کریمو دو نمبری

عجب وقت آ گیا ہے‘ جس کے ساتھ بھلائی کرو‘ وہ ہی پچھلا سارا کیا کرایا بھول کر‘ سر کو آتا ہے۔ آنکھ لحاظ اور مروت‘ بےمعنی اور لایعنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح‘ لوکائی اور انصاف کرنے والوں کا بھی‘ کوئی حال نہیں۔ حق سچ کو‘ بالائے طاق رکھ کر‘ تگڑے کی‘ ناصرف ہاں میں ہاں ملاتے ہیں‘ بلکہ دھڑا بھی‘ اسی کا کوٹتے ہیں۔ یہ اندھیر نہیں‘ تو اور کیا ہے۔ اصولا‘ ہر کسی کم زور کا ساتھ دینا چاہیے۔ ایک پرابلم یہ بھی ہے‘ کہ تگڑا تو اس کی خبر لے گا ہی‘ ماڑے بھی‘ اس کی جان کھا جائیں گے۔ اس طرح‘ اطراف میں‘ اس کا جینا حرام ہو جائے گا۔ اس عمل میں‘ اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ چپ رہتا ہے‘ تو ضمیر جینے نہیں دیتا۔ یہ کیا‘ تگڑا بھی اسے مخبر سمجھ سکتا ہے۔ گویا تینوں رستے‘ بند ہو جاتے ہیں۔ چوتھا رستہ‘ خود کشی یا فرار کا رہ جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں‘ اس کے پچھلے‘ عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کس کس کو‘ جواب دیں اور کیا دیں۔

صابو ماچھی‘ نیل پور میں‘ بےچارگی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی بیوی گاماں‘ دکھ سہتی سہتی‘ تین بچوں کو‘ بےچارگی کی بند گلی میں‘ چھوڑ کر‘ الله کو پیاری ہو گئی۔ برے وقت میں‘ اپنے بھی‘ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔۔ اصول یہ ہی رہا ہے‘ کہ اندھیری آئے‘ تو بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ غریب لوگ‘ بچوں کا بہانہ لے کر‘ عیاشی کا رستہ نکال لیتے ہیں۔ صابو ماچھی نے بھی‘ یہ رستہ نکال لیا۔ اس غریب اور تین بچوں کے اڈھیر عمر کے شص کو‘ رشتہ کون دے۔ اس کی عیاش ذہنیت نے‘ رشتہ ڈھونڈ ہی لیا۔ جوان اور منہ متھے لگتی نوراں‘ اس کے گھر کی رونق بن ہی گئی۔

نوراں اچھی اور ملن سار لڑکی تھی۔ اس نے آتے ہی‘ چولہا چونکا سنبھال لیا۔ بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنے لگی۔ حسن‘ چیتھڑوں میں بھی‘ حسن ہی ہوتا ہے۔ گوہر شناس نظریں‘ پتھر اور لعل میں‘ فرق سے‘ خوب خوب آگاہ ہوتی ہیں۔ ایک دن‘ شاہ کوٹ کے سردار کریم بخش کا‘ اس گاؤں سے گزر ہوا۔ اس نے‘ میلے اور بوسیدہ لباس میں ملبوس‘ نوراں کو دیکھ لیا۔ نوراں نے بھی‘ سردار صاحب کی جانب غریب اور لاچار نظروں سے دیکھا۔ گھوڑی پر سوار‘ سردار کریم بخش کوہ کاف کا‘ شہزادہ لگ رہا تھا۔ درد کے خون میں ڈوبی‘ ایک آہ اس کے منہ سے نکلی۔ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔ محلوں کے لائق حسن‘ روڑی پر پڑا‘ ناقدری ٹھوکروں کی زد میں تھا۔ کیا ہو سکتا تھا۔ جب اس نے‘ دوسری بار‘ سردار کریم بخش کی طرف دیکھا‘ تو اس کے چہرے پر‘ بڑی ہی زہریلی‘ مسکراہٹ تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی‘ کہ اس کی اس زہریلی مسکراہٹ نے‘ کیا قیامت توڑ دی ہے۔

