رجب کے اعمال سنت یا بدعت

محترم ساتھیو ،السلام علیکم

رجب کی آمد ہو گئی ہے اور مسلمانوں میں اس حوالے سے بیان کیے جانے والے اعمال اور فضائل کے بارے میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس میں سب سے اہم کردار ان خطیب اور واعظین کا ہے جو اس بارے میں من گھڑت اور ضعیف روایات کو بغیر تحقیق اور تصدیق کے بیان کرتے ہیں جس کی بنا پر ایک سنت سے محبت رکھنے والا مسلمان ان اعمال اور افعال کو سنت سمجھ کر ان پر عمل کرکے ثواب کی امید رکھتا ہے جبکہ ان اعمال اور افعال کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ اعمال اور اس بارے میں بیان ہونے والے فضائل سے متعلق تمام روایات ضعیف اور من گھڑت ہیں اور اس ماہ مقدس میں کسی بھی مخصوص اعمال کی کوئی دلیل سنت سے ثابت نہیں ہے جو روایات ان مخصوص اعمال کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں وہ سب ضعیف ،من گھڑت اور بے اعتبار ہیں جن کی بنا پر ان مخصوص افعال اور اعمال کو سنت کا درجہ کسی طور نہیں دیا جا سکتا ہے اپنے اس مدعا کو اپ گوش گزا ر کرنے کے بعد اب ہم ان روایات کو بترتیب اپ کے سامنے پیش کر رہے ہے اور اس کے ضعیف اور من گھڑت ہونے کے دلائل بھی اپ کے سامنے رکھیں گے .وتوفیقی باللہ

رجب کے روزوں سے متعلق روایات

اس حوالے سے جو سب سے پہلے روایت پیش کی جاتی ہے وہ یہ کی جاتی ہے .
(١) رجب شهر الله ، وشعبان شهري ، ورمضان شهر أمتي
رجب الله کا شعبان میرا اور رمضان میرے امتی کا مہینہ ہے
یہ روایت ضعیف ہے اس کو امام جوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں نقل کیا ہے اور فرماتے ہے هذا حديث موضوع) یہ حدیث من گھڑت ہے . اور یہی الفاظ ایک طویل روایت میں بھی نقل ہوئے ہیں جس کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں (رقم ٣٨١٣) میں نقل کیا ہے اور اس کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا قول نقل کرتے ہیں "قال الإمام أحمد : هذا إسناد منكر"یہ سند منکر ہے " اور اس کی ایک سند کو علامہ البانی نے بھی نقل کر کے ضعیف قرار دیا ہے ( سلسلہ الضعیفہ رقم (٤٤٠٠)

چنانچہ یہ حدیث اعتبار کے قبل نہیں ہے کیونکہ اس روایت کی تمام اسناد ضعیف اور من گھڑت ہیں اس کی شعب الایمان والی سند میں دو راوی یزید الرقاشی اور زید المعی ضعیف ہیں ابن حجر نے ان کے بارے میں نقل کیا ہے یہ دونوں ضعیف ہیں
يزيد بن أبان الرقاشي بتخفيف القاف ثم غدا أبو عمرو البصري القاص بتشديد المهملة زاهد ضعيف من الخامسة مات قبل العشرين / بخ ت ق.
تقریب التہذیب

2137 - زيد بن الحواري أبو الحواري العمي البصري قاضي هراة يقال اسم أبيه مرة ضعيف من الخامسة
تقریب التہذیب
جس سند کو البانی صاحب نے نقل کیا ہے اس میں ایک راوی قران بن تمام ہے جس نے یونس سے روایت کی ہے جبکہ یونس اس کے روایت والوں میں موجود نہیں ہے(دیکھئے تہذیب الکمال ) اس وجہ سے اس روایت میں ارسال ہے یعنی کوئی راوی درمیان سے حذف ہے (حدیث کی اصطلاح میں ایسی روایت میں ارسال مانا جاتا ہے ) اور میری بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ البانی صاحب اس روایت کو نقل کرکے لکھتے ہیں " هذا إسناد ضعيف لإرساله
وقران بن تمام ؛ صدوق ربما أخطأ . " اس کی سند ارسال کے سبب ضعیف ہے اور قران بن تمام سچا ہے مگر کبھی اپنی روایت میں غلطی کرتا ہے "
اس روایت کے تمام طرق و اسناد ضعیف اور من گھڑت ہیں یہ اعتبار کے قبل نہیں ہے .

