جانے کیوں لوگ سکون نہیں لینے دیتے اس نے آہ بھری اور اٹھ
کر بیٹھ گئی کہ پھر سے مما کی آوازیں آنے لگی اور وہ اپنے بہتے آنسوؤں کو
صاف کرتے اٹھ کھڑی ہوئی .آتے ہی مما نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھانا شروع کیا
اور وو ہمیشہ کی طرح جسمانی طور پر تو ادھرتھی اس کا دل اور دماغ کسی اور
کی سوچ میں ڈوبا تھا.
یسری سید ماں باپ کی اکلوتی بیٹی اور پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن نفسیات کی
ہونہار طالبہ تھی . کہنے کو اس کے پاس سب کچھ تھا لیکن حقیقت میں وو بہت
تنہا تھی . اسے کبھی کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی یا شاید وہ اکلوتی
اور سب اس کا کچھ زیادہ خیال رکھنا چاہتے تھی لیکن خیر جو بھی تھا اس سب کا
یہ نتیجہ نکلا کے وو دن بہ دن اکیلی ہوتی گئی اس کا کوئی دوست کوئی رازدان
نہیں تھا اس کے پاس کوئی ایسا رشتہ نہیں تھا جس سے وو اپنے دکھ درد تکلیف
اور اپنی تنہایاں بانٹتی . کہنے کو تو وہ ایجوکیشن میں پڑھتی تھی کلاس کی
سب سے لائق اور ہونہار طالبہ تھی لیکن اس سب کا باوجود بھی کوئی اسے اپنا
دوست نہیں بنانا چاہتا تھا وو خوبصورت نہیں تھی لیکن اس کا دل بہت اچھا اور
خوبصورت تھا وہ دل جسے لوگوں کا رویہ دن بہ دن میلا کر رہا تھا . پھر دھیرے
دھیرے اس نے اپنی ایک الگ دنیا بسا لی جو کہ ایکتخلیقی اور کتابی دنیا تھی
وو کتابوں سے پیار کرنے لگی کیوں ککہ اسے لگتا تھا کہ کتابیں اس کی تنہایوں
کی ساتھی ہیں اور وہ دوسروں کی طرح اسے تکلیف نہیں دیتی تھی . اس سب میں وہ
اتنا دور نکل گئی کہ شاید وہ اپنے اصل کو بھی بھول گئی . اور اس کے پاس
کوئی اور راستہ بھی تو نہیں تھا کیوں کہ بچپن سے لے کر اسے کبھی کسی نے
سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی نہ ما ں باپ نے اور نہ ہی بہن بھائیوں نے .
وہ کیا کرنا چاہتی ہے وہ کیا پڑھنا چاہتی ہے کسی نے کبھی جاننے کی کوشش ہی
نہ کی تھی بلکہ ہر کوئی اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا تھا وو اس سب
کے لیے ایک کٹھ پتلی تھی . اس کی مرضی اس کی خواہش کسی کے لئے کوئی معنی
نہیں رکھتی تھی .
یسری نے خود کو مار دیا اس نے اپنا اصل اپنی ذات کو خود ہی کھو دیا اس کے
اندر سناٹو ں کا راج تھا اسے کسی چیز کی خو شی یا غم نہیں ہوتا تھا . اسے
اپنی ہر کامیابی سے ڈر لگنے لگا تھا اس کی کامیابی ہمیشہ اسے دکھ دیتی تھی
پھر ایسا ہونے لگا کہ اس نے کامیابی سے دور بھاگنا شروع کر دیا وہ ناکامیوں
کو زندگی کا حصہ بنانے لگی ہر کوئی ہمیشہ اسے اپنے مطلب کے لیے استعمال
کرتا تھا اور دل بھر جانے پر چھوڑ دیتا تھا اور ہر بار ایک کھلونے کی طرح
ٹوٹ جاتی تھی .