وہ مایوس اور اداس اداس گھر لوٹی۔ وہ نہیں جانتی تھی‘ کہ ساعت‘ زحل سے نکل کر‘ مشتری میں قدم رکھ چکی تھی۔ سردار پائے کا حسن نواز واقع ہوا تھا۔ اس نے‘ حسن تو حسن‘ اس سے وابستہ لوگوں کو بھی‘ رنگ دیا تھا۔ اس نے‘ صابو کو‘ اس کے گھر والوں سمیت‘ شاہ کوٹ بلا لیا اور اپنی حویلی کے پڑوس میں‘ اچھا کھلا اور صاف ستھرا‘ رہنے کے لیے مکان دے دیا۔ یہ ہی نہیں‘ ضرورت کی ہر شے‘ اس میں رکھوا دی۔ سب کو‘ دو دو جوڑے‘ کپڑوں کے سلوا دیے۔ نوراں کے حسن کی مناسبت سے‘ وافر کپڑے اور جوتے خرید دیے۔ صابو کو ڈیرے پر رکھ لیا۔ اسے زیادہ مشقت نہ کرنا پڑتی تھی۔ اس کا صرف اتنا کام تھا‘ کہ آئے گئے کا خیال رکھے اور چلم ٹھنڈی نہ ہونے دے۔ سردار صاحب کی عدم موجودگی میں‘ ڈیرے کے امور وہ ہی انجام دیتا۔ سردار صاحب بڑے دل والے تھے۔ دوپہر کو صابو کے گھر جاتے۔ زیادہ تر دوپہر کو وہیں آرام کرتے۔ وہ بےفکر تھے‘ صابو ان کی عدم موجودگی میں‘ ڈیرے کےامورانجام دینے میں‘ کسی قسم کی کوتاہی سے‘ کام نہیں لے گا۔

بچے‘ بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ سردار صاحب کے آنے کے قریب‘ نوراں کو‘ ہر روز‘ انہیں ادھر کرنے کے لیے‘ سو طرح کے بہانے بنانا پڑتے۔ ماں‘ ماں ہوتی ہے‘ سوتیلی کا محض لوگوں نے سابقہ جڑ دیا ہے۔ نوراں نے‘ بڑے کو‘ پڑھنے کے لیے‘ شہر بجھوا دیا۔ دوسرے دونوں کو‘ ساتھ والے گاؤں میں سکول تھا‘ وہاں پڑھائی کے لیے بھیج دیا۔ ان کی اپنی ماں‘ جو معمولی چہرے مہرے کی عورت تھی‘ اتنا بڑا کارنامہ انجام نہ دے پاتی۔

وقت گزرتا گیا۔ صابو کو‘ کسی معاملے کی خبر تک نہ ہوئی۔ گاؤں کے‘ کسی شخص کے منہ سے‘ بھول کر بھی‘ کچھ نہ نکلا۔ گاؤں کی عزت‘ سردار کی اپنی ہوتی ہے۔ لہذا یہ بات کرنے والی بھی نہ تھی۔ ایسا تو‘ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ دوسرا اس بات میں‘ کوئی ان ہونی موجود نہ تھی۔ اس لیے‘ اس بات کا‘ کسی زبان پر آنا ضروری نہ تھا۔ الله نے نوراں کو ہرا کیا‘ اسے ایک بیٹا اور دو چاند سی بیٹیاں عطا کیں۔ وہ خوش تھی‘ کہ دنیا کے ساتھ‘ اس کی بھی سانجھ پڑ گئی تھی۔ سردار ان تینوں بچوں کا‘ پہلوں سے بھی بڑھ کر‘ خیال رکھتا تھا۔ زمانہ اس کی دریا دلی اور بڑے ظرف کا‘ معترف تھا۔ چلو کسی بھی حوالہ سے سہی‘ کسی ایک غریب کا تو‘ خیال رکھتا تھا نا اور یہ بہت بڑی بات تھی۔

