گاؤں کے نمبردار کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر رحمت تیلی
کا چھوٹا سا مکان تھا۔ اس کے تین بیٹے عمر، سلیم اور حمزہ تھے۔ عمر سب سے
بڑا تھا جو باپ کے ساتھ اپنی فصلوں پر اس کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔ سلیم اور
حمزہ گھر میں ماں کے پاس رہتے اور اپنے ابا کے آنے تک ماں کو خوب تنگ کرتے۔
رحمت تیلی کی بیٹی آمنہ عمر سے چھوٹی جبکہ سلیم اور حمزہ سے بڑی تھی۔ وہ
خوبصورتی میں کمال تھی۔ جھیل سی گہری اور خوبصورت آنکھیں اس کے حسن و جمال
کی عکاس تھیں۔ وہ گھر میں ماں کے ساتھ سارا کام کرواتی۔ کھانا پکاتی، برتن
دھوتی، گھر کی صفائی کرتی اور گھر کے پاس لگے نلکے سے پانی بھر لایا کرتی۔
رحمت تیلی چاول کی فصل کے بعد اب زمین کو گندم کی فصل کی تیاری کے لیے
ٹریکٹر پر روز صبح کھیتوں میں جاتا، عمر بھی والد کے ساتھ ہوتا۔ دوپہر ہوتے
ہی ماں سلیم کو عمر اور اس کے باپ کے لیے کھانا باندھ دیتی اور وہ پیدل
کھانا لے کر فصلوں کی طرف روانہ ہو جاتا۔ یوں ان کی زندگی رواں دواں تھی
پھر اچانک ان کی زندگی میں موڑ آگیا۔ ایک روز عمر کھیتوں سے واپس گھر آتے
ہوئے نمبردار کی گاڑی کی ٹکر سے جان بحق ہوگیا اور ان کے پورے گھر میں
ویرانی سی پھیل گئی۔ عمر بہن کا لاڈلا بھائی تھا۔ وہ آپس میں خوب لڑتے اور
کچھ ہی لمحوں بعد بولنے لگتے تھے۔ اُس کی وجہ سے پورا گھر چمکنے لگتا تھا۔
خاندان بھر کی یہ چہکار اُس کی موت کے ساتھ ہی رخصت ہوگئی۔ ماں عمر کی
جدائی میں سارا دن زارو قطار روتی اور آمنہ کے روکنے کے باوجود روز عمر کی
قبر پر جاتی تھی۔ وہ اس کی قبر پر جا کر پھول چڑھاتی، فاتحہ خوانی کرتی اور
گھنٹوں اس کے قبر کے سرہانے بیٹھی رہتی تھی۔ رحمت تیلی مُدتوں سے نمبردار
کے گھر کے قریب رہائش پذیر تھا۔ عمر کے ایکسیڈنٹ کے بعد بہت سے لوگوں نے
اسے اکسایا کہ نمبردار کے خلاف ایف آئی آر درج کرواؤ تاکہ اسے سزا ملے۔ مگر
رحمت تیلی جانتا تھا کہ ایس ایچ او نمبردار کی مرضی سے گاؤں میں لگایا گیا
ہے اور وہ اس کی مرضی کے بنا کچھ نہیں کرے گا۔ لوگوں کے اصرار کے باوجود
رحمت تیلی نے مقدمہ درج نہ کروایا۔ شاید وہ عدالتوں کے چکر نہیں لگانا
چاہتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ نمبردار اس کے خلاف ہو جائے، اور اس کا
گاؤں میں رہنا بھی اجیرن ہو جائے۔ چنانچہ اس نے ہر طرح کی کارروائی سے گریز
کیا۔ اب رحمت تیلی کے دو چھوٹے بیٹے سلیم اور حمزہ اس قابل نہیں تھے کہ باپ
کے ساتھ کھیتوں میں جا کر اس کی مدد کرسکتے یا ٹریکٹر چلا کر کھیتوں کو نرم
کرسکتے۔ وہ خود ہی روز کھیتوں میں جاتا اور شام کو واپس گھر لوٹ آتا۔ آمنہ
ذمہ داری کے ساتھ گھر کے سارے کام کرتی اور روزانہ نلکے سے پانی بھر کر گھر
