بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(شریعت اسلامیہ کا ضمنی ماخذ)
لغوی اعتبار سے ’’عرف‘‘ کا اطلاق متعدد معنوں میں ہوتا ہے جیسے:
۱۔بلند اور نمایاں چیز
۲۔معرفت و جودوکرم
۳۔بھلا اور پسندیدہ قول و عمل
۴۔کسی کام کا مسلسل اور پے درپے ہونا
کم و بیش ان تمام مفاہیم کو سمیٹے ہوئے یہ لفظ کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول
اﷲ ﷺ میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔’’عادت‘‘ کے لغوی معنی طریقہ،طرز اور کسی
کام کے باربار ہونے یا کرنے کے ہیں،یہ عودومعادوت سے ماخوذ ہے ۔اگرچہ کثرت
استعمال سے اب یہ الفاظ شریعت اسلامیہ کی اخلاقی و قانونی اصطلاح بن گئے
ہیں مگر یہاں بھی ان کے لغوی معانی کا لحاظ برقرار ہے۔’’رسم و رواج ‘‘ ان
اصطلاحات کے وہ مترادفات ہیں جو اردو،فارسی اور ہندی میں رائج ہیں۔
فقہا کے ہاں عرف و رواج کی تعریف کچھ یوں ہے:
۱۔عادت جمہور قوم فی قول او عمل:قول و فعل میں جمہور کی عادت کا نام عرف ہے۔
۲۔التعامل وھوعادت الناس فی المعاملات من البیع والشراع وغیرھما:خریدوفروخت
اور دیگر معاملات میں لوگوں کی عادت کا نام ’’تعامل‘‘ہے۔
۳۔العادۃ عبارۃ عما یستقر فی النفوس من الامرالمقبولہ عند الطبائع
السلیمہ:عادت اسکو کہتے ہیں کہ جو باتیں طبیعت سلیمہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں
اورانہیں بار بار کرنے سے انسان کے اندر وہ جگہ پکڑ لیں۔
۴۔العادۃ الامر المکررمن غیر علاقہ عقلیہ:عادت سے مراد وہ امور ہیں جو بغیر
کسی غوروفکر کے انجام پاتے ہوں۔
۵۔العادۃ والعرف ما یستقر فی النفوس من جہۃ العقول وتلفنۃ الطباع السلیمہ
بالقبول:عرف و عادت دو چیزیں ہیں جو عقول صحیحہ اور طبائع سلیمہ کے قبول کر
لینے سے دلوں میں جگہ حاصل کر لیں۔
۵۔اگر معاملہ میں اس کے خلاف تصریح نہ ہو توعادت ہی کو حکم بنایا جائے گا
اور اگر خلاف تصریح موجود ہو تو عادت کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔
’’ابن حمام نے صرف ’’عرف عملی‘‘کو ہی’’ عادت ‘‘قرار دیا ہے جبکہ اصطلاح فقہ
میں کسی قول یا عمل سے متعلق جمہور امت کی عادت کا نام ’’عرف‘‘ ہے۔کسی چیز
کے عرف بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہور کی مشترک عادت کے طور پر جاری و
ساری ہویعنی تمام لوگ یا انکی غالب اکثریت اس پر عامل ہوبشرطیکہ وہ دلائل
شرع کے صراحۃ خلاف نہ ہو۔لوگوں کی عادات اور مشترکہ اعمال و رسوم اگر نص کے
خلاف نہ ہوں تو بحال رکھے جائیں گے اور انہیں اصطلاح میں ’’عرف ‘‘کا نام
دیا جاتا ہے۔اگر عوامی مزاج نص کے خلاف ہو تو ترک کر دیا جائے گا البتہ اگر
عرف اور قیاس باہم متعارض ہو جائیں تو قیاس کو ترک کر کے تو عرف پر تعامل
برقرار رکھا جائے گا‘‘۔
قرآن و سنت سے ثبوت:
۱۔خذالعفو وامربالمعروف واعرض عن الجھلین(سورۃاعراف،آیت199)
اے نبیﷺ نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو،معروف کی تلقین کیے جاؤ اور
جاہلوں سے نہ الجھو۔
۲۔انتم اعلم بامور دنیاکم(حدیث نبویﷺ):تم لوگ اپنے دنیاوی امور سے زیادہ
واقف ہو۔