ایک روز‘ صابو کو‘ کسی کام سے‘ گھر آنا پڑا۔ اس وقت سردار صاحب‘ ضروری حاجت سے فراغت کے بعد‘ اس کے گھر سے‘ باہر نکل رہے تھے۔ اس کا سر گھوم گیا۔ اس کے جی میں آیا‘ کہ ابھی نوراں کا گلا دبا دے۔ گھر اگرچہ‘ بیس تیس قدموں کے فاصلے پر تھا‘ لیکن یہ فاصلہ اسے میلوں پر بھاری لگا۔ گھر تک آتے آتے‘ اس نے یہ ہی سوچا‘ کہ ابھی نوراں پر کچھ نہیں ظاہر کرے گا۔ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ کر‘ سزا دے گا۔ اب وہ‘ کس بنیاد پر‘ کوئی ایکشن لے سکتا تھا۔ پھر وہ جلدی جلدی‘ گھر میں داخل ہوا‘ کچھ ظاہر کیے بغیر‘ جو لینا تھا‘ لے کر‘ گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کا دماغ‘ غم اور غصے کی آگ میں ابل رہا تھا۔ نوراں نڈھال سی‘ چارپائی پر پڑی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ کسی مشقت نے‘ اسے نڈھال کر دیا تھا۔ مرغ اور دال سبزی کی مشقت میں‘ فرق تو ہوتا ہی ہے۔

ہر عروج کے ساتھ‘ زوال وابستہ ہے۔ وہ سردار کے‘ سرداری حقوق سے آگاہ نہ تھا۔ تب ہی تو‘ کوراہ ہو گیا تھا۔ کام باحسن و خوبی چل رہا تھا۔ سردار کے خصوصی اور قریبی ملازم ہونے کے ناتے‘ سب ہی اس کی عزت کرتے تھے۔ وہ صابو سے‘ ملک صابر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لوگ اس کے توسط سے‘ اپنے کام نکلوانے لگے تھے۔ عورتیں‘ ملکانی نور بی بی کے وسیلے سے‘ اپنے کام نکلوانے لگی تھیں۔ وہ جانتی تھیں‘ کہ بچے بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔ سردار صاحب‘ ملکانی نور بی بی سے اپنا رشتہ ختم نہیں کریں گے۔ نچلے طبقے کے لوگ‘ بھوک سے چھٹکارے اور عزت حاصل کرنے لیے‘ کچھ بھی کر لیں‘ کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ہی ایک رستہ باقی رہ جاتا ہے‘ جسے پانے کے لیے کچھ ناکچھ تو دینا ہی پڑتا ہے۔

اس کی‘ نام نہاد غیرت جاگ گئی تھی اور وہ‘ رنگے ہاتھوں پکڑنے کی‘ تاڑ میں رہنے لگا۔ اسے مہاجرت کرتے وقت‘ سوچنا چاہیے تھا‘ کہ وہ کوئی ہنر اور کسب نہیں رکھتا‘ بلکہ گاؤں کی گری پڑی شے سے‘ زیادہ نہیں۔ سردار آخر کیوں اور کس وجہ سے‘ اس کے ساتھ مہربان ہوا ہے۔ دوسرا جوں مار کر‘ نہ دینے والے نے‘ اس پر بےدریغ دولت لوٹانے کی ‘حد کر دی تھی۔ یہ سب دیکھ کر‘ سوچنا تو بنتا تھا۔ اگر اتنی عقل ہوتی‘ تو آج زندگی کے‘ اس دو راہے پر کیوں کھڑا ہوتا۔ آنکھیں بند کر لینے کی صورت میں‘ زندگی کی آسودگی برقرار رہ سکتی تھی۔ اسے صرف اتنا فرض کرنا تھا‘ کہ اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ دیکھ لینے کا واہمہ‘ اسے زندگی سے محروم کر سکتتا تھا۔ دوسرا یہ واہمہ‘ سردار صاحب کی عطاؤں سے‘ کھلا انکار تھا۔ وہ وقتا فوقتا‘ اپنی مہربانیوں کا تذکرہ بھی کرتے رہتے تھے۔ آئندہ کے لیے بھی‘ وعدے کرتے رہتے تھے۔ وہ خود ہی‘ تھالی میں سوراخ کرنے پر اتر آیا تھا۔