پھر اچا نک یسری سید کی زندگی میں محبت نے قدم رکھا لیکن اس بار بھی ہمیشہ
کی طرح وہ ہار گئی اس سے پہلے کے وہ پھر سے ریزہ ریزہ ہوتی اس کی سناٹوں
اور کتابی دنیا میں ایک خوبصورت دوست آگیا جس نے دھیرے دھیرے اسے سمیٹنا
شروع کر دیا اس کا دوست بھی اسی کی طرح ٹوٹا اور بکھرا ہوا تھا دونوں کا
دکھ دونوں کی تکلیف ایک ہی تھی دونوں نے محبت کی بازی ہاری تھی جلد ہی
دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے اور ایک دوسرے کے سب اسی اچھے دوست بن
گگئے. یسری کو لگتا تھا کہ فہد وہ پہلا شخص ہے جو اسے سمجھتا ہے اور حقیقت
بھی یہی تھی فہد اس کی ہر کہی اور ان کہی باتوں کو سمجھ جاتا تھا فہد اس کا
خیال رکھتا تھا .یسری کی زندگی بدل گئی وو خو ش رہنے لگی ہر لمحے کو جینے
لگی اور کب اس دوستی کی ڈگر پر چلتے چلتے کب اس نے پھر سے ایک نامعلوم منزل
محبت کی رہ میں قدم رکھ دیا-
شاہ زادہ فہد ما ں باپ کا سب چھوٹا اور لاڈلا لیکن بے حد سمجھدار بیٹا جو
لوگوں کے لئے ایک مسٹر ی تھا لیکن یسری کے لئے نہیں وو اس کی خوبیاں خامیاں
اچھے سے جانتی تھی اس کے لیے فہد ایک کھلی کتاب کی طرح تھا لیکن فہد کی خو
شی کے لئے وہ یہ بات کبھی نہیں بولتی تھی.
وہ فہد جس کے لیے یسری سید ایک اچھی دوست تھی اور شاہ زادہ فہد جو یسری سید
کا سب کچھ بن گیا تھا اس کی زندگی اس کی مسکراہٹ . یسری نے آنکھوں میں پھر
سے کچھ خواب بن لئے وہ خواب جن کا ٹوٹ جانے کا اسے علم تھا وہ خواب جو کبھی
پورے نہیں ہو سکتے تھے .یسری کا دن فہد سے شروع ہونے لگا یسری کی راتیں فہد
سے بات کرتے اسکی یادوں میں گزرنے لگی فہد کی سنگت میں رہتے اس نے پھر سے
ایک دفعہ پھر کامیابیوں کے راستے پہ قدم رکھ دیا وہ اپنا ہر دکھ درد اپنی
تنہایاں سب فہد سیشئیرکرنے لگی جب فہد روٹھتا تو یسری کو لگتا کہ زندگی
روٹھ گئی اس نے ہر کسی کی پروا کرنا چھوڑ دی.یسری کا اکثرگنگنانے لگی کہ
زندگی میں خو شی تیرے آنے سے ہے ورنہ جینے میں غم ہر بہانے سے ہے .فہد یسری
کو اس راہ سے دور رکھنا چاہتا تھا وو ہمیشہ اس سے بولتا کہ تم پاگل ہوں یہ
بات نہیں تھی کہ یسری کا پیار یک طرفہ تھا فہد بھی یسری سے پیار کرتا تھا
لیکن ایک دوست کی حیثیت سے یسری اس کیلئے اس کی سب سے اچھی دوست تھی .یسری
فہد سے ہمیشہ بولتی تھی کہ وو اسے کبھی نہیں چھوڑے گی ہمیشہ اس کا ساتھ دے
گی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ٹھیک ہے اگر فہد اس کی زندگی کا ساتھی نہیں
بن سکتا تو وہ کسی سے بھی پیار کا رشتہ نہیں جوڑے گی کیوں کا وہ پیار جو وہ
فہد سے کر بیٹھی ہے وہ شا ید کسی اور سے نہیں کر پائے گی اب اگر دل کی سر
زمین پے کوئی قدم رکھ سکتا ہے تو وہ فہد کا علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا .لیکن