۳۔ماراہ المسلمون حسناََ فھو عنداﷲ حسن وما راہ المسلمون قبیحاََ فھو عنداﷲ
قبیح(حدیث نبویﷺ)جسکو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے
اور جس کو مسلمان برا سمجھیں وہ اﷲ تعالی کے نزدیک بھی برا ہے۔
یہ بات پہلے بھی گزر چکی ہے کہ یہ اصول اسی صورت میں نافذہوگا اگر اسلام کے
بنیادی اصولوں کے خلاف نہ ہو،تاہم اگر ایسا ہوا تو اسکا شرعی اعتبار نہ ہو
گا مثلاََ گزشتہ چند صدیوں تک پوری امت نے یا جمہور نے غیر مسلموں کی غلامی
کو قبول کیے رکھا اس کے باوجود غلامی جائز قرار نہ پائی کیونکہ یہ اسلام کے
بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
فقہا کے نزدیک ’’عرف‘‘ کا مقام:
فقہا کرام نے ’’عرف و رواج‘‘کونہایت بلند مقام دیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ:
’’ العادۃ محکمۃ‘‘ : عادت فیصلہ کن چیز ہے۔
’’الثابت بالعرف کاالثابت باالنص ‘‘:جو چیز عرف سے ثابت ہے وہ نص سے ثابت
ہونے کی مانند ہے ۔
’’ الثابت بالعرف ثابت بدلیل الشرعی‘‘: جو عرف سے ثابت ہے وہ شریعت میں
دلیل شرعی سے ثابت سمجھا جائے گا۔
’’ ان یفتی علی عرف اھل زمانہ وان خالف زمان المتقدمین ‘‘: فتوی اہل زمانہ
کے عرف کے مطابق دیا جائے گا خواہ وہ متقدمین کے زمانہ کے خلاف ہی ہو۔
’’انما تعتبر العادۃ اذا اطررت وغلبت:جب عادت بڑھ جائے اور غالب آجائے تو
اس وقت اس کا اعتبار کیا جائے گا۔
فقہا کی اکثریت کے نزدیک عرف کے اعتبار کے ضروری ہے کہ اس پر غالب اکثریت
کا عمل ہو۔چنانچہ غلبہ کی صورت میں مفتی اور قاضی کو عرف کے خلاف فتوی دینا
جائز نہیں۔
عرف کی شرائط:
عمومی حیثیت سے ہر عرف و رواج کو قانونی حیثیت دے دینا قطعاََ جائز نہیں
ورنہ قرآن و سنت کی حدودقیود کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے گی اورعرف و رواج
سے قطعاََصرف نظر کر لینے سے بھی دین اسلام صرف عرب تک محدود ہو جائے گا۔اس
کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ہندوستان میں جب انگریز آیا تو انگریزی تہذیب و
تمدن،معاشرت ،انگریزی زبان اور انگریزی کھانے اورمغربی رسوم و رواج بھی
ساتھ آگئے،جبکہ اسلام اس سے کہیں پہلے سے یہاں آن چکا تھا لیکن اسکے آنے سے
عرب تمدن ،عرب تہذیب اورعربی معاشرت کا ایک ذرہ بھی یہاں نہ پہنچا،اورضروری
کانٹ چھانٹ کے بعد مقامی رسوم و رواج ہی مقامی اسلامی معاشرت کا حصہ بنے
رہے ۔اسکی وجہ اسلامی شریعت میں عرف و رواج کا بہت بڑا مقام ہے لیکن چند
شرائط کے ساتھ:
عرف کی اصولی شرائط:
1۔’’عرف‘‘ قرآن و سنت کے خلاف نہ ہوکہ عرف پر عمل کی صورت میں قرآن و سنت
کا ترک لازم آجائے اور حدوداﷲ ٹوٹنے لگیں۔ایسی صورت میں پھر قرآن و سنت پر
ہی عمل کیا جائے گااور عرف کو ترک کر دیا جائے گا۔مثلاََ صوفیاء نے
ہندوستان میں مروجہ موسیقی میں سے اتناحصہ لیا کہ ترک شریعت لازم نہ ہوا
اور اشاعت اسلام ہونے لگے، اب صوفیاء کے اس عمل کو جواز بنا کر ہر طرح کی
موسیقی کو جائز قرار دینا فعل عبث ہے۔
2۔’’عرف ‘‘قرآن و سنت کے عام حکم کے خلاف نہ ہو۔اگر کسی خاص جزو میں مخالفت
ہوتی ہو توایسی صورت میں عام حکم سے اس خاص کو عرف کی بنا پر مستثنی قرار
