ایک مرتبہ صحابہ اکرام رضی اﷲ عنہ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے ہمراہ ایک انصاری صحابی کے جنازے میں قبرستان گئے ۔ حضرت براء بن
عازب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم قبر کی جگہ پہنچے جو کہ ابھی کھودی
بھی نہیں گئی تھی ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وہاں قبر کی تیاری کے انتظار
میں وہاں تشریف فرما ہوئے اور آپ ﷺکے ارد گرد ہم بھی اس طرح متوجہ ہوکر
بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں لکڑی تھی
جس سے آپ ﷺ زمین کوکرید رہے تھے (جیسا کہ کسی گہری سوچ کے وقت ہوتا ہے)۔
پھر آپﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا: ’’ عذابِ قبر
سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگو‘‘۔ پھر ارشاد فرمایا ’’ اﷲ کا مومن بندہ اس
دنیا سے منقل ہوکر جب عالمِ برزخ میں پہنچتا ہے ، یعنی قبر میں دفن کردیا
جاتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، وہ اس کو بٹھاتے ہیں ، پھر اس سے
پوچھتے ہیں کہ تمہار ا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا رب اﷲ ہے۔ پھر پوچھتے
ہیں تمہارا دین کیا َ ہے ، وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ پھر پوچھتے ہیں
کہ یہ آدمی جو تم میں (نبی بناکر )بھیجے گئے تھے یعنی حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم کے بارے تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ کہتا ہے : وہ اﷲ کے رسول ہیں۔
پھرفرشتے کہتے ہیں کہ تمہیں یہ بات کس نے بتائی یعنی تمہیں ان کے رسول ہونے
کا علم کس ذریعہ سے ہوا؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اﷲ تعالیٰ کی کتاب پڑھی ، اس
پر ایمان لایا، اس کو سچ مانا۔اس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: مومن بندہ فرشتوں کے مذکورہ بالا سوالات کے جوابات جب اس طرح ٹھیک
ٹھیک دیے دیتا ہے تو، ایک منادی (اعلان )کرنے والا ندا دیتا ہے یعنی اﷲ
تعالیٰ کے طرف سے آسمان سے اعلان کرایا جاتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا،
لہٰذا اس کے لئے جنت بستر بچھا دو ، اسے جنت کا لباس پہنادو، اور اس کے لئے
جنت میں ایک دروازہ کھول دو، (چنانچہ وہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے) اور اس
سے جنت کی خوشبو دار ہوائیں اور خوشبوئیں آتی رہتی ہیں، اور قبر اس کے لئے
حد نظر کھول دی(کشادہ کردی) جاتی ہے۔
یہ حال تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مرنے والے مومن کا بیان فرمایا، اس کے
بعد آپ ﷺ نے کافر کی موت کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا : ’’مرنے کے بعد اس
کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس (بھی) فرشتے آتے ہیں وہ
اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے :
’’ہائے افسوس میں کچھ نہیں جانتا ۔ پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین
کیا تھا؟ وہ کہتا ہے ہائے افسوس میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر فرشتے اس سے کہتے
ہیں کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر (بحیثیت نبی کے) بھیجا گیا تھا، تمہارا اس
کے بارے میں کیا خیال تھا؟ وہ پھر بھی یہی کہتا ہے : ہائے افسول میں کچھ
نہیں جانتا۔
اس سوال و جواب کے بعد آسمان سے ایک پکارنے والا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے
پکارتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا، اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو اور اسے آگ کا
لباس پہنادو اور اس کے لئے دوزخ کا ایک دروازہ کھول دو (چنانچہ یہ سب کچھ
کردیا جاتا ہے) ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (دوزخ کے اس
دروازے سے) دوزخ کی گرمی اور جلا جھلسادینے والی ہوائیں اس کے پاس آتی رہتی
ہیں اور قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے کہ جس کی وجہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے
میں گھس جاتی ہیں۔ (ماخوذ : حوالہ: رواہ ابوداؤد)
صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ بنی کریم ﷺ کاگزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن
پر عذاب ہورہا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ان پر عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں
ہورہا ، صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور
دوسرا چغل خوری کرتا تھا۔ (صحیح بخاری)
جی ہاں موت ایک حقیقت ہے اور انسان یہ جانتے ہوئے بھی اس حقیقت سے ناآشنا
رہنے کی کوشش کرتا ہے۔اور اس حقیقت کا سوچ کر اپنے دل میں خوف زدہ بھی
ہوجاتا ہے۔ کچھ قبر کا سوچ کر ڈر جاتے ہیں اور کچھ آج بھی اس حقیقت سے بے
خبر ہیں کہ واقعی انھوں نے مرنا ہے۔ کبھی کبھی اپنے پیاروں اور دوستوں کے
جنازے میں شرکت کرتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے موت کا خوف اور خیال ان پر
غالب آجاتا ہے۔ لیکن کچھ دیر پھر اس دنیا کے کاموں میں مصروف ہوجاتے
ہیں۔موت ایک حقیقت ہے اور اس کے بعد جو کچھ ہے وہ یا تو عذاب قبر،یا ایک
آخری آرام گاہ ہو سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ تلقین کرتے تھے کہ جنازے میں شرکت
کرو اور قبرستان جاؤ تاکہ موت کی یاد دہانی رہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو برے اور حرام کاموں سے محفوظ رکھے اور عذاب قبر سے
محفوظ فرمائے۔ آمین۔ |