لے آتی۔ نمبردار کا بیٹا شاہ رخ ایک عیاش نوجوان تھا جس کے ہمراہ دو
بندوقوں والے ہوتے تھے اور وہ سارا دن بدمعاشوں کی طرح جیپ پر گھومتے رہتے
تھے۔ شاہ رخ باپ کا لاڈلا ہونے کے ساتھ ساتھ نمبردار کا بیٹا بھی تھا سو وہ
جہاں سے گزرتا لوگ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی سلام کرتے۔ کچھ د ن پہلے قریبی
گاؤں میں ایک ڈکیتی ہوئی تو تحقیق کے بعد شاہ رخ کا نام سامنے آیا مگر
پولیس نمبردار کا بیٹا ہونے کی وجہ سے کوئی کارروائی نہ کرسکی۔
رحمت تیلی کی بیوی آمنہ کی شادی اور جہیز کے لیے کافی پریشان رہتی تھی اس
نے چند برس پہلے آمنہ کے جہیز کی تیاری شروع کر دی تھی مگر ابھی تک کوئی
نوجوان اسے پسند نہ آیا تھا۔ آمنہ ایک شریف اور سادہ دیہاتی لڑکی تھی جس کی
اپنی پسند میں کوئی لڑکا نہ تھا۔ وہ گھر والوں کی مرضی سے کسی بھی جگہ شادی
کے لیے تیار تھی۔ شاہ رخ گاؤں میں ناصرف لڑکیوں کو تنگ کرتا بلکہ ان پر
جملے بھی کستا، آمنہ کو بھی کئی مہینوں سے اسی پریشانی کا سامنا تھا۔ وہ جب
پانی لینے نلکے تک جاتی شاہ رخ اپنے غنڈوں کے ہمراہ ادھر پہنچ جاتا۔ پہلے
پہل تو آمنہ برداشت کرتی رہی اور اپنے ماں باپ کو شاہ رخ کے متعلق بتانے سے
ڈرتی رہی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا باپ اور شاہ رخ آپس میں الجھیں، اسے
اس بات کا علم بھی تھا کہ ان میں لڑنے کی طاقت نہیں، پس وہ رحمت تیلی کو
پریشان نہ کرنے کے ڈر سے شاہ رخ کو کئی مہینے برداشت کرتی رہی۔ مگر آمنہ
اپنی ماں کو نمبردار کے بیٹے کے متعلق بتانے پر تب مجبور ہوئی جب شاہ رخ اس
کا دوپٹہ کھینچنے لگا اور اس کا ہاتھ پکڑنے لگا۔ اس ساری کیفیت کو جاننے کے
بعد آمنہ کی ماں نے اسے نلکے سے پانی لانے سے روک دیا لیکن رحمت کو اس
حوالے سے کچھ نہ بتایا۔ اب وہ خود ہی پانی بھرنے روز نلکے پر جاتی اور شاہ
رخ کو ادھر کھڑے پا کر ناصرف اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی بلکہ گھر والوں کا
حال چال بھی دریافت کرتی۔ پھر ایک دن شاہ رخ ان کے گھر کے دروازے کے باہر
آن پہنچا اور اپنے ساتھی غنڈوں کو دروازہ کھٹکھٹانے کا کہا۔ ساتھیوں نے حکم
کی تعمیل کی۔ اتفاقاً آمنہ نے دروازہ کھولا تو سامنے شاہ رخ کو کھڑے پا کر
دروازہ کھلا چھوڑتے ہوئے اندر بھاگ دوڑی۔ شاہ رخ اسے دیکھ کر مسکرایا اور
اپنے ساتھیوں کو باہر رکنے کا کہا۔ وہ خود گھر کے اندر چلا گیا۔ پہلے تو
آمنہ کی ماں شاہ رخ کو اندر دیکھ کر چونک گئی اور پھر تیزی سے بولی: ’’شاہ
رخ تم‘‘ آؤ بیٹا اندر آ جاؤں۔‘‘ شاہ رخ نے سفید رنگ کی شلوار قمیض پہنی
ہوئی تھی جس کے گلے پر ملتانی کڑھائی ہاتھ سے کی گئی تھی۔ پاؤں میں تلے
والا کھسہ تھا جس کی نوک اوپر کی جانب نکلی ہوئی تھی۔ بائیں ہاتھ میں ایک
خوبصورت گھڑی کلائی میں اچھل کود کر رہی تھی۔ وہ اندر آگیا۔