ملک صابر‘ اوقتا صابو ماچھی‘ باظاہر بالکل نارمل تھا‘ لیکن اس کی نقل وحرکت‘ پولیس والوں کے کتے سے‘ کسی طرح‘ مختلف نہ تھی۔ اس کی آنکھوں میں چھپا‘ کھوج کیمرہ‘ ملکانی نور بی بی نے دیکھ لیا تھا۔ اگر وہ سردار کریم بخش کا پڑھا ہوا تھا‘ تو یہ بھی سردار کریم بخش کی چنڈی ہوئی تھی۔ وقت نے بھی‘ اسے بہت کچھ پڑھا دیا تھا۔ سرداروں کے خصوصی بندے‘ اگر اس طرح گرفت میں آ جائیں‘ تو سرداروں نے کر لی سرداری۔

ملکانی نے‘ سردار صاحب کو‘ صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ سردار صاحب کو بڑا تاؤ آیا‘ ہماری ہی بلی‘ ہمیں ہی میاؤں۔ یہ کمی کمین‘ ہوتے ہی‘ احسان فراموش اور طوطا چشم۔ اگر ان کو‘ ان کی اواقات میں‘ رکھا جائے‘ تو ہی ٹھیک رہتے ہیں۔ عزت انہیں راس نہیں آتی۔ جس تھالی میں کھاتے ہیں‘ اسی میں چھید کرتے ہیں۔ اب چوں کہ وہ منہ کو آنے والا ہی تھا‘ اس لیے‘ اسے اس کی اوقات میں لانا‘ ضروری ہو گیا تھا۔

ڈیرے میں‘ مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے‘ جگہ کم پڑ گئی تھی۔ نور بی بی کو‘ حویلی میں مع ساز و سامان منتقل کر دیا اور صابو کمی کو‘ ڈیرے پر ٹھہرنے کا‘ حکم جاری کر دیا گیا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی‘ کہ اتنی بڑی گستاخی اور جرآت پر بھی‘ ابھی سانس لے رہا‘ ورنہ اس سے گستاخ‘ لوگوں کو‘ زندہ رہنے کا کوئی نہیں ہوتا۔ سردار صاحب‘ شروع سے‘ بڑے دیالو اور درگزر کرنے والے‘ واقع ہوئے تھے۔ صابو کمی نے‘ اس پر احتجاج کیا‘ مگر کسی نے اس کی بات تک نہ سنی۔

ایک دن‘ صابو کمی کی بدکاری کا‘ ہر زبان پر چرچا تھا۔ پتا چلا‘ جیناں‘ جو ایک دن پہلے دفنائی گئی تھی‘ کی لاش کو نکال کر‘ صابو کمی نے‘ بے حرمت کیا تھا۔ جیناں کی عریاں لاش پر‘ توبہ توبہ کرتے‘ گاؤں کے امام مسجد نے‘ ڈھانپا تھا۔ دور نزدیک کےعلاقوں میں‘ غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ صابو کمی کی بد کاریوں کے‘ پٹارے کھل گئے تھے۔ لوگوں کو اب معلوم ہوا تھا ‘ کہ صابو کمی انسان نہیں‘ انسانی روپ میں‘ بھیڑیا تھا۔ متفقہ طور پر‘ طے پایا کہ اس کا‘ توے کی سیاہی سے‘ منہ کالا کرکے‘ گدھے پر بیٹھا کر‘ پورے گاؤں کا پھیرا لگایا جائے اور ہر دیکھنے والا‘ اسے پتھر مارے۔ عزت گریب کی ہو‘ یا امیر کی‘ برابر ہوتی ہے۔ سردار نے‘ یہ بھی کہا‘ میرے جیتے جی‘ گاؤں میں‘ بےغیرتی کی دکان نہیں چلے گی۔ سردار نے یہ بھی کہا: ہمیں انسان اور اس کی عزت و آبرو کا احترام کرنا چاہیے۔ سامنے پڑی‘ بےحرماں جیناں کی لاش پر‘ ہر آنکھ بھیگ گئی تھی۔ سردار کی آنکھوں میں‘ فرات سی طغیانی تھی۔ اس کی برستی آنکھوں نے‘ سب کے دل جیت لیے تھے۔