(٢) إن الدعاء يستجاب في خمس ليال في ليلة الجمعة و ليلة الأضحى و ليلة الفطر و أول ليلة من رجب و ليلة النصف من شعبان (شعب الایمان رقم ٣٧١١)
پانچ راتیں ایسی ہے جن میں دعا قبول ہوتی ہے (١) جمعہ کی رات (٢) عید الفطر اورعید الأضحى کی رات رجب پہلی رات اور شعبان کی نصف رات .
یہ روایت بھی ضعیف ہے اس میں امام شافعی فرماتے ہے بلغنا (ہم کو پہنچا )تو اس روایت کی پوری سند محذوف ہے اور جو سند موجود ہے جس کی سند میں امام شافعی رحمہ الله موجود ہیں اس میں رجب کا تذکرہ سرے سے ہے ہی نہیں اور دوسری بات اس کی سند میں خالد بن معدان کا ابو درداء رضی الله عنھ سے سماع ثابت نہیں ہے چنانچہ امام احمد فرماتے ہے "قال أحمد بن حنبل لم يسمع من أبي الدرداء"( جامع التحصیل احکام مراسیل ) اور دوسری سند میں جس میں"يستجاب" کے بجائے"لا يرد"(یعنی نہیں رد ہوتی دعا ) کے الفاظ ہیں اور اس میں ایک راوی "بن البیمانی" ہے جس کا پورا نامعبد الرحمن بن البيلماني اوریہ ضعیف ہے ابن ہجر نے اس کو ضعیف نقل کیا ہے
عبد الرحمن بن البيلماني مولى عمر مدني نزل حران ضعيف من الثالثة(تقریب التہذیب )
یہ روایت بھی ضعیف ہے اس کا بھی اعتبار نہیں ہے .

(٣) إن في الجنة نهرا يقال له رجب أشد بياضا من اللبن و أحلى من العسل من صام من رجب يوما سقاه الله من ذلك النهر
جنت میں ایک نہر دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہو گی جس کا نام رجب ہے جو رجب کا روزہ رکھے گا الله اس کو اس نہر میں سے پلاے گا .
یہ حدیث من گھڑت ہے اس میں ایک راوی منصور بن یزید ہے
اس کی اس روایت کو امام ذھبی اور ابن ہجر نے اس راوی کے ترجمہ میں
نقل کر کے من گھڑت کہا ہے .

منصور بن يزيد . حدث عنه محمد بن المغيرة في فضل رجب . لا يعرف ، والخبر باطل ،
منصور بن یزید سے محمد بن المغيرہ سے فضل رجب میں یہ جانا نہیں جاتا اور اس سے باطل خبر نقل ہوئی ہے . (میزان اعتدال ترجمہ 8797)
پھر یہ حدیث نقل کی ہے اور اسی طرح حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں نقل کیا ہے .
یہ حدیث من گھڑت ہے اور اس سے استفادہ جائز نہیں ہے .

5413 - ( رجب شهر عظيم ، يضاعف الله فيه الحسنات ؛ فمن صام يوماً من رجب ؛ فكأنما صام سنة ، ومن صام منه سبعة أيام ؛ غلقت عنه سبعة أبواب جهنم ، ومن صام منه ثمانية أيام ؛ فتحت له ثمانية أبواب الجنة ، ومن صام منه عشرة أيام ؛ لم يسأل الله شيئاً إلا أعطاه إياه ، ومن صام منه خمسة عشر يوماً ؛ نادى مناد في السماء : قد غفر لك ما مضى ، فاستأنف العمل ، ومن زاد ؛ زاده الله عز وجل . وفي رجب حمل الله نوحاً في السفينة ، فصام رجب ، وأمر من معه أن يصوموا ؛
ترجمہ : رجب عظیم مہینہ ہے الله اس میں نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے جس نے رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا اس نے پورے سال کا روزہ رکھا جس نے سات دن کے روزے رکھے تو الله اس پر جہنم کے سات دروازے بند کردے گا جس نے اس میں آٹھ دن کے روزے رکھے تو اس کے لئے جنت کے آٹھ دروازے کھول دے جائیں گے اور جو دس دن کے روزے رکھے گا تو الله اس کو جو مانگے گا عطا کرے گا اور جو ١٥دن کے روزے رکھے گا تو ایک منادی دینے والا آسمان سےکہے گا الله نے تجھے معاف کر دیا اب دوبارہ شروع کر عمل کرنا اور جو اس سے زیادہ کرے گا تو الله اس کو زیادہ عطا کرے گا رجب میں نوح علیہ السلام نے رجب کا روزہ رکھا جب الله نے نوح علیہ السلام کو کشتی میں بیٹھنے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اپنے ساتھ لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا .
یہ حدیث من گھڑت ہے اس کی سند میں عثمان بن مطر ضعیف ہے چنانچہ ابن ہجر نے اس کو ضعیف کہا ہے
عثمان بن مطر الشيباني أبو الفضل أو أبو علي البصري ويقال اسم أبيه عبد الله ضعيف(تقریب التہذیب )
اس کی تفصیل کے لئے( سلسلہ الضعیفہ رقم ٥٤١٣) دیکھئے .