آمنہ کی ماں بولی : ’’بیٹھیں نمبردار صاحب‘‘ شاہ رخ ایک پرانی سی چارپائی
جو باہر صحن میں پڑی تھی اس پر بیٹھ گیا اور آمنہ کی ماں اس کے سامنے ایک
چھوٹے سے موڑھے پر بیٹھ گئی۔ بیٹھتے ساتھ ہی وہ بولی:
’’آمنہ بیٹا نمبردار صاحب کے لیے چائے لاؤ۔‘‘ کچھ دیر بعد آمنہ نہ چاہتے
ہوئے کمرے سے باہر آئی۔ سفید ہاتھوں میں چائے کی پیالی تھامے شاہ رخ کی
چارپائی کی جانب آنے لگی، پاس آ کر اس نے چائے کی پیالی اس چارپائی پر رکھ
دی جہاں شاہ رخ بیٹھا تھا اور وہ واپس کمرے کی جانب روانہ ہوگئی۔ شاہ رخ اس
کے اندر جانے تک اُسے پیچھے سے دیکھتا رہا اور آخر نظریں چائے کی پیالی کی
طرف مرکوز کر لیں کچھ دیر بعد وہ بولا :’’رحمت کہاں ہے؟‘‘
آمنہ کی ماں گھبراہٹ میں بولی: ’’وہ کھیتوں سے ابھی واپس نہیں آیا۔ کیوں
خیریت تھی؟‘‘
وہ بولا: ’’ہاں اُس سے ایک بات کرنی تھی‘‘۔ وہ یہ کہہ کر رک گیا اور پھر
دوبارہ بولا : ’’چلو ماسی تم سے کر لیتا ہوں۔‘‘
وہ بولی: ’’بتاؤ نمبردار صاحب کیا بات ہے؟‘‘ پھر نمبردار نے اسے بتایا کہ
وہ ان کی بیٹی آمنہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ آمنہ جو اندر الماری سے باہر
جھانک رہی تھی یہ بات سنتے ہی الماری بند کر کے رونے لگی۔ اس کی ماں بھی
شاہ رخ کی یہ بات سن کر پریشان ہوگئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی
نمبردار کے لُچے لفنگے بیٹے سے بیاہی جائے۔ وہ خاموش رہی اور اس کا سر
چکرانے لگا۔ شاہ رخ نے بڑے متکبرانہ انداز میں کہا: ’’کیا ہوا ماسی لگتا ہے
تجھے منظور نہیں؟‘‘
جس پر آمنہ کی ماں بولی: ’’نہیں نمبردار صاحب ہماری کیا اوقات کہ ہم آپ کے
فیصلے کے سامنے بولیں۔‘‘
’’مگر ابھی آمنہ کا باپ باہر ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔‘‘ یہ سنتے ہی شاہ
رخ وہاں سے اٹھا اور اٹھتے وقت بولا: ’’ٹھیک ہے سلام ماسی میں بعد میں آؤں
گا، تم رحمت کو صبح حویلی بھیج دینا۔‘‘ آمنہ کی ماں نے کہا:
’’جی ٹھیک ہے۔‘‘ پر آپ یہ چائے تو پی لیں؟‘‘ آگے سے جواب آیا:
’’بس میں جاتا ہوں‘‘ شاہ رخ وہاں سے باہر نکل گیا۔ پیچھے سے آمنہ دوڑتی
ہوئی ماں کے پاس آئی اور اسے گلے لگا کر رونے لگ پڑی۔ شاہ رخ کے جانے کے
بعد آمنہ اور اس کی ماں نے یہ فیصلہ کیا کہ آمنہ کے باپ کو نمبردار کے بیٹے
کے گھر آنے کے متعلق کچھ نہ بتایا جائے، پر جب شام کو رحمت تیلی گھر واپس
آیا تو چھوٹے حمزہ نے باپ کے اندر داخل ہوتے ہی اسے بتایا ’’ابا آج نمبردار
کا بیٹا گھر آیا تھا۔‘‘ حمزہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس کی ماں بولی
’’چپ کر توں چل اندر جا‘‘ حمزہ ماں کے خوف سے اندر کمرے میں چلا گیا۔ رحمت
تیلی کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ا س سے پہلے کہ آمنہ کی