سال گزرتے‘ پتا بھی نہیں چلتا۔ صابو کا بڑا بیٹا‘ جو سردار کریم بخش کے ٹکڑوں پر‘ پلا‘ بڑا ہوا‘ اور اس نے اعلی تعلیم حاصل کی۔ مقابلے کے امتحان میں‘ تیسرے نمبر پر آیا۔ اس کی تعیناتی‘ حساس پوسٹ ہوئی۔ اب وہ افسر تھا۔ سیٹھ نثار نے‘ اپنی اکلوتی اولاد‘ اس کے عقد میں دے دی۔ وہ اب‘ اور اس سے پہلے بھی‘ سردار کریم بخش کی بڑی عزت کرتا تھا۔

ایک بار‘ صرف ایک دن کے لیے‘ اسے گاؤں آنے کا اتفاق ہوا۔ اسے پتا چلا‘ بابا فتو‘ کئی دنوں سے بیمار ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا‘ بابا فتو‘ اس سے بڑا پیار کرتا تھا‘ اور اکثر اوقات‘ ایک دو پوندے گنے بھی دے دیا کرتا تھا۔ بابے فتو کی بیماری کا سن کر‘ اس سے رہا نہ گیا‘ اور وہ اسے ملنے کے لیے چلا گیا۔ انسان تھا‘ اسی لیے‘ اسے اپنے موجودہ اسٹیٹس کا‘ خیال تک نہ رہا اور وہ اسے ملنے اور تیمارداری کرنے چلا گیا۔

بابا فتو‘ کسی وقت‘ بڑا سجیلا جوان ہوا کرتا تھا۔ وقت نے‘ اس سے‘ سب کچھ چھین لیا تھا۔ اب تو‘ وہ محض ہڈیوں کا ڈھیر تھا۔ بابا فتو‘ صابو کی نشانی کو دیکھ کر‘ بڑا خوش ہوا۔
کہنے لگا: تمہارا باپ صابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہنے دو بابا‘ اس شخص کا میرے سامنے نام لو۔

نہیں بیٹا‘ تمہیں سننا ہی ہو گا۔ میں بڑی دیر سے‘ تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ میں جانے والا ہوں‘ جو کہنا چاہتا ہوں کہہ لینے دو۔ یہ بات تمیں کوئی نہیں بتائے گا۔ جو میں بتانا چاہتا ہوں‘ دل گردے سے سننا اور فورا غصے میں نہ آ جانا۔ جو کرنا‘ بڑے ہوش حواس سے کرنا۔
ٹھیک ہے بابا‘ جو کہنا چاہتے ہو‘ کہہ دو۔
تمہارے باپ پر‘ جو الزام لگایا گیا‘ درست نہیں تھا‘ گھڑا ہوا تھا۔ اس میں رتی بھر‘ سچائی نہ تھی۔ اسی طرح‘ تمہارے دونوں بھائی‘ قدرتی موت نہیں مرے‘ ان کے پر نکل آئے تھے‘ اسی لیے‘ سردار نے‘ انہیں بھی فارغ کر دیا۔ اس حقیت سے‘ سب آگاہ ہیں‘ لیکن کوئی زبان تک نہیں لاتا۔ جو بولے گا‘ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ سب کہہ کر بابا فتو پر چپ لگ گئی۔