رجب میں روزے رکھنے کی فضیلت کے بارے میں تمام روایات ضعیف یا من گھڑت ہیں ہم نے فقط طوالت کے خوف سے تمام کو جمع نہیں کیا ہے صاحب شوق ابن جوزی کی کتاب الموضوعات کا مطالعہ کر سکتا ہے جس میں انھوں نے رجب کے روزوں کے حوالے سے تمام روایات کو جمع کیا ہے چنانچہ رجب کے روزوں کے حوالے سے فضائل میں بیان کی گئی تمام روایات ضعیف اور من گھڑت ہیں جو کسی طور بھی قبل قبول نہیں ہیں اور اس بنا پر اس کو سنت ماننا دین میں اختراع کی سوا اور کچھ نہیں ہے .

رجب کی مخصوص نمازیں
رجب میں پڑھی جانے والی مخصوص نماز جو الصلاه الرغائب کے نام سے معروف ہے اس کی کوئی حثیت نہیں ہے اور نہ یہ سنت سے ثابت شدہ کوئی عمل ہے اس بارے میں جتنی روایات نقل کی جاتی ہیں وہ سب من گھڑت ہیں یہاں تک کہ آئمہ سلف اس کو قبیح ترین بدعت شمار کرتے ہیں .
چنانچہ ابن رجب الحنبلی فرماتے ہیں :
ومن أحكام رجب ما ورد فيه من الصلاة والزكاة والصيام والإعتمار فأما الصلاة فلم يصح في شهر رجب صلاة مخصوصة تختص به والأحاديث المروية في فضل صلاة الرغائب في أول ليلة جمعة من شهر رجب كذب وباطل لا تصح وهذه الصلاة بدعة عند جمهور العلماء
لطائف المعارف ص ١٠٢
رجب میں نماز ،زکوہ، روزے ،حج کے جو احکام بتائے جاتے ہے پس اس(مہینہ ) میں مخصوص نماز صحیح نہیں جو احادیث میں فضل صلاة الرغائب کے نام سے رجب کے مہینہ میں پہلی جمعرات کو پڑھی جاتی ہے یہ کذب اور باطل ہے اور یہ صحیح نہیں اور یہ نماز جمہور آئمہ کے نزدیک بدعت ہے .
اور اسی پیرا میں اگے رقمطراز ہیں :
إنما لم يذكرها المتقدمون لأنها أحدثت بعدهم وأول ما ظهرت بعد الأربعمائة فلذلك لم يعرفها المتقدمون ولم يتكلموا فيها وأما الصيام فلم يصح في فضل صوم رجب بخصوصه شيء عن النبي ولا عن أصحابه.(حوالہ ایضا )
اس کا مقدمین (کے دور ) میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے یہ ان کے بعد وجود میں آئی ہے اس کا ظہور ٤٠٠ سال بعد ہوا ہے اور مقدمین اس کو نہ پہچانتے تھے اور اس میں جو روزے ہیں جو فضائل رجب کے روزے کے حوالے سے مخصوص ہیں ان میں سے کچھ بھی نہ نبی صلی الله علیہ وسلم اور اصحاب سے ثابت نہیں ہے .
چنانچہ رجب کی مخصوص نماز کے بارے میں جتنی روایات ملتی ہے سب من گھڑت ہیں ابن جوزی رحمہ اللہ نے الموضوعات میں نقل کیا ہے .

حصول بحث :

رجب میں کسی بھی مخصوص عبادت کا ثبوت نہ سنت سے ثابت ہے اور نہ روزے کے حوالے سے کوئی مخصوص فضیلت نبی صلی الله علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت ہے جبکہ اگر ہم صحابہ کرام رضی الله عنھم کے طریق کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے وہ اس ماہ میں کسی مخصوص عبادت اس کی تعظیم کا اہتمام نہ کرتے تھے ماسواۓ اس کے کہ یہ ایک حرمت والا مہینہ ہے چنانچہ عمر رضی الله عنھ سے ایک اثر سند صحیح سے منقول ہے
كلوا فإنما هو شهر كانت تعظمه الجاهلية
کھاؤ: اس مہینہ کی ایسی تعظیم جاہلیت کا شیوه ہے .
:
اس روایت سے یہی ثابت ہےاس ماہ کی ایسی تعظیم جیسے ایام جاہلیہ میں ان روزوں کی جاتی تھی جو اس وقت رکھے جاتے تھے عمر رضی الله عنھ اسی چیز کی ممانعت فرما رہے ہے وگرنہ اگر کوئی اپنے معمول کے روزے رکھتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے ہر پیر اور جعمرات کے روزے ایام بیض کے روزے یا صوم داؤدی کہا جاتا ہے جس میں ہر دوسرے دن کا روزہ رکھا جاتا ہے باقی کسی بھی قسم کے روزے جو خاص اس ماہ کی تعظیم اور فضیلت سمجھ کے رکھے جائیں وہ سنت سے ثابت نہیں ہیں الله ہم سب کو سنت کا متبع بنائے اور بدعات سے محفوظ رکھے . آمین

tariq mehmood
About the Author: tariq mehmood Read More Articles by tariq mehmood: 13 Articles with 38829 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.