دیں گے مثلاََ آپ ﷺ نے غیرموجود اشیاکی خریدوفروخت سے منع کیا لیکن فقہا نے
عرف کی بنا پر آرڈر پر چیز تیار کرنے کی اجازت دی ہے،چنانچہ عرف و رواج کی
بنیادپرایسی چیزکاسوداکیاجاتاہے جس کا وجود نہ ہواور اس کاآڈر دے
دیاجاتاہے۔
3۔’’عرف ‘‘اگر قیاسی حکم کے خلاف ہو تو قیاس چھوڑ کر ’’عرف‘‘پر عمل کیا
جائے گاخواہ ’’عرف‘‘خاص ہو یا عام۔
عرف کی فروعی شرائط :
1۔عرف بدلنے سے حکم بھی بدل جائے گاکیونکہ عرف کی مدت عرف کی بقا تک ہی
ہوتی ہے،مثلاََ آپ ﷺ نے جن چیزوں کو ناپنے والی قرار دیا اور انکا حکم
لگایا اور کچھ چیزوں کوتولنے والی قرار دیا اور انکا حکم ارشاد فرمایااب
بدلتے حالات میں اگرتولنے والی چیزیں ناپنے والی بن گئی ہیں اور ناپنے والی
چیزیں تولنے والی بن گئی ہیں جیسے ہمارے ہاں اب کپڑے تول کر بکتے ہیں وغیرہ
تواحکام بھی بدل جائیں گے۔
2۔رسم و رواج کا معقول ہونا ضروری ہے کیونکہ دیوار پھلانگ کر گھر داخل ہونے
سے عقیدے میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ ہی اﷲ تعالی کی قائم کی ہوئی کوئی
حد ٹوٹتی ہے لیکن یہ مومن اور اسلامی معاشرے کے شایان شان نہیں ایک نامعقول
عمل ہے کہ لوگ دروازہ ہونے کے باوجود محض رسم و رواج کی خاطر دیوار پھلانگ
کر گھر میں داخل ہو رہے ہوں اس لیے کتاب اﷲ تعالی نے اس عرف و رواج کو معطل
کر دیا۔
3۔رسم و رواج اس وقت شرعی حیثیت کا حامل ہو گا جب اسے کسی معاشرے میں ضروری
خیال کر کے اسکی پابندی کی جاتی ہواور وہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہو۔تاہم
معاشرے کے کسی ایک طبقے،پیشے یاکسی خاندان ،فردیا غالب تہذیب کو تحفظ دینے
کی خاطرکسی طرح کا رسم و رواج قابل قبول نہ ہوگا جیسے برہمن کی بالادستی
عرف و رواج کے باوجودخلاف شریعت ہوگی ۔
4۔’’عرف‘‘طبائع سلیمہ کے نزدیک پسندیدہ ہو اور قرین عقل و قرین قیاس ہو اور
رائے عامہ اسکی تائید کرے۔
5۔چندلوگوں تک محدودکوئی عمل ’’عرف‘‘کا مقام حاصل نہ کر پائے گا۔
6۔فریقین ’’عرف ‘‘کے علاوہ کسی اور شرط پر معاملہ کر لیں تو وہ شرط معتبر
ہو گی۔
7۔نص شرعی اور فتاوی فقہا کے خلاف ’’عرف‘‘معتبر نہ ہوگا۔
عرف کی اقسام:
عرف کی تقسیم دو نوعیتوں کے اعتبار سے کی گئی ہے:
ا۔ااستعمال اور وضع کے اعتبار سے: عرف لفظی اور عرف عملی۔
ب۔اہل استعمال کی عمومیت اور خصوصیت کے اعتبار سے:عرف عام،عرف خاص اور عرف
شریعت۔
عرف قولی:
عرف لفظی کی تعریف یوں کی گئی ہے:
’’ان العرف القولی ان تکون عادۃ اہل العرف یستعملون اللفظ فی معنی معین ولم
یکن ذالک لغتہ العرف‘‘:عرف قولی یہ ہے کہ کسی لفظ کو عام لوگ ایک معین معنی
میں استعمال کرتے ہوں اور لغت میں وہ ان معنوں میں مستعمل نہ ہو۔
ایسا لفظ جو اپنے لغوی سے ہٹ کر کسی اور مفہوم میں اس قدر استعمال ہوتا ہو
کہ اسے سن کر معروف معنی ہی مراد لیے جاتے ہوں توشریعت میں اسی کا اعتبار
کیا جائے گا ۔جیسے ’’شراب ‘‘کا مطلب پینے والی کوئی بھی چیز ہے لیکن اسکا
معروف معنی ’’خمر‘‘ہے تو اس لفظ کے بولنے سے خمر ہی مراد لیا جاے گا۔
عرف عملی:
’’واما العرف العملی فھواعتیاد والناس علی شیءِِ حسن الافعال العادیۃ او
معاملات المدینہ‘‘:عرف عملی یہ ہے کہ لوگ اپنے طبعی افعال یا تمدنی معاملات
میں کسی خاص طرزیا کسی خاص طریقے کے عادی ہو جائیں۔
طبعی افعال وہ امور ہیں جن پر حقوق کے تصفیہ یا اجتماعی مصالح کا مدار نہیں
ہوتا،مثلاََکھانا،پینا،رہن سہن،کھیتی باڑی کے طریقے،کسی علاقے کا خاص
لباس،کوئی خاص دن جب کام نہیں کیا جاتا اور غمی و خوشی کی محفلوں کے اوقات
وغیرہ۔جبکہ تمدنی معاملات میں کسی کا حق ثابت یا ساقط ہوتا ہے جیسے کسی
منڈی میں باربرداری بائع کے ذمہ ہے تو کسی بازار میں مشتری اسکی ادائگی
کرتا ہے،وغیرہ۔عرف و رواج کی اس قسم میں جہاں جو طریقہ رائج ہو گا شریعت
میں اسی کا اعتبار کیا جائے گا۔کسی دوسرے شہر سے آنے والا شرعی طور پر
مقامی عرف کا پابند سمجھا جائے گا اور کسی اختلاف کی صورت میں مقامی عرف و
رواج کے مطابق ہی فتوی دیا جائے گا۔
عرف عام:
’’ھو ما تعاملہ عامۃ اھل البلادسواء کان قدیماََ اور حدیثاََ‘‘وہ عرف جس پر
ممالک (اسلامیہ) کے عام لوگوں کا تعامل ہو خواہ وہ تعامل قدیم ہو یا جدید۔
تعریف میں اگرچہ صرف شہروں کا ذکر ہے لیکن ترجمہ میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ
وہ شہر مسلمانوں کی آبادی یا مسلمانوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل ہونے
چاہییں۔غیر مسلموں کے عرف و رواج یا غیر مسلم اکثریت کے ساتھ رہتے ہوئے ان
سے مسلمانوں میں منتقل ہونے والے خلاف شریعت عرف ورواج کی کوئی شرعی حیثیت
نہ ہو گی۔
عرف عام کی بہت ساری مثالیں ہیں جیسے غمی خوشی کے موقعوں پر مالی مدد کرنا
اور اسکو قرض حسنہ سمجھ کر دینے والے کواسکی غمی خوشی میں لوٹا دینا ہے،یا
برتنوں میں وصول کیا ہوا ہدیہ قبول کرنا اور برتن لوٹا دینا جبکہ ڈبوں میں
دیا گیا تحفہ قبول کرنا اور ڈبہ نہ لوٹانایا آرڈر پر چیز تیار کرنا اور
تیار کرنے سے قبل اسکی قیمت کا تعین کر لینا ،وغیرہ۔توایسے تمام معاملات
جنہوں نے موجودہ دور میں عرف عام کی شکل اختیار کر لی ہے انکو قانونی طور
پر عرف عام کی حیثیت دی جائے گی بشرطیکہ ان شرائط کے مطابق ہوں جن کا اوپر
ذکر ہو چکا۔
عرف خاص:
عرف خاص جو کسی خاص علاقے سے،پیشہ سے یا کسی خاص میدان کار میں یا کسی خاص
طبقے میں رائج ہو۔مثلاََ عراق میں میں’’دابر‘‘کا لفظ کا لفظ گھوڑے کے لیے
استعمال ہوتا ہے حالانکہ اسکا لغوی مطلب کچھ اور ہے،ہمارے علاقے میں
’’تابعدار‘‘کا مطلب فرمانبردارلیا جاتا ہے حالانکہ اسکا اصل مطلب اسکے
معروف مطلب سے بالکل الٹ ہے،ڈرائیورحضرات ٹیپ ریکاڈرکو بھی ریڈیو ہی کہتے
ہیں وغیرہ۔خود اسلامی فقہ میں ایک لفظ کا ایک دبستان میں کچھ مطلب ہے تو
دوسرا دبستان اس سے کچھ اور مراد لیتا ہے اور صدیوں سے رائج یہ اصطلاحات اب
ناممکن ہے کہ تبدیل کی جائیں چانچہ ہر جگہ عرف خاص کو شریعت میں عرف و رواج
کا مقام دیا جائے گا اگر وہ دیگر شرائط پر پورا اترتا ہو۔
عرف شریعت:
عرف عام اور عرف خاص ہی کی ایک صورت ’’عرف شریعت‘‘بھی ہے،لیکن فقہا اسکا
تذکرہ الگ سے کرتے ہیں۔شریعت اسلامیہ نے بہت سے الفاظ کو ان کے اصل معنی سے