وہ رات‘ اشرف پر بڑی بھاری گزری۔ اسے خود پر جبر کرکے‘ ہنسنا بھی پڑا۔ اس نے پوری کوشش کی‘ کہ اس کا باطن کسی پر نہ کھلے‘ ورنہ کبھی واپس نہ جا پائے گا۔ رات خیر سے گزر گئی۔ اگلی صبح وہ خوشی خوشی ہنستا مسکراتا رخصت ہوا۔ کوئی بھی نہ جان پایا‘ کہ اس کے باطن میں‘ قیامت سے پہلے ہی‘ قیامت برپا ہو چکی ہے۔

دو ہفتے بڑے کرب ناک گزرے۔ پھر وہ ایک نتیجے پر پنہچ گیا۔ سیٹھ نثار‘ اس اندھا اعتماد کرتا تھا۔ وہ تھا بھی اعتماد کے قابل۔ اس نے اپنی اداکاری کے سارے جوہر دیکھائے۔ گاؤں میں سیٹھ نثار کا پروجیکٹ‘ پوری تیز رفتاری کے ساتھ‘ تکمیل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ حویلی کی جگہ‘ دو منزلہ دفتر اور سرونٹس کوارٹر تعمیر ہو چکا تھا۔ عالی شان کوٹھی‘ تعمیر ہو چکی تھی۔ سردار صاحب‘ جہاں بڑی شان سے‘ اقامت پذیر تھے۔ تمام کام کا‘ سردار صاحب کے ہاتھ نظم و ضبط تھا۔ ان کی ٹھاٹ باٹھ‘ پہلے سے کئی گنا‘ بڑھ چکی تھی۔ نوٹوں کی گتھیاں ان کے پاس ہوتیں۔ پان سات خوش آمدی‘ رات سونے تک‘ ان کے آگے پیچھے رہتے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ وہ کسی کو جواب دہ نہ تھے۔

دن عیش و ٹھاٹ کے گزرے۔ اشرف روٹین میں آتا‘ تھوڑا ان کے ساتھ ہنس کھیل کر وقت گزراتا‘ اور چلا جاتا۔ سب باحسن وخوبی انجام پا گیا تھا۔ اب کی بار اس کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ اس نے آتے ہی‘ سردار صاحب کو‘ حساب کتاب دینے کو کہا۔ وہ حیران رہ گیے اور بولے یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ان کی آواز میں‘ سرداری تمکنت اور جلال موجود تھا۔ اشرف کا لہجہ بھی بدل گیا۔ یہ فضول کی بکواس چھوڑو اور حساب دو۔ اس کے اپنے بچے‘ جن کا ماضی صابو کے نام پر بولتا تھا‘ کہہ رہے تھے‘ انکل‘ اشرف بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ نے کون سی ہیرا پھیری کی ہے‘ حساب دے دیں۔ دفتر میں موجود ہر شخص‘ کے منہ میں تھا‘ حساب دو‘ حساب دو۔اب یہ سب کچھ‘ اس کا نہیں‘ سیٹھ نثار کا تھا اور اشرف‘ سیٹھ نثار کی اکلوتی بیٹی کا خاوند تھا۔

اب سردار کریم بخش‘ کریمو دو نمبری کے نام سے‘ مشہور تھا۔ وہ چوتھے درجے کے سرونٹ کوارٹر میں رہ رہا گیا تھا۔ بڑھاپے میں‘ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے‘ سپروائزر کے ٹومی کی خدمت پر مامور تھا۔ نوراں آیا کا فریضہ انجام دیتی تھی۔ اب ہر کسی کو‘ کریمو دو نمبری کا بڑی تیزی سے‘ ماضی یاد آ رہا تھا۔ لوگ انتظار میں تھے کہ کب ان پر ٹومی چھوڑا جاتا ہے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190804 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.