یہ دونوں اصطلاحیں عمو ماً
استعمال ہوتی ہیں لیکن ان دونوں کا فرق ہمیں صحیح طرح معلوم نہیں۔یہ تو ہم
جانتے ہیں کہ جتنا بڑا عہدہ ہوگا اتنی بڑی ذمہ داری ہوگی۔لیکن جتنا بڑا
عہدہ ہوتا ہے اتنا زیادہ گردن میں اکڑ پیدا ہو جاتی ہے۔تو جب یہ کیفیت پیدا
ہو جائے تو ذمہ داری میں وہ خوبیاں ختم ہو جاتی ہیں جو فطر تاً اﷲ نے انسان
کے اندر رکھی ہیں۔گردن کی اکڑ یہ بتاتی ہے کہ اس شخص کے اندر تکبر پیدا ہو
گیا ہے اور اﷲ کو تکبر با لکل پسند نہیں۔تکبر کرنے والا اپنے سے دوسروں کو
نیچ سمجھتا ہے۔اس کے ماتحت اس سے ڈرتے رہتے ہیں جو محنت سے کام کرے اس کی
قدر نہیں ہوتی جو اس کے آگے پیچھے لگا رہے چاہے کام ایک پائی کا نہ کرے وہ
اس کی نظروں میں پسندیدہ ہوتا ہے۔بڑے عہدہ والا اپنے سے چھوٹے عہدہ دار پر
رعب جھاڑتا رہتا ہے۔یہ عہدے انسان کو انسانیت سے دور لے جاتے ہیں۔لیکن سو
فیصد ،بڑا عہدہ رکھنے والے،برے نہیں ہوتے جن میں اﷲ کا خوف ہوتا ہے وہ گردن
اﷲ کے آگے جھکائے رکھتے ہیں اس لئے انکی گردن میں سریہ نہیں پڑا ہوتا ۔وہ
خلوص سے کام کرتے ہیں اور اپنی پوسٹ پر اتراتے نہیں ہیں۔اور نہ ماتحتوں پر
خواہ مخواہ کا رعب جھاڑتے ہیں نہ رشوت لیتے ہیں نہ چمچہ گیری پسند کرتے
ہیں۔محنتی لوگوں کی قدر کرتے ہیں۔میرٹ کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان انصاف
کرتے ہیں۔یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے عہدہ کو ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اپنے عہدہ
سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے۔اسلامی حکومت میں جب کوئی امیر المومنین بنایا
جاتا تو وہ اس ذمہ داری کو پھولوں کی سیج نہیں سمجھتا بلکہ کانٹوں کا تاج
سمجھتا ۔اور نہ کوئی کبھی خواہش کرتاکہ اسے کوئی گورنر یا امیر بنائے۔آج کے
دور میں دیکھیں لوگ اقتدار میں آنے کے لئے کتنے بے چین ہوتے ہیں۔یہ بڑے سے
بڑے عہدے کی لالچ ہی تو ہے جو انسان کو اس طرف راغب کرتی ہے اور اس سے ہر
طرح کی دھونس اور دھاندلی جنم لیتی ہے۔ووٹ خریدے جاتے ہیں۔دولت لٹائی جاتی
ہے۔پھر غلط طریقے سے اقتدار میں آجانے کے بعد کرپشن کا بازار گرم کیا
جاتاہے۔جعلی ڈگریاں حاصل کی جاتی ہیں۔اور جب ایسے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ
جاتے ہیں تو اسمبلی ایک مچھلی بازار بنا ہوتا ہے یا کوئی کلب اور قہبہ خانہ
نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ عوام کی بنائی اس اسمبلی میں وہ وہ ڈرامہ اسٹیج کئے
جاتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگ جائے۔ان اسمبلیوں میں چند شریف لوگ بھی
پہنچ جاتے ہیں لیکن انکی آواز کون سنتا ہے۔جہاں پر اکثریت غلط لوگوں کی ہو
جو اپنی دولت میں مگن ہوں۔حرام حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہوں۔جرائم پر
خاموش،ناجائز فوائد حاصل کرنے کے لئے ہر وقت تیار یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے
عہدے سے کبھی کسی دکھی انسان کو فائدہ تو درکنار اسے اس کا جائز حق تک نہیں
دلوا سکتے۔کسی شخص کا جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اتنا زیادہ وہ کرپٹ بننے کی
کوشش کرتا ہے پھر ان کی اولادیں اپنے باپ کے عہدہ کی آڑ میں ایسی ایسی
گھناؤ نی حرکتیں کرتی ہیں کہ سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہ ساری خرابیاں اس