ہٹ کر استعمال کیا ہے مثلاََ صلوۃ،صوم حج اورزکوۃ کا لغوی مطلب کچھ اور ہے
جب کہ اصطلاح میں یہ ان معروف عبادات کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن پر امت کے
ہاں صدیوں سے تعامل چلا آرہا ہے۔
تاہم اگر ایک ہی لفظ کوشریعت نے استعارے کے طور پر یا تشبیہ و مجاز کے طور
پر استعمال کیا ہے جبکہ کسی علاقے کی مقامی زبان میں اسکا کوئی اور مطلب
مراد لیا جاتا ہے تو ’’عرف و رواج‘‘کے ذیل میں عام افراد کے درمیان شرعی
طور پر بھی وہاں کے مقامی مطالب ہی مراد لیے جائیں گے اور عرف شریعت کی
بجائے عرف اہل زمانہ کو ترجیح حاصل ہو گی۔مثلاََ قرآن مجید نے زمین کے لیے
’’فراش‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ اردوئے معلی میں یہ لفظ قالین یا
غالیچے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اب اگر کوئی قسم کھائے کہ میں فراش پر نہ
بیٹھوں گا اور وہ زمین پر بیٹھ جائے تو قرآن کے مطابق اسکی قسم ٹوٹ
گئی،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسکی قسم نہیں ٹوٹے گی کیونکہ اسکی قسم کا مقامی
’’عرف و رواج‘‘ کے مطابق اعتبار کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں فقہ اسلامی کا یہ قائدہ پیش نظر رہے کہ’’فلو کان الشرح یقضی
الخصوص واللفظ یقتضی العموم اعتبرنا خصوص الشرع‘‘ یعنی اگر لفظ کا اقتضا
عموم ہے اور شریعت کا خصوص،تو شریعت کے خصوص کا اعتبار کیا جائے گا لفظ کے
عموم کا نہیں۔
’’عرف‘‘کے اہم فقہی قوائد:
ذیل میں عرف کے بارے میں فقہا کے چند اقوال کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:
1۔عادت تحکیمی شان کی حامل ہوتی ہے۔
2۔عادت کی دلالت سے حقیقت متروک ہو جاتی ہے۔
3۔لوگوں کا تعامل ایک حجت ہے جس پر عمل ضروری ہے۔
4۔’’معروف‘‘ ’’عرف‘‘کی طرف اسی طرح وابستہ ہے جس طرح مشروط شرط سے۔
یہ شرف انسانیت ہے کہ آفاقی شریعت نے انسانوں کے درمیان رواج پا جانے والے
اعمال کو قانونی حیثیت دی ہے۔اسلام سے بڑھ کر اور کونسا نظام انسانیت کو
اتنابڑا مقام دے سکتا ہے؟؟۔ حقیقت یہ ہے نبی آخرالزماں ﷺ نے انسانیت کو
اسکی معراج تک پہنچایا اور بصورت دیگر اگر گروہ انبیاء علیھم السلام
،خاندان بنی آدم میں وارد نہ ہوتا تو جنگل کا بادشاہ شیر اورچیتا نہ ہوتے
بلکہ اپنی وحشت بربریت اوردرندگی کے باعث جنگل کی بادشاہت کا تاج حضرت
انسان کے سر پر سجایا جاتا۔اکیسویں صدی کی دہلیز پر چکاچوند روشنیوں سے
منور علم و ہنر سے مالا مال دنیا محض انبیاء کی تعلیمات سے عاری ہونے کے
باعث انسانوں کی تاریخ میں جنگل کی داستانیں رقم کر رہی ہے۔
اس مضمون کی تیاری کے لیے ان کتب سے مدد لی گئی:
1۔فقہ اسلا می اور دور جدید کے مسائل
2۔تاریخ فقہ معہ عائلی قوانین و احکام میراث
3۔فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر
4۔فلسفہ شریعت اسلام
5۔الاشباہ والنظائر
6۔شرح سیر کبیر،جلداول
7۔کلید اصول فقہ(برائے طلبہ ایل ایل بی)
8۔مجموعہ رسائل ابن عابدین
9۔المدخل ،جلددوم
10۔اصول قانون،جلد اول
11۔رد مختار، جلدچہارم
|