ماں کچھ بولتی وہ خود پہل کرتے ہوئے بولا : ’’شاہ رخ گھر آیا تھا؟‘‘ اس کی
بیوی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ رحمت نے کہا ’’کیا بات کی اس نے؟‘‘
پھر اس کی بیوی نے اسے ساری بات بتائی وہ پوری بات سنتا رہا۔ پھر یک دم اس
کی بیوی خاموش ہوگئی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ اٹھا اور اندر آمنہ کے
پاس چلا گیا۔ اس کا ماتھا چوما اسے حوصلہ دیا اور باہر صحن میں آگیا۔
ساری رات وہ سو نہ پایا تھا۔ باپ جو تھا کبھی وہ سوچتا کہ اس کی بیٹی
نمبردارنی بن جائے گی تو اُس کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ نوکرانیاں آمنہ کے آگے
پیچھے ہوں گی پیسے کی ریل پیل ہوگی اور وہ خوش رہے گی۔ تو کبھی اسے شاہ رخ
کا کردار اُس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا صبح وہ نمبردار کے ڈیرے پر روانہ
ہوگیا اس نے نمبردار سے اس بارے میں بات کی تو نمبردار نے اسے آگے سے شادی
کی تاریخ بتا دی۔ رحمت تیلی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ شاہ رخ اس کا داماد
بنے مگر وہ خاموشی سے ڈیرے سے گھر واپس لوٹ آیا۔ گھر داخل ہوتے ہی آمنہ کی
ماں نے اس سے پوچھا:
’’آپ ڈیرے گئے تھے؟‘‘ کیا بنا تم نے ہاں کر دی؟‘‘
رحمت اپنی بیوی کے کسی سوال کا جواب دیئے بغیر خاموشی سے آمنہ کے کمرے میں
چلا گیا۔ آمنہ کی ماں بھی پیچھے اسی کمرے میں داخلؒ ہوگئی، سلیم ایک طرف
بیٹھا مٹی کے کھلونوں سے ’’گھر گھر‘‘ کھیل رہا تھا اور حمزہ اسے مسلسل تنگ
کر رہا تھا۔ ماں نے دونوں کو دبکایا تو وہ چپ کر گئے۔ آمنہ کے لیے آج اُس
کی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ ہونے جا رہا تھا۔ رحمت آمنہ کے پاس جا کر بیٹھ
گیا اور چند منٹ کے وقفے کے بعد بولا : ’’بیٹا اگلے ماہ کی 13 تاریخ کو
تیری شادی ہے‘‘ یہ کہتے ہی رحمت کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور وہ جلدی سے
باہر چلا گیا۔ آمنہ کی ماں اُسے گلے لگا کر رونے لگی۔ آمنہ جان چکی تھی کہ
اس بار بھی ان کی ہار ہوچکی ہے۔ عمر کی موت کے بعد بھی وہ کچھ نہ کر پائے
تھے، اور وہ لوگوں کے اصرار کے باوجود تھانے جا کر نمبردار کے خلاف بیان تک
تو لکھوا نہ پائے تھے۔ اس بار بھی وہ بے بس نظر آ رہے تھے۔ سلیم اچانک رونے
لگ گیا۔ اس کی ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا: ’’حمزہ نے میرا مٹکا
توڑ دیا ہے۔‘‘
وہ بولی: ’’چلو رو نہ تیرے ابا تجھے اور لیے دیں گے۔‘‘
رحمت تیلی نے آمنہ اور اپنی بیوی کو چپ نہ کروایا اور نہ ہی کوئی ڈھارس
بندھائی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس بار بھی وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہے
اور کچھ نہیں کرسکتا۔ چند دنوں بعد شاہ رخ آمنہ کو بیاہ کر ڈیرے پر لے گیا۔
|