فہد اسے بولتا تھا کہ جسٹ ویٹ اینڈ واچ تمہیں ایک دن مجھے چھوڑنا پڑے گا
یہی دستور دنیا ہے وہ اس کی اس بات پہ چپ ہو جاتی تھی کیوں کہ وہ کبھی اسے
یہ بات نہ سمجھا پائی تھی کہ وہ اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتی دنیا کا کیا ہے اس
دنیا نے اور اس کے اپنوں نے ہمیشہ اس سے رشتے چھینے ہی تھے اسے درد ہی دیا
تھا وہ ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی لیکن اس نے دل میں ٹھان لی تھی
اور وہ فہد سے بھی ہمیشہ یہی بولتی تھی کہ وہ اپنی اس دوستی کو زندگی کی
آخری سانس تک نبھائے گی کیوں کہ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ٹھیک ہے اگر اس
کی قسمت میں فہد کا پیار نہیں تو کیا ہوا دوستی تو ہے نہ وہ اس کے ساتھ
دوست بن کے ہی رہ لے گی لیکناس سے جدائی یسری کے لئے موت تھی .اور فہد
ہمیشہ اس کے پاگل پنسے خوفزدہ رہتا تھا کیونکہیسری ہر چیز کیلیے شدت پسند
تھی وہ کچھ بھی ناپ تول کہ نہیں کرتی تھی اس کی نفرت اسکی محبت سب بے انتہا
ہوتی تھی اس کے لیے جذبوں کی کوئی حد نہیں ہوتی اور پھر فہد وہ تو ایک ایسا
اکلوتا رشتہ تھا اس کی زندگی میں جو اس کا سب کچھ تھا اس کے خون کے رشتوں
سے بڑ کر تھا جس کے ہونے سے اسکی زندگی میں خوشیاں تھی جو اسکی ہنسی تھا .پھر
اچانک یسری جسے پتا چلتا ہے کہ اس کے دماغ میں ٹیومر کے اثرات پا ئے گئے
لیکن اس کے گھر والے اس سے یہ بات چھپا تے رہے اس سب احتیا ط کے باوجود وہ
اپنے پاپا کی باتیں سن لیتی ہے اور سب جاننے کے بعد وہ تو جیسے جیتے جی
مرنے لگی لیکن وہ فہد سے یہ بات چھپا تی ہے کیوں کہ وہ نہیں چاہتی کہ اس کی
وجہ سے فہد ذرا بھی پریشان ہو وہ اسے ذرا بھی پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی .
کیوں سچ تو یہ بھی تھا کہ فہد کو بھی یسری کی عادت ہو گئی تھی اس سے جھگڑا
کرکے اسے اچھا لگتا تھا وہ جان بوجھ کا یسری سے جھگڑا کرتا تاکہ یسری اسے
منائے ایسے ہی ہنسی خو شی دن گزرتے رہے ہیں-
پتا نہیں یہ پیار کہانی ہے یا دوستی کی انمول مثال ایسی دوستی جس پے ایک
دوسرے کے لیے سب قربان کرنے کا جذبہ ہے جس میں پیار خلوص سب کچھ ہے .اور آج
بھی ان کی دوستی ویسے ہی ہے جس میں ایک دوسرے کیلیے عزت پیار خلوص سب کچھ
اب آگے کیا ہوگا کیا یسری اپنا کیا وعدہ پورا کر پا ے گی یا ہمیشہ کی طرح
یہ اکلوتا رشتہ بھی چھن جا ے گا ؟
اﷲ کبھی کسی کو اس کے دوست سے جدا نہ کرے کیوں کہ دوستوں سے ہی تو زندگی
حسین بن جاتی ہے اور اگر دوست اچھے ہوں تو زندگی سنور جاتی ہے کبھی کسی
دوست کا دل نہ توڑو اور نہ ہی کسی دوست کو دھو کہ دو
Truly great friends are hard to find,
Difficult to leave and
Impossible to forget. |