لئے جنم لے رہی ہیں کہ ذمہ داری کو عہدہ سمجھ لیا گیا ہے۔ہم یہ بھول جاتے
ہیں کہ جتنے زیادہ لوگوں کے ہم راعی ہونگے اتنا زیادہ ہم سے اپنی رعیت کے
بارے میں پوچھا جائے گا۔تم نے اپنے ماتحتوں کے حقوق کا کتنا خیال رکھا۔ان
سے کام لینے میں زیادتی کی یا نرمی کا سلوک کیا۔ان کا جائز حق ان کو دیا یا
ان سے وہ کام کرواتے رہے جو اﷲ کو ناپسند ہیں اور جن سے انسان کی عاقبت
خراب ہو جاتی ہے۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ جس کا جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اتنی
بڑی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔جو گھر کا سربراہ ہے اس کی ذمہ داری پورے
خاندان کی ہے ۔جو کسی ادارہ کا افسر ہے اس کی ذمہ داری اس کے تمام ماتحتوں
کی ہے۔جو کسی ضلع کا عہدہ دار ہے اس کی ذمہ داری پورے ضلع کے اس کے ماتحتوں
کی ہے ۔جو کسی صوبہ کا گورنر یا وزیر اعلیٰ ہے اس کی ذمہ داری پورے صوبہ کے
حالات کی ہے ۔اور اس ذمہ داری کے بارے میں اﷲ بھی اس سے پوچھے گا یہ کوئی
دنیاوی معاملہ نہیں ہے کہ جو سیاہ و سفید وہ کرتا رہے اس سے کوئی پوچھنے
والا نہیں۔یہ سوچ انسان کو دھوکے میں ڈالنے والی ہے کہ دنیا کا معاملہ دنیا
میں رہ جانا ہے۔انسان کا ایک ایک عمل وہ اچھا ہو یا برا قیامت کے دن اس کے
سامنے رکھ دیا جائے گا۔پھر میزان قائم ہوگا جس کے اچھے کام، برے کاموں پر
ہاوی ہو گئے اور وہ اﷲ اور اس کے پیغمروں پر یقین رکھتا ہو تو وہ جہنم کی
آگ سے بچا لیا جائے گا۔اور جس کے برے کام اچھے کاموں پر بھاری ہو گئے خواہ
وہ اﷲ اور اس کے پیغمبروں کا ماننے والا ہو وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔اس
لئے ہمیں دنیا کے کام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔عبادات کے ساتھ ساتھ
حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔کیونکہ اﷲ اپنے حقوق میں کمی تو معاف
کر سکتا ہے لیکن بندوں کے جو بندوں پر حقوق ہیں وہ نہیں معاف کرے گا ۔اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ غریب لوگ جو دوسروں کے ماتحت ہوتے ہیں ان پر زیادتی تو
ہوتی ہے لیکن وہ سوائے اپنے گھر والوں کے کسی پر زیادتی کم ہی کرتے ہیں اس
لئے اگر ان کا اﷲ اور اس کے پیارے پیغبر ﷺ پر ایمان ہے تو زیادہ تعداد
چھوٹے اور غریب لوگوں کی جنت میں جائے گی (انشا اﷲ)کیونکہ انھوں نے دوسروں
کے حقوق کم مارے ہونگے۔اس لئے اﷲ سے دعا کرنی چاہئے کہ اگر وہ دنیا کی کوئی
بڑی ذمہ داری دے تو ساتھ میں ایمان کی دولت بھی عطا فرمائے(آمین)اور دنیاوی
لحاظ سے کسی بڑے عہدے کی طلب صرف اس صورت میں ہو جب بندہ اﷲ کا خوف دل میں
رکھتا ہو اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کا تہیہ کئے ہو۔ بانی ء جماعت اسلامی
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒنے ایک بڑی اچھی بات کہی تھی کہ کوئی بھی
ذمہ دار اپنے ماتحتوں کو حکم نہیں دیگا بلکہ گزارش کرے گا اور اس کے
ماتحت(کارکن)اس کی بات کو حکم سمجھ کر عمل کریں گے۔یہ ہے طریقہ بڑے عہدیدار
کا اپنے کارکنوں سے کام لینے کا۔ اﷲ مسلمانوں کے معاشرہ کو ایسا بنا دے کہ
زیادہ مسلمان جہنم کی آگ سے بچ سکیں اور خصوصاً پاکستان میں نیک اور صالح
لوگوں کو اقتدار عطا فر مادے جو اﷲ کی زمین پر اسلامی نظام قائم کر دیں
تاکہ ہمارے ملک سے تمام خرافات ختم کی جاسکیں(آمین) سکیں۔(آمین)۔ |