دیکر ماں کے پاؤں دبائے
اور دعا حاصل کرے۔ نہیں جی ! ایسی تو ہمت ہی نہیں پاکستانی قوم میں ۔۔
بحرحال اسلامی جمہوریہ پاکستان اس دن منانے کے بجائے قانون سازی کرے تو اس
سے کئی گناہ بہتر ہے اس طرح کہ اگر ایسا قانون نافذ کرے کہ اگر کوئی ماں
بازار میں، ہوٹل میں ،شاہراہ پر، دکانوں پر یا پبلک پلیس پر بھیک مانگتے
نظر آگئی تو اس کے بیٹے کو مجرم قرار دے کر سزا دی جائے گی۔ ایسی مائیں جو
اپنی اولاد سے تنگ و ان کی نافرمانی کا شکار ہیں ان کو انصاف فراہم کیا
جائے اور اولاد پر سختی پیدا کی جائے کہ اس نے اپنی ماں کی ہر خدمت کرنی ہے
۔ یا ایسے مائیں جو اولاد سے بیزار ہیں یا ان کے اولاد نافرمان ہیں یا
اولاد ہی نہیں تو حکومت پاکستان اُن کو پینشن عطا کرے اور ان کے لئے
اجتماعی رہائش کا بندو بست کرے اور تمام ضروریات پورا کرنے میں ان کا ہر
معاشی امداد کی جائے ۔ تاکہ ماں کا عزت و احترام پامال نہ ہو۔ ہمارے معاشرے
میں ’ماں ‘ کا احترام کرنے والوں کی فہرست تو بہت ہی چھوٹی محسوس ہوتی ہے ۔
اولاد بے فرمانی کے بجائے اپنے ماں کا فرما بردار بن کر اپنے لئے جنت
الفردوس کا راستہ ہموار کرسکتا ہے ۔ |